سر شام سے ہی ہر طرف ایک
جوش خروش کی کیفیت تھی۔ جگہ جگہ نوجوانوں نے بڑی اسکرین لگائی ہوئی تھی۔
کرکٹ کے متوالے ورلڈ کپ دیکھنے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ ہر تقریب میں یہی
موضوع بحث تھا۔ پاکستان ورلڈ کپ جیت جائے، ہر دل میں یہ آرزو تھی اور ہر لب
پہ یہ دعا تھی۔ فائنل میچ کو دیکھنے کا موقع کوئی بھی ہاتھ سے نہیں دینا
چاہتا تھا۔ تقریبات تاخیر کا شکار ہو رہی تھیں کہ لوگ میچ دیکھنے کے
خواہشمند تھے۔ ایک دن پہلے مختار عاقل کے صاحبزادے فرحان عاقل کے ولیمے میں
ضیا زبیری نے پاکستان کے جیتنے کی پیشن گوئی کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان
کو جیتنا چاہئے کہ اس سے پوری قوم کو خوشی ملے گی۔ اتوار کو سڑکوں پر فائنل
کے آغاز سے قبل سر شام ہی سناٹا چھا گیا اور ٹریفک کم ہوگیا تھا۔ شادی،
سالگرہ اور ولیمہ وغیرہ کی تقریبات سے زیادہ لوگوں کی میچ میں دلچسپی تھی۔
مہمان کافی تاخیر سے پہنچ رہے تھے۔ رات کو جب یہ مرادیں پوری ہوئی تو پوری
قوم کا جوش خروش یہ کہہ رہا تھا کہ ہم ایک قوم ہیں۔ ہمارا ایک ہی پرچم ہے،
ایک ہی کلمہ،ایک قرآن، ہے۔ گزشتہ رات جو جشن شروع ہوا تھا۔ اس میں خوشیوں
کے اظہار کے جدا جدا انداز تھے۔ کہیں خوشی کے اظہار میں ہوائی فائرنگ ہورہی
تھی تو کوئی سجدہ شکر بجا لا رہا تھا۔ کہیں مٹھائیاں تقسیم ہو رہی تھیں تو
کہیں بغلگیر ہو کر ایک دوسرے کو مبارکباد دی جا رہی تھی۔ فائنل میچ میں
شاہد آفریدی کے وننگ شارٹ کھیلتے ہی کراچی ہوائی فائرنگ آواز سے گونج اٹھا۔
نوجوانوں کی ٹولیاں مختلف علاقوں میں قومی پرچم اٹھائے سڑکوں پر نکل آئیں۔
جنہوں نے ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالے، مختلف مقامات پر آتش بازی کا مظاہرہ
بھی کیا گیا۔ نوجوانوں سڑکوں پر آکر موٹر سائیکلوں پر ون ویلنگ کا مظاہرے
کرتے نظر آئے۔ جام ہوگیا۔ جبکہ بعض علاقوں میں مٹھایاں بھی تقسیم کی گئیں۔
جس کے باعث تقریبات رات گئے تک جاری رہیں۔ حیدرآباد میں بھی خوشی و مسرت کا
اظہار کرتے ہوئے ہوائی فائرنگ کی گئی٬ آتش بازی کامظاہرہ بھی کیا گیا اور
مٹھائیاں تقسیم کی گئیں، لوگوں نے ایک دوسرے سے بغل گیر ہو کر مبارکباد دی،
موٹرسائیکل سوار نوجوان ٹولیوں کی شکل میں سڑک پر نکل آئے اور خوشی کا
اظہار کیا۔ میچ ختم ہوتے ہی ایک دوسرے کو ایس ایم ایس اور ٹیلی فون کے
ذریعے مبارکباد دی جا رہی تھی۔ مختلف مقامات پر آتش بازی اور ڈھول کی تھاپ
پر فائرنگ بھی کی جاری تھی ۔لارڈز کے میدان پر ٹوئنٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ فائنل
میں پاکستان کی سری لنکا پر آٹھ وکٹوں سے شاندار فتح کے بعد کپتان یونس خان
نے بین الاقوامی کرکٹ برادری پر زور دیا کہ پاکستان کو اس کے سیاسی حالات
کی وجہ سے تنہا نہ چھوڑا جائے۔ ”ہمارے تمام ہی مداحوں کی یہ خواہش تھی کہ
ٹیم کو ایسی جیت نصیب ہو، ورلڈ کپ میں فتح، ٹونئٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں یہ
جیت ہماری پوری قوم کے لئے ایک بڑا شاندار تحفہ ہے۔“
یونس خان کے جذبات سے پر الفاظ میں دنیا میں کرکٹ کے متوالوں سے کہا کہ ”اب
ہم چیمپئنز ہیں۔ میں آپ سب سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ پاکستان کا دورہ کریں۔
ہمارے نوجوان کرکٹرز کے لئے ہمیں ’ہوم‘ سیریز کی اشد ضرورت ہے۔“لاہور میں
مہمان کرکٹ ٹیم سری لنکا کے کھلاڑیوں کی بس پر حملے کے بعد بین الاقوامی
کرکٹ کونسل ICC نے سیکیورٹی وجوہات کے باعث پاکستان سے 2011ﺀ ورلڈ کپ کرکٹ
کی شریک میزبانی بھی چھین لی ہے ۔ جو ایک بہت بڑی نا انصافی ہے اور اس طرح
پاکستان کو دنیائے کرکٹ سے علیحدہ کیا جا رہا ہے۔ لارڈز کے میدان پر ایک
اہم ٹورنامنٹ کے فائنل میں جیت سے پاکستان نے دنیا پر ایک مرتبہ پھر یہ
واضح کردیا ہے کہ پاکستان اور کرکٹ کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا ہے۔
یونس خان کا یہ کہنا درست ہے کہ پاکستان میں جو کچھ ہورہا ہے اس میں عام
پاکستانیوں کو کوئی قصور نہیں ہے۔ ”ملک میں جو حالات ہیں اس میں ہمارا کوئی
قصور نہیں ہے۔ کھیل کو سیاست سے نہیں جوڑنا چاہیے۔ کھیل کو سیاست کی ضرورت
نہیں۔ سری لنکا، بھارت اور بنگلہ دیش نے پاکستان کی ورلڈ کپ کی میزبانی کی
مخالفت کی ہے۔ وہ ایک افسوس ناک امر ہے۔ اس بار دفاعی چیمپئن بھارت سیمی
فائنل تک بھی نہیں پہنچ سکا۔ سری لنکا کو سوچنا چاہئے کہ ہم نے جان پر کھیل
کر ان کے کھلاڑیوں کی جانیں بچائی ہیں۔ اور بنگلہ دیش کو نہیں بھولنا چاہیے
کہ وہ ہمارے وجود ہی سے تخلیق ہوا ہے۔ جشن خوشیوں کا ضرور منانا چاہئے لیکن
اس میں فائرنگ اور اندھی گولیوں سے چار افراد جن میں معصوم بچے، شامل ہیں
اور ۰۳،۵۳ افرد کے زخمی ہونے کے واقعات تکلیف دہ ہیں۔ ان پر ہمیں سوچنا
چاہئے۔ خوشیوں کا یہ اظہار کسی گھر میں تاریکی لے آئے یہ انتہائی افسوس ناک
امر ہے۔ |