حضرت علی رضی اﷲ عنہ : غزوہ احد
میں مسلمانوں کو کچھ شکست کا سامنا ہوا۔ اس وقت مسلمان چاروں طرف سے کفار
کے نرغے میں آگئے ،جس کی وجہ سے بہت سے لوگ شہید بھی ہوئے اور کچھ
بھاگے۔نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کو بھی کفارنے گھیر لیا اور
یہ مشہور کردیا تھا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم شہید ہوگئے۔
صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم اس خبر سے بہت پریشان ہوئے،اور اسی وجہ سے
بہت سے ادھر ادھر متفرق ہوگئے۔
حضرت علی کرم اﷲ وجہہ فرماتے ہیں کہ کفار نے جب مسلمانوں کو گھیر لیا اور
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلممیری نظر سے اوجھل ہوگئے تو میں نے آپ
صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کو اول زندوں میں تلاش کیا،نہ پایا پھر
شہداء میں جاکر تلاش کیا وہاں بھی نہ پایا، تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ
ایسا تو نہیں ہوسکتا کہ حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم لڑائی سے بھاگ
جائیں۔ بظاہر حق تعالیٰ ہمارے اعمال کی وجہ سے ہم پر ناراض ہوا۔ اس لئے
اپنے پاک رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلمکو آسمان پر اٹھا لیا۔ اس لئے
اب اس سے بہتر کوئی صورت نہیں کہ میں تلوار لے کر کافروں کے جتھے میں گھس
جاؤں۔ یہاں تک کہ مارا جاؤں۔ میں نے تلوار لے کر حملہ کیا۔ یہاں تک کہ کفار
بیچ میں سے ہٹتے گئے۔
میری نگاہ حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم پر پڑگئی تو بے حد مسرت
ہوئی اور میں نے سمجھا کہ اﷲ تعالیٰ نے ملائکہ کے ذریعے اپنے محبوب صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی حفاظت کی میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ
وسلم کے پاس جاکر کھڑا ہوا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے
فرمایا:علی!ان کو روکو۔ میں نے تنہا اس جماعت کا مقابلہ کیا اور ان کے منہ
پھیردیئے اور بعضوں کو قتل کیا اس کے بعد پھر ایک اور جماعت حضور صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم پر حملہ کے لئے بڑھی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ
وسلمنے پھر حضرت علیرضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی طرف اشارہ کیا انہوں نے پھر تنہا
اس جماعت کا مقابلہ کیا۔ اس کے بعد حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آکر حضرت
علیرضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی اس جوانمردی اور مدد کی تعریف کی تو حضور صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا: انہ منی وانا منہ بیشک علی مجھ سے ہے
اور میں علی سے ہوں،یعنی کمال اتحاد کی طرف اشارہ فرمایا تو حضرت جبرئیل
علیہ السلام نے عرض کیا: ’’وانا منکما ‘‘ اور میں تم دونوں سے ہوں۔
(مدارج النبوت،قسم سوم،باب چہارم،ج۲،ص۱۲۱،۱۲۲)
غسیل الملائکہ: جنگ احد کے ایام میں حضرت حنظلہ بن ابی عامر رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ کی شادی ہوئی تھی۔جس رات آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اپنی دلہن کو بیاہ
کرلائے تھے،اسی رات حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی طرف سے اعلان
ہوگیا کہ کفارِ مکہ مدینہ منورہ پر حملہ کرنے والے ہیں،ان کے مقابلے کے لئے
میدان جہاد میں چلو۔ حضرت حنظلہرضی اﷲ تعالیٰ عنہباوجودیکہ نوجوان تھے
اورشادی کی پہلی شب تھی مگر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی طرف سے
اعلان جہاد سنکر سب کچھ بھول گئے اور اپنی دلہن کو بھی نظرانداز کیا،گویا
یہ شعر پڑھتے ہوئے کہ:
سب سے بیگانہ رہے یارو شناسا تیرا
حور پر آنکھ نہ ڈالے کبھی شیدا تیرا
میدان جہاد میں چلنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور اس محویت کے عالم میں آپ کو
اپنے غسل کرنے کی ضرورت بھی یاد نہ رہی۔ اسی حالت میں معرکہ جنگ میں تشریف
لے گئے اور اسی دن حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے سامنے شہید بھی
ہوگئے۔ جب لڑائی ختم ہوئی تو شہداء کی لاشیں جمع کرنے کا حکم نبوی ہوا! سب
لاشیں مل گئیں مگر حضرت حنظلہرضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی لاش مبارک نہ ملی یکایک
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھاکر ملاحظہ
فرمایا تو دیکھا کہ حضرت حنظلہرضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی لاش فرشتے اوپر لے جاکر
ایک نورانی تختے پر لٹاکر آب رحمت سے غسل دے رہے ہیں اسی دن سے آپ کا لقب
غسیل الملا ئکہ ہوا۔
(الاستیعاب، حضرت حنظلہ بن ابی عامر رضی اﷲ عنہ، ج۱،ص۴۳۳)
شوقِ شہادت: حضرت عبداﷲ بن جحش رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے غزوہ احد میں حضرت سعد
بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ اے سعدرضی اﷲ تعالیٰ عنہ! آؤ مل
کر دعا کریں ہرایک اپنی ضرورت کے مطابق دعا کرے اور دوسرا آمین کہے۔ پھر
دونوں حضرات نے ایک کونے میں جاکر دعا کی۔ اول حضرت سعدرضی اﷲ تعالیٰ عنہ
نے دعا کی۔ یااﷲ! عزوجل جب کل لڑائی ہوتو میرے مقابلہ میں ایک بڑے بہادر کو
مقرر فرمانا میں اس کو تیرے راستے میں قتل کروں۔ حضرت عبداﷲرضی اﷲ تعالیٰ
عنہ نے آمین کہی۔ اس کے بعد حضرت عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے دعا کی اے اﷲ
عزوجل! کل میدان جہاد میں میراایک بہادر سے مقابلہ کرا جو سخت حملہ والا ہو
میں اس پر شدت سے حملہ کروں وہ بھی مجھ پر زور سے حملہ کرے اور میں بہتوں
کو قتل کرکے پھر خود بھی شہید ہوجاؤں اور شہید ہونے کے بعد کافر میرے ناک
کان کاٹ لیں پھر قیامت میں جب میں تیرے حضور پیش کیا جاؤں تو تو فرمائے
عبداﷲ !تیرے ناک کان کیوں کاٹے گئے تو میں عرض کروں یااﷲ!عزوجل تیرے اور
تیرے رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلمکے راستے میں کاٹے گئے پھر تو کہے
کہ سچ ہے میرے ہی راستے میں کاٹے گئے ۔حضرت سعد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے آمین
کہی دوسرے دن لڑائی ہوئی تو دونوں حضرات کی دعائیں اسی طرح قبول ہوئیں جس
طرح مانگی تھیں۔ (الاستیعاب،باب حرف العین،ج۳،ص۱۵)
قدمِ رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم پر شہادت: جنگ احد کی ہل چل اور
بدحواسی میں جب مہر رسالت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کو ہجوم کفار کے
دل بادل نے گھیرلیا۔ اور اس وقت سید المحبوبین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ
وسلمنے فرمایا کہ کون مجھ پر جان دیتا ہے۔ تو حضرت زیاد بن سکنرضی اﷲ
تعالیٰ عنہچند انصاریوں کولے کر یہ خدمت ادا کرنے کے لئے بڑھے۔ ہر ایک نے
جاں بازی سے لڑتے ہوئے اپنی جان فدا کردی، مگر ایک زخم بھی رحمت عالم صلی
اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلمکو لگنے نہ دیا، اور زیاد بن سکن رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ کو یہ شرف حاصل ہوا کہ زخموں سے چور چور ہوکر دم توڑ رہے تھے۔ رحمت
عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے حکم دیا کہ ان کالاشہ میرے قریب
لاؤ، لوگ اٹھاکر لائے ابھی کچھ جان باقی تھی آپ نے زمین پر گھسٹ کر اپنا
منہ محبوب خدا عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے قدموں پر رکھ دیا
اور اسی حالت میں آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی روح پرواز کرگئی۔ سبحان اللّٰہ!
اس موت پر ہزاروں زندگیاں قربان ۔
(اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، حضرت زیاد بن سکن رضی اﷲ عنہ ، ج۲، ص۳۲۱)
تیرے قد موں پر سر ہو اور تار زندگی ٹوٹے
یہی انجام الفت ہے یہی مرنے کا حاصل ہے
اسّی زخم : حضرت انس بن نضررضی اﷲ تعالیٰ عنہ جو حضرت انس بن مالک رضی اﷲ
تعالیٰ عنہکے چچا تھے، لڑتے بہت آگے نکل گئے دیکھا کہ کچھ لوگوں نے ہتھیار
پھینک دیئے۔ انس بن نصر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کہ یہاں تم لوگ کیا
کرتے ہو؟ رسول اﷲصلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کا کچھ پتانہیں ! لوگوں نے
کہا اب لڑ کر کیا کریں گے؟جن کے لئے لڑتے تھے وہی نہ رہے۔ہم نے سنا ہے کہ
رحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم شہید ہوگئے۔ انس بن نضر رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ یہ سنکر تڑپ گئے اورفرمایا کہ پھر ہم ان کے بعد زندہ رہ کر کیا
کریں گے۔ یہ کہہ کر دشمن کی فوج میں گھس گئے اور لڑ کر شہادت پائی۔ جنگ کے
بعد جب ان کی لاش دیکھی گئی تو ۸۰ سے زیادہ تیر، تلوار اور نیزہ کے زخم تھے
،کوئی شخص پہچان تک نہ سکا ان کی بہن نے انگلی دیکھ کر لاش کو پہچانا۔
(اسد الغابۃفی معرفۃ الصحابۃ،انس بن نضر،ج۱،ص۱۹۸)
حضرت وہب بن قابس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا کارنامہ : حضرت وہب بن قابس رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ ایک صحابی ہیں، جو کسی وقت میں مسلمان ہوئے تھے اور گاؤں میں
رہتے تھے بکریاں چراتے تھے۔ اپنے بھتیجے کے ساتھ ایک رسی میں بکریاں باندھے
ہوئے مدینہ منورہ پہنچے، پوچھا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلمکہاں
تشریف لے گئے معلوم ہوا کہ احد کی لڑائی پرگئے ہوئے ہیں، وہ بکریوں کو وہیں
چھوڑ کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے پاس پہنچ گئے ،اتنے میں ایک
جماعت کفار کی حملہ کرتی ہوئی آئی حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے
فرمایا جوا ن کو منتشر کردے وہ جنت میں میرا رفیق ہے ۔ حضرت وہب رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ نے زور سے تلوار چلانی شروع کی اورسب کو ہٹادیا دوسری مرتبہ پھر
یہی صورت پیش آئی تیسری مرتبہ پھر ایسا ہی ہوا، حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
والہٖ وسلم نے انکو جنت کی خوشخبری دی اس کا سننا تھا کہ تلوار لیکر کفار
کے جم گھٹے میں گھس گئے اور شہید ہوئے ۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے وہب رضی اﷲ
تعالیٰ عنہجیسی دلیری اور بہادری کسی لڑائی میں نہیں دیکھی اورشہید ہونے کے
بعد حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کو میں نے دیکھا کہ وہب رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ کے سرہانے کھڑے تھے اور ارشاد فرماتے تھے: اﷲ عزوجل تم سے راضی
ہو میں تم سے راضی ہوں ۔اسکے بعد حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلمنے خود
اپنے دست مبارک سے دفن فرمایا باوجود یکہ اس لڑائی میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ والہٖ وسلم خود بھی زخمی تھے ۔حضرت عمررضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں
کہ مجھے کسی کے عمل پر اتنا رشک نہیں آیا جتنا وہب رضی اﷲ تعالیٰ عنہکے عمل
پر آیا میرا دل چاہتا ہے کہ اﷲ عزوجل کے یہاں ان جیسا اعمال نامہ لیکر
پہنچوں۔
(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ ، وھب بن قابس، ج۶،ص۴۹۲)
حضرت ام ِعمارہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا : یہ جنگ احدمیں اپنے شوہر حضرت زیدبن
عاصم اور اپنے دو بیٹوں حضرت عمارہ اور حضرت عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم
کوساتھ لیکر میدان میں کود پڑیں۔ اور جب کفار نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
والہٖ وسلم پر حملہ کردیا تو یہ ایک خنجر لیکر کفار کے مقابلہ میں کھڑی
ہوگئیں اور کفار کے تیرو تلوار کے ہر ایک وارکو روکتی رہیں۔ یہاں تک کہ جب
ابن قمیہ ملعون نے رحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلمپر تلوار چلادی
تو حضرت ام عمارہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے اس تلوار کو اپنی پیٹھ پر روک لیا۔
چنانچہ ان کے کندھے پر اتنا گہرا زخم لگا کہ غار پڑگیا۔ پھر خود بڑھ کرابن
قمیہ کے کندھے پر اس زور سے تلوار ماری کہ وہ دو ٹکڑے ہوجاتا مگر وہ ملعون
دوہری زرہ پہنے ہوئے تھااس لئے بچ گیا۔ اس جنگ میں بی بی ام عمارہ رضی اﷲ
تعالیٰ عنہاکے سروگردن پرتیرہ زخم لگے تھے۔
حضرت بی بی ام عمارہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکے فرزندحضرت عبداﷲ رضی اﷲ عنہ کا
بیان ہے کہ مجھے ایک کافر نے جنگ احد میں زخمی کردیا اور میرے زخم سے خون
بند نہیں ہوتا تھا۔ میری والدہ ام عمارہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے فوراً اپنا
کپڑا پھاڑ کر زخم کوباندھ دیا اور کہا بیٹا اٹھو۔ کھڑے ہوجاؤ اور
پھرجہادمیں مشغول ہوجاؤ۔ اتفاق سے وہی کافر سامنے آگیا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا کہ اے ام عمارہ ر ضی اﷲ تعالیٰ عنہا! دیکھ تیرے
بیٹے کو زخمی کرنے والا یہی ہے۔ یہ سنتے ہی حضرت ام عمارہ رضی اﷲ تعالیٰ
عنہانے جھپٹ کر اس کافر کی ٹانگ میں تلوارکا ایسا بھرپور ہاتھ مارا کہ وہ
کافر گرپڑا، اور پھر چل نہ سکابلکہ سرین کے بل گھسٹتا ہوا بھاگا۔یہ
منظردیکھ کررسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم مسکرائے اور فرمایا کہ
اے ام عمارہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا! تو خداعزوجل کاشکر ادا کرکہ اس نے تجھ کو
اتنی طاقت اور ہمت عطا فرمائی کہ تونے خدا عزوجل کی راہ میں جہاد کیا۔
حضرت ام عمارہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا کہ یارسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم ! آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم دعا فرمائیے کہ
اﷲ تعالیٰ ہم لوگوں کو جنت میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی خدمت
گزاری کا شرف عطا فرمائے ،اس وقت آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلمنے ان کے
لئے اور ان کے شوہر اور ان کے بیٹوں کے لئے اس طرح دعا فرمائی کہ:
اللھم اجعلھم رفقا ئی فی الجنۃ. یااﷲ عزوجل!ان سب کو جنت میں میرا رفیق بنا
دے۔
حضرت بی بی ام عمارہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہازندگی بھر علانیہ یہ کہتی رہیں کہ
رسول اﷲصلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی اس دعاکے بعد دنیا میں بڑی سے بڑی
مصیبت مجھ پر آجائے تو مجھ کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ (الطبقات الکبری
لابن سعد،ام عمارۃ،ج۸،ص۴۰۳)
پیامِ سعد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ: اسی احد کی لڑائی میں حضور اقدس صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے دریافت فرمایا کہ سعد بن ربیعرضی اﷲ تعالیٰ عنہ
کا حال معلوم نہیں ہوا کہ کیا گزری ۔ایک صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہکوتلاش کے
لئے بھیجا وہ شہداء کی جماعت میں تلاش کررہے تھے آوازیں بھی دے رہے تھے کہ
شاید وہ زندہ ہوں پھر پکار کر کہا کہ مجھے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ
وسلمنے بھیجا ہے کہ سعد بن ربیعرضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی خبر لاؤں تو ایک جگہ
سے بہت ہی ضعیف آواز آئی یہ اس طرف بڑھے جاکر دیکھا کہ سات مقتولین کے
درمیان پڑے ہیں اور ایک آدھ سانس باقی ہے۔ جب یہ قریب پہنچے تو حضرت سعدرضی
اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم سے میرا سلام
کہہ دینا اور کہہ دینا کہ اﷲ تعالیٰ میری جانب سے آپصلی اﷲ تعالیٰ علیہ
والہٖ وسلم کو اس سے افضل اور بہتربدلہ عطا فرمائے جو کسی نبی علیہ السلام
کو اس کے امتی کی طرف سے بہتر سے بہتر عطاکیا ہو اور مسلمانوں کو میرا یہ
پیغام پہنچا دینا کہ اگر کافر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم تک پہنچ
گئے اور تم میں سے کوئی ایک آنکھ بھی چمکتی ہوئی رہے یعنی وہ زندہ رہا تو
اﷲ تعالیٰ کے یہاں کوئی عذر بھی تمہارا نہ چلے گا اور یہ کہہ کر جاں بحق
ہوئے ۔
(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،سعد بن ربیع رضی اﷲ عنہ، ج۳،ص۴۹)
حضرتِ جابررضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا شوق و وارفتگی: احد کی لڑائی سے فراغت
پرمسلمان مدینہ طیبہ پہنچے۔جنگ کی تکان تھی۔ مگر مدینہ منورہ پہنچتے ہی یہ
اطلاع ملی کہ ابو سفیان نے لڑائی سے واپسی پر حمراء الاسد (ایک جگہ کا نام
ہے) پہنچ کر ساتھیوں سے مشورہ کیا اور یہ رائے قائم کی کہ احد کی لڑائی میں
مسلمانوں کو شکست ہوئی ہے ایسے موقع کو غنیمت سمجھنا چاہئے تھا کہ نہ معلوم
پھرایسا وقت آئے نہ آئے، اس لئے حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم
کو (نعوذ باﷲ ) قتل کرکے لوٹنا چاہئے تھا اس ارادہ سے اس نے واپسی کا مشورہ
کیا۔
حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے اعلان کردیا کہ جو لوگ احدمیں
ساتھ تھے وہی صر ف ساتھ ہوں اور دوبارہ حملہ کے لئے چلنا چاہئے ۔اگرچہ
مسلمان اس وقت تھکے ہوئے تھے مگراس کے باوجود سب کے سب تیار ہوگئے چونکہ
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے اعلان فرمادیا تھا کہ صرف وہی لوگ
ساتھ چلیں جو احد میں ساتھ تھے اس لئے حضرت جابررضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض
کیا :یا رسول اﷲ!عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم میری تمنا احدمیں
بھی شرکت کی تھی مگر والد نے یہ کہہ کر اجازت نہ دی کہ میری سات بہنیں ہیں
کوئی مرد اور ہے نہیں انہوں نے فرمایا تھا کہ ہم دونوں میں سے ایک کا رہنا
ضروری ہے اور خود جانے کاارادہ فرماچکے تھے اس لئے مجھے اجازت نہ دی تھی۔
احد کی لڑائی میں ان کی شہادت ہوگئی، ا ب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ
وسلم مجھے اجازت مرحمت فرمادیں کہ میں بھی ہمر کاب چلوں حضور صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ والہٖ وسلمنے اجازت مرحمت فرمادی انکے علاوہ اورکوئی ایسا شخص نہیں
گیا جو احد میں شریک نہ ہوا۔
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،خروج الرسول فی اثر العدو...الخ،ج۲،ص۸۷)
(ماخوذ از:کتاب،صحابہ کرام علیہم الرضوان کا عشق رسول)
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف و کرم سے مجھے
بس اک بار کہا تھا میں نے یا اﷲ مجھ پر رحم فرما مصطفی کے واسطے |