اِنسان جب شعور کو پہنچتا ہے تو
وہ دیکھتا ہے کہ صبح سورج طلوع ہوتا ہےاور مغرب کو غروب ہوجاتا ہے۔ رات
کوآسمان پر چاند تارے ہوتے ہیں۔ صبح ٹھنڈی ہوا چلتی ہےتو دوپہر میں گرمی
اور شام میں حبس ہو جاتا ہے۔ کبھی آندھی آتی ہے تو کبھی بارش ہوتی ہے۔کبھی
زالہ باری ہوتی ہےتو کبھی قوس و قزح اپنے جلوے بکھیرتی ہے ۔ پودے، فصلیں
پیدا ہوتی اور جھڑ جاتی ہیں۔ رنگ برنگے پھول پیدا ہوتے، خوشبوئیں لاتےہیں۔
پرندے، جانور، کیڑے مکوڑے پیدا ہوتے اورایک معینہ مدت کے بعد مر جاتے ہیں۔
چاند کا گھٹنا بڑھنا،چاند گرہن،سورج گرہن لگنا، کہکشاوَں کا سفر، سمندر ،
صحرا، پہاڑ، برف، آبشاریں، جنگلات کا مربوط نظام اِس بات کا ثبوت ہے کہ اِس
کائنات کا ایک خالق، مالک اور رازق ہے جو کہ ہماری نظروں سے غائب ہے۔ اسی
طرح اِسلام ہمیں بتاتا ہے کہ ہماری مادی دنیا میں غیر مرئی مخلوقات یعنی
جنات اور کارکنانِ قضا و قدر یعنی فرشتے وغیرہ بھی ہیں جو کہ ہماری نگاہوں
سے اوجھل ہیں ۔اسی طرح بغرض تمثیل ہم کہہ سکتے ہیں کہ جنت ایسے ہے جیسے
پاکستان کے شمالی علاقے، یورپ وغیرہ کے خوبصورت نظارے اور وادیاں۔اور دوزخ
ایسے جیسے کہ سورج گیسوں کا ایک بہت بڑا گولا ہے جو مسلسل جل رہا ہے، اس کے
شعلے لاکھ لاکھ میل دور تک بھڑ کتے ہیں اور اس کی سطح پر اتنے زوردار
دھماکے ہوتے ہیں کہ دماغ پھٹ جائیں۔ اسی طرح دوزخ کو سمجھ لو۔
دیکھو، مختلف علوم مثلا فزکس، کیمسٹری، بیالوجی، زوالوجی، باٹنی، علمِ
فلکیات، اناٹمی، فزیالوجی، فلسفہ، منطق، نفسیات، جغرافیہ وغیرہ نے آج ہمارے
بہت سے مسائل حل کر دیے ہیں۔ اور غیب کو سمجھنا اور اس پر ایمان لانا آسان
ہو گیا ہے۔اور نبیوں، رسولوں کی تعلیمات کو سمجھنا سہل ہو گیا ہے۔ مثلا
روشنی خود نظر نہیں آتی بلکہ یہ جن چیزوں پر پڑتی ہے وہ نظر آتی ہیں۔اسی
طرح ریڈیائی لہر یں ، بجلی کی لہر یں،مقناطیسی لہر یں، آواز کی لہر یں،
ایکس ریز، لیزر شعائیں، ریڈیو آئسوٹوپس،الفا، بیٹا، گیما ریز، حرارت کی لہر
یں، ٹی وی، موبائل فون کی لہر یں، فیکس، ای میل کی لہر یں وغیرہ ہمیں نظر
نہیں آتیں حالانکہ یہ فضا میں موجود ہوتی ہیں۔ لیکن جب ہم ٹی وی کھولتے ہیں
یا موبائل فون سنتے ہیں تو ہمیں تصویریں دکھائی دیتی ہیں اور آوازیں سنائی
دیتی ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ تمام لہر یں فضا میں موجود ہوتی ہیں
لیکن ہمیں نظر نہیں آتیں۔یہ آلات بس انہیں ریسیو کرتے ہیں اور ہمیں سناتے
اور دکھاتے ہیں۔ بالکل اسی طرح خدا نور کا ایک بہت بڑا سمندر ہے اور ہر جگہ
اور ہر چیز کے اندراور باہر موجود ہے۔ جس طرح روشنی شیشے کے کیپسول کے اندر
اور باہر موجود ہوتی ہے۔ جس طرح بجلی، مقناطیس اور آواز کی لہر یں موجود
ہوتی ہیں۔ اور جیسے ہو ا ہر سوراخ دار چیز کے اندر اور باہر موجود ہوتی ہے۔
اسی طرح خدا کا وجود ہر جگہ موجود ہے۔ اور یہی حال خدا کے حکم اور روح کا
ہے۔ جس طرح بجلی کا کرنٹ آنے سے تمام بجلی سے چلنے والی چیزیں کام کرنے لگ
جاتی ہیں۔ لیکن اگر کرنٹ یا روح نہ ہو تو کوئی مشین یا انسانی جسم کام نہیں
کرتا۔ جس طرح روبوٹ بجلی کے کرنٹ کے بغیر کام نہیں کرسکتا، اسی طرح انسانی
مشین )جسم( بھی روح کے بغیر کام نہیں کرتی۔
دیکھو،اللہ تعالٰی نے قسم قسم کی مخلوقات بنائی ہیں۔ اُس غیبی طاقت )خدا(
نے ہر قسم کے جراثیم، خوردبینی جانور، کیڑے مکوڑے، پرندے، جانور پیدا کیے
ہیں۔اسی طرح انسانوں میں بھی صحت مند، طاقتور، کمزور، لولے لنگڑے، اندھے
کانے،عقلمند، بے وقوف غرض ہر قسم کے انسان پیدا کیے ہیں۔سو، اللہ نے جو
جاندار جس مقصد کیلئے پیدا کیے ہیں،وہ اسی طرح کام کرتے ہیں۔ یہی اُن کی
قسمت ہے۔ اِسی قسمت کے مطابق اُنہیں طاقت، انرجی اور جذبات و جوش کا رزق
ملتا ہے۔
دیکھو، ایک وقت ایسا ہوتا ہے کہ میں نیکی کرتا ہوں لیکن میں یہ کام دل
سےنہیں کرتا۔سو مجھے اس نیکی کی کوئی خوشی نہیں ہوتی ۔چنانچہ جس کام میں دل
شامل نہیں ہو گا، وہ کام خلوص اور محبت کے بغیر بے جان ،بے اثر اور بے مزہ
ہو گا۔ اور اگر دل چاہے گا تو مشکل سے مشکل ، جان جوکھوں والا کام مثلا
جہاد، شہادت اور روزہ بھی آسان ہوگا۔ اور اگر انسان گناہ کرنا چاہتا ہے تو
بڑی سے بڑی رکاوٹ، سزا اور جان کے خوف کے باوجود بھی کر گزرتا ہے، جیسے
قتل،چوری، ڈکیتی، زنا اور دیگر جرائم۔ کیونکہ ان کے فائدے اور مزے انسان
کےدماغ میں پہلے سے ہی فیڈ ہوتے ہیں۔ اور یہ اس وقت دل پر ایسا جذبہ اور
جنون طاری کرتے ہیں کہ اُس وقت عقل کام نہیں کرتی۔ کیونکہ خدا کے حکم کی
لہریں اس پر چھائی ہوئی ہوتی ہیں۔ یہ سب کچھ روح کرواتی ہے اور روح کو خدا
سے حکم آتا ہے۔ وہ ایسا کیوں کرتا ہے، اُس سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔
دیکھو، جذبہ اچھا ہو یا برا، جنون کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یہ جذبہ، یہ
جنون، یہ طاقت خدا کی طرف سے روح کے ذریعے ہمیں ملتی ہے۔ خدا کا یہ حکم نظر
نہ آنے اور کنٹرول نہ ہونے والی لہروں کے ذریعے آتا اور پورا ہوتا ہے۔
انسان کا دماغ تو صرف ریسیو رکا اورانسانی جسم تو صرف روبوٹ کا کام کرتا
ہے۔ لٰہذا اگر خدا کا حکم اور اذن نہ ہو تو ہم کوئی بھی نیکی یا بدی کا کام
نہیں کر سکتے۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ تقدیر میں یہی تھا۔ موت کا کوئی پتہ
نہیں۔ قیامت کب آئے گی اور آگے کیا ہوگا، کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ کیونکہ کوئی
مر کر واپس نہیں آتا اور نہیں بتلاتا کہ آگے کیا ہوگا۔لٰہذا نبی، رسول،
امام، ولی ،گرو ،اوتاروں نے جو کہا ہے وہ صحیح ہے ۔اسے ماننا پڑے گا۔ لٰہذا
خدا، فرشتوں ،قیامت ،دوبارہ زندہ ہونے، سوال جواب ،جزا سزا اور جنت، دوزخ
پر ایمان لانا پڑے گا۔
دیکھو ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔ بےحد و بے حساب تو صرف خدا کی ذات ہے۔ اس
لیے ہم انسان بھی ایک حد رکھتے ہیں۔ ہم زیادہ دور تک نہیں دیکھ سکتے اور ۲۰
ہرٹز (Hertz)سے کم اور ۲۰ ہزار ہرٹز (Hertz)سے زیادہ کی آواز نہیں سن سکتے۔
اسی طرح ہمارا دماغ بھی ایک حدسے آگے نہیں جا سکتا۔ جمادات، نباتات کیلئے
خوراک مہیا کرتے ہیں۔ نباتات، کیڑوں مکوڑوں اور جانوروں پرندوں اور انسانوں
کی خوراک بنتے ہیں۔ اسی طرح جانور اور پرندے بھی انسان کی خوراک بنتے ہیں۔
اور انسان مرنے کے بعد زمین میں دفن ہو کر مٹی میں مل جاتے ہیں اور نباتات
کی خوراک بنتے ہیں اور یہ چکر یوں ہی چلتا رہتا ہے۔ اس طرح جمادات مٹی،
پانی،ہوا وغیرہ نباتات، جاندار اور پرندے اور انسان ایک دوسرے کیلئے لازم و
ملزوم ہیں اور ایک سسٹم کے تحت کام کرتے ہیں۔اسی طرح سورج کی گرمی، ہوا،
پانی،مٹی، زندگی اور پودوں کیلئے نہایت ضروری ہیں۔ پس کائنات میں وحدت پائی
جاتی ہے۔
دیکھو، تمام جانداروں میں نظامِ تنفس، نظامِ انہضام، نظامِ تولید اور
دورانِ خون کا نظام ہوتا ہے۔مزید برآں یہ کہ ہر جاندار کے نظامِ تنفس،
نظامِ انہضام اور نظامِ تولید اور دورانِ خون میں مما ثلت پائی جاتی ہے۔
پرندوں کی دو ٹانگیں ہوتی ہیں اور دو ہاتھوں کے بجائے دو پر ہوتے ہیں۔
گائے، بھینس، بھیڑ ، بکری اور او نٹ کی چار ٹانگیں ہوتی ہیں) کیونکہ ان کے
دو ہاتھوں کی بجائے دو پر نہیں ہوتے بلکہ دو اگلی ٹانگیں ہوتی ہیں(۔ اسی
طرح پرندوں کے سر لمبے اور چونچ والے ہوتے ہیں۔ اور جانوروں کے سر بھی
لمبوترے اور لمبے منہ والے ہوتے ہیں۔ جبکہ بندروں اور انسانوں کے سر گول
اور چھوٹے منہ والے ہوتے ہیں۔اسی طرح خدا نےہوا، پانی کے منہ اور ہاتھ پاوں
غائب کر کے ہوا کو اڑا دیا اور پانی کو بہا دیا۔ جبکہ پہاڑوں کے منہ اور
ہاتھ غائب کردیے اور پاوَں زمین میں گاڑ دیے۔ اور یوں اس خدائے واحد کی
قدرت، صنعت کاری، کاری گری اور علم کا اظہار ہوتا ہے جو کہ ہماری نظر سے
اوجھل ہے۔ وہ ایک غیبی اور خودمختار طاقت ہے جو اپنی مرضی کرتی ہے۔وہی تو
ہے جس نے کھربوں سال پہلے بگ بینگ (Big Bang)یا بہت بڑا دھماکہ کیا تھا اور
مادے کا بہت بڑا گولا پھٹ کر اجرام فلکی میں منتشر ہو گیا تھا اور پھر اُن
جمادات سے زندگی کا ظہور ہوا تھا۔
دیکھو، جب تک انسان کی صحت ٹھیک رہتی ہے، اس کو خوراک ملتی رہتی ہے اور اس
کی ہر مرضی اور ہر خواہش پوری ہوتی رہتی ہے تو انسان کو خدا کا خیال تک
نہیں آتا۔ بلکہ مغرور لوگ اور بادشاہ تو خود خدا بنے رہتے ہیں۔ لیکن جب وہ
بیمار ہوتے ہیں اور کسی بھی طرح ٹھیک نہیں ہوتے اور ان کی کوئی بھی مرضی
اور کوئی خواہش پوری نہیں ہوتی اور سخت تکلیف اور مجبوری ہوتی ہے تو اس وقت
انہیں کسی غیبی طاقت کا احساس ہوتا ہے اور خدا یاد آتا ہے۔ بلکہ جب ان کی
عزت اور جان خطرے میں ہوتی ہے تو وہ خدا کے آگے گڑگڑاتے ہیں اور نہایت
عاجزی سے دعائیں مانگتے اور اس کی دل سے عبادت کرتے ہیں۔ اور خدا کو اپنا
سب کچھ سمجھنے لگتے ہیں۔
دیکھو، روح )یا نفس( خدا کے نور کا ایک قطرہ ہے۔اور تقدیر اچھی یا بری ہو،
خدا کے حکم سے ہے کیونکہ وہ جو چاہتا ہے، کرتا ہے۔ اور ہم کل) یعنی اگلے
لمحے(، موت، قیامت کے متعلق نہیں جانتے کہ وہ کب آئے گی اور آگے کیا ہوگا۔
اس کا مطلب ہے کہ تمام انسان اور دوسری مخلوقات اللہ کے سامنے مجسمے، روبوٹ
اور کٹھ پتلیاں ہیں اور وہ خدا مجسمہ ساز ہے۔ وہ جو چاہتا ہے، کرتا ہے۔ اور
ہم بے بس اور مجبور ہو جاتے ہیں۔اس لیے ہمیں لا محالہ طور پر یہ ماننا پڑتا
ہے کہ وہ پکڑنے والا اور سزا دینے والا بھی ہے اور معاف کرنے والا اور
بخشنے والا مہربان بھی ہے۔ اور توبہ کرنے سے معاف بھی فرما دیتا ہے کیونکہ
وہ انسانوں پر ماں سے بھی ۷۰ گنا زیادہ مہربان ہے۔ پس ہمارا فرض ہے کہ ہم
اللہ پر اور اس کے نبیوں، رسولوں، اماموں، ولیوں، گرووَں، اوتاروں پر ایمان
لائیں، ان کی تعلیمات پر دل و جان سے عمل کریں۔ آپس میں پیار محبت، انصاف
سے رہیں۔ ہر کام میں اعتدال کو سامنے رکھیں اور اللہ کے حکموں کی
فرماںبرداری کریں اور اس کی عبادت کریں۔ یہی انسانیت اور حیوانیت میں فرق
ہے۔ کیونکہ خدا نے حیوانوں کو علم نہیں دیا بلکہ انسانوں کو دیا ہے اور اسی
علم کی وجہ سے فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا تھا۔ یہی انسانیت ہے۔ |