اراونڈ کراچی - ان ون ڈے - تحریر: امین صدرالدین بھایانی
۔"جی وہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔،ابّو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔، وہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔،اگلی گاڑی
دوپہر بارہ بجے آئے گی" میں نے اپنے پُھولے ہوئے سانس پر قابو پانے کی کوشش
کرتے ہوئے کہا۔
۔"اوہ اچھا، بس پھر تو کوئی فکر کی بات نہیں ابھی تو صرف دس ہی بجے ہیں"
ابّو نے گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ "اور ہاں بھئی اپنی امی سے کہہ دو کہ
وہ اگلے ڈھیڑھ ایک گھنٹے میں ساری تیاریاں مکمل کر لیں، تاکہ ہمیں دیر نہ
ہو جائے"۔
میں جلدی سے امی کی طرف بھاگا جو کہ کمرے کے ساتھ ہی لگے باورچی خانے میں
کھڑیں قیمہ، پیاز، ثابت خُشک دھنیہ اور ہری مرچیں ملے باجرے کے آٹے کے کباب
تل رہی تھیں۔ "ہاں ہاں بھئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !، سن لیا ہے میں نے، جاؤ اپنے
ابّو سے کہوں کہ میں نے اپنی ساری تیاریاں کم وبیش مکمل کرلی ہیں۔ آلوؤں
کا خشک سالن اور تیکھی پوریاں کب کی تیار بھی ہو چکیں۔ اب میں تمھارے
پسندیدہ کباب تل رہی ہوں اورپھر یہ سارا کچھ ٹفن کیریئر میں بھرنے کے بعد
چائے بنا کر تھرماس بھی بھر لوں گی"۔
امی کی بات سن کر میرے منہ میں ڈھیر سارا پانی بھر آیا۔ میرا جی چاہ رہا
تھا کہ بس کسی طرح سے ہم سب جلد از جلد گاڑی میں سوار ہوجائیں اور پھر گاڑی
چلنے کے ساتھ ہی میں ٹفن کیرئیر کے خانے میں لبالب بھرے کبابوں پر اپنا
ہاتھ صاف کرنا شروع کردوں۔
کوئی دو گھنٹوں کے بعد امی، ابّو، اور چھوٹے بھائی کے ہمراہ میں کراچی پورٹ
ٹرسٹ ریلوے اسٹیشن کے چھوٹے سے پلیٹ فارم کے شیڈ کے نیچے سمینٹ کے بینچ پر
براجمان سامنے گزرتی ریل کی پٹریوں کے دونوں اطراف نظریں دوڑا رہا تھا۔
پلیٹ فارم پر کچھ خاص بھیڑ نہ تھی۔ کچھ پانچ سات نفوس ہماری طرح سے اِدھر
اُدھر بیٹھے ٹرین کا انتظار کررہے تھے۔
تھوڑی دیر بعد دور کہیں ٹرین کی سیٹی سنائی دی اور پھر ہلکی ہلکی چھک چھک
چھک کی آواز سماعتوں سے ٹکرائی۔ سیٹی اور چھک چھک کی ملی جُلی آوازوں نے
وہاں موجود لوگوں کو متحرک کردیا اور سب اُس سمیت غور سے دیکھنے لگے جہاں
سے یہ آوازیں آ رہی تھیں۔ چند ہی لمحات میں دور سے ٹرین کا ہرا انجن سیاہ
دھواں اڑاتا نظر آیا اور پھر اپنے پیچھے لگی بوگیوں کو لئے پلیٹ فارم پر آ
کھڑا ہوا۔
ابّو نے ایک خالی سے ڈبے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہم سب کو اُس میں سوار ہو
جانے کا اشارہ کیا۔ ابھی ہم ریل گاڑی کی اُس لمبی چوڑی سی بوگی میں اپنی
اپنی نشستوں پر ٹھیک سے بیٹھ بھی نہ پائے تھے کہ ٹرین کی الوداعی سیٹی
سنائی دی اور پھر کچھ وقفے کے بعد ایک بار پھر سیٹی بجی اور ٹرین نے دھیرے
دھیرے آگے کی جانب سرکنا شروع کر دیا۔ ٹرین اُس ریلوے اسٹیشن سے باہر آئی
اور پھر ویسٹ وہارف روڈ کے ریلوے پھاٹک سے گزرتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔ اب اُسے
جی اے الانہ روڈ کے پُل سے گزرتے ہوئے اپنی منزل "وزیر منیشن" اور پھر اُس
سے بھی مذید آگے جانا تھا۔
یہ 70ء کی دھائی کے اواخر کے سالوں کی بات ہے۔ ہم کراچی میں نواب مہابت
خانجی رود پر واقع کے پی ٹی گراؤنڈ (موجودہ کے پی ٹی اسپورٹس کامپلیکس) کے
عین سامنے کھارادر کے علاقے پنجابی کلب میں رہا کرتے تھے۔ ہمارے گھر کی
بالکنی سے جہاں سامنے کے پی ٹی گراؤنڈ نظر آتا وہیں بائیں ہاتھ پر زرا ہی
دور پورٹ ٹرسٹ ہالٹ نامی ایک بہت ہی چھوٹا سا ریلوے اسٹیشن بھی دکھائی
دیتا، جہاں سے کراچی سرکلر ریلوے کی لوکل ٹرینیں گزرا کرتی تھیں۔
کراچی سرکلر ریلوے، جیسکہ نام سے ہی ظاہر ہے کراچی کے گرد ایک دائرہ بناتی
ہوئی گزرتی تھی۔ اگر آپ کسی بھی اسٹیشن سے کسی بھی طرف کو جانے والی لوکل
ٹرین پر سوار ہو جائیں تو وہ ٹرین آپ کو پورے کراچی کی سیر کرواتی ہوئی بلا
آخر اُسی ریلوے اسٹیشن پر واپس لے آئے گی جہاں سے آپ اُس پر سوار ہوئے تھے۔
ابُو مرحوم کو ٹرین اور ٹرین کا سفر بہت پسند تھا۔ اِس بات کا اندازہ یوں
لگائیں کہ وہ اکثر رات کے کھانے کے بعد مجھے اپنی لال رنگ کی ہنڈا ففٹی
موٹر سائیکل پر سوار کروا کر گھر سے کچھ ہی دور واقع آئی آئی چندریگر روڈ
پر حبیب بنک پلازہ کی عمارت کے عین سامنے قائم انگریروں کے دور کے چٹانوں
کے بڑے بڑے پتھر کاٹ کر بنائے گئے ریلوے پل پر لے جاتے اور پھر ہم دوںوں
باپ بیٹا اُس پُل سے کچھ ہی دور سٹی اسٹیشن کی تیز روشنیوں میں وہاں پر
کھڑی ریل گاڑیوں اور ارد گرد کی پٹریوں پر ڈیزل اور موبل آئل کی تیز بُو
والا سیاہ دھواں اُڑا کر شنٹنگ کرتے ریلوے انجنوں کو دیر تک دیکھا کرتے۔
ابّو مجھے ریل گاڑیوں، اُن کے انجنوں اور انگریز دور میں قائم کردہ ریلوے
اسٹیشنوں اور نصب کردہ ریل کی پٹریوں کے بارے میں بتاتے جاتے۔ میں نے یہ
ہمیشہ محسوس کیا کہ وہ اپنے اس پسندیدہ موضوع پر متواتر بےتکان بولتے چلے
جاتے اور اگر میں کبھی کوئی سوال کر لو جیسکہ "ابّو یہ انجن شنٹگ کیوں کرتے
ہیں؟" تو اس سوال کا جواب دیتے ہوئے اُن کی آنکھوں میں ایک بھرپور چمک
دکھائی دیتی اور اُن کا چہرہ ان کے اندرونی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتا
محسوس ہوتا۔ بطورِخاص وہ یہ بات تو مجھے ہر بار اور بار بار بتایا کرتے کہ
اُ ن کے بچپن میں جب وہ ٹرین میں سفر کیا کرتے تو سب بچے مل کر ٹرین کی چھک
چھک چھک کی تان پر کچھ یوں گایا کرتے:۔
چپل پور کے چھ چھ پیسے
چپل پور کے چھ چھ پیسے
چپل پور کے چھ چھ پیسے
ابّو مرحوم کو سیر سپاٹوں کا بھی بہت شوق تھا۔ جہاں فرصت میسر ہوئی وہ اپنی
لال ہنڈا ففٹی موٹر سائیکل پر سوار ہو کر کراچی کے گلی کوچوں اور بطورِ خاص
ان علاقوں کی سیر کو نکل جاتے جہاں انہیں سڑک پر بچھے پرانی کتابوں کے
پتھاروں کے ملنے کا امکان ہوتا۔ مجھے بہت اچھی طرح سے یاد ہے کہ وہ اس
سلسلے میں ٹاور، بولٹن مارکیٹ، کھوری گارڈن، ریگل صدر، رنچھوڑلین، پہلی
چورنگی ناظمِ آباد، برکاتِ حیدری، حتیٰ کہ جبیب بنک سائیٹ، پاپوش نگر، بڑا
میدان، چھوٹا میدان، حسن اسکوائر چورنگی اور نہ معلوم کہاں کہاں تک جا کر
وہاں موجود کتابوں کا کھنگالا کرتے۔ انہوں نے اس طرح کتابوں کا ایک ذخیرہ
جمع کرلیا تھا جو کہ ذیادہ تر انگریزی میں ہوا کرتی تھیں۔
اکثر چھٹی والے دن جو اگر کہیں اور جانے کا موڈ نہ ہو رہا ہو تو پھر وہ
مجھے صبح ہی صبح گھر کے سامنے والے پورٹ ٹرسٹ ہالٹ کے اسٹیشن دوڑا دیا کرتے
کہ جاؤ اور ٹکٹ گھر سے معلوم کر کے آؤ کہ اگلی گاڑی کتنے بجے آئے گی اور
آخری اسٹیشن کے ٹکٹ بھی خرید لینا۔ چونکہ خود مجھے بھی اُن کی طرح سے ٹرین
اور ٹرین کے سفر سے بھرپور لگاؤ تھا، لہذٰا میں دوڑتا ہوا جاتا، دوڑتا ہوا
آتا اور اپنے پھولے ہوئے سانس کے ساتھ ٹوٹے پھوٹے لہجے میں اُنہیں اگلی
گاڑی کے آنے کے وقت سے آگاہ کرتا۔
امی، ابو کا پروگرام سنتے ہی کھانے پینے کے لیے اتنا کچھ بنا لیتں کہ ہمیں
اُس سارے سفر کے دروان باہر سے کچھ بھی لے کر کھانے کی ضرورت تک محسوس نہ
ہوتی۔ ہم پورٹ ٹرسٹ ہالٹ کے اسٹیشن سے ریل گاڑی میں سوار ہوتے جو کراچی کے
گرد دائرے میں سفر کرتی ہوئی پانچ چھ یا اُس سے بھی کچھ زائد گھنٹوں میں
ہمیں واپس وہیں لے آتی کہ جہاں سے ہم سب اُس پر سوار ہوتے۔
مزے کی بات تو یہ تھی کہ اُس سارے سفر کے دوران ابّو کتاب پڑھتے رھتے
اورگاہے بہ گاہے اپنی نظریں کتاب سے اٹھا کر ریل گاڑی کی کھڑکی کے باہر
تیزی سے دورٹے ہوئے مناظر پر ڈالتے جاتے۔ گو کہ میں بھی گھر سے اپنے ہمراہ
دو تین من پسند کتابیں لے کر چلتا اور ابّو کی تقلید میں اپنی سیٹ پر بیٹھ
کر کتاب پڑھنے کے ساتھ ساتھ ٹرین کی کھلی کھڑکی سے دوڑتے بھاگتے نظاروں کو
وقفے وقفے سے دیکھتا جاتا لیکن پھر جلد ہی اُکتا کر کتاب بند کر دیتا اور
پوری یکسوئی کے ساتھ لوہے کی دو عمودی سلاخیں لگی بڑی سی کھلی کھڑکی پر
اپنی ٹھوڑی ٹکا کر باہر نظر آتے والے مناظر کو بڑی ہی محویت کے ساتھ تکنے
لگتا۔
ہوتا کچھ یوں تھا کہ ہم جیسے ہی اپنے مقامی اسٹیشن سے گاڑی میں سوار ہوتے
تو آمنے سامنے نصب دو سیٹوں پرسب لوگ براجمان ہوجاتے۔ شاید بہت سے پڑھنے
والوں کو یاد ہو کہ اُس دور میں کراچی کی لوکل ریل گاڑیوں میں لکڑی کی
پٹیوں سے بنے بینچ نصب ہوا کرتے تھے جس میں ایک لکڑی کی پٹی کے بعد اتنی ہی
جگہ خالی ہوا کرتی اور پھر خالی جگہ کے بعد لکڑی کی دوسری پٹی نصب ہوتی۔
جبکہ چند بوگیوں میں آمنے سامنے کشن والے سیاہ ریگزین سے آراستہ آرام دہ
صوفے نما سیٹیں بھی ہوا کرتیں۔ ہم کوشش کر کے کوئی ایسی ہی بوگی تلاش کرتے
اور پھر جیسے ہی ریل گاڑی چلتی تو امی گھر سے لایا ہوا اپنا عمرو عیار کی
زنبیل جیسا اسٹین لیس اسٹیل کا بڑا سا ٹفن کیرئیر کھولتیں اور پھر اُس میں
سے برآمد ہونے والی سوغاتیں ہم دورانِ سفر مسلسل تھرماس میں بھری چائے کے
ہمراہ نوشِ جان کرتے جاتے اور امی کی ہاتھ کے زائقے، ریل کے دلفریب و مسحور
کن سفر اور شہر کراچی کے مضافاتی علاقوں کے حسین مناظر کی شان میں قصیدے
پڑھتے جاتے۔
اکثر ایسا بھی ہوتا کہ ہماری طرح کا کوئی خاندان جو کہ چھٹی والے دن کا لطف
اٹھانے کی غرض سے ریل گاڑی کے اُس "ٹور ڈی کراچی" میں ہمارا بوگی نشین ہوتا
اور دیکھتے ہی دیکھتے جو معاملہ بچوں کے باہمی کھیل کود سے شروع ہوتا وہ
خواتین کی باہمی گفتگو اور پھر مرد حضرات کی باہمی دلچپسی کے امور پر اظہار
خیال سے ہوتا ہوا تبادلہِ اشیاء خوردونوش تک جا پہنچتا اور پھر سب آپس میں
یوں سیرو شکر ہو رہے ہوتے جیسے اُن خاندانوں کے مابین ہونے والی آج یہ کوئی
اتفاقیہ ملاقات نہ ہو بلکہ برسوں کا دوستانہ رہا ہو۔
کیا بتاؤ صاحب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !، کیا دلکش منظر ہوتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ !!!۔
ریل گاڑی چھک چھک چھک چھک کرتی بقول ابّو "چپل پور کے چھ چھ پیسے" کے مدھر
گیت کی تانیں اڑاتی ہوئی اپنی نپی تلی رفتار سے چلی جاری ہوتی۔ کھڑکیوں سے
آتے بھیگی نم آلود ٹھنڈی ہواؤں کے دبیز جھونکے بوگی میں سوار افراد کے
بالوں کو رقصاں رکھتے۔ ہم بچے بالے یا تو سیٹوں پر بیٹھے "اکڑ بکڑ بمبے
بو"، لوڈو، تاش یا "کوا اڑا-بھینس اڑی" جیسے کھلیوں میں مگن ہیں۔ خواتین
باہم گھریلو و امورِ خانہ داری نوعیت کی گفتگو میں مشغول ہیں۔ مرد حضرات
میں موسمی تغیرات، ملکی سیاست، زیرِنمائش نئی فلموں اور ان میں کام کرتے
فنکاروں کے ماضی کی یادگار فلموں اور اُن کے شہاکار گیتوں پر بھرپور بحث و
مباحثہ ہو رہا ہے۔ بوگی کے کسی کونے پر لگی نشست پر بیٹھے چند منچلے
ٹرانزسٹر ریڈیو پر ریڈیو پاکستان کراچی سے نشر ہونے والے فلمی گیتوں سے
دلپشوری کر رہے ہیں اور بوگی کی فضاء میں مہدی حسن مرحوم کی مدھر آواز گونج
رہی ہے:۔
کیوں ہم سے خفا ہوگئے اے جانِ تمنا
بھیگے ہوئے موسم کا مزا کیوں نہیں لیتے
ملکی و سیاسی صورتحال پر ہونے والی اُن بحثوں میں ابّو اکثر اپنے مخالفین
جو کہ زرا سا بھی پاکستان یا پھر قیامِ پاکستان کی مخالفت میں کوئی ہلکی
پھلکی سی بھی اختلافی بات کرتا یہ کہہ کر ہمیشہ ہی لاجواب کر دیا کرتے:۔
۔"ارے صاحب، بس آپ دیکھتے جائیں، ماشاءاللہ اس وقت بھی پاکستان اپنے تمام
ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں خوُشحال اور ترقی یافتہ ہے۔ آنے والے وقتوں میں
پاکستان اور مذید آگے جائے گا، حالات موجود صورتحال سے کہیں اور ذیادہ بہتر
ہوں گے اور انشاءاللہ ہم بہت ترقی کریں گے"۔
گو کہ ابو کی پیدائش 1942ء میں بھارتی ریاست گجرات کے شہر بھاؤنگر میں
ہوئی تھی اور پھر وہ چھوٹی عمر میں اپنے والدین اور دیگر بہن بھائیوں کے
ہمراہ ہجرت کر کے اولین شکار پور، سندھ چلے آئے اور بعدازاں وہاں سے کراچی
کا رُخ کیا۔ اپنی جنم بھومی ہونے کے اعتبار سے وہ اپنی جائے پیدائش کو اکثر
یاد کیا کرتے لیکن انہیں بطورِ خاص کراچی سے بے حد لگاؤ تھا اور وہ اُس کے
گوشے گوشے سے واقف تھے۔
بحرکیف، گاڑی جب کسی اسٹیشن پر رکتی تو وہاں موجود کنسیشن اسٹینڈس پر زور
زور سے بجتے فلمی نغمات کی گونج ٹرین کی کھڑکیوں سے کبھی تیز اور کبھی مدھم
ہوتی اندر داخل ہوتی۔ گلوکار اے نئیرکا ایک گیت مجھے آج بھی یاد ہے جو میں
نے پہلی بار ٹرین کی کھڑکی میں بیٹھ کر سُنا، جو کسی ریلوے اسٹیشن پر قائم
چائے کے کھوکھے پر رکھے ٹرانزسٹر ریڈیو پر بج رہا تھا:۔
ملے دو ساتھی، کھلیں دو کلیاں
دیوانہ دل ہے، دیوانہ موسم
گاڑی کے رکتے ہی اُن گیتوں کے ساتھ در آنے والیں دیگر آوازیں کچھ یوں ہوا
کرتی تھیں:۔
۔ "چائے والا، چائے والا، چائے والا"، "گجک کراری ہو رہی ہے"، "گرما گرم
سموسے، آلو کے گرما گرم سموسے لے لو بھائی"، امرود لے لو، ملیرکا، لاڑکانہ
کا، امرود لے لو" "، حکیمی منجن، ہلتے، دکھتے، پیلے اور پایوریا والے
دانتوں کا اکیسر علاج، کمپنی کی مشہوری کے لیے صرف اس ٹرین میں رعایتی قیمت
پر دستیاب ہے، ایک روپیہ، ایک روپیہ، ایک روپیہ، آواز دیکر طلب کریں"۔
چلیں دوستوں، تو پھر ہم سب اپنا ریل گاڑی کا سفر وہیں سے شروع کرتے ہیں
جہاں ہم نے اُسے چھوڑا تھا۔
ہماری ریل گاڑی چھک چھک چھک کرتی، سیٹی بجا بجا کر گاڑھا سیاہ دھواں اڑاتی
پورٹ ٹرسٹ ہالٹ کے چھوٹے سے اسٹیشن کو دور پیچھے چھوڑتی ہوئی سائیٹ اور
ماری پور روڈ کو جانے والے جی الانہ روڈ کے پُل کے نیچے سے گزری ہوئی ماری
پور روڈ کے متوازی چلتے ہوئے وزیر منیشن ریلوے اسٹیشن کی طرف رواں دواں ہے۔
کچھ دیر وہاں سستانے اور چند ایک مسافروں کو اترانے اور سوار کرنے کے بعد
ریل گاڑی دوبارہ حرکت میں آتی ہے اور دائیں ہاتھ پر متوازی چلتے ماری پور
روڈ کی دوسری طرف قائم لیاری اسپورٹس گراؤںڈ (موحودہ پیلپز اسپورٹس
کاملپلیکس)، ماری پور ٹرک اسٹینڈ اور کراؤن سنیما کو پیچھے چھوڑتی ہوئی
آگے بڑھتی ہے۔ بچپن ہی سے چونکہ مجھے فلموں سے کچھ خاص لگاؤ رہا، لہذٰا
میری پوری کوشش ہوتی کہ میں دیکھ سکوں کہ وہاں اُس وقت کس فلم کے پبلیسٹی
بورڈ آوایزاں ہیں۔ کچھ دیر چلنے کے بعد غلامانِ عباس اسکول کو پیچھے چھوڑتی
ہوئی ریل گاڑی لیاری ندی پر بنے ہوئے ریلوے کے پُل پر آ پہنچتی ہے۔ اِس پُل
کے نیچے سے لیاری ندی کا بدبو دار پانی گزرتا ہوا بائیں جانب کچھ ہی آگے
بحرہِ عرب کے سمندر میں جا گرتا ہے۔
مذکورہ مقام میرے لیے خصوصی دلچپسی کا باعث ہوتا اور میں بڑی مستعدی کے
ساتھ سائیٹ ایریاء کی جانب بڑھتی ریل گاڑی کے بائیں جانب کی کسی نشست پر
کھڑکی سے لگ کر بیٹھ جاتا اور بڑی ہی محویت کے ساتھ لیاری ندی کو دور بحرہِ
عرب کے نمکین پانیوں مدغم ہوتے دیکھتا۔ ریلوے پل کے عین نیچے لیاری ندی کے
گندے بدبو دار پانیوں میں قریبی باڑوں کی انگنت بھینسیں غُسل صحت لے رہی
ہوتیں۔ اُن بھینسوں کو لیاری ندی کے بدبودار اور گندے پانیوں میں یوں نہاتے
دیکھ کر ہمیشہ مجھے خیال آتا کہ امی ہر صبح تاکید کے ساتھ جو "خالص"، "صحت
افزاء" اور "قوت بخش" دودھ ہم دونوں بھائیوں کو پلاتی ہیں اُس کا ممبہ حفظِ
صحت کے تمام تر ملکی و غیر ملکی اصولوں پر پلتیں یہی بھینسیں ہیں۔
ابّو بتایا کرتے تھے کہ ایک دور میں یہی لیاری ندی اور اُس کا پانی اِس قدر
صاف ستھرا ہوا کرتا تھا کہ وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ یہاں نہانے آیا کرتے۔
پھر لوگوں نے اپنے سیوریج کے سارے نالوں کا رُخ لیاری ندی کی طرف کر کے
بحرہِ عرب کے پانیوں اور اُس میں بستی مخلوق کو بھی آلودہ کردیا۔
ریل گاڑی لیاری کے علاقے کو پیچھے چھوڑتے ہوئے سائیٹ ایریاء میں قائم بلدیہ
ریلوے اسٹیشن آ پہنچی ہے اور کچھ دیر وہاں رک کر آگے بڑھتی ہے۔ یہاں سے
ریلوے لائن دو حصوں میں متقسم ہوتی ہے۔ سیدھی لائن ماری پور روڈ کے متوازی
چلتی ہوئی وہاں قائم سمندری نمک کے کارخانوں اور پھر اُس سے بھی آگے تک
جاتی ہے لیکن وہ ٹریک صرف مال گاڑیوں ہی کے لیے مخصوص ہے۔ جبکہ کراچی سرکلر
ریلوے کا ٹریک ماری پور والے ٹریک سے جدا ہو کر دائیں طرف کے موڑ سے جو کہ
سائیٹ روڈ کہلاتا تھا اور اب غالباً وہاں نادرن بائی پاس قائم ہوچکا ہے،
سائیٹ ایریاء میں داخل ہو جاتا ہے۔
سائیٹ ایریاء میں داخل ہونے کے ساتھ ہی مجھے ہمیشہ ایک فیکڑی کے چھت پر نصب
ایک بہت بڑا "ہونہار نپل، سودر اینڈ بےبی فیڈر" کا اشتہاری بورڈ نظر آتا جس
میں مخصوض انداز میں شیشے کی بنی ہوئی دودھ کی بوتل دکھائی گئی ہوتی۔ اس کے
علاوہ اب جب میں طاقِ نسیاں میں جھانک کر دیکھتا ہوں تو مجھے "ایکسائیڈ
بیٹری" اور سب سے بڑھکر ایک مخصوس بُو جو کہ گوار پھلی سے بنائے جانے والے
گوند کے کارخانے سے پھوٹا کرتی تھی، خوب یاد آتی ہے۔
سائیٹ ایریاء کی ایک اور سوغات ریلوے ٹریک کے دونوں اطرف قائم فیکٹریوں کی
دیواروں پر لکھے کوچنگ سنیڑوں، حکیموں، نجومیوں، سنیاسی باواؤں، منجنوں،
ہر بیماری کی واحد داوؤں، مقامی سنیماؤں میں نمائش پزیر فلموں کے
اشتہارات، شہر بھی کی طلباء تنظمیوں اور صنعتی علاقہ ہونے کے سبب مزدور
یونیوں کے ہتھوڑے اور درانتی سے مزین پیغامات کی بھرمار ہوا کرتی اور مجھے
وہ سب دیواری اشہارات پڑھنا بہت ہی اچھا لگتا۔ جسکہ:۔ "اےون کوچنگ سینٹر",
"نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن"، "جمیت طالبہِ اسلامی" اور چند اور مزرود تنظمیوں
وغیرہ کے وہ دیواری اشتہارات میں بڑے ہی غور سے پڑھا کرتا۔ ویسے یہ دیواری
اشتہارات تو سارے کے سارے ریلوے ٹریک پر ہی میری تفریج طبع کا سامان بنے
رہتے۔
سائیٹ ایریاء سے گزرتے ٹریک کے دونوں اطراف قائم کارخانوں میں بڑی بڑی
مشینیں اور کرنیں وغیرہ یوں ساکت کھڑیں نظر آتیں کہ جیسے وہ کبھی چلیں ہی
نہ ہوں اور ان تمام فیکٹریوں میں کچھ یوں ہو کا سا عالم ہوتا کہ جیسے کسی
جادوگر نے اپنی جادو کی چھڑی گھما کر انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پھتر کا کر
دیا ہو۔
گاڑی شیرشاہ پُل کے نیچے سے گزرتی ہوئی شاہ عبدللطیف اسٹیشن کے بعد امریلی
اسٹیل فیکٹری کے عقب سے ہوتی ہوئی سائیٹ ریلوے اسٹیشن پر قیام کے بعد پیپسی
فیکٹری، منگوپیر روڈ، ہینو پاک موٹرز کی فیکٹری کے عقب سے گزرتی ہوئی
منگوپیر اور جبیب بنک کے اسٹیشنوں پر رک کر اورنگی نالے کے ریلوے پُل سے
گزرتی ہوئی اورنگی ریلوے اسٹیشن جو کہ دراصل ناظم آباد کے علاقے بڑا میدان
میں ہے، پر آ کھڑی ہوتی۔
اب شروع ہوتا ہے ناظم آبار کا علاقہ۔ ٹرین ناظم آباد کے پُل سے ہوتی ہوئی
نارتھ ناظم آباد ریلوے اسٹیشن جا پہنچتی ہے جو کہ مجاہد کالونی میں واقع
ہے۔ ٹرین آگے موسیٰ گوٹھ، گجر نالہ، اپسرا اپاڑٹمینٹ اور اُس سے ملحقہ سراج
لدولہ کالج کے پاس سے ہوتی ہوئی لیاقت آباد میں شاہراہِ پاکستان کو کراس
کرتی ہوئی گزرتی ہے۔ پھر ٹرین دائیں طرف الاعظم اسکوائر اور بائیں جانب
کریم آباد کے علاقے میں موجود دہلی اسکول کے ساتھ ہی لیاقتِ آباد ریلوے
اسٹیشن پر آکر رکتی ہے۔ اب ٹرین غریب آباد ریلوے کراسنگ سے گزر کر غریبِ
آباد کے علاقے میں داخل ہوتی ہے۔ دائیں طرف غریبِ آباد کا علاقہ پڑتا ہے
اور بائیں طرف گورنمینٹ دہلی کالج آتا ہے۔ ٹرین یاسین آباد ریلوے اسٹیشن،
اسحق آباد کو پیچھے چھوڑتی ہوئی سر شاہ سلیمان روڈ پر موجود ریلوے پُل سے
ہوتی ہوئی گلشنِ اقبال کے علاقے میں قائم گیلانی ریلوے اسٹیشن میں داخل
ہوتی ہے۔ پھر ٹرین کچھ اور آگے چل کر یونیورسٹی روڈ کو کراس کر کے عزیز
بھٹی شہید پارک اسٹیشن جا پہنچتی ہے۔
اکثر ہم لوگ اِس مقام پر پہنچ کر عزیز بھٹی شہید پارک پر اتر جایا کرتے اور
پارک کی سیر کر کے دوبارہ اِسی جگہ سے واپسی کی ٹرین پکڑ کر گھر روانہ ہو
جاتے۔ پارک سے ملحق موجودہ سندباد پارک والی جگہ کے عین سامنے سے ٹرین راشد
منہاس روڈ کراس کرتی ہوِئی کراچی یونیوورسٹی ریلوے اسٹیشن جا پہنچتی ہے۔ یہ
ریلوے اسٹیشن موجود الہ دین پارک کے عین سامنے واقع ہے۔ یہاں سے آگے ریل
گاڑی گلستانِ جوہر کے علاقے میں داخل ہوتی ہے اور موجودہ روفی ڈرائیو لیک،
ربعہٰ سٹی بلاک 2 اور 3، بائیں طرف ائیر فورس ہیڈ کوارٹرز اور دائیں آرمی
آرڈینینس ڈپو کے عین درمیان سے گزرتی ہوئی ڈپو ہل جنکشن پر پہنچتی ہے۔ اِس
جگہ سے زرا سا ہی آگے غالباً ڈالمیاں سمینٹ فیکٹری کے پاس ہل پوائینٹ نام
کا ایک چھوٹا سا اسٹیشن تھا اور وہاں سے گزرتے ہوئے ٹرین کراچی ائیرپورٹ کے
رن وے کے عین عقب سے گزرتی۔ وہاں چند چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کے عقب سے پی آئی
اے کے طیارے کھڑے دکھائی دیا کرتے تھے۔ یہاں سے ہماری ریل ناتھا خان پُل کے
نیچے سے گزرتی ہوئی بائیں طرف کو مڑ کر شاہراہِ فیصل کے متوازی ملیر کی
جانب آگے بڑھنا شروع ہوتی ہے اور شاہ فیصل کالونی اور سعود آباد کے علاقوں
کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی ملیر ہالٹ اسٹیشن پہنچے کر اس سفر کی آخری منزل
ملیر کینٹ پہنچتی ہے۔
اگر جو میں بُھول نہیں رہا تو یہاں سے انجن ٹرین سے کٹ کر دوبارہ اُس کے
پیچھے جا لگتا اور پھر یوں اُس کی واپسی کا سفر شروع ہوتا۔ ابو وہاں سے
واپسی کا ٹکٹ خریدتے ہیں۔ کچھ ہی دیر بعد ٹرین دوبارہ اس اسٹیشن سے روانہ
ہو کر واپس شاہراہِ فیصل کے متوازی بلوچ کالونی کی طرف جاتے ہوئے پہلے ڈرگ
روڈ ریلوے اسیٹشن پہنچتی۔ یہ مقام مجھے بے حد ذیادہ پسند تھا کیونکہ یہاں
سے ریل جب شاہراہِ فصیل کے بالکل متوازی دوڑتی تو شاہراہِ فیصل اپنی دوڑتی
بھاگتی ٹریفک کے ساتھ بہت ہی بھلی معلوم ہوتی۔ ٹرین یونہی اپنا سفر کرتی
شاہراہ فیصل کے ریلوے اسٹیشنوں کارساز اور شیہد ملت روڈ ریلوے اسٹیشنوں پر
رُکتی آخر کار چنیسر ہالٹ کے اسٹیشن اور کالا پل سے ہوئی کراچی کینٹ پہنچی۔
وہاں سے روانہ ہو کر شیخ سلطان ٹرست بلڈنگ کے عقب، پی آئی ڈی سی پُل اور
پھر آگے ڈان اخبار کے دفتر، پاور ہاؤس ایلنڈر روڈ، اخبار جنگ کے دفتر،
نیشنل بنک ہیڈ آفس، آئی آئی چندریگر روڈ کے عقب سے ہوتی ہوئی کراچی سٹی
اسٹیشن پہنچتی اور پھر یہاں سے ہمارا گھر صرف ایک اسٹینش دور رھ جاتا۔ کچھ
ہی دیر میں ٹرین ٹاور کےعقب سے ہوتی ہوئی پہلے اولڈ اور پھر نیو کسٹم ہاوؑس
کے عقب سے گزرتی آخرکار ہماری منزلِ مقصود یعنیٰ پورٹ ٹرسٹ اسٹیشن پر ہم سب
کو اتار کر پھر سے آگے کو روانہ ہوجاتی۔
کہاں جاتا ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے1964ء کے ایوب خان دور میں اپنے قیام کے
پہلے ہی برس میں فوری کامیابی کے ساتھ بھرپور منافع بخش اسیکم ثابت ہوئی۔
جبکہ 70ء اور 80ء کی دھائی کے دوران یہ منصوبہ اپنے عروج پر تھا اور اُس
وقت روزانہ کی بیناد پر کراچی بھر میں کل 104 ٹرینیں چلا کرتی تھیں۔ لیکن
1990ء کی دھائی کے دوران پرائیویٹ ٹرانسپورٹر فافیا، کراچی سرکلر ٹرین کے
کرتا دھرتاؤں اور اسٹاف کو کرپشن میں ملوث کرکے ان کی ملی بھگت سے اُسے
ناکام بنانے میں کامیاب رہا اور 1994ء سے یہ نفع بخش ادارہ مالی بدحالی کا
شکار ہوا اور پھر آخرِکار اُن کی حسبِ منشاء 1999ء میں اُسے بند کر دیا
گیا۔ یوں عوام اپنی ٹرانسپورٹ کی ضروریات کے لیے فقط نجی ٹراسپوٹروں کے رحم
و کرم کے محتاج ہو کر رھ گئے۔
میں اکثر سوچتا ہوں کہ ابّو مرحوم مجھے تو کراچی شہر کے حسین مناظر سے ٹرین
کے اُس دلفریب و یادگار سفر کی صورت روشناس کرا گئے لیکن ہم اپنے بچوں کو
بھلا کیسے اُس سفر کی لذت سے آشنا کرسکیں گے؟
ایک اور بات جو اکثر میرے دل میں آتی ہے اور سوچتا ہوں کہ اگر آج ابّو زندہ
ہوتے تو میں اُن سے کہتا کہ آپ تو کہتے تھے کہ ہمارا ملک اور زیادہ ترقی
کرے گا۔ اے کاش کہ آپ دیکھتے کہ آپ کا وہ زمانہ کتنا اچھا تھا اور کتنا
اچھا ہوتا کہ آج بھی ہمارا شہر کراچی اور ہمارا وطن پاکستان آپ کے دور جیسا
ہی ہوتا۔
لیکن میرا دل اب بھی یہ کہتا ہےکہ ابّو باکل سچ اور درست کہا کرتے تھے کہ:۔
۔"آنے والے وقتوں میں پاکستان اور مذید آگے جائے گا، حالات موجود صورتحال
سے کہیں اور ذیادہ بہتر ہوں گے اور انشاءاللہ ہم بہت ترقی کریں گے"۔
(آمین)۔ |