پہلا منظر:
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے حساس علاقے میں واقع چائنا چوک کے قریب سڑک کے
بیچوں بیچ دونوں ہاتھوں میں اسلحہ اٹھائے شخص بیوی اور 2 بچوں سمیت موجود ہے۔ وقفے
وقفے سے فائرنگ بھی کررہا ہے، سڑک کے دونوں اطراف تماشائیوں کا ہجوم ہے، ٹی وی
چینلوں کے کیمرا مین اور رپورٹر اِدھر اُدھر بھاگے پھر رہے ہیں۔ پولیس کمانڈوز
علاقے کا محاصرہ کیے ہوئے ہیں۔ ایس ایس پی رینک کا افسر مسلح شخص سے مسلسل مذاکرات
میں مصروف ہے۔ مسلح شخص کبھی گاڑی میں جا بیٹھتا ہے، کبھی باہر نکل کر لوگوں کی طرف
اسلحہ لہراتا ہے، فلمی اسٹائل سے سگریٹ کے کش پر کش لگائے جارہا ہے۔ منرل واٹر کی
بوتل ساتھ رکھی ہے، بچے اچھل کود کررہے ہیں۔ پوری قوم ٹی وی اسکرین پر ساڑھے 5
گھنٹے سے یہ لائیواسٹریٹ شو دیکھ رہی ہے، جب تماشا شروع ہوا تو سورج چمک رہا تھا اب
ہر طرف اندھیرا ہے۔
دوسرا منظر:
پیپلزپارٹی کے سابق رکن اسمبلی زمردخان پولیس حصار توڑتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں، مسلح
شخص انہیں اپنی طرف آتا دیکھ کر چوکس ہوجاتا ہے، خان کہتے ہیں ’’میں صرف بچوں سے
ملنے آیا ہوں۔‘‘ ایک بچے سے ہاتھ ملایا، تھوڑا آگے بڑھے، دوسرے بچے سے ہاتھ ملایا
اور پھر اچانک مسلح شخص کو دبوچنے کے لیے لپکتے ہیں۔ وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے، زمردخان
قلابازی کھاتے ہوئے زمین پر گر پڑتے ہیں۔ مسلح شخص کی ٹانگ پکڑنے کی کوشش بھی ناکام
رہتی ہے، اب وہ کئی فٹ دور کھڑا اسلحہ لہرا رہا ہے، زمردخان زمین پر پڑے ہیں، خاتون
اور دونوں بچے بھی سامنے کھڑے ہیں، صورت حال انتہائی سنگین ہوچکی ہے، 4افراد ایک
مسلح جنونی کے نشانے پر ہیں، وہ گولی چلادیتا ہے جو اس کی بیوی کو جا لگتی ہے، پی
پی رہنما کمرجھکاکر فٹ پاتھ پر کھڑے درختوں کی طرف دوڑ لگادیتے ہیں، اطراف میں کھڑے
پولیس کمانڈوز حرکت میں آتے ہیں، گولیاں چلتی ہیں، سکندر زخمی ہوکر گر پڑتا ہے،
سادہ کپڑوں میں ملبوس سیکورٹی اہلکار اسے اٹھاکر ہسپتال لے جاتے ہیں، ڈراما ختم……
اسلام آباد کی سڑک پر ہونے والا ڈراما واقعی خاصا تفریحی تھا۔ مزاح، ایکشن، مکالمے
سب خوب رہے۔ آخری لمحات کی سنسنی خیزی نے تو کمال کردیا، کلیجے منہ کو آگئے تھے۔
زمردخان قومی ہیرو بن چکے، جبکہ بے چارے پولیس اہلکار انکوائریاں بھگت رہے ہیں۔ اگر
اس سارے ڈرامے کا گہرائی سے جائزہ لیں تو کئی سنجیدہ سوالات سامنے آتے ہیں، جن کا
جواب تلاش کرنا بہت ضروری ہے، مگر کیا کیجیے،ایک تو قوم پہلے ہی بہت جذباتی ہے،
اوپر سے میڈیا نے ایسا ماحول بنادیا ہے کہ کوئی معقول بات ماننا تو درکنار سننے پر
بھی آمادہ نہیں۔
سکندر نامی شخص جو کئی گھنٹے قوم کے اعصاب پر سوار رہا، ایک نفسیاتی مریض نکلا ہے۔
اس کی بیوی کے مطابق وہ نشہ کرتا ہے، 20-25سال دبئی میں گزارکر آیا ہے۔ ایک شادی
وہاں بھی کی ہوئی ہے۔ ان دنوں مالی مسائل سے دوچار تھا، نشہ اور مالی پریشانیوں نے
اس کے دماغ کے کئی اسکرو ڈھیلے کردیے۔ یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے، دوسری طرف دیکھیں،
سکندر نے میڈیا سے گفتگو کے دوران نفاذ شریعت اور حکمرانوں کی کرپشن کی بات کی ہے۔
یہ تو واضح ہے کہ اس کا اقدام شریعت کے لیے نہیں تھا اور نہ ہی ان طریقوں سے شریعت
نافذ ہوتی ہے۔ البتہ یہ نکتہ قابل غور ہے کہ لوگ اپنے تمام معاشی اور سماجی مسائل
کا حل شریعت کے نفاذ کو ہی سمجھتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ سیاست دانوں کی کرپشن اور
مفادپرستی نے عوام کو ذہنی مریض بنادیا ہے، وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے سیاست دانوں
کی طرف دیکھتے ہیں مگر سیاست دانوں کو ان کی کوئی پروا نہیں۔
اب لوگوں کے پاس کڑھنے اور سیاست دانوں کو برابھلا کہنے کے سوا کوئی راستہ نہیں رہا
ہے۔ جذباتی قسم کے لوگ اپنے جذبات کے اظہار کے لیے کچھ دوسرے راستے اختیار کرلیتے
ہیں، جیسے کوئی سیاست دانوں کی طرف جوتا اچھال دیتا ہے تو کوئی ٹماٹر یا انڈے پھینک
دیتا ہے۔ بلاشبہ سکندر کا اقدام پاگل پن ہے، خطرناک ہے، قابل مذمت ہے، قابل گرفت ہے
لیکن جیسی باتیں وہ کہہ رہا ہے اگر واقعتا اس نے اسی مقصد کے لیے یہ قدم اٹھایا ہے
تو پھر اسے پاگل کے طور پر پیش کرنے کی بجائے اس کا نفسیاتی معاینہ کرانا چاہیے اور
قوم کو بتایا جائے کہ آخر ایک شخص اپنے بیوی بچوں سمیت اس طرح کے اقدام پر کیوں
مجبور ہوا؟ عین ممکن ہے کہ سکندر کے اس اقدام کے پیچھے بھی سیاست دانوں سے نفرت کے
جذبات کارفرما ہوں۔ یہ خبر بھی آئی ہے کہ سکندر کا بیٹا دبئی میں قید ہے، وہ اسے
چھڑوانا چاہتا تھا، اگر یہ درست ہے تو پھر اسے ایسی سزا دینی چاہیے، آیندہ کوئی اس
طرح کے اقدام کا تصور بھی نہ کرسکے۔
اب ذرا زمردخان کے ایکشن کی بات ہوجائے، لوگ کہہ رہے ہیں انہوں نے بڑی بہادری کا
مظاہرہ کیا ہے، واقعی یہ بہادری کا کام ہے، مسلح شخص کے سامنے جاکر کھڑا ہونا اور
اسے دبوچنے کی کوشش کرنا بڑے دل گردے کی بات ہے، مگر بہادری اور بے وقوفی میں جو
فرق ہے اسے بھی سامنے رکھنا چاہیے۔ کہا جارہا ہے، پولیس 5گھنٹے سے کچھ نہیں کرپارہی
تھی، زمردخان کے ایکشن کی وجہ سے کم ازکم ڈرامے کا ڈراپ سین تو ہوا۔ بھیا! اگر
سکندر کو گولیاں مارکر ہی ڈراپ سین کرنا تھاتو وہ پولیس بھی کرسکتی تھی، لیکن اسے
ایسا کرنا نہیں تھا، وہ سکندر کو مارنا نہیں پکڑنا چاہتی تھی اور یہی بہتر حکمت
عملی تھی۔ زمردخان نے تو اپنی، خاتون اور دو بچوں کی زندگی کو داؤ پر لگادیا تھا،
اگر پولیس کمانڈوز گولیاں نہ چلاتے تو نجانے کیا سانحہ رونما ہوجاتا۔ اگر اس فائرنگ
کے نتیجے میں سکندر مرجاتا تو تب بھی سب ہاتھ ملتے رہ جاتے۔ اس طرح کے معاملات میں
ملزمان کو زندہ ہی پکڑا جاتا ہے تاکہ ان سے تفتیش کی جاسکے۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پولیس کچھ نہیں کررہی تھی، اس لیے کسی کو تو کچھ کرنا تھا۔
اچھا! آپ بتائیں، ان 5 گھنٹوں میں مسلح شخص سے کسی کو کوئی نقصان پہنچا؟ کیا پورے
شہر کی ٹریفک معطل ہوگئی تھی؟ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، اگر معاملہ دو، چار گھنٹے اور
آگے چلتا تو اس سے کیا فرق پڑتا۔ دنیابھر میں اس طرح کے معاملات کو بڑے سکون اور
صبر سے نمٹایا جاتا ہے۔ گھنٹوں مذاکرات چلتے ہیں، الیکشن مہم کے دوران کتنے لوگ
لاہور میں نوازشریف کی رہائش گاہ کے سامنے بجلی کے کھمبے پر چڑھ جاتے تھے، کسی کو
بھی گولی ماری گئی، نہ زبردستی اتارنے کی کوشش کی گئی بلکہ انہیں بہلاپھسلاکر قابو
کیا گیا۔ ہاں! سکندر کے معاملے میں پولیس کو مکمل کلین چٹ دینا بھی ممکن نہیں، اگر
انتظامیہ چاہتی تو اسے ان پانچ گھنٹوں میں ملزم کو پکڑنے کے درجنوں مواقع ملے تھے،
جو پولیس اہلکاروں نے اپنی ناتجربہ کاری یا بزدلی کی وجہ سے گنوادیے۔ زمردخان کا
اقدام سراسر بے وقوفی پر مبنی تھا، آج جو لوگ ان کی تعریفیں کررہے ہیں، اگر جانی
نقصان ہوجاتا تو یہی لوگ انہیں طعنے دے رہے ہوتے۔ پی پی رہنما کو ستارہ جرأت نہیں
بلکہ تمغہ حماقت ملنا چاہیے۔ بھائی لوگو! آپ سے بھی یہی کہنا ہے کہ زمردخان بن کر
کسی مسلح شخص پر چھلانگ مت لگابیٹھنا۔ رانا ثناء اﷲ نے ٹھیک کہا ہے ’’جو لوگ یہ کام
کرنا چاہیں انہیں پہلے اپنا وزن کم اور کمانڈو تربیت لینی چاہیے۔‘‘ |