وائٹ ہاؤس سے جاری ایک بیان میں بھارت و پاکستان سے کہا گیاہے کہ وہ باہمی مذاکرات
سے مسئلہ کشمیر کو حل کریں۔۔۔اس مجوزہ بیان نے دنیا بھر کو چونکا دیا ۔۔۔کہ کئی
برسوں کی خامشی کے بعدآج امریکن کو کشمیر کیسے یاد آیا۔۔۔؟اس کی وجہ کچھ یوں ہے کہ
کچھ روز پہلے امریکن صدر باراک حسین اوباما وائٹ ہاؤس کے’’ آنگن‘‘ میں ناشتہ تناول
فرما رہے تھے کہ میز پہ کچھ اخبارات بڑھے تھے کہ ان کی نظرایک ’’کشمیری روزنامے
‘‘پر پڑی ۔جس کے صفحہ نمبرپانچ پر ایک بیاں درج تھا کہ ! امریکہ مقبوضہ کشمیر میں
ہونیوالی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکے۔۔۔متحدہ عرب امارات میں مقیم ایک
کشمیری رہنما کے اس سخت ترین بیان کو پڑھتے ہی’’ جناب صدر ‘‘نے ناشتہ ادھورہ چھوڑا
،فوری کانگریس کا اجلاس طلب کیالیا ۔۔۔ وائٹ ہاؤس میں ہلچل مچ گئی اور اسی شام
امریکن دفتر خارجہ سے ’’کشمیر‘‘ پر بیان جاری ہو ا اور دوسرے روز اقوام متحدہ نے
بھی کشمیر میں ہونیوالی ہلاکتوں پر تشویش کا اظہارکیا ۔۔۔اﷲ اﷲ خیرصلہّ‘‘۔۔۔ مسئلہ
کشمیر کو سب سے زیادہ مذاق و تماشا خود ریاستی عوام بناتے رہیں ہیں بے شک کسی بھی
روز کسی بھی ریاستی اخبار کو اٹھا کر دیکھ لیجئے۔۔۔دنیا کے کونے کونے سے ریاستی
اخبارات کے زریعے کشمیریوں کی جانب سے امریکہ سمیت دنیا کی تما م چھوٹی بڑی طاقتوں
کے لئے نت نئی ہدایات واحکامات جاری کئے جاتے ہیں ۔۔۔بہر حال۔۔۔
اسلام آباد اپنے داخلی مسائل کے پیش نظر ایک عرصے سے بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات
بہتر بنانے کی کوشش میں ہے یہاں تک کہ پاکستانی میڈیا اور حکومت نے مسئلہ کشمیر سے
خاصی دوری اختیار کر رکھی ہے اس لئے کہ حالات ہر گز ایسے نہیں کہ خدانخواستہ کسی
بھی قسم کا کوئی رسک لیا جائے ،جبکہ بھارت کی یہ فطرت ہے کہ وہ جب ہاوی ہونے لگے تو
کوئی گنجائیش باقی نہیں رکھتا ،یہی وجہ ہے کہ تقسیم ہندوستان کے وقت سے ہی اسکی
پالیسی رہی کہ وہ کشمیر کے جموں ریجن کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدل سکے اور اسکے
لئے وہ مسلسل غیر ملکی آباد کاری میں مصروف رہا اورہر دور میں ہندو مسلم فرقہ
وارانہ فسادات کے زریعے مسلم کشی کرتا رہا اور کامیاب بھی رہا۔اور اسی جدوجہد کو
آگے بڑھاتے، گزشتہ رمضان میں ’’جموں ‘‘کی ایک مسجد میں فوجی سپاہیوں نے ’’قرآن پاک‘‘
کی انتہائی بے حرمتی کی ’’جس کی تصویوریں سوشل میڈیا کے زریعے اقوام عالم نے دیکھیں
،اور احتجاج کرنے پر امام مسجد کو بے دردی سے شہید کر دیا ۔جسکے بعد پورے ریجن میں
عوامی احتجاج کی لہر اٹھی اور اس پر امن احتجاج پر بے تحاشا فائرنگ کر کے سینکڑوں
مظائرین کو شہید کر دیا گیا، پھر یہ احتجاج وادی سمیت آزاد کشمیر تک پہنچا ۔اسی
اثناء میں بھارتی افواج کی جانب سے کنٹرول لائن پر بلا اشتعال فائرنگ کا ایک
لامتنائی سلسلہ چل نکلا اور شہادتیں ہونے لگی اور لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے ۔۔۔یاد
رہے ۔۔۔اس سے کچھ ہی عرصہ پہلے امریکہ اور بھارت نے کشمیر میں مشترکہ فوجی مشقیں
کرنے کا بھی علان بھی کر رکھا تھا۔۔۔؟
افغانستان میں نیٹو فرسز کی آمد کے ساتھ ہی بھارت نے وہاں گلی محلوں میں کونسل خانے
قائم کر لئے تھے۔بھارتی عزائم کو جاننے سمجھنے کے باوجود اس وقت کے فوجی و سول
حکمرانوں نے اس کے لئے کوئی جامع حکمت عملی ترتیب نہ دی ۔۔۔بس امریکن کو خوش کرنے
میں لگے رہے ۔رہی سہی کسر اس وقت کی سول حکومت نے پوری کر دی جب انہوں نے دسیوں
ہزار امریکنوں کو بنا تحقیقات کے ملک میں داخلے کی اجازت دیدی ۔اور اس طرح امریکہ و
بھارت نے مل کر پاکستان میں دہشت گردی کا ایسا خوفناک کھیل شروع کیا کہ آج پاکستان
کا کوئی گھر محفوظ نہیں اور ہر انسان موت کی دہلیز پہ کھڑا ہے۔اور ملک کی تما م
فورسز اس غیر ملکی نیٹ ورک کو توڑنے میں ناکام ہو چکی ہیں ۔بیرونی طاقتوں نے پہلے
تو فوجی آمر سے سابق گورنر بلوچستان’’ نواب اکبر بگٹی‘‘کو قتل کروایا اور پھر اسکے
رد عمل کو بغاوت میں بدل کر بلوچوں کے ہاتھ میں اسلحہ دیدیا کہ وہ آج اپنے وسائل پر
اپنا حق نہیں بلکہ ’’پاکستان سے آزادی‘‘کے طلبگار بن گئے اور اس طرح بلوچستان میں
مسلح جد و جہد آزادی اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردی جس نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ
میں لے کر پاکستان کی معیشت کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے ۔
دوسری جانب بھارت نے اپنے زیر قبضہ کشمیر میں متعدد ڈیم تعمیر کر کہ سارے پانی پر
کنٹرول حاصل کر لیا ہے جب چاہے کھلا چھوڑ کہ پاکستانی دیہاتوں اور شہروں کو بہا دے
جب چاہے بند کر کہ اسکی زراعت کی ایسی تیسی کر دے۔اس طرح آج پاکستان تاریخ کے بد
ترین بہرانوں سے دو چار ہے اور ان حالات میں اسکی جانب سے دوستی کی بات کیجاتی ہے
لیکن ہندوستان جس نے پاکستان کو اس حال میں پہنچایا وہ شرافت و دوستی کی زبان کیسے
سنے گا۔۔۔؟یہی وہ سارا منظر نامہ ہے کہ آج امریکن کی جانب سے جو کہا گیا اس سے صاف
ظائر ہے کہ انہوں نے اپنی حکمت عملی سے پاکستان کو شائد اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ
وہ دونوں مل کرکشمیر کے حوالے سے اپنی شرائط پر کوئی نیا’’ شملہ‘‘ معائدہ کرا سکیں
گے۔
اب سوال یہ ہے کہ اسلام آباد کے مکین ان چیلنجوں کا کیسے مقابلہ کریں گے ؟دو ممالک
کا ماضی تلخ یادوں سے بھرا پڑھا ہے کل کو ہی بھارت نے پاکستان کو کہا تھا کہ آپ
’’حیدر آباداور جوناگڑھ‘‘ریاستوں میں شرارت کرنا بند کر دیں ہم کشمیر چھوڑ دیتے ہیں
تب پاکستان موقع سے فائدہ نہ اٹھا سکا اور بھارت نے وہ دونوں بھی لے لئے اور کشمیر
بھی نہ چھوڑا ۔آج ایک بار پھر بھارت امریکن مدد سے پاکستان کی حدود کے اندر گھس آیا
اور کہہ سکتا ہے کہ میں بلوچستان چھوڑتا ہوں آپ کشمیر سے دستبردار ہو جاؤ ۔کیوں کہ
بھارت یہ بھی نہیں چاہے گا کہ بلوچستان پاکستان سے علیحدہ ہو اور امریکہ اس میں آکر
بیٹھ جائے اس لئے پاکستانی حکمرانوں کو یقین رکھنا چاہیے کہ پاکستان نا قابل تسخیر
ہے اور اس کے ٹوٹنے کا کوئی خدشہ نہیں البتہ اسکی اصل معاشی شہ رگ کشمیری پانی ہیں
جن کا بھارت کے کنٹرول میں جانا معیشت کی بر بادی ہوگاجو پھر بھی ملک کے حصے بخرے
ہونے کا سندیسہ ہے اور بڑے ہی معصوم لوگ ہیں جو امریکہ سے مسئلہ کشمیر کے حل کی آس
لگائے بیٹھے ہیں یہ اٹل حقیقت ہے کہ امریکہ کبھی بھی مسئلہ کشمیر کو حل کرنے میں
مخلص نہیں رہا کیوں کہ وہ چین کو کنٹرول کرنے بھارت کو سامنے لا سکتا ہے مگر وہ
کبھی نہیں چاہے گا کہ بھارت اسکے کے لئے چین سے بڑا خطرہ بنے ۔۔۔؟اسلئے بھارت کو
کنٹرول میں رکھنے کے لئے مسئلہ کشمیر کا زندہ رہنا ضروری ہے ان حالات میں مسئلہ
کشمیر پر کسی’’ شملہ‘‘ سٹائل کے معائدے کا آنا محض’’ نئی بوتل پرانی شراب‘‘ثابت ہو
گاجب کہ اس کا حشر سابقہ شملہ سے بھی بد ترین۔۔۔اس لئے کہ ریاستی عوام نے آزادی کا
فیصلہ کر رکھا ہے ماسوائے چند وطن فروشوں کے۔۔۔ |