دنیا کے وسائل پر قبضے کی جنگ

مسلم امہ کی معیشت
دنیا کی کل مسلم آبادی 1.62 ارب کے لگ بھگ ہے۔ جو دنیا کی کل آبادی کا تقریبا 23 فیصد ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے دنیا کے کل رقبے میں 21.7 فیصد رقبہ مسلم دنیا کے پاس ہے۔
سب سے زیادہ آبادی والے مسلم اکثریت والے ممالک انڈونیشیا، پاکستان اور بنگلہ دیش ہیں۔ جہاں دنیا کی کل مسلم آبادی کا تقریبا 36 فیصد حصہ ہے۔
مسلم امہ علم کے میدان میں ناکامی سے دوچار ہے۔ ایک کروڑ 40 لاکھ یہودیوں کے مقابلے میں ڈیڑھ ارب مسلمان سیاسی و اقتصادی طور پر کمزور تر ہو رہے ہیں۔ اسلامی ممالک میں صرف 500 یونیورسٹیاں، امریکہ میں 5758 اور بھارت میں 8460 یونیورسٹیاں کام کر رہی ہیں۔ عیسائیوں میں شرح خواندگی 90 فیصد، مسلمانوں میں صرف 40 فیصد ہے۔ مسلم دنیا میں ریسرچ پر جی ڈی پی کا صرف 0.2 فیصد خرچ ہوتا ہے۔

عطا محمد تبسم

دنیا میں وسائل پر قبضے کی جنگ تیزی سے جاری ہے۔ دنیا کے اسی فیصد وسائل پر بیس فیصد ترقی یافتہ ممالک قابض ہیں۔ یہ ممالک غریب ملکوں پر جنگیں مسلط کرتے ہیں۔ ان پر قبضے کرتے ہیں، انسانوں کو قتل کرتے ہیں، انھیں غلام بناتے ہیں،اور ان کے وسائل پر قبضہ کرلیتے ہیں۔ امریکہ دنیا میں شہتر بے مہار ہے، جو جس طرف چاہتا ہے پیش قدمی کرتا ہے۔ انسانوں پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مظالم بڑھتے جا رہے ہیں۔ جس سے ان ممالک کے عوام میں غم و غصہ بڑھ رہا ہے، تشدد کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے اور دنیا میں انسان کی آزادی ایک خواب ہوکر رہ گئی ہے۔ امریکی جارحیت اور امریکی حمایت کی زد بالخصوص تیسری دنیا پر پڑتی ہے اور اس کا شکار بالعموم پسماندہ اور مفلس انسان ہی ہوتے ہیں، جن میں مجموعی طور پر مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ مسلم دنیا میں زیادہ سے زیادہ عدم استحکام پیدا کرنا بظاہر مغربی پالیسیوں کا مرکزی نکتہ محسوس ہوتا ہے۔ امریکہ اور یورپ اس حقیقت سے کسی طور انکار نہیں کرسکتے کہ انہوں نے گزشتہ سوسال کے عرصے میں تیل کی دولت سے مالا مال مسلم ممالک کو کنٹرول کرنے کی کوشش کے دوران پوری مسلم دنیا کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ شاید دانستہ طور پر طے کر لیا گیا تھا کہ مسلم ممالک کو پسماندگی سے دوچار رکھنا ہے۔پس پردہ حقیقت تو یہی محسوس ہوتی ہے کہ دنیا بھر میں جنگ کا ماحول گرم کرکے قیمتی وسائل کی لوٹ مار پر پردہ ڈالنے کے لیے ہی انسانی حقوق اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نعرہ بلند کیا جائے۔ سامراجی دانشور سیموئل پیٹر ہٹینگٹن نے 1993ء میں، تہذیبوں کے تصادم کا مفروضہ ایجاد کیا تھا۔ اس مفروضے میں بتایا گیا کہ دنیا بھرمیں جہاں بھی کسی قسم کی تصادم کی صورتحال موجود ہے ،اس کے پس پردہ اقتصادیات یا معاشیات کی تھیوری نہیں بلکہ اصل وجہ تہذیبوں کا باہمی ٹکراؤ ہے۔ہٹینگٹن کی محض اس ایک دلیل سے ہی استعماری طاقتوں کا مکروہ چہرہ ظاہر ہو جاتا ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق تہذ یب سے تو مراد ہی مہذب انسانوں کا گروہ ہے، انسانی گروہ اْسی وقت باہم دست و گریباں ہوتے ہیں یا کسی قوم یا گروہ پر حملہ آور ہوتے ہیں،جبکہ وہ تہذیب یافتہ نہیں ہوتے۔تہذیب کا مطلب ہے کہ لوگ اپنے مسائل کا حل آپس میں پْرامن طریقے سے بات چیت کے ذریعے نکالیں، تہذیب یافتہ سماج میں رہنے والے لوگ ایک دوسرے کو نقصان نہیں پہنچاتے ہیں۔ فریب اور دھوکے سے کسی گروہ یا قوم پر حملہ آور ہونا یا اپنے مفاد کے لیے کسی خطے میں تصادم کی صورتحال پیدا کرنا کیا مہذب ہونے کی علامت ہوسکتی ہے؟شاید ہٹینگٹن صاحب کا مقصد اپنے آقاؤں کو بدنامی سے بچانا تھا اسی لیے انہوں نے اس سفید جھوٹ کو گڑھا۔ انہوں نے بتایا کہ عیسائی اور ہندو تہذیب، مسلم تہذیب سے اوربدھ تہذیب کنفیوشس تہذیب سے ٹکرا رہی ہے۔ لیکن یہ سب ڈھکوسلا ہے، اصل بات وہی ہے ۔ مسلمانوں کو تہس نہس کرنا اور انھیں ان کے وسائل سے محروم کرنا۔ دنیا میں مسلمان ایک قوت تو ہیں لیکن غیر منظم اور مختلیف گروہوں میں بٹے ہوئے۔ مسلم امہ کا تصور پارہ پارہ ہوچکا ہے۔ مسلمان ایک جسد ہیں۔ انھیں منظم کرنے کی ضرورت اب شدت سے محسوس کی جاتی ہے۔دنیا میں تمام مسلم ممالک کی معیشت کا مشترکہ حجم کیا ہے؟ جو دنیا میں سب سے زیادہ متحرک اور تعداد میں بھی زیاد ہیں؟ مسلم ممالک کے اہم اقتصادی خصوصیات میں سے کچھ کیا ہیں؟ اس بارے میں جوکچھ آسانی سے دستیاب جوابات موجود ہیں۔شائد یہ ہمارے لئے حیرت کی بات ہو، ہم میں سے بہت سے لوگ دنیا کی کل مسلم آبادی کے بارے میں نہیں جانتے۔بلکہ ہم میں سے اکثر مسلم دنیا کے بہت سے ممالک کے بارے میں بھی غلط فہمی کا شکار ہیں۔ پاکستان میں ذرائع ابلاغ اکثر او آئی سی کے رکن ممالک کی فہرست میں اٹھاون یا ستاون ممالک لکھتے ہیں۔ اور اس کے لئے او آئی سی کی تنظیم کی ویب سائٹ کا حوالہ دیتے ہیں۔ لیکن یہ صحیح نہیں ہے، 57 یا 58 جن مسلم ممالک کی تعداد کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ اس میں مسلم اکثریت والے ممالک شامل ہیں۔ لیکن نائیجیریا اور موزمبیق جیسے ممالک جو او آئی سی کے ارکان کے طور پر درج ہے، مسلم اکثریت والے ممالک نہیں ہیں. اس میں سب سے زیادہ مستند فہرست 49 ممالک کی ہے۔ جو مسلم اکثریت والے ممالک ہیں۔ یہ فہرست پیو ریسرچ سینٹر کی طرف سے 2010 میں جاری ہوئی۔ اس میں مسلم اقلیت والے ممالک جیسے بھارت اور نائجیریا ،کیراٹ cohort بھی شامل ہیں۔ جہاں ایک بڑی مسلم اقلیت موجود ہے۔ دنیا کی کل مسلم آبادی 1.62 ارب کے لگ بھگ ہے۔ جو دنیا کی کل آبادی کا تقریبا 23 فیصد ہے۔ جغرافیائی سائز کی بات کی جائے تو دنیا کے کل رقبے میں 21.7 فیصد رقبہ مسلم دنیا کے پاس ہے۔ رقبے کے لحاظ سے مسلم دنیا کا سب سے بڑا ملک قازقستان ، جب اس کے بعد مسلم ممالک میں الجزائر، سوڈان، سعودی عرب اور انڈونیشیا آتے ہیں۔دنیا کی مسلم آبادی میں سے تقریبا 22 فیصد آبادی ، عرب ممالک میں بستی ہے جبکہ تقریبا 1.3 ارب مسلمانوں کی آبادی باقی ماندہ مسلم اکثریت والے ممالک میں بستی ہے۔ جبکہ سب سے زیادہ آبادی والے مسلم اکثریت والے ممالک انڈونیشیا، پاکستان اور بنگلہ دیش ہیں۔ جہاں دنیا کی کل مسلم آبادی کا تقریبا 36 فیصد حصہ ہے۔ دنیا میں سب سے چھوٹا مسلم ملک مالدیپ کا جزیرہ ہے۔ جس کی کل آبادی 338.442 ہے۔ دنیا کے تمام مسلم ممالک کی معیشت کامجموعی حجم $ 5.7 ٹریلین ہے۔ جو دنیا کی مجموعی معیشت کا آٹھ اعشاریہ ایک فیصد ہے۔ اسلامی دنیا میں سب سے بڑی معیشت ترکی ($ 775bn) اور سعودی عرب ($ 577bn) کی ہے۔ اس کے بعد انڈونیشیا ہے۔ جس کی معیشت کا سائز $ 846 ارب ڈالر ہے۔ ایران کی معیشت کا سائز 500bn $ ہے۔ دوسرے مسلمان ملکوں میں پاکستان آبادی کے لحاظ سے دوسرا سب سے بڑا مسلم ملک ہے، اس کی معیشت کے حجم کے لحاظ سے اسلامی دنیا میں آٹھویں نمبر پر ہے۔ . مسلم اکثریت والے ممالک کی معیشت کو تیل کی شراکت کو چھوڑ کر، اسلامی دنیا کی عدم تیل کی جی ڈی پی دنیا کی جی ڈی پی میں بہت معمولی یعنی4 فیصد ہے.اسلامی دنیا کا سب سے بڑا غیر تیل کی پیداوار معیشت والا ملک ترکی ہے جس کے بعد ملائیشیا اور پاکستان کا نمبرآتا ہے۔ .1980 کے بعد سے مسلم دنیا میں سب سے تیز رفتار سے بڑھتی ہوئی معیشتوں میں قطر (جن کی معیشت اس مدت کے دوران 22 گنا اضافہ ہوا ہے )، عمان (12 گنا اضافہ)، ملائیشیا (11.5 گنا اضافہ)، ترکی (11.3 گنا اضافہ)، انڈونیشیا ( 10.8 گنا اضافہ) اور مصر (10.3گنا اضافہ). پاکستان میں بھی 1980 ء کے بعد سے 8.9 گنا معیشت کے حجم میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے مقابلے میں دنیا کے جی ڈی پی میں اس مدت کے دوران 6.4 گنا اضافہ ہوا ہے۔ مجموعی طور پر مسلم ممالک کی مشترکہ فی کس آمدنی $ 4.185 یعنی چالیس فیصدکے مترادف ہے۔فی کس آمدنی (موجودہ امریکی ڈالر) کے لحاظ سے امیر مسلم ممالک میں قطر، کویت اور برونائی دارالسلام ہیں. 2012 کے مطابق ان ممالک میں فی کس آمدنی 90.524 $، $ 56.514 ڈالر اور 41.127 ڈالر تھی۔ پاکستان مسلم دنیا میں فی کس آمدنی کے لحاظ سے 30th نمبرپر آتا ہے۔ مسلم دنیا کے اندر سب سے بڑے برآمد کنندگان میں سعودی عرب$ 376bn، ملائیشیا 264bn $، انڈونیشیا $ 213bn ڈالر اور ترکی ڈالر 185bnہیں. سب سے بڑے غیر تیل برآمد کنندگان ملک ملائیشیا اور ترکی ہیں۔دور جدید میں سب سے زیادہ ہائی ٹیکنالوجی برآمد کرنے والے مسلم اکثریت والے ملک میں ملائیشیا ہے۔ جو ہر سال ہائی ٹکنالوجی اشیا کی تقریبا $ 60bn مالیت کی برآمد کرتا ہے۔اس کے بعد انڈونیشیا، قازقستان اور ترکی ہیں.قازقستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان - - خواندگی کے لحاظ سے، سب سے زیادہ تعلیم یافتہ مسلم اکثریت والے ممالک وسطی ایشیائی ممالک ہیں۔ پاکستان اس فہرست میں سب سے نیچے ہے۔ ورلڈ ڈیولپمنٹ فہرست کے مطابق، افغانستان صحت کے اخراجات کے لحاظ سے مسلم دنیا میں سب سے اوپر ہے۔ پچیس مسلم ممالک ایسے ہیں جوصحت کی خدمات پر جی ڈی پی کا 5pc یا اس سے زیادہ خرچ کرتے ہیں - پاکستان اس فہرست میں مسلم دنیا کے اندر سب سے نیچے سے ساتویں نمبر پر ہے۔ آخر میں، سائنس اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے صرف ایک مسلم ملک تیونس میں تحقیق اور ترقی پر جی ڈی پی کا ایک فیصد سے زیادہ خرچ کیا جاتا ہے۔ مسلم دنیا کے باقی ملکوں میں آر اینڈ ڈی ریسرچ اور ڈیولیپمنٹ پر خرچ کرنے والوں میں ترکی دوسرا ملک ہے - پاکستان حالیہ اعداد و شمار کے ساتھ اس فہرست میں حیرت انگیز طور پر چوتھے نمبر پر ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اسلامی ممالک کو بے شمار نعمتوں، بے پناہ قدرتی وسائل اور متنوع انسانی وسائل سے نوازا ہے۔ اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی اقوام متحدہ کے بعد دنیا کی سب سے بڑی اور نمائندہ تنظیم ہے۔ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد عالم اسلام انتشار کا شکار رہا ہے۔ اس لیے او آئی سی کا قیام عمل میں آیا۔ او آئی سی نے ابتداء میں کچھ نمایاں کام کیے لیکن رفتہ رفتہ اس کی آواز غیر موثر ہوتی گئی لیکن عالم اسلام میں اس بات کی ضرورت کو محسوس کیا جارہا ہے کہ او آئی سی کو نہ صرف سیاسی بلکہ معاشی محاذوں پر ہی متحرک کیا جائے۔ معاشی میدان میں کچھ پیش رفت بھی ہوئی ہے اور فروری 2009 کو بین الاقوامی زکواۃ آگنائزیشن کا قیام عمل میں آیا تھا اور اندازہ تھا کہ اس کے ذریعے سالانہ 65 کروڑ ڈالر کے لگ بھگ زکواۃ اکھٹی کی جائے گی۔اور اس رقم کو عالم اسلام غربت، افلاس، بے روزگاری اور جہالت کے خاتمے کے لیے استعمال کرے گا۔ لیکن یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔اس وقت جبکہ دنیا میں مختلف تجارتی بلاکس وجود میں آچکے ہیں، مختلف ممالک کے درمیان تجارت اور اقتصادی تعاون کے بلاک کی تشکیل مختلف مسلم ممالک میں اسلامی معیشت ومالیاتی نظام کے قیام، اسلامی بینکنگ کے فروغ، سود سے نجات کے لیے مربوط، منظم اور مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ عالمی معیشت میں اس وقت مسلمانوں کا حصہ بہت زیادہ نہیں ہے۔ جبکہ باہمی اقتصادی تعاون، باہمی تجارت کے فروغ، سائنس اور ٹیکنالوجی پر توجہ اور باہمی اشتراک اور عالم اسلام کے پاس موجود قدرتی اور انسانی ذرائع سے بھر پور فائدہ اٹھانے سے صرف آئندہچند برسوں میں مسلم ممالک کا عالمی مجموعی قومی پیداوار میں حصہ دگناہوسکتا ہے۔ مسلم ممالک میں سے ترکی، پاکستان، مصر، انڈونیشیا، ملائیشیا، نائیجریا اور بنگلہ دیش کا شمار دنیا کی ابھرتی ہوئی معاشی قوتوں میں شامل ہے پاکستان اگرچہ دہشت گردی کی جنگ، بدامنی اور توانائی کے بحران کی وجہ سے متاثر ہوا ہے تاہم اب بھی اس ملک میں ترقی کرنے اور معاشی قوت بننے کا بڑا پوٹینشل موجود ہے۔ خلیج کے ممالک میں بھی معاشی اور اقتصادی ترقی کا بے حد پوٹینشل موجود ہے۔خوارک کی قلت دور کرنے لیے او آئی سی فوڈ سیکورٹی پلان تشکیل دیا جائے اور زرخیز مسلم ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے کسی امیر مسلم ممالک ٹیکنالوجی کے حصول اور فی ایکٹر پیداوار میں اضافے اور زرعی تحقیق میں مدد کریں تو مسلم ممالک کی زرخیز زمینوں سے بھر پور فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔

اس وقت یورپ کے متعدد ممالک شدید اقتصادی بحران سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ شرح نمو گر رہی ہے، یونان، اٹلی، اسپین قرض کے جال میں پھنس چکے ہیں اور اقتصادی مشکلات نے فرانس
برطانیہ اور جرمنی کو بھی متاثر کیا ہے۔ یہ بہترین وقت ہے کہ اسلامی ممالک اپنے ملک میں اسلامی اقتصادی نظام کو متعارف کرکے سودی و سرمایہ دارانہ نظام معیشت و جاگیرداری سے چھٹکارا حاصل کریں اور دنیا کو اسلامی معیشت واقتصادیات کی برکات کے عملی ثمرات سے آگاہ کریں۔ اسلامی نظام بینکاری اور حلال فوڈ اب صرف مسلمانوں ہی نہیں بلکہ غیر مسلموں میں بھی مقبولیت حاصل کرتے جاررہے ہیں اس لیے مسلمانوں کو شریعت کے مطابق تجارت اور کاروبار اور سب سے بڑھ کر معیشت کو اختیار کرنا بے حد ضروری پڑگیا ہے۔ اس میں دینا اور آخرت دونوں کا نفع ہے۔ اسلامی اقتصادی نظام ہمیں دینا اور آخرت دونوں کی بے چینی سے بچاتا ہے۔ دونوں کے نقصانات سے محفوظ رکھتا ہے۔دنیا کے بیشتر مالک کی معیشت کا دارو مدار تیل پر ہے جبکہ دنیا کے 70 فیصد تیل کے ذخائر مسلم ممالک کے پاس ہیں۔ عالمی آبادی میں اضافے کی وجہ سے تیل کی طلب میں اضافہ ہورہا ہے۔ اگر تیل کی موجودہ طلب برقرار رہی تو اسلامی ممالک کی شرح نمو 5 فیصد تک رہے گی۔ عالمی اقتصادی بحران اور سودی معیشت کی نحوست کی وجہ سے جو نقصانات 2007 سے 2009میں ہوئے اس کا اندازہ 3 ہزار 400 ارب ڈالر تک لگایا گیا ہے جو دنیا کے 35ممالک کی مجموعی قومی آمدنی سے زیادہ ہے۔ جاپان جیسے مضبوط اور مستحکم معاشی بنیادیں رکھنے والے ملک کی معیشت 6فیصد سکڑ گئی، یورپی ممالک کی معیشت میں 4 فیصد کی کمی ہوئی۔ عالمی سطح پر بے روزگاری کی شرح 2007 میں 5.6 فیصد تھی جو 2010 تک بڑھ کر 6.2 فیصد ہوگئی۔ ااسلامی ممالک میں ملائیشیا 14.1 فیصد، سعودی عرب 13.6 فیصد، انڈونیشیا 9.4 فیصد، متحدہ عرب امارات 9.3 فیصد، ترکی 6.8 فیصد ایران 6.1 فیصد کے ساتھ نمایاں برآمداتی ممالک ہیں۔ درآمدات کے لحاظ سے ملائیشیا 12.6 فیصد، ترکی 12.4فیصد، متحدہ عرب امارات 11 فیصد، انڈونیشیا 9 فیصد، سعودی عرب 6 فیصد کے ساتھ نمایاں ہیں جبکہ پاکستانی عالم اسلام کا 10 واں بڑا درآمدی ملک ہے اور کل اسلامی ممالک کی درآمدات ہی اس کا حصہ تقریباً 3 فیصد ہے۔ اسلامی ممالک میں باہمی برآمدات میں سعودی عرب 35.4 ارب ڈالر، متحدہ عرب امارات 34.1 ارب ڈالر، ترکی 32.2 ارب ڈالر، ملائیشیا 22 ارب ڈالر انڈونیشیا 17.4 ارب ڈالر، ایران 13.5 ارب ڈالر اور مصر 10.2 ارب ڈالر کے ساتھ نمایاں ہیں۔ اسلامی ممالک میں باہم تجارت بڑھانے کے لیے مسلم ممالک کو ٹیرف میں کسی کو منصوبہ بندی کرنی ہوگی اور آئندہ برسوں میں اس میں 5 سے 25 فیصد کمی کرکے باہمی تجارت کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ اسلامی ممالک کے تاجروں کو مربوط اور منظم رابطوں کے ذریعے انہیں تجارت کو فروغ دینا چاہیے اور مسلم ممالک کے درمیان مشترکہ ایوان ہائے صنعت وتجارت کے قیام، باہمی آزاد اور ترجیحی تجارتی معاہدوں، مفاہمت کی یاداشتوں اور مشترکہ تجارتی اور صنعتی نمائشوں کے علاوہ کاروباری وفود، اطلاعات و معلومات اور تجارتی ومعاشی تحقیقات کے تبادلے سے ہی مثبت نتائج برآمد ہوسکتے ہیں نیز مسلم ممالک میں کاروباری برادری کو قریب لانے کے لیے ویزے کی پابندیوں میں نرمی، مسلم ممالک میں مشترکہ اور قابل قبول تجارتی معیار کا اجرائبھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔مسلم امہ علم کے میدان میں ناکامی سے دوچار ہے۔ ایک کروڑ 40 لاکھ یہودیوں کے مقابلے میں ڈیڑھ ارب مسلمان سیاسی و اقتصادی طور پر کمزور تر ہو رہے ہیں۔ اسلامی ممالک میں صرف 500 یونیورسٹیاں، امریکہ میں 5758 اور بھارت میں 8460 یونیورسٹیاں کام کر رہی ہیں۔ عیسائیوں میں شرح خواندگی 90 فیصد، مسلمانوں میں صرف 40 فیصد ہے۔ مسلم دنیا میں ریسرچ پر جی ڈی پی کا صرف 0.2 فیصد خرچ ہوتا ہے۔ مسلم حکمرانوں کو تو لگتا ہے بس مال و دولت جمع کرنے، بلند و بالا عمارات بنانے، عالیشان محلات کی تعمیر عیاشی یا علاج کرانے کیلئے یورپی ممالک میں جانے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں سوجھتا۔ ایک طرف ہم تعلیم کو مسلمان کی میراث بتاتے ہوئے نہیں تھکتے اور دوسری طرف ہماری یہ حالت ہے کہ پڑھ کر شرم آتی ہے۔ ہم جو دنیا پر چھانے کے خواب دیکھتے ہیں جدید علوم اور ٹیکنالوجی کے میدان میں دنیا میں ہماری کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔ ہمارے حکمران اپنے اقتدار کی خاطر صدیوں سے عوام کو جہالت کے اندھیروں سے نکالنے کیلئے تیار نہیں کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ اگر یہ مجبور و محکوم عوام علم و ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھ گئے تو پھر ان کا اقتدار خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ اس وقت دنیا بھر کے مسلم ممالک مختلف قسم کے وسائل سے مالا مال ہیں، دھن دولت انکے پاس بے شمار ہے، یورپی و امریکی بنک انکے سرمائے سے بھرے پڑے ہیں اگر وہ اس دولت سے اپنے ممالک میں علم کی دولت عام کریں ٹیکنالوجی کی راہیں کھولیں تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ ممالک علمی میدان میں کامیابی و کامرانی کے جھنڈے نہ گاڑ سکیں-
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387495 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More