عرصہ دراز سے عالم اسلام پر نہ صرف بہت سی بلائیں وارد ہو رہی ہیں بلکہ یہ مسلسل
مختلف قسم کے مصائب کا شکار ہے اگر تو یہ مصائب اور یہ تکلیفیں صرف غیروں کی طرف سے
نازل کی جا رہی ہوتیں تو یہ ایک بہت ہی تکلیف دہ امر ہوتا لیکن اس سے بڑھ کر تکلیف
دہ امر تو یہ ہے کہ عالم اسلام خود ایک دوسرے کے لئے د کھوں اور تکلیفوں کا ذمہ دار
ہے اور دو حصوں میں بٹ کر مسلسل سالہا سال سے ایک دوسرے کے لئے مصیبتیں اورمشکلات
پیدا کر رہا ہے ۔اگر ایسا نہ ہوتا تو آج مسلم ممالک مل کر کشمیر کے لئے اٹھ کھڑے
ہوتے فلسطین کا مسئلہ کب کا حل ہو چکا ہوتا ،افغانستان میں جاری خون ریز لڑائی کب
کی ختم ہو چکی ہوتی ،عراق اور ایران کی جنگ گیارہ سال کی طوا لت نہ پکڑتی اور حالیہ
دنوں میں مصر میں جاری خونریز جھڑپیں اور ان کے نتیجے میں آئے دن سننے اور دیکھنے
کو ملنے والے اندوہناک اور دلخراش رونگٹے کھڑے کر دینے والے واقعات ظہور پزیر نہ ہو
رہے ہوتے۔
تیل کی دولت نے بہت سے مسلمان ممالک کو فوائد پہنچائے ہیں ،ساتھ ہی نقصان بھی ہوا
ہے ،ان نقصانات میں سے سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ رفتہ رفتہ تقویٰ کی روح گم ہو گئی
اور دنیا کی اس دولت نے ان کے رحجانات کو یکسر دنیا ہی کی طرف پلٹ دیا،یہ بات ہر
ایک کے علم میں ہے کہ جب تک عالم اسلام غریب تھا اس میں تقویٰ کے آثار پائے جاتے
تھے لیکن تیل کی دولت نے ان کو دنیا دار بنا دیا ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اﷲ کی دی ہوئی اس نعمت پر شکر بجا لاتے اور اس بے حساب
ملنے والی دولت کو غریب ممالک کی غربت اور مسائل کو حل کرنے کے لئے استعمال کرتے ،اسی
طرح اسلام کی ترویج کے لئے بھی اس کا بھر پور استعمال کرتے ۔ استعماری قوتوں اور
طاقتوں کا اس سے مقابلہ کرتے ۔
مگر افسوس تو اس بات کا ہے کہ ایسا ہوا نہیں۔اس کے برعکس مختلف مسلم ممالک نہ صرف
آپس میں برسر پیکار رہے بلکہ اپنی ہی عوام کے خلاف ظلم و تعدی کا بازار گرم کرنے
میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔پھراس لازوال دولت کو اپنے عیش وآرام سے بڑھ کر تعیش
دکھاوا دولت کی دوڑ میں سب سے آگے نکل جانے کی کی دھن اور لگن نے ان کو اور بھی بے
حس بنا دیا۔مگر انجام کا ر ان کے ساتھ کیا ہوا،اپنے آپ کو اسلام کے خادم کہلانے
والے دولت کی اس ریل پیل میں جب حرس و ہوس کی حدوں کو پھیلانگتے ہوئے آگے بڑھے تو
دنیا سے اس طرح نیست و نابود ہونے لگے کہ مقام عبرت بن گئے ،صدام حسین اور اس کے
بیٹے کی مثال تو ہم سب کی آنکھوں دیکھی ہے۔
اسلام کی تعلیم یہ ہی ہے اگر مسلمان طاقتیں آپس ہی میں نبرد آزما ہوجائیں اور ایک
دوسرے پر حملہ کر دیں تو ایسی صورت میں تمام عالم اسلام کا فرض ہے کہ ان کے درمیان
صلح کروانے کی کوشش کی جائے اور اگر باغیانہ رویہ اختیار کرنے پر مُصر رہے اور اپنی
حرکتوں سے باز نہ آئے تو اس کا علاج یہ ہے کہ تمام عالم اسلام مل کر مشترکہ طاقت کے
ساتھ اس کو زیر کرے اور مغلوب کرے اور جب وہ اپنے فیصلوں کو احکامات الہی کی طرف
لوٹا دے اور خدا کے فیصلے کو قبول کرنے پر آمادہ ہوجائے تو بھر مزید زیادتی بند کی
جائے اور صلح کروانے کی کوشش کی جائے اس طرح انصاف سے کام لیا جائے ، اس لئے کہ اﷲ
انصاف کو پسند کرتا ہے۔
مصر کی جو موجودہ درد ناک صورتحال ہے اس میں عرب ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان ،کو
بھی اپنا بھر پور کردار ادا کرنا چاہئے۔عوام کے ساتھ ہونے والی ان زیادتیوں سے باز
رکھنے کے لئے اپنے وفود بھیجنے کی ضرورت ہے اور ظالم کو مصری عوام پر ہونے والے ظلم
سے نجات دلانے کی ضرورت ہے۔مگر یہ سب ہونا اتنا ٓسان نہیں اس لئے کہ عرب بھی آپس
میں تقسیم ہو چکے ہیں ،کچھ ان اقدامات کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں تو چند ایک ہی
مخالفت میں بیان دیتے ہیں ۔
پھر آپ تصور کریں کہ جب سعودی حکومت ہی اس سارے مرحلے میں خاموش ہو بلکہ اس ظالم
فوج کا ساتھ دے رہی ہو تو پھر کیسے مصری عوام کی حمایت اور مدد کو ممکن بنایا
جاسکتا ہے۔
ایسے میں عقلمندی اور حکمت عملی کا تقاضا ہے کہ مصری عوام موجودہ حکومت سے الجھنا
چھوڑ دے ،جب تک کہ ان کو عالمی سطح پر حمایت حاصل نہیں ہو جاتی اور یہ خود کو منظم
نہیں کر لیتے،آج 700 نہتے اور بے گناہوں کا خون ہوا ہے تو ابھی نجانے اور کتنے ظلم
ہونا باقی ہیں ۔اس لئے فوری طور پر مزاکرات کی راہ اختیار کی جائے،جب ظالم ظلم سے
باز نہ آرہا ہو تو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے چند قدم پیچھے ہٹا لینا ،بعض اوقات
فتح کا موجب بن جایا کرتا ہے ۔
اﷲ تعالیٰ مصری عوام کا حامی و ناصر ہو۔ آمین |