منگل ٢٣ مئی کی شب کو جنوبی وزیرستان میں
امریکی ڈرون حملوں میں ابتدائی اطلاعات کے مطابق پچھتر افراد اور بعد میں
آنے والی اطلاعات کےمطابق ہلاک شدگان کی تعداد میں مزید اضافہ ہوا ہے- یہ
بات سمجھ میں نہیں آتی کہ حکومت نے اپنی رٹ کے نام پر ایک ماہ سے سوات میں
آپریشن شروع کیا ہوا ہے جس میں خود آئی ایس پی آر کے مطابق کم و بیش سولہ
سو شدت پسند ہلاک ہوگئے ہیں۔ یہ بات واضح رہے کہ ہلاک شدگان کی یہ تعداد
حکومتی ذرائع بتا رہے ہیں جبکہ وہاں کے مقامی افراد جو ہجرت کے آرہے ہیں ان
کےمطابق ہلاک شدگان کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے اور ہلاک شدگان میں شدت
پسند کم اور عام آبادی کا نقصان زیادہ ہورہا ہے۔
یہ سارا آپریشن حکومت نے اس بنیاد ہر کیا کہ وہاں کچھ لوگ حکومت کی رٹ کو
چیلنج کررہے تھے، بے گناہوں کو قتل کررہے تھے۔اس بنیاد پر اتنا بڑا آپریشن
شروع کیا گیا لیکن امریکہ دو سال سے ہماری خود مختاری کو چیلنج کررہا ہے،
ہماری سرحدوں کی خلاف کررہا ہے۔امریکی ڈرون حملوں میں دو سال میں سینکڑوں
بے گناہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ کبھی امریکہ باجوڑ کے مدرسہ میں نو عمر
طالبعلموں پر حملہ کرکے درجنوں طلبہ کو شہید کردیتا ہے، حکومتی رٹ کے دعوے
دار خاموش رہتے ہیں، کبھی امریکہ کسی بارات پر حملہ کردیتا ہے اور عورتوں
اور بچوں سمیت متعدد افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔ اس عمل سے حکومتی رٹ پر کوئی
اثر نہیں پڑتا ہے۔ اس طرح کے متعدد واقعات ہوچکے ہیں لیکن ابھی تک حکومتی
سطح پر اس کی کوئی بات نہیں کی گئی۔ یہ بات ایک امریکی عہدے دار رچرڈ
ہالبروک نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں بتائی کہ کسی حکومتی ذمہ دار نے ڈرون
حملوں پر کوئی بات نہیں کی۔
اب تازہ ترین حملہ میں پچھتر سے زائد افراد کی ہلاکت پر ہم توقع کررہے تھے
کہ اتنی زیادہ ہلاکتوں پر شاید حکومت کا کوئی ذمہ دار کسی رد عمل کا مظاہرہ
کرے گا۔ لیکن ہمیں مایوسی ہوئی۔ ہم نے کئی اخبارات میں دیکھا کہ شاید اس
حوالے سے کوئی خبر ہوگی لیکن ایسی کوئی خبر نظر سے نہیں گزری۔ ہاں البتہ
صدر زرداری صاحب جو آج کل پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے ہیں ان کی گفتگو ہر
اخبار میں موجود تھی جس میں انہوں نے ڈرون حملوں کے علاوہ کئی موضوعات پر
بات کی ہے جس میں کسی سے نہ ڈرنے کا اعلان، آئندہ الیکشن میں پی پی پی کی
پالیسی، اور دیگر امور شامل تھے۔ لیکن پچھتر مسلمانوں اور پاکستانیوں کی
امریکہ کے ہاتھوں ہلاکت ایسا بڑا معاملہ نہیں تھا کہ جس پر صدر مملکت کچھ
بات کرتے۔ غالباً ڈرون حملوں سے حکومتی رٹ پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔
ہم نے یہ بھی دیکھنے کی کوشش کی کہ سوات میں بے گناہوں کی ہلاکت پر سوات
پریشن کی حمایت کرنے والے سیاست دان شاید اتنے بے گناہ افراد جو کہ نماز
جنازہ میں شریک تھے اور وہاں ان پر ڈرون حملے سے میزائل برسائے گئے تھے ان
کی ہلاکت پر یہ لوگ کوئی بات کریں گے لیکن ہمیں مایوسی ہوئی۔ کسی سیاسی
جماعت بشمول مذہبی جماعتیں اس کی مذمت میں کوئی لفظ نہیں کہا۔ سب سے زیادہ
افسوس ہمیں میڈیا کے رویہ پر ہوا ہے کہ پہلے امریکی ڈرون حملوں کو سرحدوں
کی خلاف ورزی سے تعبیر کیا جاتا تھا لیکن کل کے ڈرون حملے کو کسی نے سرحدوں
کی خلاف ورزی نہیں کہا شاید اب ہم نے اس کو اپنا مقدر سمجھ لیا ہے۔ ایسا
لگتا ہے کہ ان پچھتر افراد کا خون -خونِ خاک نشیناں تھا جو رزق خاک ہوا۔
پاک آرمی اور پاک فضائیہ اور چیف آف آرمی اسٹاف، جنہوں نے گزشتہ ہفتے ایف
سولہ میں بیٹھ کر سوات آپریشن میں علامتی طور پر شرکت کر کے اس بات کا عزم
کیا تھا کہ دہشت گردوں کو ختم کرکے دم لیں گے۔ وہ بھی دم سادھے بیٹھے ہیں۔
شاید ان کے نزدیک امریکا کا کوئی بھی حملہ دہشت گردی نہیں ہوتی ہے۔ بہت سے
لوگ ہم پر اعتراض کرسکتے ہیں کہ آرمی تو حکومت کے ماتحت ہوتی ہے اور وہ اس
کی اجازت کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھا سکتی ہے تو ایسے بھولے لوگوں سے ہمارا
ایک سوال ہے کہ کیا ایوب خان نے مارشل لاء حکومت سے پوچھ کر لگایا تھا؟ کیا
ضیاء الحق صاحب نے ایک منتخب حکومت اور مقبول وزیر اعظم کا تختہ کیا کسی سے
پوچھ کر الٹا تھا؟ کیا جنرل پرویز مشرف نے کسی کی اجازت سے نواز شریف کی
حکومت ختم کی تھی؟ جواب ہے کہ نہیں بلکہ انہوں نے اپنے مفادات کے تحت ایسا
کیا تو کیا یہ جنرلز اپنے ملک و قوم کے مفاد میں حکومت کو کسی ایکشن پر
نہیں مجبور کرسکتے؟
بہرحال صورتحال یہ ہے کہ مرحوم حکومتی رٹ صرف اپنے ہی لوگوں پر بحال کرائی
جاتی ہے البتہ اغیار اس ملک کے ساتھ جو کچھ بھی کریں وہ کم ہے۔ وہ یہاں
اپنے جاسوس چھوڑیں اور ہم ان کو گرفتار کرنے کے بعد بصد عزت و احترام رہا
کردیں ان کے ایجنٹ ہماری صفوں میں گھس کر بیٹھ جائیں اور ہم جان بوجھ کر
اپنی آنکھیں بند کردیں،۔ وہ ہمارے عوام پر میزائل برسائیں، ہماری سرحدوں کی
خلاف ورزی کر کے ہماری سرحدوں میں گھس کر ہمارے ہی بھائیوں کو قتل کریں اور
ہم ان کے معمولی اہلکاروں کے آگے بچھے چلے جائیں، عوام اس ساری صورتحال سے
شدید مایوسی اور عدم تحفظ کا شکار ہیں اور وہ بجا طور پر یہ سوچتے ہیں کہ
حکومت کو ہماری جان و مال، عزت و آبرو کی حفاظت کی کوئی فکر نہیں ہے، ایک
طرف طالبان کے نام پر بھارتی اور اسرائیلی ایجنٹ عوام کا استحصال کریں،
دوسری طرف فوج بھی اپنے ہی عوام پر گولے برسائے۔ مرے پر سو درے کے مصداق
امریکہ جب چاہے ڈرون حملے، اور میزائل برسا کر ان کا قتل کرسکتا ہے جبکہ
شہروں میں ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکے، چوریاں، ڈکیتیاں ان کو سکون سے نہیں رہنے
دیتی ہیں اور تمام سیاسی پارٹیاں اس موقع پر صرف پوائنٹس اسکور کرنے میں
مصروف ہیں۔ عوام کہاں جائیں؟ کس کے آگے فریاد کریں۔
ہماری حکومت سے گزارش ہے کہ خدارا تھوڑا سا ملک کی طرف اور عوام کی طرف بھی
دھیان دیں آپ کا یہ اقتدار عارضی ہے اگر آپ سمجھتے ہیں آپ ہی ہمیشہ اقتدار
میں رہیں گے تو یہ آپ کی بھول ہے۔ آج آپ کو جو موقع ملا ہے تو اس میں ملک و
قوم کے لیے کچھ کر جائیں۔ یاد رکھیں تاریخ نے دو قسم کے لوگوں کو یاد رکھا
ہے ایک وہ جنہوں نے یہ کہا کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی سو سال کی
زندگی سے بہتر ہے اور دوسرے وہ لوگ جنہیں میر جعفر اور میر صادق کے ناموں
سے یاد کیا جاتا ہے آپ کس قسم کے لوگوں میں اپنا نام لکھوانا چاہتے ہیں یہ
فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ |