پروفیسر مظہر ۔۔۔۔ سرگوشیاں
لوگ فاتحین کا جاہ و جلال بھول جاتے ہیں لیکن حیات ارضی کو سراب اور خمارِ
ہستی کو حباب سمجھنے والے اہلِ جنوں کو تا قیامت یاد رکھتے ہیں ۔کتنے
فاتحین تاریخ کے اوراق میں گُم ہو گئے لیکن ’’قیس‘‘ آج بھی دلوں میں محض
اِس لیے زندہ ہے کہ وہ اہلِ جنوں میں سے تھا۔عقیل و فہیم کہتے ہیں کہ زمرد
خاں نے حماقت کی لیکن یہ کوئی نہیں کہتا کہ شاید توانا اور پُر عزم روح کے
حامل زمرد خاں نے یہ سوچا ہو کہ
گر بازی عشق کی بازی ہے ، جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا ، ہارے بھی تو بازی مات نہیں
فہم و فراست کو اولیت دینے والے عقلِ سلیم کے مالک کبھی دہکتی آگ میں کودا
نہیں کرتے ۔نمرود نے آگ دہکائی اورحضرت ابراہیم ؑکو کہا کہ خُدائے یکتا کی
پرستش بند کر دو یا آگ کا ایندھن بن جاؤ۔عقلِ عیار نے سرگوشی کی کہ جان
بچاؤ لیکن عشق نے کہا کہ اگر خُدا ہے تو آگ بھی اُسی کے تابع ہے اور پھر
چشمِ فلک نے یہ عجب نظارہ بھی دیکھا کہ
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
حضرت حسینؓ کو بھی خوب علم تھا کہ وہ یزیدی لشکر کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔آپؓ
اگر چاہتے تو یزید کی بیعت کرکے اپنی اور اپنے خانوادے کی جان بچا لیتے
لیکن مطلوب و مقصود ناناﷺ کے دین کی عظمت ٹھہری اور وہ کربلا کی مٹی کو
اپنے خون سے رنگین کرکے اہلِ جنوں کے دلوں کو ہمیشہ کے لیے مسخر کر
گئے۔عالمِ اسلام کی تاریخ تو ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے لیکن بدقسمتی سے
ہم جس دَور میں بس رہے ہیں وہ اہلِ جنوں کا نہیں اہلِ عقل کا دَور ہے جس
میں ایسی ’’حماقتوں‘‘ کی سرے سے کوئی گنجائش نہیں ۔پھر یہ بھی تو ہے کہ مجھ
سمیت پاکستانیوں کی غالب اکثریت پیپلز پارٹی کے طرزِ حکمرانی سے نالاں بلکہ
نفرت کرتی ہے اور بد قسمتی سے زمرد خاں کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے ۔ اِس
لیے صبا کو صَر صَر کہنا ہماری مجبوری ہے۔چلیے مان لیا کہ زمرد خاں نے
حماقت کی ہے لیکن الیکٹرانک میڈیا کی گھنٹوں بلکہ پہروں کی ’’لائیو کوریج‘‘
کو کیا نام دیں ؟۔حماقت ، بے باکی یا پھر(انتہائی معذرت کے ساتھ)ملک دشمنی
۔کیا یہ لائیو کوریج دُنیا پر یہ ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں کہ ہم اتنے نا
اہل ہیں کہ صرف ایک دہشت گرد پورے شہر کو ہلا کے رکھ سکتا ہے۔
مانا کہ ہمارا الیکٹرانک میڈیا بہت بے باک ہے لیکن کیا یہ بے باکی ملک و
قوم کی بدنامی کا سندیسہ تو نہیں لا رہی؟۔کیا دُنیا میں کہیں ایسا بھی ہوتا
ہے کہ الیکٹرانک میڈیا ایسے واقعات کی لائیو کوریج کرکے اپنے ہی ملک کو
بدنام کرے؟ ۔نیوز چینلز کے موجودہ کردار کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ کیوں نہ
سمجھا جائے کہ آمر مشرف نے بیشمار چینلز کی اجازت ے کر ملک و قوم کے خلاف
سازش کی ہے ۔ کھمبیوں کی طرح اُگے ہوئے بیشمار نیوز چینلزمیں سے کتنے ہونگے
جو دلی درد کے ساتھ ملک و قوم کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں؟۔ کیا یہ حقیقت
نہیں کہ ہر چینل ریٹنگ بڑھانے کے شوق میں اپنی حدوں سے باہر نکلتا جا رہا
ہے ؟۔ محترم چیف جسٹس صاحب جب چیئر مین پیمرا سے سوال کرتے ہیں کہ 15 اگست
کوملک کی بدنامی کا باعث بننے والے ’’ڈرامے‘‘ کی لائیو کوریج کو کیوں نہیں
روکا گیا ؟۔تو چیئر مین پیمرا یہ انکشاف کرکے سب کو حیران کر دیتے ہیں کہ
اُن کے پاس تو لائیو کوریج روکنے کا اختیار ہی نہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا
دُنیا میں کہیں بھی نیوز چینلز کو لائیو کوریج کا ایسا شتر بے مہار اختیار
حاصل ہے؟۔اگر نہیں تو پھر ہمارے چینلز کو یہ اختیار کسی خوف کے پیشِ نظر
دیا گیا ہے؟۔
بد قسمتی سے ہمارے ہاں غالب اکثریت ایسے چینل مالکان کی ہے جن کا نہ تو
صحافت سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی ملکی بدنامی کی پرواہ۔یہ وہ لوگ ہیں جنہوں
نے خالصتاََ کاروباری نقطہ نگاہ سے یہ چینل کھولے ہیں اور اب وہ نہ صرف
ڈھیروں ڈھیر دولت کما رہے ہیں بلکہ اِنہیں ’’ مَن مانی ‘‘کرنے کی کھلی چھوٹ
بھی ہے کیونکہ یہ کھرب پتی خوب جانتے ہیں کہ آزاد اور بے باک میڈیا سے
حکومت ہمیشہ خوفزدہ رہتی ہے۔ میڈیا کی آزادی ہر قوم کی ترقی کا جزوِ لا
ینفک ہوتی ہے لیکن ’’مادر پدر‘‘ آزادی قوموں کو پاتال کی گہرائیوں میں دفن
بھی کر دیتی ہے۔
پاکستان کے انٹرٹینمنٹ چینلز ایسا کینسر ہیں جو اسلامی تہذیب و ثقافت کو
تیزی سے چاٹ رہے ہیں۔ اِن چینلز پر آپ کو سب کچھ ملے گا سوائے اسلامی
معاشرت کے۔میرا موضوع یہ چینلز نہیں کیونکہ اہلِ مغرب کی تہذیب کی عکاسی
کرنے والے یہ چینلز ملک کی بدنامی کا اُس طرح باعث نہیں بن رہے جیسے ہمارے
نیوز چینلز۔ اِن چینلز کی ریٹنگ کی دَوڑ وطنِ عزیز کا ایسا نقشہ پیش کر رہی
ہے جس میں ہری بھری کھیتیوں کی جگہ بھی دہشت گردی ہی اُگتی ہو ۔اِن کو کبھی
یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ دنیا کے سامنے پاکستان کا ایسا نقشہ پیش کریں
جہاں بادلوں کے پاکیزہ پانی سے جنم لینے والی نغمے الاپتی ندیاں بھی ہیں
اور کہساروں کے پانی کے لطیف قطرات میں گُلوں کی مہک بھی جمی ہوتی ہے۔جہاں
مرغزاروں میں ہرن بھی چوکڑیاں بھرتے ہیں اور بُلبلیں نغمے بھی الاپتی ہیں
۔جہاں کھیتیاں سونا اُگلتی ہیں اور کسانوں کے مدھر گیتوں کی تانیں آج بھی
دلوں کو مسحور کرتی ہیں۔جہاں احترامِ آدمیت کو معراجِ انسانیت سمجھا جاتا
ہے اور الفت و محبت کی فضا نفسا نفسی کو قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتی ۔لیکن
ہمارے یہ مہربان چینلز دُنیا کے سامنے ایسا نقشہ کیوں رکھیں گے جس سے ریٹنگ
نہ بڑھتی ہو۔اِنہیں تو ہر وقت کسی ایسی خبر کی تلاش ہوتی ہے جو ہلچل اور
دہشت پھیلانے میں ممد و معاون ثابت ہو۔ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں یہ اپنے
نیوز چینلز پر بھی ایسے مزاحیہ پروگرام تشکیل دیتے ہیں جن میں مزاح تو ہر
گز نہیں ہوتا البتہ ہزل گوئی ، جگت بازی اور ذو معنی جملوں کی بھرمار
ضرورہوتی ہے ۔
ہمارے رہنما بہرحال ہمارے اپنے ہیں اورہم نے انہیں اُن کی تمام تر خامیوں
سمیت اپنایا ہے ۔گھر کی بات اگر گھر میں رہے تو وہی بہتر ہوتا ہے، اگر باہر
نکل جائے تو سوائے بدنامی کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ہمارے چینلز انتہائی چابک
دستی سے گھر کی بات کا ڈھنڈورا پوری دنیا میں پیٹ رہے ہیں۔بلا خوفِ تردید
کہا جا سکتا ہے کہ یہاں کسی کی عزت بھی محفوظ نہیں ۔اِن چینلوں پر بیٹھے
’’بھانڈوں‘‘ کے ذریعے رہنماؤں کی پگڑیاں جس طرح سے اچھالی جا رہی ہیں اور
جس انداز سے اُنہیں نشانۂ تضحیک بنایا جا رہا ہے وہ دُنیا پر یہ ثابت کرنے
کے لیے کافی ہے کہ ہم سے زیادہ نا اہل کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ |