پاکستان ،مصر اور شام کے ننھے فرشتے

جہاں بھی نظر جاتی ہے تھک ہار کر لوٹ آتی ہے کہ ہر طرف تو عالم اسلام مختلف قسم کے مصائب اور مشکلات میں گھر ا ہوا دکھائی دیتا ہے ،حالات ہیں کہ دن بدن خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں اک قیامت کا سا سماں ہے ہر طرف،جنگ و جدل دہشت گردی اور لاقانونیت کا راج ہے، ایشیا ہو کہ مشرق وسطی زیادہ تر اسلامی ممالک ہی انتشار اور افراتفری میں گھرے نظر آتے ہیں ۔

افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس صورت حال میں جنگی جنونی نہ عورتوں کو دیکھتے ہیں اور نہ ہی معصوم بچوں کو ، انتہائی بے رحیمانہ طریقے سے معصوم لوگوں کا خون کیا جارہا ہے ۔ جنگ کے کچھ اصول اور کچھ ضابطے ہوتے ہیں ،خواہ یہ جنگ اپنوں سے ہو یا پھر دشمنوں سے ۔اس وقت ایک اور افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ ممالک اپنے ہی نہتے لوگوں پر آگ اور خون کا گھناؤناکھیل جاری رکھے ہوئے ہیں ۔اب کس کو شہید کہا جائے اور کو ن قاتل ہے ۔۔اس لئے کہ اس ظلم و بربریت کا شکار ہونے والے بھی کلمہ گو ہیں ۔اور مارنے والے بھی بظاہر توحید کا اقرار کرنے والے ہیں۔

مفادات کی یہ جنگ نجانے انسان کو کہاں سے کہاں تک لے جائے گی ۔اس سارے ظالمانہ کھیل کا دکھ بھرا پہلو یہ ہے کہ معصوم ننھے فرشتے روزانہ ہی اپنی زندگی سے ہاتھ دھو رہے ہیں ،ہاں وہ معصوم کلیاں جو ابھی پوری طرح کھلی بھی نہیں کہ مرجھاتی جا رہی ہیں ۔وہ معصوم بچے جو جنگ کے مفہوم سے بھی نا آشنا ہیں اس بہتے ہوئے کشت و خون میں زبردستی دھکیلے جا رہے ہیں ۔ ظلم و بربریت کی وہ مثالیں قائم کی جارہی ہیں کہ جن کے تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور انسانیت شرما جاتی ہے۔

بچوں سے کیا گیا یہ سلوک بالکل ویسا ہی ہے جو حضرت محمدمصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل عرب میں روا رکھا جاتا تھا ۔کسی کے گھر میں بیٹی کا پیدا ہوجانابے عزتی تصور ہوتا تھا اور بچی کا وجود باپ کی عزت و ناموس پر دھبہ خیال کیا جاتا تھا۔لڑکی پیدا ہوتی تواس کا باپ اس کو زندہ درگور کر دیتاتھا،گڑھا کھود کر اس میں دھکا دے کر مٹی ڈال کر دفن کر دیتا۔وہ اباّ ۔۔! ۔۔ اباّ۔۔۔ ! پکارتی رہ جاتی مگر ظالم باپ پر کوئی اثر نہ ہوتاتھا اور یوں بچی کو ماں باپ کی شفقت کا کوئی لمحہ بھی میسر نہ تھا۔۔۔ ایک مجلس میں جب ایک شخص نے اپنی پیاری بچی کو دفنانے کا درد انگیز واقعہ سنایا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔

رحمت اللعالمین صلی اﷲ علیہ وسلم اس ظلم کو کس طرح برداشت کر سکتے تھے ،چنانچہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کریہہ ظلم کو ہمیشہ کے لئے بند کرا دیا،اور بچوں کو زندہ درگور کیا جانا شرعی جرم قرار دے دیا۔

کس قدر دکھ اور تکلیف کا مقام ہے کہ اس ترقی یافتہ اور سائنسی دور میں بھی زمانہ جاہلیت کی رسموں کو دہرایا جا رہا ہے ،باوجود اس کے کہ اب تو ہمارے پاس ایک پاکیزہ اور محترم کتاب قرآن پاک کی صورت میں موجود ہے ۔ایک عظیم نبی ﷺکی سنت ہمارے لئے مشعل راہ ہے مگر اس کے باوجود آج بھی بچوں کو بے دردی سے زخمی کیا جارہا ہے ان کو مارا جارہا ہے ان کے والدین کو ان کے سامنے گولیوں سے چھلنی کیا جارہا ہے اور تو اور ان پر خطرناک کیمیکل کی بارش کی جارہی ہے ،تو کہیں ڈرون گرائے جارہے ہیں ،ان خوبصورت کھلتے پھولوں کو کس بے دردی سے مسلا جارہا ہے وہ بچے کہ جو ہلکی سی ڈانٹ پر بھی سہم سے جاتے ہیں ۔ ہاں انہی کے جسموں کو زخموں سے چھلنی کیا جارہاہے،ماں باپ کی شفقت سے محروم کیا جا رہا ہے ماں کی ممتا اور باپ کا شفقت بھر ا لمس ان سے مسلسل جدا ہو رہا ہے کیا یہ سب ان کو زندہ درگور کرنے کے مترادف نہیں ہے ۔۔؟،یہ بچے جو اس زمین کی جنت ہیں اور شاید انھی کی وجہ سے یہ دنیا قائم ہے ۔انکے ساتھ یہ ظلم یہ بربریت ایسا تشدد ۔الامان الحفیظ

میں پوچھتی ہوں کہاں ہیں اقوام متحدہ اور اس کی بچوں کی ذیلی تنظیموں کے ادارے،۔۔۔؟،کہاں ہے عرب لیگ ۔۔؟کہاں ہیں اسلامی سربراہی کانفرس کے اراکین ۔۔۔؟کہاں ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمران اور میڈیا کہ جو اپنے آپ کو پوری دنیا اور خاص طور سے اسلامی دنیا کا چمپئین قرار دیتا ہے ،۔۔؟؟کیوں نہیں ان گھناؤنے اور بہیمانہ قتل پر قرار داد مذمت پیش کرتا ۔۔۔؟کیوں نہیں اپنے نمائندے دوڑاتا کہ امن کی کوئی صورت نکلے ۔۔۔؟؟کوئی تو راہ سجائی دے کہ بس اپنے مردہ ضمیروں کے ساتھ سوتے ہی رہنا ہے۔ اوراپنی گناہ گار آنکھوں سے ظلم ہوتا ہوا دیکھتے ہی رہنا ہے ۔۔۔ ؟؟ کب تک ۔۔؟؟ آخر کب تک ۔۔؟ کیا اپنی ریٹینگ بڑھانے کے چکر وں میں زیادہ سے زیادہ تکلیف دہ خبروں اور ویڈیو کی تلاش میں ہی رہنا ہے ،کہاں ہیں امن کی آشائیں اور فاختائیں۔۔؟؟کہاں ہیں انسانی حقوق کی تنظیمیں ۔۔۔؟؟کیوں اس ظلم پر سب خاموش ہیں ۔۔؟؟کیوں واویلا نہیں کرتے،۔۔۔؟؟کیوں ان تک انسانیت کا درس اور پیغام نہیں پہنچتا ۔۔۔؟؟کیوں سعودی عرب بھی خاموش ہے کہ اگر وہ چاہے تو تمام مسائل خوش اسلوبی سے طے پاجائیں،۔۔؟؟مگر افسوس کے سب ہی کے اپنے اپنے مفادات ہیں ،اپنی اپنی ترجیحات ہیں اپنی اپنی پالیسیاں ہیں ۔۔کوئی ان معصوم بچوں کی خاطر ان مفادات کو بھینٹ کیوں چڑھائے،؟؟

مجھے ان سب سوالوں کے جواب امن کی صورت میں درکار ہیں۔۔۔ کوئی تو اٹھے کوئی تو ہمت کرے ،۔۔۔کیا ہم ان بچوں سے کہہ دیں کہ بیٹا ! ہم ڈرون نہیں رکوا سکتے ،۔۔آپ خود ہی ہمت کرو ،۔۔جب آپ کھیل رہے ہوں۔۔ تو محفوظ مقام دیکھ لیا کرو ۔۔ہم آپ پر ہونے والی کیمیکل حملوں کو نہیں رکوا سکتے ۔۔اس لئے کہ تم اس دنیا میں آئے ہو تو یہ سب سہنا پڑے گا ،۔۔۔یہا ں تو انسانیت مر چکی ہے اور ضمیر مردہ ہو چکے ہیں ۔۔۔۔ہمارے حکمرانوں نے مفادات کی چوڑیاں پہن رکھی ہیں ۔۔۔۔یہ توابھی تک اسی بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل کے ایجنٹ اور ان کے پٹھو کون ہے ؟کون ان سے زیادہ ایڈز لیتا ہے۔ ۔؟ سب ہی ایڈز زدہ ہیں ۔۔۔مگر پھر بھی ،نہیں۔۔ نہیں ۔۔ہم نہیں ہیں۔۔ کہتے کہتے ان کا استقبال کرتے ہیں ،ان کے چہروں پر مکروہ قسم کی مسکراہٹ رقصاں ہوتی ہے ۔ جو مجبور بے کس عوام کے دل جلاتی ہے ۔انہیں اور بھی تڑپاتی ہے ،کہ یہ دوغلی پالیساں ہے اور اس کو سب خوب سمجھتے ہیں۔

تو کیا پھر اب ہم ان تمام بے کس ،بے بس مظلوم ،زخموں سے چور نڈحال تڑپتے سسکتے مامتا کو تلاش کرتے ،باپ کی شفقت سے محروم ، ڈرے سہمے بچوں سے کہہ دیں کہ ۔۔۔ میرے پیارے معصوم بچوں۔۔!۔۔ ہم سب کو معاف کر دینااب ہم میں کوئی بھی حضرت علی کرم اﷲ وجہ جیسا کڑیل اور بہادر جوان نہیں ہے۔۔ ۔ہم میں محمد بن قاسم بھی نہیں ہے کہ جو بچوں کی چیخ و پکار پر سرپٹ گھوڑے دوڑا دے ۔ہاں ہم
میں صلاح الدین ایوبی بھی نہیں ہے کہ جو جرات اور بہادری کے ساتھ استعماری طاقتوں اور قوتوں کے سامنے ڈٹ جائے ۔اس لئے کہ اب ہم سب کو اپنے مفادات عزیز ہیں یہ ہی ہمارے بچے ہیں یہ ہی ہمارا سرمایہ ہیں ۔۔۔میرے بچے مجھے معاف کر دینا ۔
۔وصی شا ہ کی یہ نظم یاد آتی ہے۔
لوری
ماں !مجھے نیند نہیں آتی ہے
ایک مدت سے مجھے نیند نہیں آتی ہے
ماں!مجھے لوری سناؤ نا
سُلا دو نا مجھے
ماں!مجھے نیند نہیں آتی ہے
رت جگے اب تو مقدر ہیں مری پلکوں کے
نیند آئے تو لئے آتی ہے بغداد کی یاد
آنکھ لگتے ہی کوئی بیوہ اٹھا دیتی ہے
پیٹ کتنا ہی بھروں بھوک نہیں مٹتی ہے
جلتے بصرہ کی مجھے پیاس جگا دیتی ہے
کوئی قندھار کا آئے تو مجھے لگتا ہے
کاٹ کے سر کوئی ہنستا ہے جلاتا ہے مجھے
بم کی آوازیں مجھے کچھ نہیں کہتی ہیں مگر
زخم ان بچوں کے سونے نہیں دیتے ہیں مجھے
ماں مری آنکھیں تو پتھر کی ہوئی جاتی ہیں
نوجوان لاشے یہ رونے نہیں دیتے ہیں مجھے
میرے سینے پہ رکھو ہاتھ ؂
رُلا دونا مجھے۔۔۔!
ماں! مجھے لوری سناؤ نا
سُلا دو نا مجھے ۔۔۔!
ماں! مجھے نیند نہیں آتی ہے
ایک مدت سے مجھے نیند نہیں آتی ہے!۔۔
Maryam Samaar
About the Author: Maryam Samaar Read More Articles by Maryam Samaar: 49 Articles with 51233 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.