یہ امر تو بظاہر خوشی کا باعث ہے
کہ عالمی اسلامی مالیاتی انڈسٹری 1.3ٹریلین ڈالرسے زائد حجم تک پہنچ چکی ہے
جو یقینی طور پر لوگوں کو سود سے نجات کے ساتھ ساتھ ایک اچھے کاروبار کا
ذریعہ بھی میسر کر رہی ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں
2000سے زائد اسلامی مالیاتی ادارے اسلامی بنکاری،اسلامی
انشورنس(تکافل)،اسلامی فنڈ،مضاربہ ،اجارہ،اسلامی بانڈ(سکوک)اور اسلامی
مائیکروفنانس سمیت چند دیگر صورتوں میں شریعہ سے ہم آہنگ اسلامی مالیاتی
خدمات میں سرگرم ہیں۔اگرہم ان تمام خدمات کے مارکیٹ شیئرز کو بظاہر دیکھیں
تو دل دکھا دینے والے اعداد و شمار کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ایسا محسوس
ہوتا ہے کہ اسلامی بنکاری و مالیات صرف امراء تک ہی محدود ہوکر رہ گئی اور
Capitalismنظریے کے مطابق منافع کی حوس نے اسلامی مالیاتی انڈسٹری کو بھی آ
گھیرہ ہے جس کی وجہ سے اسلامی مالیاتی انڈسٹری میں غریبوں ے لیئے خدمات
میسر نہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ کمرشلزم نے انہیں اس طرح اپنے سحر میں
لے لیا ہے کہ غریبوں کے ساتھ کاروبار یا فنانس کرنا ان کے ایجنڈے سے بالکل
نکل چکا ہے۔
ورلڈ بنک سے متعلقہ ایک ادارے(CGAP) Consultative Group to Assist the
Poorکی مارچ 2013, ء کے اعداد وشمار کے مطابق دنیا بھر میں اسلامی
مائیکروفنانس کے اداروں کا کل حجم 800ملین USDتک جا پہنچاہے جو تقریبا
1.3ملین افراد کو خدمات دستیاب کر رہے ہیں جبکہ الہدی سنٹر آف ایکسی لینس
برائے اسلامی مائیکروفنانس کی ایک حالیہ ریسرچ رپورٹ کے مطابق اسلامی
مائیکروفنانس کے اداروں کا کل حجم جولائی 2013ء میں تقریباایک بلین ڈالر ہے
اور دنیا بھر میں کل اسلامی مائیکروفنانس اداروں کی تعداد300سے تجاوز کر
چکی ہے جبکہ اسلامی مالیاتی انڈسٹری کے 1.3ٹریلین کے حجم میں اسلامی
مائیکروفنانس کا حصہ 1%سے بھی کم ہے جو کہ اسلامی مالیاتی انڈسٹری پر ایک
بڑا سوالیہ نشان ہے اوران اداروں کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت بھی۔ان
اعدادوشمار سے ذہن میں بے شمار سوالات جنم لیتے ہیں مثلا معاشرے میں امیر
اور غریب کا توازن 1%:99%ہے؟کیا اسلامی مالیات میں صرف امیر کے لیئے
مالیاتی مصنوعات ہیں؟غریب کے لیئے نہیں؟کیا اسلامی فنانس ایک خاص طبقہ کے
لیئے ہے؟کیا یہ ایک طبقاتی نظام ہے ؟وغیرہ وغیرہ ،اور یقینی طور پر ان
ابھرنے والے سوالات کے جوابات نفی میں ہیں۔
اسلام کی تعلیمات کے تناظر میں اسلامی مالیات کا جائزہ لیا جائے تو یہ
معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی مالیات کا اصل محور ہی غریب کی فلاح ہے اور اس میں
غربت کے خاتمے کے بہتریں اصول موجود ہیں اسلام تو غریب سے شروع ہو کر غریب
پر ہی ختم ہونے کا دین ہے ،اگر ہم دیگر مذاہب کا مطالعہ کریں تو یہ بات علم
میں آتی ہے کہ غربت کا خاتمہ اسلام میں معاشرتی ذمہ داری نہیں بلکہ مذہبی
ذمہ داری ہے جو کہ زکوۃ، صدقہ، فطر، عشر، قرض وغیرہ وغیرہ کی صورت میں
مسلمانوں کے مذہبی فرائض میں شامل ہے جبکہ دیگر مذاہب کے نزدیک یہ مذہبی
فریضہ کے بجائے معاشرتی فریضہ ہے اور وہCorporate Social
Responsibility(CSR)کے نام سے دنیا میں غربت کے خاتمے کے لیئے مصروف عمل
ہیں ۔
اگر ہم دنیا کی غربت پر ایک نظر دوڑائیں تو چونکا دینے والے اعداد و شمار
ہمارے انتظار میں ہیں دنیا کی کل غربت کا 46%مسلم دنیا میں ہے جبکہ دنیا
میں مسلم آبادی 26%ہے ،OICکے 57ممالک میں26ممالک کو اقوام متحدہ نے Least
Developedممالک میں شمار کیا ہوا ہے اورموجودہ اعداد وشمار اس چیز کی
نشاندگی کر رہے ہیں کہ مسلم دنیا میں غربت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے جس
کی چیدہ چیدہ وجوہات میں غریب کا سود کی وجہ سے مائیکروفنانس کے استعمال سے
گریز،اسلامی مالیاتی اداروں وبینکوں کی جانب سے اسلامی مائیکروفنانس کی عدم
فراہمی،بین الاقوامی ڈونر ایجنسیوں (UNDP,World Bank,IFCوغیرہ )کی اسلامی
مائیکروفنانس میں عدم دلچسپی ایسی وجوہات ہیں جو مسلم دنیا کو دن بدن غربت
کے چنگل میں دھونس رہی ہیں معروف معاشی ماہرین (طارق اﷲ اور عبیداﷲ)کے
اندازے کے مطابق دنیا کے تقریبا 650ملین مسلم افراد 2ڈالر روزانہ سے کم
آمدن میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جبکہ اگر موجودہ
اعدادوشمار کو دیکھا جائے تو 650ملین غریب مسلم افراد میں صرف 1.3ملین
مسلمانوں کو اسلامی مائیکروفنانس کے ذریعے غربت سے باہر نکالنے کی کوشش کی
گئی ہے جبکہ 649 ملین افراد اب بھی کسی مسیحا کی تلاش میں ہیں اگر موجودہ
اسلامی مالیات پر اعتراضات کا جائزہ لیا جائے تو کہیں پر اسلامی مالیات کو
تسلیم کرنے سے انکار ،شریعہ کے معاملات میں اختلافات وغیرہ وغیرہ مگر
موجودہ طبقاتی اعتراض شاید وہ اعتراض ہے جس کو اگرفالفور دور نا کیا گیا تو
اسلامک بنکاری و مالیات کو ایک ناقابل تلافی نقصان پہچنے کا اندیشہ ہے ۔
اگر اسلامی مالیاتی انڈسٹری غریب کی مالیاتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیئے
اسلامی مائیکروفنانس کے ادارے قائم کریں تو اسلامی مالیات کے ثمرات کا حصول
غریبوں کو بھی ممکن ہو سکتا ہے اسلامی مالیاتی انڈسٹری کے پاس ملین ڈالرز
کی Charityکی رقم بھی موجود ہے اس کو استعمال میں لاتے ہوئے بھی اسلامی
مائیکروفنانس کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے جبکہ زکوۃ،صدقات ،وقف و دیگر کمرشل
اسلامی مائیکروفنانس کی مصنوعات(مرابعہ،مشارکہ،سلم،استسناء وغیرہ) کو بھی
غربت کی کمی کے لیئے احسن طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ہمارے شریعہ
سکالرز پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے مالیاتی اداروں کو اس
بات پر قائل کریں کہ اسلامی مائیکروفنانس کو فروغ دیا جائے وگرنہ اس بات کے
قطعی امکان ہیں نچلی سطح پر یہ بات نہ پہنچ جائے کہ اسلامی بنکاری و مالیات
صرف امراء کے لیئے ہے اور ایک خاص طبقہ ہی اس سے مستفید ہو رہا ہے ۔
(محمد زبیر مغل الہدی سنٹربرائے اسلامی بنکاری و اقتصادیات میں بحثیت چیف
ایگزیکٹو آفیسر گزشتہ 9سال سے اسلامی مائیکروفنانس کے ذریعے غربت کے خاتمے
کے لیئے کوشاں ہیں،ان کو [email protected]پر رابطہ کیا جا سکتا
ہے ) |