عالمی معیشت اور گلوبل ویلیج نے آج دنیا کو ایک دوسرے سے
اس جوڑ کر رکھ دیا ہے کہ اب ایک ملک کا بحران دوسرے ملک کو بھی بری طرح
متاثر کرتا ہے۔ عالمی معیشت کے اس تصور میں اب ایک ملک پر چھائے بحرانی
بادل ہر دوسرے ملک پر برستے جارہے ہیں اور حقیقی سطح پر اس نظام کا عالمی
بحران پیدا ہوچکا ہے۔ پاکستان کے معاشی حالات وگرگوں ہیں تو ہمارا پڑوسی
ملک بھارت بھی اس سے محفوظ نہیں ہے۔ چند دنوں میں امریکی ڈالر نے ایشیائی
کرنسیوں خاص طور پر بھارتی کرنسی کو روند ڈالا‘ مئی سے اب تک بھارتی روپے
کی قدر میں 17 فیصد کمی ہوئی ۔ گولڈن بھارت میں 5-2004 میں ہندوستان میں
کْل 40.72 کروڑ افراد غریب تھے، جب کہ 10-2009 میں یہ تعداد اسی فارمولے پر
بڑھتے ہوئے 34.47 کروڑ ہوگئی ہے۔ بھارت میں اگرچہ اس وقت جاپان سے زیادہ
ارب پتی موجود ہیں، لیکن وہاں عدم مساوات دنیا میں بد ترین سطح پر ہے۔ ایک
ارب ہندوستانی اذیت اور غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتے چلے گئے۔ بھارت
میں ہر بیس منٹ پر عورت سے زیادتی کا واقعہ ہوتا ہے۔ دیلی ریپ کیس نے پوری
دنیا میں بھارت کی خواتین کے عدم تحفط کی صورتحال کو بے نقاب کیا ہے۔
الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کی آدھی سے زیادہ آبادی کو بیت الخلا
کی سہولت بھی میسر نہیں اور اس مقصد کے لیے کھلی جگہوں اور فصلوں کا
استعمال کیا جاتا ہے، جو کہ صحت کے لیے انتہائی غیر مناسب اور مضر ہے۔
چمکتے ہندوستان کے حکومتی دعوؤں کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ 12-2011ء میں جی
ڈی پی کی شرح نمو تیزی سے گر کر 5.3 فی صد تک آپہنچی ہے۔
حال ہی میں بھارت کی معیشت کو ایک دھچکہ اس وقت پہنچا جب دنیا کی معیشتوں
کی حالت کا تجزیہ کرنے والے عالمی ادارے سٹینڈرڈ اینڈ پوورز (ایس اینڈ پی)
نے بھارت کی معیشت کو مستحکم کے زمرے سے ہٹا کر منفی درجے میں شمار کیا۔ اس
رپورٹ میں متنبہ کیا ہے کہ اگر آئندہ دو برسوں میں معیشت میں بہتری نہ آئی
تو بھارت کی معیشت کمتر درجے میں شمار کی جائے گی۔اس تجزیے کے بعد بھارت کے
حصص بازاروں میں زبردست گراوٹ آئی ہے۔معاشی اصطلاح میں بھارتی معیشت کی
درجہ بندی اِس وقت ٹریبل بی پلس ہے جسے ایس اینڈ پی نے منفی درجے میں ڈالتے
ہوئے ٹریبل بی مائنس کر دیا ہے۔ اس سے بھارتی کمپنیوں کو غیر ممالک سے قرضے
مہنگی شرحوں پر ملیں گے اور حصص بازار پر بھی برا اثر پڑے گا۔ ٹریبل بی
مائنس سرمایہ کاری کے لیے سب سے کم درجہ ہے۔معیشت کی درجہ بندی کرنے والی
ایجنسی نے کہا ہے کہ ’معیشت کو منفی زمرے میں رکھنا اس بات کا اشارہ ہے کہ
بھارتی معیشت دو برس میں کمتر درجے کی جانب گامزن ہے‘۔بھارتی روپے کی قدر
میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں اب تک کی سب سے زیادہ گراوٹ آئی ہے جس سے
ایک ڈالر کی قیمت 62 روپے سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔جمعہ کے روز بازار کھلنے
کے ساتھ ہی روپے میں ریکارڈ گراوٹ درج کی گئی اور غیر ملکی کرنسی مارکیٹ
میں ڈالر کے مقابلے روپیہ ایک بار پھر تیزی سے نیچے گرا۔
صبح ساڑھے دس بجے کاروبار شروع ہوتے ہی ایک ڈالر کی قیمت 62.03 روپے پر
پہنچ گئی تھی۔ اس کے بعد کاروبار میں کچھ نرمی دکھائی دی اور شام تک ایک
ڈالر کی قیمت 61.80 روپے کے آس پاس آ گئی۔گذشتہ ہفتے ایک ڈالر 61.80 پیسے
کی قیمت تک بکا تھا جب کہ بدھ کو کاروبار کے اختتام پر شرح تبادلہ 61.43
روپے رہی تھی۔روپے کی قدر میں کمی کو دیکھتے ہوئے بازار حصص بھی زبردست
فروخت کا دباؤ ہے۔ سنسیکس میں بھی گراوٹ درج کی گئی جس میں 450 پوائنٹس سے
زیادہ کی کمی دیکھی گئی -
نیشنل سٹاک ایکسچینج نفٹی میں بھی 150 پوائنٹس سے زیادہ کی گرواٹ دیکھی گئی
ہے۔گزشتہ کئی ماہ سے ڈالر کی قیمت روپے کے مقابلے میں خاصی کمزور ہوتی رہی
ہے جس سے بھارتی معیشت پر برا اثر پڑا ہے۔کچھ دن پہلے ہی بین الاقوامی
کریڈٹ ریٹنگ ادارے فچ نے بھارت کی کریڈٹ ریٹنگ آؤٹ لک میں کمی کرتے ہوئے
اسے ’مستحکم‘ کم کر کے سے ’منفی‘ کر دیا تھا۔اس سے پہلے سٹینڈرڈ اینڈ پورز
نے بھی پالیسی ساز فیصلوں میں بہتری کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے بھارت کے
لیے اپنی کریڈٹ ریٹنگ میں کمی کی تھی۔فچ کا اندازہ ہے کہ بھارتی معیشت اس
مالی سال میں 6.5 فیصد کی شرح سے ترقی کرے گی جو پہلے سے لگائے گئے تخمینے
7.5 فیصد سے کم ہے۔بھارتی صنعتی دنیا کی کئی مشہور شخصیات ملک کی اقتصادی
حالت پر تشویش ظاہر کر چکی ہیں۔
این نارائن مورتی اور عظیم پریم جی نے اقتصادی بدحالی پر کچھ دن پہلے یو پی
اے حکومت پر سخت تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ اس سے ملک کی معیشت کو دھچکا
لگا ہے۔
بھارت کو ایک ایسے عجیب قسم کے تضاد کا شکار بتایا جاتا ہے جو تصویر کے ایک
دوسرے سے قطعی مختلف دو رْخ سامنے لا کر رکھ دیتا ہے۔ ایک بھارت تو وہ ہے
جو تیزی سے پھل پھول رہا ہے اور پنپ رہا ہے اور دوسرا بھارت وہ ہے جس کی
توقعات ناکامی و نامرادی کے علاوہ کچھ اور نہیں ہیں۔ بھارتی معاشی ماہرین
یہ توقع کرنے میں حق بجانب ہیں کہ بھارت کو دنیا کی اْبھرتی ہوئی عظیم
مارکیٹ بنانے کے لئے بھارت کی دونوں اقسام کو یکجا کرنا ضروری ہے۔ بھارتی
معاشی امور سے متعلق ایک ماہر کے نزدیک مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ’’بھارت کیا کر
رہا ہے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ بھارت کیا کر سکنے کی اہلیت رکھتا ہے اور یہی
وہ مقام ہے جہاں عدم مطابقت پائی جاتی ہے‘‘۔ یعنی بھارت جس قدر کر سکنے کی
اہلیت رکھتا ہے اس قدر نہیں کر پا رہا۔بھارت اب ترقی پذیر ممالک کی اس کلب
کا ممبر ہے جسے BRIC’s (برازیل، روس، انڈیا اور چائنہ) کا نام دیا جاتا ہے
، جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ آنے والے وقت میں دنیا کی معاشی افزائش
کو اسی کے ذریعے سے آگے بڑھنے کی قوت ملے گی۔ بھارت کو چین پر اگرچہ
ڈیموگرافک لحاظ سے ایک فوقیت حاصل ہے لیکن پچھلے برس چین میں غیرملکی
سرمایہ کاری 124 بلین ڈالر تک پہنچ گئی جبکہ بھارت اس ضمن میں صرف 32 بلین
ڈالر تک ہی پہنچ سکا۔ تیز ترین ترقی کے لئے جس مناسب انفراسٹرکچر کی ضرورت
ہوتی ہے وہ بھارتی حکومت مہیا کرنے میں ناکام رہی ہے جبکہ چین میں اس
حوالیے سے پوزیشن بہتر ہے۔بھارت میں ترقی کی رفتار کو بہت سست بتایا جا رہا
ہے بلکہ یہ خیال بھی ہے کہ ترقی تقریباً رک ہی گئی ہے اور اب خود بھارتی
دانشور ڈیموکریٹک پالیٹکس کو اس کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔اکتوبر میں آئی
ایم ایف نے بھارت کو 2012ء کی اس درجہ بندی سے نیچے گرا دیا جس کے مطابق
4.9 فیصد گروتھ کی پیش گوئی کی گئی تھی۔ ایک ریسرچ فرم ’’کیپٹل اکنامکس‘‘
کو ماہ اگست کی اس رپورٹ کے حوالے سے بہت تشویش ہے جس کے مطابق بھارت ایسے
(معاشی) جمود کو جھیل رہا ہے جس نے بلند افراطِ زر اور کم تر افزائش کے
آمیزے سے جنم لیا ہے۔ گزشتہ جون میں Standard & Poor’s نامی ریٹنگ ایجنسی
نے انتباہ کیا تھا کہ بھارت BRIC’s کلب کا پہلا رکن ہو گا جو اپنا
انویسٹمنٹ سٹیٹس گریڈ کھو دے گا۔ 1991ء ہی سے بھارت میں معاشی اصلاحی عمل
ایسے اْتارچڑھاؤ کا شکار چلا آ رہا ہے جیسا اْتار چڑھاؤ بھارت کی جمہوری
سیاست میں چلا آ رہا ہے۔
بھارت میں ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی وہاں کے حالات سے تنگ ہیں۔ حال ہی میں
فنش ٹیلی کام کمپنی نوکیا نے نئی دہلی کے رویے سے تنگ آکر بھارت سے منہ موڑ
لیا اور اب وہ اپنی مصنوعات کی برآمدات کے فروغ کے لیے چین کو مرکز بنانا
چاہتی ہے۔ایک بھارتی اخبار کی رپورٹ کے مطابق نوکیا نے بھارتی حکومت کو
بتایا ہے کہ بھارت اب اس کے لیے اہم مارکیٹ نہیں رہا اور اب وہ چین کے
ذریعے اپنی مصنوعات کی برآمدات کرنا چاہتی ہے۔ یاد رہے کہ نوکیا بھارتی
حکام کی جانب سے 20 ارب روپے (31کروڑ10لاکھ ڈالر) کی ٹیکس ڈیمانڈ سے لڑ رہی
ہے۔ اخبار نے نوکیا کے خط کا حوالے دیتے ہوئے کہاکہ کمپنی نے بھارتی حکومت
پر زور دیاکہ وہ بھارت کے بطور کاروباری مقام منفی تصور کو ٹھیک کرنے کے
لیے فوری اقدامات کرے۔بھارت میں کام کرنے کیلیے سیاسی خطرہ اچانک نمایاں
طور پر بڑھ گیا ہے جس کے مستقبل میں کسی بھی (غیرملکی کمپنی) کے بھارت میں
کام کرنے سے متعلق فیصلوں پر لازمی طور پر اثرات ہوں گے، نوکیا اور دیگر
کثیرقومی کمپنیوں کے خلاف ٹیکس کلیمز کا بھارتی کاروباری ماحول پر اس قدر
زیادہ اثر ہوگا کہ اسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔اخبار کے مطابق فنس کمپنی
نے بھارتی حکومت کے لیے یہ خط 19 جون کو لکھا تھا جو بھارتی وزارت خزانہ کو
جولائی میں ملا۔ نوکیا کا کہنا ہے کہ بھارت کے ٹیکس مسائل نے اس کے لیے چین
میں موبائل فون کی تیاری کی منتقلی اور چنائی میں تیاری کے بجائے بھارتی
مارکیٹ میں درآمد کو زیادہ کاسٹ ایفیشنٹ بنا دیا ہے۔ یاد رہے کہ نوکیا کا
چنائی میں پلانٹ اس کے بڑے پلانٹس میں سے ایک ہے جہاں 8ہزار افراد کام کر
رہے ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے بڑے ملک بھارت میں 27 کروڑ لوگ
انتہائی غربت کی زندگی گزارنے پرمجبورہیں۔بھارت میں منصوبہ بندی کمیشن کی
جانب سے جاری تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق ملک میں اب غریبوں کی تعداد
27 کروڑ تک جاپہنچی ہے یعنی ہر پانچ میں سے ایک شہری غربت کی لکیر سے نیچے
زندگی گزاررہا ہے۔یہ تعداد کل آبادی کا 22 فیصد بنتی ہے۔بنیادی ضروریات
پردیہی علاقوں میں 27 اور شہری علاقوں میں 33 روپے سے زیادہ خرچ کرنیوالے
افراد کوانتہائی غریب کے زمرے میں شامل نہیں کیاگیا۔ماہرین اوراپوزیشن
جماعتوں کاالزام ہے کہ غریبوں کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ان کا کہنا
ہے کہ 33 روپے میں گزارا کرنا ناممکن ہے اور حکومت نیاقتصادی ترقی کی
بہترتصویر پیش کرنے کیلئے یہ پیمانہ اختیار کیاہے۔تازہ ترین رپورٹ کے مطابق
سب سے زیادہ خراب حالات ریاست چھتیس گڑھ، جھاڑکھنڈ، منی پور، اروناچل پردیش
اور بہار میں ہے جبکہ گوا میں صرف 5 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی
گزارتے ہیں۔کیرالہ، ہماچل پردیش، پنجاب اور پوڈو چیری میں بھی غریبوں کی
تعداد 10 فیصد سے کم ہے۔رپورٹ کے مطابق 2004ء میں بہار کی54 فیصد آبادی
غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی تھی لیکن اب یہ تعداد تقریباً 34 فیصد
رہ گئی ہے۔“
اس تمام تر صورت حال سے بھارت میں بوسیدہ سماجی انفرااسٹرکچر کے درمیان
پایا جانے والا تضاد بھی کھل کر سامنے آچکا ہے۔ آدھی سے زیادہ آبادی کو
معاشی دائرے سے باہر دھکیل دیا گیا ہے جو کہ غیرانسانی حالات میں زندگی
گزارنے پر مجبور ہے۔ صحت سمیت تمام تر سماجی شعبے شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار
ہیں۔بھارتی شہروں کی جھونپڑ پٹیوں میں گندگی اور کوڑے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں،
جب کہ دیہی علاقے شدید آلودگی اور ماحولیاتی تباہی کا شکار ہیں۔ صحت کے
لحاظ سے بھارت میں پچھلے دنوں اس قدر ترقی بتائی گئی کہ دنیا کے ترقی یافتہ
ممالک سے بھی لوگوں نے علاج کروانے کے لیے بھارت کا رخ کیا، لیکن جہاں باقی
تمام تر چیزیں طبقاتی بنیادوں پر تقسیم کی گئی ہیں وہیں علاج کو بھی اس قدر
منہگا اور محنت کش طبقے اور ملک کی80 فی صد سے زاید آبادی کی پہنچ سے دور
کر دیا گیا ہے کہ وہ قابل علاج بیماریوں سے بھی مرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
امریکی ڈالر نے جہاں ایشیائی کرنسیوں کو متاثر کیا ہے۔ وہاں بھارتی کرنسی
کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔ مئی سے اب تک بھارتی روپے کی قدر میں 17
فیصد کمی ہوئی جبکہ پاکستان‘ ترکی‘ انڈونیشیا‘ ملائشیا‘ تھائی لینڈ‘ فلپائن
سمیت دیگر ایشیائی ممالک کی کرنسی بھی امریکی ڈالر کے دھچکے برداشت نہ
کرسکیں‘ ایشیائی ممالک ممیں سرمایہ کاروں نے سٹاک مارکیٹ سے سرمایہ نکالنا
شروع کردیا۔ میڈیا رپورٹس میں شور مچا ہوا ہے کہ امریکی ڈالر نے گزشتہ چند
روز میں ایشیائی کرنسی خصوصی طور پر بھارتی کرنسی کو بری طرح کمزور کیا ہے۔
ایک ماہ میں بھارتی اسٹاک ایکس چینج انڈیکس میں 11 فیصد کمی ہوئی صرف گزشتہ
چار روز میں بھارتی سٹاک ایکسچینج میں شیئرز کی قیمت میں ڈالر نے بھارتی
روپیہ کو 100 ارب ڈالر کا ٹیکہ لگا دیا جس کے باعث بھارت کے امیر ترین شخص
مکیش امبانی کے اثاثوں کی مالیت 5.6 ارب ڈالر کم ہو کر 17.5 ارب ڈالر رہ
گئی جبکہ مکیش کے بھائی انیل امبانی کے اثاثوں میں بھی 1.3 ارب ڈالر کا
نقصان ہوا۔ رپورٹس کے مطابق امریکی مرکزی بنک ملکی معیشت کو سہارا دینے
کیلئے 85 ارب ڈالر ماہانہ ادا کرتا تھا جس میں سے کچھ رقم ایشیائی ممالک کی
سٹاک مارکیٹ میں منتقل کی جاتی تھی تاہم اب امریکی مرکزی بنک نے ماہانہ دی
جانے والی ریزرو رقم دینے کا سلسلہ ختم کرنے کا عندیہ دے دیا جس کے باعث
سرمایہ کاروں نے ایشیائی ممالک خاص طور پر بھارتی سٹاک ایکسچینج سے سرمایہ
کاری نکالنا شروع کردی جس کے باعث ایشیائی کرنسی میں واضح طور پر گراوٹ
ہورہی ہے۔ ایشیائی ممالک میں بھارت کے علاوہ انڈونیشیا روپیہ چار سال جبکہ
ملائشین رنگٹ‘ تھائی بھات تین سال کی کم ترین سطح پر پہنچ گیا دوسری جانب
پاکستانی روپیہ ‘ ترک لیرا‘ فلپائنی پیسو‘ جنوبی کوریا کے وون سمیت دیگر
ایشیائی ممالک کی کرنسی میں بھی کمی دیکھنے میں آرہی ہے ۔پچھلے دنوں
ہندوستان میں ہونے والی دو روزہ عام ہڑتال نے ہندوستان کی معیشت اور سماجی
ترقی کا پول کھول دیا۔اس ہڑتال میں بھارت کی تقریباً کی تمام تر ٹریڈ
یونینوں سمیت پبلک سیکٹر، بینک، سرکاری انشورنس، پوسٹل سروس، ٹرانسپورٹ،
توانائی، کول مائینز، اسٹیل مائینز، بندرگاہوں، پیٹرولیم اور پلانٹیشن اور
دیگر پرائیویٹ سیکٹر ز کے مزدوروں سمیت صنعتی محنت کشوں نے بڑھ کر حصہ لیتے
ہوئے سرمایہ داری نظام اور اس کی غلاظتوں کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔
محتاط اندازوں کے مطابق اس ہڑتال میں کروڑوں محنت کشوں نے شرکت کی، جب کہ
ایک بہت بڑی تعداد ایسے افراد کی بھی تھی جس نے اس ہڑتال میں بل واسطہ حصہ
لیتے ہوئے اس کی کام یابی کو یقینی بنایا۔
بھارت کی موجودہ صورت حال میں اس ہڑتال کا ایک اہم سنگ میل ثابت ہونا کوئی
حیران کن بات نہیں ہوگی۔ دراصل یہ پچھلے سال ہونے والی 28 فروری کی عام
ہڑتال ہی کا تسلسل ہے، جس نے ہندوستان کی تاریخ میں سب سے بڑی ہڑتال ہونے
کا اعزاز حاصل کیا تھا اور محنت کش طبقے میں ایک بڑے حوصلے کی کیفیت پیدا
کردی تھی۔ یہ ہڑتال ایک ایسے دور میں وقوع پذیر ہوئی جب ہندوستان کی معیشت
کو عالمی سرمایہ داری ابھرتی ہوئی معیشت قرار دے رہی تھی۔ پچھلے چند ایک
سال سے جب دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں عالمی معاشی بحران نے اپنا
غلبہ جما رکھا تھا اور ہندوستان سمیت BRICS (برازیل، روس، چین، انڈیا،
جنوبی افریقہ) کے چند ایک ممالک کی معاشی ترقی کا بول بالا کیا جارہا تھا،
اس صورت حال میں ہندوستان سے اٹھنے والی اس چنگاری نے اس کی مصنوعی ترقی کا
جنازہ نکال دیا۔
اس وقت یورپ اور امریکا سمیت دنیا کی تمام تر بڑی معیشتیں بحرانوں کا شکار
نظر آتی ہیں۔ آج عالمی طور پر منڈی سکڑتی جارہی ہے وہیں یورپ کی منڈی شدید
خرابی کی زد میں ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ 9-2008 کے معاشی بحران کے بعد یورپ
اور امریکا کا وہ حصہ جو ابھی تک بحران کی زد میں نہیں آیا تھا اب تیزی سے
معاشی زوال کی طرف گام زن ہے۔
عالمی سطح کے اس بحران میں ہندوستان کی معیشت کی بابت جو تمام تر خوش
فہمیاں تھیں اور جس ترقی کو حوالہ بناکر معاشی ترقی کے شادیانے بجائے جارہے
تھے، وہ درحقیقت 1991ء کے بعد سے شروع ہونے والے لبرلائزیشن
(Liberalization) کے دور کی ترقی تھی، جس کے دوران ہندوستان کے ایک بہت بڑے
معاشی سیکٹر کی نج کاری کے ذریعے غیرملکی سرمایہ کاری کو پروان چڑھا کر بڑے
پیمانے پر ترقی کی گئی، لیکن 2008ء کے معاشی بحران کے اثرات ناگزیر طور پر
بھارت پر بھی پڑے۔ مغربی ممالک کے مقابلے میں بھارت اور چین کی معیشتوں کا
زیادہ گروتھ ریٹ بتا کر انہیں بحران کی زد سے باہر رکھنے کی کوشش کی جارہی
تھی، لیکن آخرکار بھارتی معیشت بھی اسی عالمی معیشت کا حصہ ہے، مغربی
معیشتوں میں یورو زون کا بحران اور امریکی معیشت کی سست روی کے بھارتی
معیشت پر تیزی سے اثرات مرتب ہورہے ہیں اور جی ڈی پی کی نام نہاد زیادہ شرح
نمو سے غربت کم ہونے کی بجائے اسی شرح سے بڑھ رہی ہے۔
پچھلے عشرے میں بھارتی معیشت کی شرح نمو اوسطاً9 فی صد رہی ہے، خطِ غربت کے
نیچے ایک ڈالر یومیہ پر گزارہ کرنے والے افراد کی تعداد 770ملین سے بڑھ کر
860ملین ہوچکی ہے۔ پلانگ کمیشن آف انڈیا نے گذشتہ سال اپنی سالانہ رپورٹ
میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی ایک نئی تشریح پیش کی ہے،
جس کے مطابق شہروں میں یومیہ 28.65 روپے (فی فرد) خرچ کرنے والے جب کہ
دیہات میں 22.42روپے خرچ کرنے والے افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی
گزارنے کے زمرے میں نہیں آتے۔ اگر ان اعدادوشمار کو ماہانہ ضرب کیا جائے تو
فی شہری 859.6 روپے (مہینہ) جب کہ 672.8 روپے کی کھپت کرنے والی دیہی آبادی
غریب نہیں ہے۔اس طرح بھارتی حکومت نے ’’جمہوری‘‘ طریقے سے 2009ء سے اب تک
تقریباً 29.8فی صد سرکاری طور پر غربت ختم کردی ہے!
بولی وڈ اور کرکٹ کی دنیا میں بظاہر ایک بہت بڑا معاشی انقلاب برپا کروانے
کی کوشش کی جارہی ہے، جس سے عوام کے سامنے یہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ معاشی
استحکام ابھی برقرار ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کالے دھن نے بھارتی ریاست میں
اس قدر سرائیت کرلی ہے کہ اب ریاستی جائز طریقوں سے اس کالے دھن ( economy
informal) کو سفید (formal economy) کرنے میں ریاست اپنا کردار ادا کر ہی
ہے۔ اس قسم کی سرمایہ کاری سے کالادھن بغیر کسی رکاوٹ کے سفید ہوجاتا ہے۔
2013ء کی معاشی صورتحال بھی مایوس کن ہے۔ 9 فی صد کے لگ بھگ شرح نمو بھی
ہندوستانی عوام کو بربادی کے سوا کچھ نہیں دے سکی۔ معاشی ترقی کا فائدہ
قلیل تعداد میں موجود درمیانے طبقے کو ہوا جب کہ ایک ارب ہندوستانی اذیت
اور غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتے چلے گئے۔ بھارت کی تاریکی کا اندازہ
بھارتی عورتوں کی صورت حال کو دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے۔ پچھلے دنوں ہوئے
دہلی ریپ کیس کے بعد عوامی شعور بڑے پیمانے پر متحرک ہوا ہے۔ ایسا نہیں تھا
کہ اس سے پہلے ہندوستان میں عورتوں سے زیادتی کے واقعات نہیں ہوا کرتے تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں ہر بیس منٹ میں ایسا ایک واقعہ ہوتا ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان دنیا میں خواتین کے لیے چوتھا بد
ترین ملک ہے۔ ہندوستانی خواتین اور بچیوں کے مصائب ان کی پیدا ہونے سے پہلے
ہی شروع ہو جاتے ہیں۔ ایک کروڑ سے زیادہ بچیوں کا اسقاطِ حمل ہو چکا ہے اور
ہر سال پانچ لاکھ سے زاید بچیاں پیدا ہونے سے قبل ہی ختم کردی جاتی ہیں۔ اس
تمام تر صورت حال کے باوجود ہندوستانی حکم راں ترقی کا راگ الاپتے ہیں،
لیکن اس واقعے کے بعد عوام کے شدید رد عمل نے بھارت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
بھارتی عوام حکم راں طبقے کی تمام تر جعلسازیوں، دھوکوں اور جھوٹ سے آگاہ
ہوچکے ہیں اور ان ظالم حکم رانوں کے سفید جھوٹ کو اب بہ آسانی پہچاننے لگے
ہیں۔
گلوبلائزیشن نے پچھلے 20 سال میں ہندوستانی معاشرے کو سوائے غربت اور بے
حسی کے اور کچھ نہیں دیا، لیکن ماضی کی نسبت آج بڑے پیمانے پر محنت کش طبقے
کا احتجاج بڑھ رہا ہے۔ بڑے پیمانے پر تحریکیں اٹھتی نظر آرہی ہیں۔ اس تمام
تر معاشی اور سماجی جبر میں بھارت کی واحد امید محنت کش طبقہ اور نوجوان
ہیں۔ حکم راں طبقے کے پالیسی سازوں نے نیچے پکنے والے لاوے کی آنچ کم کرنے
کے لیے دھوکا دہی کے کئی طریقے استعمال کیے ہیں۔ انا ہزارے سمیت سول
سوسائٹی کی تمام تحریکوں نے موجودہ نظام ، اور کرپشن کے خلاف آواز تو اٹھا
ئی لیکن اس کا کوئی متبادل پیش نہیں کی گیا۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا
مارکسسٹ بھی اپنے مصلحتی کردار کی وجہ سے عوام کے سامنے بے نقاب ہوچکی ہے۔
بھارتی کی مجموعی آبادی کا ایک بڑا حصہ اب بھی خط غربت سے نیچے زندگی بسر
کرنے پر مجبور ہے۔ بھارت کی 1.2 بلین آبادی کا 3/5 واں حصہ دیہاتوں میں
رہتا ہے اور وہ بڑی حد تک زراعت پر ہی انحصار کرتا ہے۔بھارت میں کئی برس
اثھی فصل کے بھی آئے ۔تاہم حکومت کے پاس اناج کی مناسب ذخیرہ اندوزی کا
انتظام نہیں ہے، جس کی وجہ سے یہ کھلے آسمان کے نیچے سڑتا رہتا ہے۔ بھارت
کی عدالت عظمیٰ نے اس بات کی سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا تھا کہ اناج کو سڑانے
کے بجائے انہیں غریبوں میں مفت تقسیم کردینا چاہئے۔ تاہم حکومت نے اس پر
عمل نہیں کیا اور کہا کہ یہ عدالت کا مشورہ ہے حکم نہیں۔ بعدمیں سپریم کورٹ
نے واضح لفظوں میں کہا کہ یہ مشورہ نہیں بلکہ حکم ہے ۔ بھارت کا ایک اہم
مسئلہ ملک میں اقتصادی عدم مساوات ہے۔ بھارت میں غربت بھی بہت بڑا مسئلہ ہے۔
یومیہ ایک ڈالر سے بھی کم آمدنی والے کروڑوں خاندانوں کو اوپر اٹھانا ایک
بڑ اچیلنج ہے۔ ایک خاندان نے اپنی غربت کو بیاں کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس
صرف ایک رضائی ہے، سردیوں میں ہم تمام آٹھ افراد اسی سے گزارا کرتے ہیں۔
بجلی لگوانے کی سکت نہیں اور نہ گھر میں پانی ہے۔ مگر رونے کا بھی کوئی
فائدہ نہیں۔ کون ہے جو ہماری سنے؟ بھارت کی چمک دھمک دکھانے میں وہاں کے
میڈیا فلم انڈسٹری کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ چند برسوں کے دوران بھارت میں
پرائیویٹ ٹیلی وڑن چینلز کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور آج کل وہاں
تقریباً بارہ سو چینلز دستیاب ہیں۔ لیکن بھارت کا اصل چہرہ وہاں کی غربت
اور افلاس ہے۔ جو بھارت کی ترقی کا ڈھول بجانے والوں کا پول کھول دیتا ہے۔ |