کسی زمانے میں پھولوں کا شہر کہلانے والے پشاور کے مختلف
علاقوں میںپڑے گندگی کے ڈھیروں کو دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ اس شہر کو کبھی
پھولوں کا شہر کہا جاتا ہوگا شائد لکھنے والوں سے غلطی ہوئی ہوگی جو وہ فول
کے بجائے پھول لکھ بیٹھے اسی شہر کا باسی ہونے کے ناطے مجھے وہ دن یاد ہے
جب ھم صبح سویرے نماز کیلئے جاتے تو صفائی کرنے والے افراد گھروں کے سامنے
جھاڑو لگاتے دکھائی دیتے اورپھر ان کے جانے کے بعد ماشکی )پانی ڈالنے والے(
گھروں کے سامنے پانی ڈالتے اور گلیاں اور محلے صاف کرتے دکھائی دیتے یہ
کوئی پرانا قصہ نہیں صرف پندرہ بیس سال پرانی بات ہے لیکن پتہ نہیں ان بیس
سالوں میں کیا سے کیا ہوگیا کہ ہر چیز تبدیل ہو کر رہ گئی وہ شہر جو تجارت
اور امن کیلئے مشہور تھا جس کی شہریوں کی مہمان نوازی مشہور تھی آج اس حال
کو پہنچ گیا کہ لوگ امن کیلئے ترس رہے ہیں کاروباری حضرات یہاں سے بھاگ رہے
ہیں اور گندگی کے ڈھیر ہر جگہ دکھائی دے رہے ہیں دیوار شہر کے اندر کے
رہائشی ہوں یا پھر بیرون شہر کے لوگ گندگی کے ڈھیروں کیساتھ یوںزندگی گزار
رہے ہیں جیسے یہی ان لوگوںکا اوڑھنا بچھونا ہو-گندگی کے ان ڈھیروں کو ختم
کرنے کیلئے خدا کی زمین پر اپنی بدمعاشی جتلانے والے لالٹین والی سرکار نے
اپنے دور حکومتمیں پنجاب سے آنیوالے ایک سرمایہ کار کو ری سائیکلنگ کے ایک
منصوبے پر آمادہ کیا اور اس کیلئے پھندو روڈ پر انہیں جگہ بھی فراہم کردی
گئی جس کا باقاعدہ افتتاح بھی ہوا تصاویر بھی چھپ گئیں اور ٹی وی چینلوںپر
پروگرام بھی دکھائیگئے بڑے بڑے دعوئے جس میں کہا گیا کہ دو سال میں یہ
منصوبہ مکمل ہوگا اور گندگی کے ڈھیروں کو ختم کیا جائیگا اور ساتھ میں اس
سے بجلی بھی پیدا ہوگی لیکن اللہ کی شان ہے کہ دو سال تو کیا ان کی حکومت
بھی اناللہ وانا الیہ راجعون ہوگئی لیکن منصوبہ مکمل نہ ہوسکا اور نہ ہی
شہر سے گندگی کے ڈھیر ختم ہوگئے بلکہ اب تو یہ حال ہے کہ شہر کیساتھ ساتھ
جی ٹی روڈ پرسڑک کنارے بھی گندگی کے ڈھیر نظر آنے لگ گئے ہیں جسے آگ لگا کر
ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اس عمل سے گندگی ختم کیا ہوگی الٹا فضائی
آلودگی بڑھ رہی ہے جو یہاں کے شہریوں کو بیمار کررہی ہیں لیکن کوئی پوچھنے
والا نہیںتقریبا یہی صورتحال اس وقت پورے صوبہ خیبر پختونخواہ کی ہیں- خیبر
پختونخواہ میں چار ترجمانوں پر چلنے والی تبدیلی والی سرکارکے آنے کے بعد
یہاں کے باسیوں کو یقین تھا کہ تبدیلی آجائیگی تین ماہ میں تبدیلی لانے کے
دعویدار ابھی تک کچھ تو نہیں لا سکے ہیں کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ گندمختلف
محکموں میں بہت سارا پڑا ہے جس کی صفائی میں سالوںلگیں گے اور یہ ہر کوئی
جانتا ہے لیکن تبدیلی والی سرکار تین ماہ میں تبدیلی کی دعویدار تھی اس لئے
ہم جیسے لوگ بھی پرامید تھے کہ کچھ نہ کچھ تو آہی جائیگا اور کم از کم
گندگی کی صورتحال پر تبدیلی تو آہی جائیگی لیکن شہر سے گندگی ہٹانا بھی ان
کیلئے پانچ سالہ منصوبہ بن گیا ہے کبھی پورے شہر کی صفائی کے ٹھیکے کو ترکش
کمپنی کو دینے کی بات ہوتی ہے تو کبھی شہر کو سرف سے دھونے کی اطلاعات ملتی
ہیں-حالانکہ اگر سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہونیوالے میونسپل کارپوریشن کے
اہلکاروں سے اگر صحیح معنوں میںکام لیا جائے تو کوئی مشکل نہیں کہ شہر سے
گندگی ختم ہو-
گذشتہ دنوں صوبائی وزارت اطلاعات نے ایک عجیب خبر چلادی خبر سے اندازہ ہوا
کہ تبدیلی والی سرکارکی تبدیلی بھی ہوائی ہے صوبائی وزارت اطلاعات سے 18
اگست کو چلائے جانیوالے ہینڈ آئوٹ نمبر 4 کے مطابق شہر سے گندگی کو ختم
کرنے اور گرین اور کلین پشاور پروگرام اور تبدیلی کے مشن میں وزیراعلی کے
ترجمان نے بائیسیکل کا استعمال شروع کردیا بقول ان کے سرکاری گاڑی کے کم سے
کم استعمال اور گاڑیوں کے پٹرول مرمت اور ڈرائیور کی تنخواہوں میں سرکاری
خزانے سے کروڑوں روپے خرچ ہورہے ہیں اور اگر سائیکل کا استعمال اس طرح جاری
رہا تو پھر فضائی آلودگی بھی کم ہوگی اور گندگی کے ڈھیر بھی سرکار کی مدح
سرائی کرنا یقینا صوبائی وزارت اطلاعات کا کام ہے لیکن صحافت کے شعبے سے
وابستہ افرادبھی شائد بینا ہوتے ہوئے بھی نہیں دیکھتے کہ منصوبہ بندی
کیساتھ کئے جانیوالے اس پروگرام کے خالق کوصوبائی حکومت کی طرف سے ترجمان
قرار دینے والی شخصیت نے وزیراعلی سیکرٹریٹ میں دفتر اور گاڑی دینے سے
انکار کیا اور مسلسل شکایات کے باوجود کچھ نہ ہونے پر وزیراعلی کے ترجمان
نے نوشہرہ سے گاڑی میں پشاور تک کا سفر کیا اور بعد ازاں ایک مقامی اخبار
کے دفتر سے سائیکل پر بیٹھ گئے تاکہ ان کی تصویر چھپنے کے بعد وہ وزیراعلی
کو شکایت کرسکیں کہ یہ آپ کے ترجمان کا حال ہے کہ اسے دفتر اور گاڑی مہیا
نہیں کی جارہی پروگرام تخلیق کرنے والے کو امید تھی کہ اس طرح اسے وزیراعلی
سیکرٹریٹ میں دفتر اور سائیکل بھی مل جائیگا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا تو
انہوں نے فوری طور پر سکرپٹ میں تبدیلی کرتے ہوئے تبدیلی کا نعرہ لگایااور
پھر کلین اور گرین پشاورسامنے آیایعنی ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی
چوکھا آئے کیا ہوا اگر گاڑی اور دفتر نہیں ملا کم از کم اخبار میں خبریں تو
چھپ گئیں اور فول میرا مطلب ہے پھولوں کے شہر کے باسیوں نے زندہ باد کے
نعرے تو لگا ہی لئے کہ ایسے کہتے ہیں تبدیلی -تبدیلی والی سرکار کے صوبائی
ترجمان کیلئے بھی مشکل ہے کیونکہ اگراس طرح وہ گاڑیاں اور دفتر تقسیم کرتے
رہے تو پھر ان کے پاس کیا بچے گا کیونکہ انہوں نے اپنے بھائی کو جو گاڑیاں
دی ہیں ان کے پٹرول کا خرچہ بھی یہاں کے فول میرا مطلب ہے پھولوں والے
شہرکے باسیوں سے نکالنا ہے - یہ الگ بات کہ ان کے بھائی سرکاری گاڑیوں کو
گلبہار میںرات کے وقت ریس لگانے کیلئے استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں-
زبان ایک ایسی چیز ہے جس کے بارے میں پشتو زبان کی ایک مثل مشہور ہے کہ "کہ
اپنی زبان قلعہ بھی ہے اور بلا بھی " یعنی اسی زبان کے استعمال میں احتیاط
برتیں تو ہمارے لئے قلعہ کی حیثیت بھی رکھتی ہے اور اگر اس کا استعمال غلط
ہو تو پھر یہ بلا کی حیثیت رکھتی ہے-زباان کی لغرش سے برباد ہونیوالے اگر
سابقہ حکمران تھے تو موجود بھی کسی سے کم نہیں بہت سارے دعووں کیساتھ شہر
میں گندگی ہٹانے کے دعوے تو انہوں نے بہت کئے لیکن ان دعوئوں کو عملی جامہ
پہنانے میں یہ لوگ کتنے سچے ہیں اس کا اندازہ تو ان کی تاریخی اقدامات سے
کیا جاسکتا ہے گندگی کے ان ڈھیروں کی صفائی اگر حکومتی اداروں کی ذمہ داری
ہے تو اس کے ساتھ اس شہر کے باسیوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ شہر کو صاف
رکھیں لیکن یہ لوگ ہے جو گندگی کا شاپنگ بیگ گھر سے نکال کر گلی میں پھینک
دیتے ہیں کہ جیسے گلی ان کی نہیں کسی اور کی ملکیت ہے عوام کیساتھ زبانی
جمع خرچ کرنے والے سیاستدانوں کیلئے ہم جامع ترمذی کی ایک حدیث شیئر کررہے
ہیں جو کہ ۔ حضرت معاذ بن جبل رضی ا للہ تعالی عنہ نے روایت کی ہے جس میں
معاذ بن جبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے سوال کیا اور اس کے جواب
میں رسو ل اللہ صلی اللہ والہ وسلم اپنی زبان مبارک پکڑی اور فرمایا اسے
اپنے اوپر روک لو معاذ بن جبل نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ کیا گفتگو کے
بارے میں بھی ہمارا مواخذا ہوگا جس پرحضرت محمد صلی اللہ والہ وسلم نے
فرمایا کہ تمھاری ماں تم پر روئے اے معاذ کیا لوگوں کودوزخ میں منہ یا
نتھنوں کے بل زبان کے علاوہ بھی کوئی چیز گراتی ہے- سو ہمارے اوپر مسلط
حکمرانوں اگرآپ کی زبان اس طرح لڑھکتی رہی تو وہ دن دور نہیں جب آپ بھی
لڑھک جائینگے اور پھر آپ سے آپ کے اعمال اور زبان لڑھکنے کا بھی حساب ہوگا- |