یہ سال جون ہی کی بات ہے جب میں
ایک پروگرام کے سلسلے میں منصورہ لاہور میں موجود تھا۔ جامع مسجد منصورہ
میں مغرب کی نماز کے بعد ایک ساتھی نے مجھے بتایا کہ وہ جو پہلی صف میں
بائیں جانب ایک بزرگ بیٹھے ہیں وہ میاں طفیل محمد ہیں ہم لوگ بقیہ نماز کی
ادائیگی کے بعد جب ان سے ملنے جانے لگے تو ہم سے کہا گیا کہ براہ مہربانی
میاں صاحب کو صرف سلام کیجئے گا ان سے زیادہ گفتگو نہ کیجئے گا کیوں کہ صحت
کی خرابی کے باعث میاں صاحب زیادہ گفتگو نہیں کرسکتے ہیں۔ اس لیے ہم صرف ان
سے سلام دعا کر کے اور ان کی خیریت دریافت کر کے واپس آگئے۔ یہ میاں صاحب
سے براہ راست میری پہلی اور آخری ملاقات تھی۔
25 جون کی رات جب مجھے یہ میل ملی کہ میاں صاحب کا انتقال ہوگیا ہے تو یہ
ساری یادیں دوبارہ تازہ ہوگئیں۔ میاں صاحب گزشتہ اڑھائی ہفتے سے برین
ہیمبرج کے باعث شیخ زید ہسپتال میں زیر علاج تھے اور جمعرات 25 جون کی شب
رات آٹھ بجے 96 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ان کے پسماندگان میں چار
بیٹے، آٹھ بیٹیا شامل ہیں۔ ان کی نماز جنازہ جمعہ کی سہہ پہر چار بجے جماعت
اسلامی کے مرکز منصورہ میں ادا کی گئی۔ نمازہ جنازہ سابق امیر جماعت اسلامی
قاضی حسین احمد نے پڑھائی اور ان کو علامہ اقبال ٹاؤن کریم بلاک کے قبرستان
میں سپرد خاک کیا گیا۔ ہم یہاں میاں طفیل محمد صاحب کا ایک مختصر تعارف پیش
کررہے ہیں۔ اگرچہ یہ تعارف کئی ایک اخبارات میں شائع ہوا ہے لیکن ہم ہماری
ویب کے یوزرز کے لیے اسے یہاں پیش کرتے ہیں۔
میاں طفیل محمد 1914ء میں ریاست کپور تھلہ ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے-1935
میں گورنمنٹ کالج لاہور سے فزکس اور ریاضی میں فرسٹ ڈویژن میں بی اے ( آنرز
) کیا اور 1937ء میں لاء کالج لاہور سے قانون شہادت اور لینڈ لاز میں آنرز
کے ساتھ ایل ایل بی بھی فرسٹ ڈویژن میں پاس کرکے دوسرا انعام حاصل کیا-قرآن
و سنت کی تعلیم 1948ء سے لیکر 1950ء تک سینٹرل جیل ملتان میں نظربندی کے
دوران مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحی سے حاصل
کی ( یہ دونوں رہنما بھی اسی جیل میں نظر بند تھے )
میاں طفیل محمد 26ء اگست 1941ء میں لاہور میں منعقد ہونے والے جماعت اسلامی
کے تاسیسی اجتماع جس میں صرف 75 ارکان نے شرکت کی، اس میں شریک تھے۔ اس طرح
وہ جماعت اسلامی کے تاسیسی ارکان میں شمار ہوتے ہیں۔ مارچ 1944ء میں وہ
جماعت اسلامی ہند کے سیکرٹری جنرل مقرر ہوئے اور اس وقت سے سید ابو الاعلیٰ
مودودی کی وفات تک ان کے رفیق رہے۔ میاں صاحب 17 اپریل 1944ء سے اگست 1947
تک کل ہند جماعت اسلامی اور اس کے بعد دسمبر 1965ء تک سوائے ساڑھے چار سال
پر مشتمل ان وقفوں کے جب انہیں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا جاتا رہا وہ
جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل رہے۔
1966 سے 1972ء کے وسط تک وہ جماعت اسلامی مغربی پاکستان کے امیر رہے-اکتوبر
1972ء میں مولانا مودودی نے اپنی صحت کی خرابی کے باعث جماعت اسلامی کی
امارت کی ذمہ داری مزید اٹھانے سے معذرت کردی تو ارکان جماعت نے میاں طفیل
محمد صاحب کو پانچ سال کے لیے امیر منتخب کرلیا- وہ تین بار اس منصب کے لیے
منتخب ہوئے۔1987 میں وہ صحت کی خرابی کے باعث اس منصب سے ریٹائرڈ ہوگئے۔
میاں صاحب نے ملک میں بننے والے مختلف اتحادوں میں نمایاں کردار ادا کیا-
1962ء سے 1987ء تک تمام بین الجماعتی سربراہی مجالس،کونسلوں،اور مرکزی
مشاورتوں کے رکن اور ان میں شریک رہے-
میاں طفیل محمد صاحب نے سید علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش صاحب کی مشہور
کتاب “ کشف المحجوب“ کا سلیس اردو زبان میں ترجمہ کیا۔ اس کے علاوہ “ دعوت
اسلامی اور اس کے مطالبات “ کے عنوان سے لکھی جانے والی کتاب کی تصنیف و
تالیف میں مولانا مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحی کے ساتھ شریک رہے۔
انہوں نے برطنیہ، امریکہ، کینیڈا، عراق، سعودی عرب اور دیگر کئی ممالک کے
تبلیغی دورے کیے- معروف یونیورسٹیوں میں خطاب کیا اور اہم اجلاسوں میں شرکت
کی- وہ رابطہ عالم اسلامی کی “ اعلیٰ عالمی مجلس برائے مساجد“ کے رکن رہے-
اس کونسل کے کل 26 ارکان تھے- انہوں نے اس کے کئی اجلاسوں میں شرکت کی-
میاں صاحب نے بھی کافی عرصہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ چار اکتوبر
1948 سے اٹھائیس مئی 1950 تک قصور اور ملتان کی جیل مین بیس ماہ “ تحریک
مطالبہ نطام اسلامی “ کے سلسلے میں قید رہے-بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ کے
فیصلے کے تحت رہا ہوئے- دس اکتوبر 1961 تا تئیس جون 1962 ڈسٹرکٹ جیل لاہور
اور سینٹرل جیل ساہیوال میں صدر ایوب خان کے مارشل لاء کے دوران فیلمی لاز
آرڈی نینس پر تنقید کی پاداش میں نطر بند رہے-اسی نظر بندی کے دوران سینٹرل
جیل ساہیوال میں آپ نے کشف المحجوب کا ترجمہ کیا- 6 مئی 1963 دوسری جماعتوں
کے آٹھ لیڈروں کے ہمراہ بغاوت کے الزام میں کیمپ جیل لاہور اور سینٹرل جیل
ملتان میں قید رہے اور پھر ضمانت پر رہا ہوئے- 5 دسمبر 1963 کو آفیشل سیکرٹ
ایکٹ کے تحت گرفتار ہوئے اور ضمانت پر رہا ہوئے، دو سال تک یہ مقدمہ چلتا
رہا آخر حکومت نے یہ کہہ کر مقدمہ واپس لے لیا کہ استغاثہ کے پاس کوئی ثبوت
موجود نہیں تھا۔ 6 جنوری 1964ء کو ایوب خان کی حکومت نے جماعت اسلامی کو
خلاف قانون قرار دیکر مولانا مودودی، میاں طفیل محمد، سمیر مرکزی شوریٰ
باون ارکان گرفتار کرلیا۔- نو اکتوبر 1964ء کو سپریم کورٹ نے جماعت اسلامی
پر پابندی کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ ہائی کورٹ نے حبس بے جا درخواست پر
ان سب کو رہا کردیا
18 فروری 1973ء کو موچی دروازہ لاہور میں بلوچستان کی صوبائی حکومت کی
برطرفی کے خلاف احتجاجی جلسہ سے خطاب کرنے ایک بار پھر بغاوت کا الزام لگا
کر گرفتار کیا گیا اور سولہ مارچ کو سپریم کورٹ سے ضمانت پر رہا ہوئے-ڈھائی
سال بعد حکومت نے عدم ثبوت کی بناء پر یہ بغاوت کا یہ مقدمہ بھی واپس لے
لیا۔ چوبیس مارچ 1977ء کو عام انتخابات کی منسوخی کے سلسلے میں ملک گیر
قومی مطالبہ کی تحریک چلانے کے سلسلے میں گرفتار کرکے سینٹرل جیل ساہیوال
اور سہالہ کیمپ جیل راوالپنڈٰی میں نطر بند کردیا گیا۔ دوسرے اپوزیشن
رہنماؤں کے ساتھ یکم جون 1977ء کو مذاکرات کے لیے بھٹو مرحوم نے خود ہی رہا
کردیا۔
1987ء میں جماعت اسلامی کی امارت سے فارغ ہونے کے بعد ادارہ معارف اسلامی
کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے چند سال پہلے تک کام کرتے رہے- صحت کی زیادہ خرابی
اور بینائی کمزور ہونے کے بعد اس منصب سے الگ ہوگئے۔ میاں صاحب پیرانہ سالی
اور کمزور صحت کے باجود برین ہیمبرج کے حملے تک جامع مسجد منصورہ میں
باجماعت نمازوں میں اہتمام کے ساتھ شریک ہوتے رہے۔ گزشتہ سال رمضان المبارک
تک پوری نمازِ تراویح جماعت کے ساتھ کھڑے ہو کر ادا کرتے رہے۔ برین ہیمبرج
کے حملے کے باعث قریباً اڑھائی ہفتے علیل رہنے کے بعد میاں طفیل محمد صاحب
25 جون 2009 بروز جمعرات بوقت رات 8 بجے اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ حق
مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا |