آزاد کشمیر کی گمشدہ شناخت

’’آزاد کشمیر میں نوجوانوں پر تنازعہ کے اثرات‘‘ کے نام سے ایک رپورٹ راولاکوٹ میں جاری کی گئی ہے جو مظفر آباد ،راولاکوٹ اور میرپور کے شہروں میں نوجوانوں کی ورکشاپوں کے بعد تیار کی گئی ۔سینٹر فار پیس،ٖڈولپمنٹ اینڈٖ ریفامز (سی ڈی آر) کی’’ کنسیلیشن ریسورسز یو کے‘‘ کے تعاون سے تیار کی گئی رپورٹ کی ایگز یکٹیو سمری میں بتایا گیا ہے کہ آزاد کشمیر کے نوجوان اپنے بنیادی حقوق اور ذمہ داریوں سے آگاہ ہیں۔اگرچہ وہ لارجر کشمیر تنازعہ سے منسلک ہیں لیکن وہ براہ راست’ آرمڈ کنفلکٹ‘ میں ملوث نہیں ہونا چاہتے ۔آزاد کشمیر کا جمہوری سسٹم کمزور لیکن اس سے لوگوں کو اپنی آواز بلند کرنے میں مدد ملی،سیاسی عمل میں شامل ہوتے ہیں اور انہیں ’’ ملکیت‘‘ کا احساس دیتا ہے۔رپورٹ کے مطابق آزاد کشمیر کے نوجوانوں کو غیر تصفیہ شدہ کشمیر تنازعہ کی وجہ سے معاشی،سیاسی ،آئینی امور درپیش ہیں۔رپورٹ کے مطابق آزاد کشمیر کے نوجوان یقین رکھتے ہیں کہ ان کے حقوق دوسروں کے ہاتھوں میں ہیں اور اس کے لئے کشمیر تنازعہ کا جواز پیش کیا جاتا ہے( یہ وہی بات ہے جو پہلے گلگت بلتستان کے کئی افراد کہا کرتے تھے) ، نوجوان یقین رکھتے ہیں کہ ’سٹیٹ آف اے جے کے ‘ کو ا قوام متحدہ کی قراردادوں 1949ء جس میں لوکل اتھارٹی کی بات کی گئی ہے، کے مطابق اٹانومی ( اپنا اندرونی انتظام خود چلانا)حاصل نہیں ہے ۔اور ان وعدوں کی تکمیل نہ ہونے سے آزاد کشمیر میں شفاف اور پائیدار جمہوری سسٹم نہ پنپ سکا۔ نوجوان آزاد کشمیر اور پاکستان کے ناہموار اور بے قاعدہ آئینی تعلقات کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔1974ء ایکٹ پر تنقید کرتے ہیں اور سختی سے سمجھتے ہیں کہ آزاد کشمیر کے عوام کے بجائے فیصلے کا اختیار کونسل کو حاصل ہے ۔نوجوانوں کے خیال میں اے جے کے اور پاکستان کے تعلقات غیر واضح ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ یہ نہ تو خود مختار ریاست ہے اور نہ ہی پاکستان کا صوبہ۔ان کے خیال میں اس ابہام سے ریاست کے حالات پر گہرا اثر پڑ رہا ہے۔’ اے جے کے‘ مشترکہ مفادات کونسل(CCI)نیشنل اکنامک کونسل(NEC)نیشنل فنانس کمیشن(NFC) یا انڈس ریور سسٹم اتھارٹی(ISRA) میں نمائندگی حاصل نہیں ہے جو ان کے حقوق سے انکار ہے۔کافی نوجوانوں کے خیال میں آزاد کشمیر کے لوگوں کے پاکستان کے ساتھ تعلقات اچھے اور قدرتی ہیں،مضبوط اور مستحکم پاکستان کشمیر کے لوگوں کے مفاد میں ہے۔نوجوانوں نے آزاد کشمیر کے سیاسی لیڈروں پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ،انہوں نے حالیہ سیاسی صورتحال پر سوالات کئے اور آزاد کشمیر کو سیاسی بدانتظامی والا خطہ قرار دیا۔ان کے خیال میں آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتیں بدعنوانی،نااہل،بد انتظامی اور خاندانی مفادات کی وجہ سے بے فائدہ ہیں اور تنازعہ( مراد تنازعہ کشمیر)کی وجہ سے آزاد کشمیر میں’ socio-econimic‘کی صورتحال مزید خراب ہو رہی ہے۔اکثر نوجوانوں کا خیال ہے کہ آزاد کشمیر کی دولت غیر برابری کی بنیاد پر تقسیم کی جاتی ہے( شاید اس سے مراد آزادکشمیر کے اضلاع کے درمیان وسائل کی تقسیم ہے)اور حکمران طبقہ وسائل کا ناجائز استعمال کرتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق نوجوانوں نے سیاست دانوں کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا لیکن انہوں نے جمہوری طریقہ کار کی مکمل حمایت کی کیونکہ ان کے خیال میں یہ پرامن تبدیلی لانے کا واحد ذریعہ ہے۔ نوجوان آزاد کشمیر کے سیاسی اور انتظامی سیٹ اپ میں پاکستان کی غیر ضروری حاوی ہونے پر گہری تشویش رکھتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق نوجوانوں نے ’’کشمیر اشو‘‘ کے لئے حمایت ظاہر کی۔ان کے خیال میں آزاد کشمیر میںsocio-economicترقی کا انحصار پاکستان پر ہے۔رپورٹ کے مطابق اگرچہ نوجوانوں نے پاکستان کے ساتھ گہری وابستگی ظاہر کی اس کے ساتھ وہ اپنی مقامی کشمیری شناخت کو تحلیل نہیں کرنا چاہتے اور اسے ہمیشہ قائم رکھنا چاہتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق آزاد کشمیر کے نوجوان اپنی شناخت کے موجودہ سٹیٹس سے غیر مطمئن ہیں،انہیں معلوم نہیں ہے کہ وہ قانونی اور سیاسی طور پر کشمیری ہیں؟یا اس کے بجائے وہ خود کو پاکستانی کشمیری یا صرف پاکستانی کہیں۔آزاد کشمیر کے تینوں ڈویژن کے نوجوانوں میں کشمیر تنازعہ کے پرامن حل سے متعلق وسیع حمایت نظر آئی،انہوں نے امن کوششوں کی حمایت اور دکھائی دینے والی تعداد میں نوجوانوں نے مسلح تحریک سے لاتعلقی ظاہر کی۔ جموں و کشمیر(بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر)کی پرامن تحریک نے آزاد کشمیر کے نوجوانوں کو متاثر کیا ہے۔آزاد کشمیر کے نوجوان تنازعہ کشمیر کو سیاسی مسئلہ سمجھتے ہیں اور زور دیتے ہیں کہ کشمیر تنازعہ میں انسانی پہلوؤں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔نوجوانوں نے ’’ کراس لائین آف کنٹرول‘‘ عوامی رابطے اور تجارت کے لئے روائتی راستوں کو کھولنے کی حمایت کی۔نوجوانوں نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ’ ایل او سی‘ کے دونوں طرف ثقافتی تبادلوں(ڈانس،فوک میوزک،شاعری،سپورٹس،مذہبی سیاحت وغیرہ) کو فروغ دیا جائے،نوجوانوں کے تبادلے،مشترکہ یوتھ پارلیمنٹ،تعلیمی مواقع،طالب علموں کے لئے فری موومنٹ،اور دونوں طرف رہنے والے لوگوں کے لئے۔آزاد کشمیر کے نوجوان کراس ایل او سی تجارت اور تقافتی سرگرمیاں ساتھ ساتھ چاہتے ہیں۔لائین آف کنٹرول کو ’’ لائین آف کلچر ،کامرس اینڈ کمیونیکیشن کی صورت تبدیل کرنا چاہتے ہیں(مسلم کانفرنس کے صدر سردار عتیق کی اعلان کردہ تجویز جسے کنٹرول لائین کو مستقل سرحد کی حیثیت دینے کی حمایت کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے)اس کے علاوہ ’’آر پار‘‘ آنے جانے کے طریقہ کار کو آسان بنانے کی بات بھی کی گئی۔نوجوان ’’امن عمل‘‘ جاری رکھنا چاہتے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ’’ ٹریڈ اینڈ ٹریول‘‘ کوئی حل نہیں ہے لیکن لیکن اس سے منطقی حل کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔

ضلع مظفر آباد ،ضلع میر پور،اور آدھ ضلع پونچھ،یہ ہے وہ علاقہ جس پر تمام ریاست جموں و کشمیر کی نمائندگی پر مبنی انقلابی حکومت قائم کرتے ہوئے اسے آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کا نام دیا گیا اور اسی مناسبت سے ڈوگرہ و انڈین آرمی سے آزاد کرائے گئے اس علاقے کو آزاد کشمیر کا نام دیا گیا ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستانی حکومت کی طرف سے آزاد کشمیر کو کئی طرز حکومت دیئے گئے۔1970ء میں صدارتی طرز حکومت اور 1974ء میں پارلیمانی طرز حکومت دیا گیا۔1948ء میں آزاد کشمیر حکومت گلگت بلتستان کو وفاقی حکومت کے حوالے کرنے کے بعد ایکٹ1974ء کے ذریعے مسئلہ کشمیر کی ذمہ داریوں سے بھی دست بردار ہوتے ہوئے مفادات اور شخصیت پرستی کی بنیاد پر برادری ازم و علاقائیت کی سیاست کی ترویج ہوئی ۔یہ بھلا دیا گیا کہ آزاد کشمیر کی تقریبا چالیس لاکھ آبادی ،پٹی کی شکل کے مختصر رقبے والے علاقے کو آبادی و رقبے سے قطع نظرریاستی پرچم،ترانے،سپریم کورٹ سمیت ایک ریاست کی طرح کا درجہ اسی لئے حاصل ہے کہ یہ آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر ہے جبکہ اب آزاد کشمیر میں یہ سمجھا جا رہا ہے کہ یہ آزاد کشمیر حکومت ہے۔یعنی سٹیٹس تو تمام ریاست جموں و کشمیر کا انجوائے کیا جائے اور ذمہ داریوں کاتعین صرف اپنی علاقائی حدود میں محدود کر دیا جائے۔آزاد کشمیر کا تو نام ہی پار والے جموں و کشمیر سے منسوب و مربوط ہے،اگر کنٹرول لائین کو لائین آف کامرس یا کسی بھی نام سے مستقل حیثیت دینے کا یہیں سے مطالبہ ہے تو کس بنیاد پر آزاد کشمیر کا موجودہ خطہ بدستور موجودہ سیاسی سٹیٹس انجوائے کر سکتا ہے؟ یہ بھی بھلا دیا گیا ہے کہ آزاد کشمیر و گلگت بلتستان، وادی کشمیر،لداخ کرگل ،جموں سمیت وہ متنازعہ ریاست کے علاقے ہیں جس کے مستقبل کا فیصلہ کیا جانا ابھی باقی ہے۔مقبوضہ کشمیر کے عوام تو نسل در نسل بھارت کے بھرپو ر ،بدترین مظالم ،بے مثال قربانیوں کے باوجود اپنے مطالبہ آزادی سے دست بردار نہیں ہوئے لیکن آزاد کشمیر کے نوجوان ان آزاد فضاؤں میں اپنی تاریخ،اپنی ذمہ داریاں تو کیا اپنی سمت اور شناخت بھی کھوتے جا رہے ہیں۔انحطاط پزیری کا یہ مقام ،اﷲ اﷲ۔اگر اس بارے میں بھی ہماری نوجوان نسل ناواقف ہے تو یہ ’’آثار قیامت ہیں‘‘۔

چند ہفتے قبل ’’ زبانوں کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان کے ایک روزنامہ اخبار کے پہلے صفحہ پہ چھ سات زبانوں کے چند الفاظ بھی لکھے گئے۔آخر میں درج کشمیری زبان کے آگے تحریر الفاظ گوجری زبان کے تھے۔رابطہ کر کے گوش گزارش کیا کہ گوجری ایک بڑی زبان ہے اور اس میں اہم ادبی مواد بھی ملتا ہے۔میں گزشتہ سال وادی کشمیر گیا تو کشمیر کلچرل اینڈ لینگویجز اکیڈمی سے قرآن پاک کا گوجری زبان میں نسخہ بھی اپنے ساتھ لایا۔گوجری کوکشمیری زبان کہہ کر ناواقف لوگوں میں متعارف تو نہ کرایا جائے ۔دوسرا واقعہ یوں ہے کہ بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر میں 1988ء میں شروع ہونے والی مسلح جدوجہد آزادی کے شروع کے دن تھے۔عید کا موقع تھا اوروادی کشمیر کے دو نوجوان عزیزوں کے ساتھ میں راولپنڈی کے ایوب نیشنل پارک گیا۔وہاں گورڈن کالج کے ایک کلاس فیلو سے ملاقات ہوئی۔میں نے کشمیری حریت پسندوں کا ان سے تعارف کرایا ۔ان میں ایک عبدالغیور ڈار تھے جن کے پاؤں کنٹرول لائین عبور کرتے ہوئے برف سے جل جانے کی وجہ سے آدھے آدھے آپریشن میں کٹ چکے تھے ۔میرا دوست بلال نہایت گرمجوشی سے ان سے ملا ۔اتنے میں اس نے بتایا کہ ابھی یہاں میرے ساتھ ایک اور بھی کشمیری موجود تھا،وہ بھی کشمیری بولتا ہے۔یہ سن کر مجھے حیرت ہوئی کیونکہ اس وقت خال خال ہی کوئی کشمیری بولنے والا نظر آتا تھا۔میں نے اشتیاق سے کہا کہ اسے بلاؤ۔میرادوست گیا اور چند ہی منٹ میں اس کشمیری نوجوان کو تلاش کر کے لے آیا۔میں نے اسے دور سے آتے دیکھا ، جینزکی پینٹ میں ملبوس سرخ و سفید نوجوان کو دیکھتے ہی پہچان گیا کہ وہ راولاکوٹ علاقے کا کوئی نوجوان ہے۔میں اور بھی حیران ہوا کہ راولاکوٹ میں رہنے ولا نوجوان کشمیری بولتا ہے۔اس نوجوان سے کشمیری بولنے کی فرمائش کی تو وہ ہماری شکل دیکھنے لگا اور سر جھکا کر خاموش ہو گیا۔ہمارے بہت اصرارپر اسے بولنا ہی پڑا۔ہم مزید حیران ہوئے کہ وہ نوجوان کشمیری زبان کی جگہ پہاڑی زبان بولنے لگا،میں نے اس سے کہا کہ یہ کشمیری زبان ہے ،اس نے جواب دیا کہ ہاں یہی کشمیری زبان ہے۔اس پر میرے ساتھ موجود کشمیری حریت پسند نے اپنے ساتھی کو کشمیری میں کچھ کہا تو میں نے راولاکوٹ کے اس نوجوان سے پوچھا کہ یہ کون سی زبان ہے؟ لیکن شاید اس کے پاس ان باتوں کا جواب نہیں تھا۔میں نے اس نوجوان سے بھی کہا کہ پہاڑی زبان نامور زبان ہے،آپ کیوں نہ جاننے والے افراد کو اسے کشمیری کہہ کر متعارف کراتے ہیں۔گوجری،پہاڑی بلکہ ڈوگری بھی پنجابی زبان کے مختلف لہجے ہیں اور پنجابی سمجھنے والا گوجری ، پہاڑی وغیرہ بھی سمجھ لیتا ہے۔

گزشتہ پچیس سال میں مقبوضہ کشمیر کے ایک لاکھ سے زائد لوگ شہید ہوگئے جن میں اکثریت نوجوانوں کی ہے،ہزاروں بھارتی جیلوں ،عقوبت خانوں میں قید،ہزاروں معذور،ہزاروں در بدر،لاکھوں برباد،ہزاروں بیوائیں ،ہزاروں یتیم۔پاکستان نے تو عملی طور پر بھارت کے ساتھ ایسی مقدس کنٹرول لائین قائم کی ہوئی ہے جس کی’’ پامالی‘‘ پہ امریکہ بھی چیخ اٹھتا ہے ،پاکستانی حکومتیں1947-48ء سے اب تک کشمیریوں کی مدداور حمایت ایک گناہ کے انداز میں کرتی چلی آ رہی ہیں لیکن معلوم نہ تھا کہ یہاں یہ دن بھی دیکھنے پڑیں گے کہ جب آزاد کشمیر میں بھارتی مقبوضہ کشمیر سے الگ اپنی کوئی علیحدہ شناخت تلاش کی جائے گی ۔

میں نے ایک بار جسٹس (ر)منظور گیلانی سے گلگت بلتستان سے متعلق آزاد کشمیر ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عبدالمجید ملک کے تاریخی فیصلے اور اس فیصلے کے خلاف آزاد کشمیر حکومت کی اپیل پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی بنیاد سے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتا یا کہ آئین کے مطابق آزاد کشمیر کا مطلب آزاد کشمیر کی علاقائی حدود ہیں۔ در اصل وادی کشمیر ہی تما م ریاست کا مرکز رہا ہے ،مرکز سے گریز کا مطلب قریبی دوسرے علاقے میں مدغم ہونے کے سوا کچھ نہیں اور کس حیثیت سے شامل ہو گا اس کی ایک مثال یہ ہے کہ آزاد کشمیر کے مستقبل کے مستقل وفاقی انتظامات میں ایک آپشن یہ بھی ہے کہ مظفر آباد کو ہزارہ اور میرپور کو جہلم سے ملا دیا جائے۔

کیا آپ دیکھتے نہیں ہیں کہ آج آزاد کشمیر کے آٹھ دس اضلاع ایک دوسرے کے مسائل و امور سے لا تعلق،بیزار،اپنے اپنے ضلعے کے مسائل و امور میں محدود ہیں اور اسی حوالے سے بجا طور پر کہا جاتا ہے کہ اب آزاد کشمیر کے ہر ضلع کا اپنا مسئلہ کشمیر ہے۔دوسرا آزاد کشمیر میں تاریخ کو جس بری طرح مسخ کیا گیا ہے اور سیاسی گراوٹ ،تعصب وغیرہ کی وجوہات سے آج کی نسل اپنی ماضی سے کٹی ہوئی نظر آتی ہے۔آزاد کشمیر میں برادری و علاقائی ازم کی سیاست کی دھول میں یہ بھول چکے ہیں کہ ان کے علاقے میں تمام ریاست کشمیر کی حریت پسند نمائندہ حکومت قائم کی گئی تھی جسے برادری ،علاقائی ازم اور محدود سوچ نے ایک تماشے میں تبدیل کر دیا ہے۔اقوام متحدہ اور عالمی لغت کے مطابق بھارتی زیر انتظام کشمیر میں لوگوں پر بھارت بدترین فوج کشی کرتے ہوئے جو بھیانک مظالم ڈھا رہا ہے،آزاد کشمیر میں اس کا ہلکا سا تاثر یا کسی قسم کی ذمہ داری محسوس نہیں کی جاتی۔وہ بھول گئے کہ انہوں نے اپنے جن مظلوم کشمیری بھائیوں کی بھارت سے آزادی ،تحریک آزادی کشمیر کی نمائندگی کے عزم سے ایک نئے نام(آزاد کشمیر) کے ساتھ ایک مکمل ریاست کے طور پر انقلابی حکومت ،کشمیری تشخص پر مبنی علاقہ حاصل کیا تھا لیکن وہ اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کو بھول کر مفادات اور مقامی نوعیت کے جھگڑوں میں یوں ملوث ہوئے کہ خود کو حاصل مقام بھی نہ سنبھال سکے ، اپنی سمت بھی کھو چکے ہیں اور اب یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جوں جوں اپنی جڑیں اپنے ماضی سے کاٹتے جا رہے ہیں توں توں گراوٹ اور انحطاط پزیری کی نئی حدیں تلاش کرنے کی طرف پیش قدمی جاری ہے ۔

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 699014 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More