ٹریفک انتظامیہ باغ سے اپیل

ایک کہاوت ہے کہ اگر کسی ملک کی ترقی اور خوشحالی کا اندازہ لگانا ہے تواس ملک کی ٹریفک کے نظام کو دیکھیں۔ٹریفک ملکی انتظامیہ کی کارگردگی کی بھی آئنہ دار ہوتی ہے۔ملک بھر میں ٹریفک کا حال کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ٹریفک کی اس بے ضا بطگی کی جہاں انتظامیہ ذمہ دار ہے وہاں پر عوام اور ڈرائیور، اڈا ایجنٹ اور ٹھیکیدار بھی برابر کے اس جرم اور لاقانونیت میں شریک ہیں ۔باغ آزاد کشمیر میں بھی ٹریفک ،پبلک ٹرانسپورٹ کا اﷲ ہی حافظ ہے یہاں پر پبلک ٹرانسپورٹ کی بے قاعدگیوں،بے ضابطگیوں سے جہاں عوام کو بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہاں پر انتظامیہ اور اڈا ایجنٹ کو بھی بہت مسائل درپیش ہیں ،ایک طرف عوام کے شکوے ہیں اور دوسری طرف ٹریفک انتطامیہ کوبھی شکایات ہیں۔ضلع باغ کے باغ سدھن گلی کے درمیان چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ کا بھی حال ،ملک بھر کی ٹرانسپورٹ کی طرح ہے یہاں پر عوام کو نہ صرف ذہنی کوفت سے گزرنا پڑتا ہے بلکہ وقت پر اپنی منزل پر نہ پہنچنا بھی کسی عذاب سے کم نہیں ۔گاڑیوں کی اوور لوڈنگ ،وقت پر گاڑی کا نہ چلنا، اور سواریوں کو اپنے سٹاپ تک نہ پہنچانا ،کرائے اپنی مرضی کے لینا اور بہت سے ایسے مسائل ہیں جن سے عوام بیزار ہے، عوامی مشکلات سے تو میں واقف تھا مگر انتظامیہ کے مسائل سے آگائی حاصل کرنے کے لئے میں نے باغ کے ٹریفک پولیس اے ایس آئی ،سید افسر سے ایک ملا قات کی۔میں نے ٹریفک پولیس باغ ،اے ایس آئی، سے باغ پبلک ٹرانسپورٹ کے حوالے سے کچھ مسائل پر تبادلہ خیال کیا جن کا تعلق انتظامی امور یا پھر انتظامیہ کے ہاتھوں میں تھا ۔سب سے بڑا مسئلہ تو یہ تھا کہ باغ سے سدھن گلی روڈ پر گاڑیوں کا کوئی ٹائم ٹیبل نہیں تین ،تین ،چار،چار گھنٹے کے بعد ایک گاڑی نکلتی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ گاڑی میں بارہ یا چودہ سواریاں تو پندرہ بیس منٹ میں بیٹھ جاتیں ہیں مگر باہر لٹکنے کے لئے یعنی اوور لوڈنگ کے لئے 35سے 40سواریوں کی مذید ضرورت ہوتی ہے جب تک وہ پوری نہ ہو جائیں اس وقت تک گاڑی اپنی جگہ سے ہلتی نہیں۔اتنی سواریاں پوری ہونے کے لئے کم از کم دو سے تین گھنٹے لگتے ہیں جس کی وجہ سے عوام کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے بہت سے لوگ ایمرجنسی میں ہوتے ہیں ہر کوئی کسی نہ کسی حوالے سے جلدی میں ہوتا ہے مگر جب گاڑی وقت پر نہیں نکلتی تو عوام مجبور،بے بسی کی تصویر بنی کھڑی رہتی ہے ۔ڈرائیور اور کنڈایکٹر کا رویہ اس وقت، ڈی سی ،آفیسر یا بادشاہ سے کم نہیں ہوتا۔اس اوور لوڈنگ اور کوئی وقت مقرر نہ ہونے کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ کا کوئی اصول ۔ضابطہ، کوئی قائدہ ،قانون کوئی طریقے کار نہیں ،بے ہنگم ،بے وقت،بے ضابطگی سے چلنے والی یہ ٹرانسپورٹ عوام کے لئے درد سر تو ہے ہی مگر ساتھ ساتھ وہ انتظامیہ ،اور قانو ن نافذ کرنے والوں کے لئے بھی چیلنج بنی ہوئی ہے۔ یہاں دل کیا سواریوں کو اتارہ کوئی بہانا بنایا اور گاڑی واپس لے آئے عوام ،عورتیں ،بچے،بوڑھوں جتنے مرضی خوار ہوں کوئی پرواہ اورذمہ داری کا احساس نہیں ۔جب میں نے ٹریفک پولیس ،اے ایس آئی، سے عوامی مسائل بیان کئے تو انہوں نے بھی چند حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے یہ کہا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہاں پر 90فیصد سے زائد ڈرائیور کے پاس کاغذات ہی مکمل نہیں ہوتے اکثریت ڈرائیورز کی غیر قانونی گاڑیاں چلاتے ہیں جب ہم ان کو روکتے ہیں ان سے ڈاکومنٹ مانگتے ہیں تو ہر ایک اپنا پنا تعارف کروانا شروع کر دیتا ہے کہ میں فلاں ایم این اے کا رشتے دار ہوں،میں فلاں کا بھانجا ہوں،میں فلاں کا بھتیجا ہوں،میں فلاں عہدیدار کا کزن ہوں،دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ ہمیں ان ڈائریکٹ دھمکی دے رہے ہوتے ہیں کہ ہمارے تعلقات یہ ہیں۔یہ بات سچ ہے کہ ہم اپنی ڈیوٹی ،اپنے فرائض ایمانداری سے سر انجام دیتے ہوئے کسی بھی رشتے داری،یا دوستی کو خاطرہ خواہ میں نہیں لاتے کسی کا کوئی لحاظ نہیں کرتے ہم چلان کرتے ہیں ،جرمانہ کرتے ہیں ان کو وارنگ دیتے ہیں مگر یہ باز نہیں آتے اور نہ ہی ان کو کوئی اثر ہوتا ہے اگر ہم بہت سختی کریں تو پھر یہ لوگ بڑی بڑی سفارشیں کروانا شروع کر دیتے ہیں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہاں تک بات اوور لوڈنگ کی ہے ہم ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ یہ نہ ہو اس کو ختم ہونا چاہئے ہم دور تک گاڑیوں کا پیچھا کرتے ہیں مگر پھر بھی عوام باز نہیں آتے اور وہ ہمارے سامنے نہ سہی دور جا کر بیٹھ جاتے ہیں ہم تو یہ کہتے ہیں کہ اس میں عوام کا قصور ہے جو چھت پر بیٹھ کر جاتے ہیں ۔یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ ایک آدمی جو عوام کی نمائندگی کر رہا تھا بولا کہ مجھے اس بات کا جواب دیا جائے کہ میں نے صبح آٹھ بجے دفتر آنا ہوتا ہے ،میرے ساتھ اور بھی بہت سے لوگ اپنے اپنے کاموں ،سکولوں اور مزدوری پر جا رہے ہوتے ہیں ہمارے سامنے جو گاڑی آتی ہے ہم اسی میں کسی نہ کسی طرح بیٹھنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ اگر ہم نے اس گاڑی کو مس کر دیا تو پھر ایک گھنٹہ سے زائد وقت تک مذید کوئی گاڑی نہیں ملے گی اگر ہمیں یہ پتہ ہو کہ اس کے چند منٹ بعد دوسری گاڑی آجائے گی تو ہم کبھی بھی چھت پر نہ بیٹھے مگر ہمیں بتایا جائے کہ ہم کیا کریں،ہماراکیا قصور ہے؟جب عوام کو مقررہ وقت پر گاڑی نہیں ملے گی تو ہم کہاں جائیں۔ انتظامیہ کا کہنا تھا کہ ہم جب بھی اوور لوڈنگ پر چلان کرتے ہیں تو سواریاں خود ہی اتر کر ہمارے ساتھ لڑنا شروع کر دیتی ہیں کہ آپ چلان کیوں کرتے ہیں ،عوام کو اس کا احساس ہونا چاہیے کہ غلط کام کا ساتھ نہ دیں اور وہ ہمارے ساتھ تعاون کریں ۔اگر عوام ساتھ دے تو ہم تمام بے ضابطگیاں،بے اصولیاں،اور غیر قانونی اوور لوڈنگ پر نہ صرف قابو پا سکتے ہیں بلکہ اس کا خاتمہ کر کے مقررہ وقت پر گاڑیوں کا ٹائم لگا سکتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ 30منٹ گاڑی اپنے اڈے پر رکے سواریوں کو بھی پتہ ہوگا کہ اب اوورلوڈنگ نہیں ہوگی ہمیں جو جگہ ملے بیٹھ جائیں تاکہ گاڑی جلدی چلے اس میں اڈا ایجنٹ کا بھی تعاون بہت ضروری ہے۔ اس سے نہ صرف عوام کو سہولیات میسر ہوں گی بلکہ گاڑی والوں کا بھی فائدہ ہوگا جو گاڑی پورے دن میں ایک چکر لگا کر جاتی وہ اتنے ہی وقت میں دو سے تین چکر لگا سکتی ہے اس طرح گاڑیوں کا نقصان بھی کم ہو گا ،جو گاڑی چھ ماہ چلتی ہے وہ گاڑی دو سال تک چل سکتی ہے ۔پھر یہ بھی ہے کہ بے پناہ اوور لوڈنگ کی وجہ سے آئے روز گاڑی ہزاروں کا خرچہ نکالتی ہے اور حساب برابر ہو جاتا ہے مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ ڈرائیور،اور اڈا ایجنٹ کو ان باتوں کی سمجھ نہیں آتی۔انتظامیہ کا شکوہ ،شکایت اور ان کے مسائل اپنی جگہ پر جائز تھے کہ وہ پورہ دن کسی ایک گاڑی کا پیچھا نہیں کر سکتے انتظامیہ کا کہنا تھا کہ وہ بے بس نہیں اور نہ کوئی مجبوری ہے اگر مسائل اور مشکلات ہیں تو ان کی ذمہ دار عوام خود ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ قانون۔اصول،ضابطے۔سکھائے جاتے ہیں ،بتائے جاتے ہیں،سمجھائے جاتے ہیں،ان پر عمل باشعور قومیں خود کرتی ہیں ڈانڈا لے کر تو جانور کو بھی سدھے راستے پر چلایا جا سکتا ہے انسان تو اشرف المخلوقات ہے سوچ،سمجھ اور عقل کا مالک ہے اسکو بتانا ہی کافی ہونا چاہئے با شعور قومیں قانون اور اصولوں پر عمل کر کے بنتی ہیں برادریوں سے دولت ، سے ،بڑے بڑے محل گاڑیاں رکھنے سے شعور نہیں آجاتا۔ انتطامیہ کو چاہئے کہ وہ باغ کے تمام لوکل اڈوں پر ایک ضابطہ،اصول اور قانون ،ڈرائیور ،اڈا ایجنٹ کی مشاورت سے سختی سے نافذ کر دیں،کہ گاڑی میں کتنی سواریاں ہوں تو وہ اڈا چھوڑ دے اور کتنا وقت وہ رک سکتی ہے، جو بھی اس کی خلاف ورزی کریں اس کی گاڑی بند کر دی جائے ،جب وہ خلاف ورزی کرے تو چلان کے بجائے گاڑی کو بند کر دیا جائے تاکہ ان کو کچھ سمجھ آئے ۔یہ عوام مروت،پیار،اصول ،محبت،کی نہیں ان کو سمجھانے کے لئے ڈانڈا چاہیے۔قانون اصول پر کوئی سمجھوطہ نہ کیا جائے ۔ٹریفک پولیس اور ا نتظا میہ باغ میں ایک بار یہ اقدام کر کے تو دیکھے ۔چند دن میں سب ٹھیک ہو جائے گا۔

iqbal janjua
About the Author: iqbal janjua Read More Articles by iqbal janjua: 72 Articles with 69274 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.