آخری جملہ

محاذ جنگ پے جب دشمن کی گولیاں اس کے سینے کے آر پار ہوئیں اور وہ قریب از مرگ ہوئے اور ٹینک رجمنٹ کے ساتھیوں نے اسے اٹھانا چاہا تو اس کے لبوں پر آخری جملہ یہ تھا!

"دشمن کہاں ہے؟ کہیں آگے تو نہیں آگیاہے؟" اور وہ شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہوگیا ۔ یہ الفاظ فوج کے ایک عام سے سپاہی سوار محمد حسین شہید کے تھے جسے اس کی بہادری پر نشان حیدر سے نوازا گیا۔ ان الفاظ کو یاد کروانے کے دو مقاصد ہیں۔ایک تو تجدید عہد کا دن06 September یوم دفاع آرہا ہے جب ملک کے سپوتوں نے دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیے تھے کہ اس دن کواسکولوں میں باقاعدہ منایا جائے بالخصوص نام نہاد بیرون ملک پر پلنے اور چلنے والے تمام نجی تعلیمی اداروں کو پابند کیا جائے کہ اس دن کی مناسبت سے تقاریب مرتب کی جائیں تا کہ قومی وحدت اور شعور بیدار ہو سکے۔ جبکہ دوسرا مقصد اس عمل کے خلاف اپنی آواز بلند کرنا ہے جو اس ملک کے اصلی نما جعلی اورخوشنما مکروہ حکمرانوں نے وقتاََ فوقتاََ کیا تھا اور "اپنے جھوٹے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے ( جن کی دنیا اور ترجیحات میں زمین آسمان کا فرق ہے )اس عمل کو آج بھی جاری رکھے ہوئے ہیــں"کے سامنے احتجاج کا حق رکھتے ہوئے اب تک ہونے والے اس عمل کی مذمت کرتا ہوں اور التجا ان لوگوں سے جو درد ِدل رکھتے ہیں کہ جس سے جو بن سکے وہ اپنا اپناکردار ادا کریں ورنہ الامان الحفیظ!

چند دن پہلے اخبارات میں یہ خبر پڑھی (اﷲ کرے جھوٹی ہو) کہ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے جماعت نہم کے سلیبس سے نشانِ حیدر پانے والے عظیم شہیدوں کے اسباق نکال باہر کیے ہیں جو کہ لانس نائیک محمد محفوظ اور سوار محمد حسین پر مشتمل تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم اپنی بہادری اورشجاعت کی ان حقیقتوں سے قوم کے بچوں کو ناآشنا کرنے کے منظم منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔کیونکہ سورہ توبہ کا نصاب سے اخراج اور وہ تما م آیات قرآنی جن میں اﷲ کی طرف سے احکامات جہاد تھے وہ نکالی گیئیں جبکہ مسٹر چپس اور سنڈریلا جیسے ناول پڑھنے پر مجبور کیا جا رہا ہے اور ہمارے بچے آدھے تیتر آدھے بٹیر بنتے جا رہے ہیں۔
میں نے تو قتیل اس سا منافق نہیں دیکھا
جو ظلم تو سہتا ہے، بغاوت نہیں کرتا!

مگر ایک بات یہ لوگ یاد رکھیں کہ ایسی ہی مذموم کوشش پہلے بھی ہوئی تھی جب نعوذباﷲ قرآن پاک کو لاکھوں کی تعداد میں نذرِآتش کرنے کے بعد قہر آلود چہروں نے تسلیم کیا کہ ہم مسلمانوں کے سینوں میں محفوظ قرآن کو کیسے نکالیں تواب بھی یہ فرعون نما حکمران یاد رکھیں کہ لوگوں کے دلوں سے ان کی داستانیں کیسے نکالیں گے اور جرات کے نقوش کس طرح مٹائیں گے۔ روز ِ روشن کی طرح عیا ں کہ ریگستان میں ہوا کو روکا جا سکتا ہے اور نہ ہی آسمان سے بارش۔ دونوں حقائق ہیں اورحقائق ہی رہیں گے۔

ہم دنیا کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں ایسے ہی فریب زدہ مفروضے یہ لوگ پیش کرتے ہیں ۔ نجانے گلوبلائزیشن کی وجہ سے ہمارے بہت سے ماہرین یہ سمجھ رہے ہیں لیکن عالمی رجحانات ، ان کی تحقیقات اور ان کی ترقی کی مثالوں سے استفادہ درست لیکن کم از کم اپنے ملک کی مخصوص اقدار ، روایات اور اخلاقیات کو تو مدِنظر رکھیں۔ ان سے روگردانی کرنے والا نظامِ تعلیم تو منتشر خیالات کے حامل اساتذہ اور شاگرد ہی پیدا کرے گاجس کے پاس کوئی شناخت نہیں ہو گی سوائے نفسِ مضمون کے۔ ہمیں معیارِ تعلیم سے بڑھ کر معیارِ انسانیت کے حامل افرادچاہئیں۔ اس کے لیے ہمیں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ افراد کی ضرورت ہے نہ کہ منافقانہ پالیسیوں کو بنانے والاطبقہ اور خدانخوستہ دشمن طبقہ کہ جس کے بارے میں شہید نے بھی اشارہ کیا اور باور کرا رہا ہے " دشمن کہاں ہے؟ کہیں آگے تو نہیں آ گیاہے؟" ارد گرد ایسے منافق دشمنوں پر نظر رکھیں اور اپنے ملک کو کامیاب کرنے اور ترقی یافتہ کی صف میں کھڑا کرنے طرف عملی قدم بڑھائیں۔ اﷲ ہمار احامی وناصرہے!
آپکی آرا ء کا شدت سے منتظر!
atifimran1
About the Author: atifimran1 Read More Articles by atifimran1: 10 Articles with 15853 views Mr. Atif Imran is highly experienced in professional development of teachers, principals and administrators. He is working as an Academic Consultant a.. View More