ٹیکسی ڈرائیور

جیسے ہی مجھے سامنے سے ٹیکسی آتی نظر آئی میں نے ہاتھ میں تھامی ہوئی کتاب اور کاغذات کا فولڈر لہرا کر اشارہ کیا اور خوش قسمتی سے اِس بار ٹیکسی سیدھی میرے پاس آن کھڑی ہوئی۔

میں گذشتہ پندرہ بیس منٹوں سے سڑک کنارے کھڑا ٹیکسی کا انتظار کررہا تھا۔ صبح کے دفتری اوقات تھے۔ سڑکوں پر بےپناہ رش ہورہا تھا اور ہر گزرتی رکشہ ٹیکسی سواریوں سے لدھی نظر آ رہی تھی۔ چند رکشے ٹیکسیاں خالی ہوتے ہوئے بھی مجھ سے کنی کترتے نکل گئے۔ وجہ شاید یہ رہی ہوگی کہ میں جس سمت کھڑا تھا وہاں سے آگے جا کر شہر کی مضافاتی بستیوں کا آغاز ہوتا ہے اور شاید ان سب کو یہ خدشہ لاحق رہا ہوگا کہ اگر وہ مجھے وہاں لے گئے تو پھر واپسی میں کوئی سواری میسر نہ آسکے۔ ویسے بات تھی بھی کچھ ایسی ہی۔

میں اپنی آنے والی کتاب کا مسودہ ناشر کو دینے جا رہا تھا۔ اُس کا دفتر شہر کے ایک مضافاتی علاقے میں ہی قائم تھا۔ تھا تو وہ ایک نامی گرامی پبلیشر لیکن اُس نے شہر سے دور پرے ایک بڑے سے پلاٹ پر آگے اپنا وسیع وعریض دفتر قائم کیا ہوا ہے۔ وہاں اُس کا تمام تر عملہ، کمپوزر، ڈزایئنرز اور سرورق سازی کے لیے دو تین مصور بھی بیٹھتے ہیں۔ پچھلے حصے میں ایک بڑا سا پرنٹنگ پریس ایستادہ ہے جبکہ پلاٹ کی پرلی طرف ایک بڑے سے شیڈ کے نیچے بہت سارے جلد بندی کرنے والے کاریگر بٹھا رکھے ہیں۔

ماسوائے میری اولین کتاب کے دیگر تمام کتب اِسی پبلیشر کی شائع کردہ ہیں۔ پہلی کتاب تو میں نے یہاں وہاں بھاگ دوڑ کرکے خود ہی شائع کروائی کہ اُس وقت مجھے اُن لوگوں کے علاوہ، جو مختلف رسائل وجرائد میں میرے شائع ہونے والے افسانے اور کہانیاں وغیرہ پرھتے تھے اور کوئی جانتا نہ تھا۔ یوں وہ کتاب ہی میرا حوالہ بنی۔

خیر جہاں تک میرے حوالے کی بات ہے، سچ تو یہ ہے کہ میرا اصل حوالہ میرے افسانے، کہانیاں اور ناول ہیں جن میں کم و بیش تمام ہی کا مرکزی کردار کوئی عورت ہی ہوا کرتی ہے۔ میں نے ہمیشہ اپنا قلم اُن عورتوں کے مسائل کو اُجاگر کرنے کی خاطر اٹھایا جو کہ مردوں کے اِس سماج میں اپنی، اپنے بچوں تو کبھی اپنے والدین اور بہن بھائیوں کی بقاء کی جنگ لڑنے کی خاطر میدانِ عمل میں اترتی ہے اور پھر مردوں کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہو جاتی تو کبھی خود اپنے ہی گھر کی چاردیواری میں مردوں کے بنائے اصولوں کی بھینٹ چڑھ جایا کرتی ہیں۔

میرے افسانوں کے موضوعات مرد و زن کے مابین قائم ازلی فطری تعلق کی نفسیاتی بھلبھلیوں، اُن کی تمام تر باریکیاں اور مرد کی اُس استحصالی زہنیت کے گوناگوں پہلوؤں کی نشان دہی کرتے ہیں کہ جن کو اپنا ہتھیار بنا کر مرد عورت کا استحصال کچھ یوں کر گزرتے ہیں کہ بےچاری عورت اُسے بھی مرد کی اپنے تئیں محبت اور التفات ہی گردانتی ہے۔ ظاہر ہے کہ خود ایک مرد ہونے کے ناطے بھلا ایک مرد سے ذیادہ کون اُس کی استحصالی زہنیت سے واقف اور آگاہ ہو سکتا ہے؟

اب چونکہ میرا موضوعِ سخن صنفِ نازک اور استحصالِ نسواں ہی ٹہرا اور یہ بات بھی طے ہے کہ ہر کہانی، افسانے، ناول میں دکھائے جانے والے واقعات، کردار، اُن کرداروں کی سوچ، نفسایات، اُن کے شعُوری وغیرشعُوری رویئے جن کے زیرِاثر مرد و زن کے مابین موجود فطری تعلق اور پھر اُس تعلق کے نتیجے میں جنم لیتی دیگر پیچیدگیوں کا تانہ بانہ وجود میں آتا ہے، کا خمیر خود ہمارے معاشرے میں بستے حقیقی لوگوں اور اُن کی سچی کہانیوں سے ہی اٹھتا ہے تو پھر بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ میں اپنے افسانے، کہانیاں اور ناولوں میں اُس فطری تعلق کے مخفی گوشوں کو اُن کے تمام تر جمالیاتی حسن و خوُبصورتی سمیت ہر اُس زوایۂ، نظریۂ اور گہرائیوں کے ساتھ صفحہِ قرطاس پر پیش نہ کروں جو کہ اپنے قلم کے ساتھ انصاف کرتے ایک ادیب کا خاصہ ہوا کرتا ہے۔

میرے پڑھنے والے مجھے میری حقیقت نگاری، بیانیہ کے بیباکانہ پن اور مرد و زن کے مابین فطری تعلق کی حقیقت سے قریب ترین ہمہ جہتی پرت در پرت منظرکشی کے سبب بے حد سرہاتے ہیں اور دن بدن میری ریڈرشپ میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ حالانکہ ابتداء میں اِن تمام حقائق کو یوں کھلے ڈلے انداز میں بیان کرتے ہوئے قدرے ہچکچاتا بھی رہا۔ لیکن میرا نظریۂ افسانہ نگاری کے حوالے سے یہی رہا ہے کہ اِسے حقیقت کے قریب ترین ہی رہنا چاہیئے خواہ وہ حقاَئق کتنے ہی تلخ اور "برہنہ" کیوں نہ ہو۔

پھر یہ حقیقت مجھ پر آشکار ہوئی کہ دراصل میری تحریروں کا یہی انگ تو قارئین کو میرے افسانوں سے باندھ کر رکھ رہا ہے۔ اِس کا اندازہ مجھے قارئین کی آراء اور اپنے پبلیشر کی جانب سے ملنے والے فیڈبیک کے سبب ہوا۔ مجھے اِس بات کی بھی حیرت ہوئی کہ میں قارئین کے جس طبقے سے اپنے اُوپر شدید ترین تنقید کی امید کر رہا تھا اُن کی جانب سے بھی میرے افسانوں کو بےحد سراہا گیا۔ جی ہاں آپ درست سمجھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !، خواتین۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!۔

خیر اِس بات سے میرا مقصد ہرگز یہ ظاہر کرنا نہیں کہ میں صرف خواتین میں ہی ذیادہ پڑھا جاتا ہوں۔ مرد بھی مجھے پڑھتے اور یکساں طور پر سرہاتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ میرے پڑھنے والوں میں مردوں کا تناسب خواتین کی نسبت زیادہ ہی ہو۔

شاید میری ذیرِنظر تحریر سے پڑھنے والوں کے ازہان میں یہ تاثر ابھرے کہ جیسے راوی میرے حق میں فقط چین ہی چین لکھتا ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !۔

تو صاحب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !، اب ایسا بھی نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!۔

ظاہر ہے کہ اب ہم جس حبس ذدہ و گھٹن آلود معاشرے میں رہتے ہیں وہاں مجھ جیسے لوگ اور اُن کے آزاد خیال افسانوں

کو پڑھ کر سرہانے والوں سے اُن پر تنقید کرنے والے کہیں زیادہ موجود ہیں۔ کئی مصلحِ قوم، ناصح اور واعظ مزاج قسم کے لوگ تو مجھے اُن ادیبوں اور میرے افسانوں کو اُس قابلِ گرفت ادب کا حصہ گردانتے ہیں جس سے معاشرے میں نفسانی خیالاتِ باطلہ کو فروغ حاصل ہونے کا احتمال رہتا ہے اور جو معاشرے میں روزافزوں بڑھتی فاحشی کا سبب بنتے ہیں جبکہ مذہبی طبقہ مجھے ہمہ وقت جہنم کی آگ کے شعلوں سے ڈراتا ہے۔

خیر اِس قسم کے الزامات تو پہلے بھی منٹو جیسے عظیم افسانہ نگاروں پر اُس دور کے دقیانوسی و نام نہاد ناقدین عائد کرچکے ہیں۔ حالانکہ میری نظر میں منٹو کے افسانے، عصرِحاضر کے مجھ سمیت میرے مکتبہِ فکر کے دیگر ادییوں سے اپنے بیانیہ کے بیباکانہ پن اوراُس میں پیش کردہ ہمہ جہتی پرت در پرت منظرکشی کے لحاظ سے کہیں زیادہ ہاتھ ہولا رکھ کر لکھے گئے ہیں۔ لیکن اُس کے باوجود منٹو پر اُس کے اپنے دور میں نہ صرف شدید تنقید کی گئی بلکہ مقدمات تک قائم کردیئے گئے۔ جبکہ میرے روشن خیال مداح و ناقدین میرے افسانوں کو روشن خیال ادبِ عالیہ کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ دراصل اِسے ہی کہتے ہیں "جنریشن گیپ"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!۔

بلکہ میں تو اِسے منٹو کی بدقسمتی ہی کہوں گا کہ نا ہوا وہ پیدا ٹی وی کے خبرناموں میں امن کی آشا کے نام پر چلتے ننگ دھڑنگ "آئٹم سانگز" کے موجودہ روشن خیال زمانے میں۔ جی ہاں میں تو انہیں "ننگ ڈھرنگ" ہی کہتا ہوں۔ خاکمِ بدہن..........!، انہیں "برہنہ" کہہ کر میں اِس حسین لفظ کے جالمیاتی تقدس کی پائمالی کا گنہگار ٹہرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ ہوس گیری کی غلاظت میں لتھڑے مردوں کے جلو میں ناچتی گاتی ننگ دھرنگ ایک عورت نما چیز جیسے اپنی طرف بلعموم "فاحشہ" اور "اُن" کی طرف بلخصوص "ویشیا" کہا جاتا ہے۔ اپنے رقصِ رندانہ سے منٹو کے زمانے کی طوائف کو خودکشی اور عصرِحاضر کی اپنی ہم منصب کو چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے پر آمادہ کردے۔ ویسے منٹو صاحب کے زمانے کی طوائف کے بارے میں تو یہ بات قدرے وثوق کے ساتھ کہی بھی جا سکتی ہے البتہ دورِحاضر کی طوائف کے مافی الضمیر کی ترجمانی کرنا شاید غلط بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

منٹو صاحب اور مجھ میں ایک فرق اور بھی ہے اور وہ یہ کہ اُس دور میں سینکڑوں ٹی وی چینلز اور فیس بک جیسی بین القوامی سہولیات کی عدم دستیابی کے باوجود ایک زمانہ منٹو صاحب کی شکل وصورت سے آشنا تھا۔ لیکن میں نے آج تک کسی جریدے میں اور نہ ہی کسی کتاب میں اپنی تصویر شائع کروائی ہے۔ ایسا میں نے ارادتاً کسی خوُف یا اپنی شناخت مخفی رکھنے کی خاطر نہیں کیا بلکہ اِسے اتفاق ہی سمجھ لیں۔ میرے کیرئیر کی ابتداء رسائل وجرائد میں افسانہ نگاری سے ہوئی تھی۔ اُس وقت میں نے کبھی کوئی تصویر شائع نہ کروائی اور پھر یہ روایت اپنی تمام تر مطبوعۂ کتب میں بھی جاری رکھی۔ جبکہ میں اپنے فیس بک پیچ پر بھی اپنی کسی تازہ ترین کتاب کے سروق کو ہی اپنی تصویر کی جگہ شامل کردیا کرتا ہوں۔ مجھے میری اِس عادت سے کم ازکم یہ فائدہ تو ضرور حاصل ہوا کہ ایک مشہورومعروف افسانہ نگار ہونے کے باوجود میرے قارئین کی ایک بہت بڑی تعداد مجھے صرف میرے نام سے ہی جانتی ہے جس کے سبب میں اپنے مخالفین کی دستبرد اور رُوبہ رُو دشنام طرازیوں سے بچا رہتا ہوں۔

بحرحال ٹیکسی جیسے ہی میرے پاس آ کر رکی میں آگے والا دروازہ کھول کر بناء کچھ کہے اگلی سیٹ پر بیٹھ گیا اور سامنے سڑک کی جانب دیکھتے ہوئے بولا:۔ "لانڈھی انڈسٹریل ایریا، پلاٹ نمبر 2/500، سیکٹر 15 لے چلو "۔

یہ شہرِکراچی کے اصول کے قطعاً برخلاف ہے کہ میں بناء منزل کی نشاندہی اور کرائے کا تعین کیئے نہ صرف ٹیکسی میں سوار ہوگیا اور ڈھرلے سے اُسے ایک دوُرافتادہ جگہ جانے کے لیے بھی کہہ رہا تھا۔ لیکن اُس وقت میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جب ٹیکسی ڈرائیور نے بناء کچھ کہے ٹیکسی آگے بڑھا دی اور پھر ایک اور حیرت کا جھٹکا تب لگا جب اُس نے اپنا ہاتھ بڑھا کر ڈیش بورڈ پر لگے ڈیجیٹل فیئرمیٹر کا ایک بٹن دبا دیا۔ ویسے تو عموماً شہر بھر کے رکشے ٹیکسیوں اور خود ڈرائیوران کے اپنے بھی "میٹر" "خراب" ہی رہتے ہیں۔ وہ سواریوں کو باہر کھڑے کھڑے ہی اپنا نرخنامہ بمعہ واپسی کی سواری نہ ملنے کا واویلا مچا کر اضافی جرمانہ بھی پہلے ہی سے مقررہ کرائے سے کہیں زیادہ کرائے میں شامل کرکے بتاتے ہیں اور اگر سواری بادل نخواستہ اُس بھاری بھرکم کرائے کی ادائیگی کی حامی نہ بھرے، اُسے ٹیکسی یا رکشے میں سوار ہونے کی اجازت مرحمت نہیں فرماتے بلکہ منہ بگاڑتے ہوئے سواری کے چہرے پر کالا شیاہ کالا دھواں چھوڑ کر یہ جا اور وہ جا ہوجاتے ہیں۔

لیکن شاید وہ دن تو حیرتوں سے لبریز جھٹکوں ہی کا تھا۔ لیکن اب یہ نیاء والا تو ایک زبردست برقی جھٹکا ثابت ہوا کیونکہ وہ ہاتھ جس نے فیئرمیٹر کا بٹن دبایا وہ ایک نسوانی ہاتھ تھا۔ ہاتھ کو دیکھتے ہی بےاختیار میری گردن ڈرائیور کی طرف مڑ گئی اور میں بس اُچھل ہی تو پڑا۔ وہ ٹیکسی ڈرائیور سچ مچ ایک خاتون تھی۔ عمر لگ بھگ پینتیس چھتیس کے قریب۔ ہلکا سنوالا رنگ۔ بڑی سی گہری سرمئی چادر میں لپٹا قدرے فربۂ جسم۔ اُسی چادر سے سر کو کچھ یوں لپیٹ لیا گیا تھا کہ اُس کی گردن، کان اور سر کے سارے بال چادر کی اُوٹ میں جا چُھپے تھے۔ البتہ پیشانی پر سر سے لپٹی چادر سے باہر آ تے بالوں کی ایک لٹ تیزوتُند ہوا میں لہرا رہی تھی جس میں شامل چند ایک سفید بال بھی نظر آ رہے تھے۔ غیر تراشیدہ گہری سیاہ بھووں کے نیچے بڑی بڑی روشن سیاہ آنکھیں، قدرے پھولا ہوا ناک، بھینچے ہوئے خشک گندمی ہونٹ، گول ٹھوڑی اور اسٹیرنگ ویل پر سیاہ دستانے چڑھے ہاتھ۔

۔"جی آپ حیران نہ ہوں، میں ایک خاتون ٹیکسی ڈرائیور ہی ہوں اور عرصہ دس سال سے کراچی کی سڑکوں پر ٹیکسی چلا کر اپنے خاندان کی کفالت کا فرض ادا کر رہی ہوں"۔ شاید اُس نے میری آنکھوں میں موجود زمانہ بھر کی حیرتوں کو پڑھ لیا تھا۔

عین اُس لمحے میرے زہن میں ایک بجلی کا کوندا لپکا اور مجھے یاد آیا کہ میں اِسے پہلے بھی کہیں دیکھ چکا ہوں لیکن ابھی میں اپنے زہن پر زور دے ہی رہا تھا کہ وہ پھر مجھ سے مخاطب ہوئی:۔ "جی شاید آپ یہی سوچ رہے ہیں نا کہ آپ نے مجھے پہلے بھی کہیں دیکھا ہوا ہے۔ شاید آپ نے میری تصویر فیس بک پر دیکھی ہوگی۔ دراصل کئی بار سواریاں مجھے دیکھ کر حیران ہوتی ہیں اور اپنے سیل فون پر میری تصاویر لے کر اُسے فیس بک پر اپ لوڈ کردیتی ہیں۔ شاید میری ایسی ہی کوئی تصویر آپ کی نظروں سے گزری ہوگی"۔

یقیناً وہ درست کہہ رہی تھی۔ مجھے یاد آیا کہ متعدد بار میرے فیس بک پر مجھے ایک ایسی خاتون ٹیکسی ڈرائیور کی تصویر سے ٹیگ کیا تھا کہ جس کا زریعہِ معاش ٹیکسی چلانا ہے۔ "اوہ اچھا تو آپ ہیں وہ۔ جی ہاں میں نے آپ کی تصویر کئی بار فیس بک پر دیکھ رکھی ہے۔" میں نے خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک بھرپور مسکراہٹ چہرے پر سجاتے ہوئے کہا۔ "بلاشبہ آپ ایک باہمت اور حوصلہ مند خاتون ہیں جو بھیڑیا نما مردوں کے اِس معاشرے میں ٹیکسی چلا کر اپنے خاندان کی کفالت کر رہی ہیں اور اگر میں غلط نہیں ہوں تو آپ کا نام ناہید ہے"۔

میری بات کے جواب میں اُس نے بھی اخلاقاً ایک ہلکی سی مسکراہٹ اپنے چہرے پر ثبت کرتے ہوئے اپنی گردن موڑ کی

میری جانب دیکھا اور اثبات میں سر ہلا دیا۔ اِسی دوران اُس کی نظر میری گود میں رکھی کتاب جو کہ میرے ہی افسانوں کا ایک مجموعۂ تھا پر پڑی۔ "اوہ اچھا تو آپ بھی مجاہد احمد اثری کو پڑھتے ہیں؟"۔

۔"ہاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !، تو کیا آپ بھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟"۔ میں نے اپنا سوال ادھورا چھوڑ دیا۔

۔"جی ہاں دراصل مجھے بھی ادب سے کسی حد تک لگاؤ ہے۔ میں نے ان کے چند ایک افسانوی مجموعے اور ناول پڑھے ہیں لیکن چونکہ میں اِثری کے نظریۂ سے اتفاق نہیں کرتی عرصہ ہوا اِسے پڑھنا چھوڑ دیا ہے"۔

۔"لیکن میں نے تو سُنا ہے کہ مجاہد احمد اثری مرد وزن میں یکساں مقبول ہے؟"۔ میں نے انجان بنتے ہوئے کہا۔

۔"جی درست سُنا ہوگا آپ نے لیکن میں نے عرض کیا نا کہ مجھے اُس سے نظریاتی اختلاف ہے"۔

۔"لیکن اثری اپنی تحریروں میں کسی مخصوص نظریئے کا پرچار تو نہیں کرتا۔ وہ تو محض معاشرے میں جنس کی بنیاد پر ہوتے صنفِ نازک کے جذباتی و جسمانی استحصال کی حقیقی منظر کشی کرتا ہے جو کبھی طاقت، کبھی حیثیت، کبھی نفرت تو کبھی محبت کے نام پر کیا جاتا ہے"۔

۔"منظرکشی"؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!۔ اُس کی کھنکتی ہوئی آواز میں ایک بھرپور طنز پہناں تھا۔ "استحصالِ نسواں کی ہوتی ہے یا پھر پیکرِ نسواں، خطوطِ نسواں، اُن میں چُھپے نشیب و فراز، زیروبم، پیچ وخم، اونچائیوں، گولائیوں، ابھاروں اور گھاٹیوں کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!۔ اُس کے چہرے پر ایک سُرخی سی نمایاں ہوگئی تھی۔

۔"افسانے اور اخبار کی خبر میں کچھ تو فرق ہونا چاہیے؟"۔

۔"تو یوں کہوں نا کہ تم مردوں کی نظر میں عورت اخبار کی خبر ہے جس میں اثری جیسے افسانہ نگار اپنی زہنی برہنگی کے من پسند رنگ بھرنے کے بعد اپنے افسانوں میں سجا کر معاشرے کے بیمار زہنوں کی دلبستگی کے لیے سرِعام پیش کر دیتے ہیں"۔

۔"اب آپ زیادتی کررہی ہیں۔ اثری کا افسانہ تو ہر اُس عورت کی بپتا ہے جو اِس معاشرے کے ہوس گیر مرد کے استحصال کا شکار ہوتی ہے"۔

۔"لیکن یہ کس کتاب میں لکھا ہے کہ شکار کے ہر پہلو کی لمحہ بہ لمحہ اور قدم بہ قدم منظرکشی کرتے ہوئے قاری کو اُس مظلوم عورت کے جسم کے ان اعضاء کی رونمائی تک کروائی جائے کہ جہاں اُس کی اپنی نگاہ بھی جاتے ہوئے شرماتی ہے"۔

۔"لیکن یہ تو خود قاری کی اپنی ڈیمانڈ ہے"۔

۔"اول تو ایسا ہے نہیں، بلفرضِ محال مان لیا جائے کہ ایسا ہی ہے، پھر تو اثری کا قاری عورت کی مظلومیت اور اُس کے استحصال سے زیادہ اُس کے جسم میں دلچسپی رکھتا ہے اور شاید خود اثری بھی"۔

۔" ایسا تو ہرگز نہیں۔ اگر افسانہ نگار اس پہلو کو نظرانداز کردے تو افسانہ اپنی خوبصورتی اور قاری دونوں کھو دے گا"۔

۔"لیکن میرا سوال پھر وہی ہے کہ آخر عورت کی مظلومیت اور اُس کے استحصال کا نام لے کر اُس کے جسم کی نمائش کیوں؟"۔

۔"افسانہ نگار اپنے قاری کو من وعن اُسی تجربے سے گزارنا چاہتا ہے جس سے وہ عورت گزرتی ہے"۔

۔"لیکن آخر اِس کی ضرورت ہی کیا ہے؟"۔

۔"میں پھر یہی کہوں گا کہ یہ افسانے اور قاری کی ضرورت ہے اور افسانہ، افسانہ ہے نہ کہ اخباری خبر"۔

۔"چلیں یہ بتائیں کہ اس قسم کا افسانہ اپنے قاری کی فکری و نظری بالیدگی میں کیا کردار ادا کرتا ہے؟"۔

۔"آپ ایک ٹیکسی ڈرائیور کم اور ناقد زیادہ لگتی ہیں؟"۔

۔"میں ناقد تو نہیں البتہ بی اے پاس اور بہت چھوٹی عمر سے ہی ادب کی عمیق قاریہ رہی ہوں"۔

۔"بہت خُوب"۔

۔"آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا"۔

۔" اثری کا منشاء اپنے قاری کو کربِ نسواں کے ہر زاویئے سے آگاہ کرتے ہوئے اُسے شعُوری ولاشعُوری طور پر اس کرب کا سبب بننے سے روکنا ہے"۔

۔"چلیں مان لیا کہ ایسا ہی ہے۔ لیکن اثری صاحب کے تو رومانوی افسانے وناول تک اِس سے عاری نہیں۔ موقعہ ملا نہیں اور عارضِ محبوب کا شفاف بلور اس کے زہنی اختلاج کی بادہء احمر سے کچھ یوں دہک جاتا ہے کہ قاری کی اگلی پچھلی کئی نسلوں کے دہک اٹھنے کا خدشہ لاحق ہو رہتا ہے۔ لگتا تو کچھ یوں ہے کہ جیسے اثری استحصالِ نسواں کے درمان کا متلاشی ہو یا نہ ہو البتہ وہ اپنے پڑھنے والوں کو یہ ضرور باور کروانا چاہتا ہے کہ کیسے مغرور حسیناوں کے برفاب سے جسم گرم ہاتھوں کی حرارت سے پگھل جاتے ہیں۔ اس سے وہ قاری کے شعُور میں بھلا کیا تبدیلی لانا چاہتا ہے؟"۔

۔"تو آپ یہ چاہتی ہیں کہ افسانہ نگار اپنے قاری کو حقیقی دنیا سے دور پرے لے جا کر اُس کو فقط خواب ہی دکھایا کرے؟"۔

۔"جی نہیں میں نے یہ تو نہیں کہا۔ لیکن حقیقت میں افسانے کا رنگ یا افسانے میں حقیقت کا رنگ تہذیب کے دائرے میں بھی تو رھ کر بھرا جا سکتا ہے۔ ویسے کبھی کبھی قاری کو خواب دکھانے میں بھی کوئی حرج تو نہیں۔ یہ وطنِ عزیز بھی تو ایک خواب ہی کی تعبیر ہے نا۔ برسوں پہلے ایک سیاہ فام نے کہا تھا "میرا ایک خواب ہے" اور آج امریکہ بھر کے سیاہ فام باشندے اُس خواب کی تعبیر کے ثمرِشیریں سے تو بہرہ مند ہو رہے ہیں کہ نہیں"۔

۔"محترمہ یہ ڈپٹی نذیر احمد، پنڈت رتن ناتھ سرشار، منشی پریم چند، راجندر سنگھ بیدی، غلام عباس، منشاءیاد اور احمد ندیم قاسمی کا دور نہیں"۔

۔"تو نہ سہی لیکن یہ دور مجھ جیسی محنت کش خواتین کا تو ہے نا؟۔

۔"جی کیا مطلب میں سمجھا نہیں؟"۔

۔"جی ہاں بھلا ایک مرد یہ بات کیسے سمجھ سکتا ہے"۔

۔"خیر اب ایسا بھی نہیں۔ اثری کا افسانہ عورت کی تحلیلِ نفسی کر کے اُس کے شعُورولا شعُور کی تمام تر پرتوں میں چھپے ظاہروباطن کو اپنے قاری پر روزِ روشن کی طرح عیاں کرتا چلا جاتا ہے"۔

۔"لیکن ہر بار اِس تحلیلِ نفسی کا آغاز اُسے بےلباس کرکے ہی کیوں ہوتا ہے؟"۔

۔" لباس بھی تو ایک پرت ہی ہے نا اور جب تک ساری پرتیں نہ اُتریں حقیقت کیسے سامنے آ سکتی ہے"۔

۔"واہ واہ سبحان اللہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !، ماشاءاللہ کیا منطق ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!۔

۔"محترمہ یہ منطق نہیں ایک سیدھی سادھی سی حقیقت ہے"۔

۔"میرے بھائی، حقیقت تو یہ ہے کہ اثری کو ہم جیسی عورتیں جو کہ انتہائی جفاکشی، ایمانداری، خُون پسینہ سے حق حلال کی کمائی کر کے اپنے زیرِکفالت لوگوں کو پال رہی ہے نظر ہی نہیں آتیں۔ آپ کو مجھ جیسی خاتون ٹیکسی ڈرائیور تو شاید اور کوئی مشکل سے ہی ملے لیکن اِس شہر کراچی میں لاکھوں باحوصلہ و باکردار خواتین دوسروں کے گھروں میں کام کرتی ہیں۔ یہی نہیں میں ایسی کئی خواتین کو خود جانتی ہوں جو کہ شہر کے مضافاتی علاقوں میں اشیاءِ خوردونوش کی رھیڑیاں اور کھوکھے لگاتی ہیں۔ میں ایک ایسی عورت کو بھی جانتی ہوں جو سائیکلوں کے پنکچر لگاتی ہے۔ لیکن اِن عورتوں میں نہ تو کوئی گلیمر ہے نہ ہی اثری حیسے ادیبوں کے لیے کوئی چارم۔ ارے میں تو کہتی ہوں کہ اگر اثری کو اتنی ہی عورت کی بھلائی کی فکر ہے تو ہم جیسی عام محنت کش عورت کو اپنی کہانی کا مرکزی کردار بنائے"۔

۔"تو اِس سے کیا ہوگا، کیا یہ استحصالی معاشرہ عورت کے استحصال سے باز آجائے گا؟"۔

۔"معاشرہ باز آئے یا نہ آئے۔ لیکن میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ ہم ایسی عورتیں معاشرے کی اُن دیگر عورتوں کے لیے ضرور رول ماڈل ثابت ہوسکتی ہیں کہ جو مردروں کے خُوف سے اپنے گھروں میں دُبکی بیٹھی ہوئی ہیں۔ اُنہیں یہ اندازہ ہوسکتا ہے کہ معاشرے میں اپنا مقام اور حق حاصل کرنے کے لیے ضروری نہیں کہ اثری کے افسانوں میں دکھائی جانے والی عورت کی طرح ہمیشہ بےلباس ہی ہونا پڑے"۔

۔"یہ بات آپ اتنے وثوق کے ساتھ کس طرح کہہ سکتی ہیں؟"۔

۔"اپنے ذاتی تجربے کی بناء پر۔ چند روز پہلے میری ٹیکسی میں ایک نوجوان لڑکی سوار ہوئی۔ اُس کے چہرے کی زردی اور حرکات و سکنات سے ہی میں نے بھانپ لیا کہ وہ گھر سے بھاگی ہوئی ہے۔ تھوڑی سی ہی کوشش کے بعد وہ بول پڑی۔ کہنے لگی کہ وہ ایک بیوہ ہے اور کوئی چارسال پہلے اُس کی شادی ہوئی تھی دو بچے بھی ہیں۔ بدقسمتی سے چند ماہ قبل اِس کا خاوند ایک ٹریفک حارثے میں ہلاک ہوگیا اور اب وہ جوان جہان عورت تنِ تنہا اور معاشرے کے بھیڑیا صفت مرد اِس کی تاک میں ہیں"۔

میں یہ سنتے ہی بیچ میں بول پڑا:۔ "دیکھ لیا، آپ تو خود اثری کا افسانہ ہی سُنا رہی ہیں"۔

۔"ہاں اِس کی ابتداء تو اثری کے افسانے جیسی ہی ہے لیکن اِس کا انجام یکسر مختلف"۔

۔"ہاں یہ تو ہوتا ہی ہے کہ کئی کہانیوں کا آغاز ایک لیکن انجام مختلف ہو"۔

۔"لیکن اثری کا کہانی کا انجام خود اُس کی اپنی زہنی اختراع اور اِس کہانی کا انجام حقیقی ہے"۔

۔"اور وہ انجام کیا ہے؟"۔

۔"اب وہ میرے کہنے پر ایک ڈرائیونگ اسکول میں ڈرائیونگ سکھ رہی ہیں اور انشاءاللہ جلد ہی میری طرح سے ٹیکسی ڈرائیوری کا آغاز کردے گی"۔

۔"لیکن اِس سے یہ کیسے ثابت ہوگا کہ اب وہ معاشرے کے بھیٹریا صفت ہوس گیر مرد کی دسترس سے محفوظ ہوگئی ہے؟"۔

۔"یہی تو وہ بات ہے کہ جسے اثری اپنی کہانیوں میں اجاگر کرنے سے محروم ہے۔ میں نے اُسے اپنی کہانی سنائی۔ میں

جب آج سے بارہ برس پہلے بیوہ ہوئی تو میری عمر بھی صرف تیئس چوبیس برس ہی تھی۔ اِس کے تو دو بچے ہیں میرے چار چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔ میرے ساتھ بھی وہی کچھ ہونا شروع ہوگیا جو اُس کے ساتھ ہو رہا تھا اور جس سے بچنے کی خاطر وہ اپنے دو بچوں کو بےآسرہ چھوڑ کر خودکشی کرنے کی نیت سے سمندر میں چھلانگ لگانے جارہی تھی۔ لیکن میں نے اُس کے برعکس سمندر میں چھلانگ لگانے کی بجائے معاشرے کے سمندر میں چھلانگ لگائی۔ اپنے زیوارت فروخت کرکے ڈرائیونگ سیکھی۔ پہلے پہل کرائے کی ٹیکسی چلائی اور آج ماشاءاللہ میری اپنی ٹیکسی ہے اور میرے چاروں بچے شہر کے اچھے اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ تاوقتکہ ایک تنہا عورت اپنی اور خاندان کی کفالت میں خودمختار نہیں ہوتی اِسے اپنے آپ پراعتماد حاصل نہیں ہوتا۔ یہی عدم اعتماد اُن بھیڑیا نما مردوں کو اُن کے استحصال پر اُکساتا ہے۔ البتہ معاشرے کا ہر مرد ایسا بھی نہیں جیسا اثری اپنے افسانوں میں دکھایا کرتا ہے"۔

۔"ہاں تو وہ اُنہی مردوں ہی کو تو بےنقاب کرتا ہے اور کرنا چاہتا ہے جو ایسے ہیں"۔

۔"ہاں تو اُسے کس نے روکا ہے کہ وہ ایسے مردوں کو بےنقاب نہ کرے۔ لیکن وہ تو اِس کی آڑ میں عورت کو بےلباس کرنے پر تلا ہوا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے رول مآڈلز پیش کئے جائیں کہ جس سے متاثر ہو کر عورت اپنے غصب شدہ حقوق کو حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی پاکیزگی کا بھرم بھی رکھ سکیں"۔

۔"دیکھیں ادیب کا کام ایک واقعے کے ظاہری و باطنی تمام تر پہلو کو قاری کے سامنے اجاگر کرنا ہے"۔

۔"آخر آج کے افسانہ نگار کے زہن میں صرف عورت ہی کیوں چھائی ہوئی ہے۔ کیا ہمارے وطن میں اِنہیں ماسوائے عورت کے دوسرا کوئی مسئلہ نظر نہیں آتا؟۔ ہمارا افسانہ نگار آج بھی کیوں وہیں کھڑا ہے جہاں آج سے کم و بیش صدی سے بھِی پہلے اُسے علامہ اقبال نے دیکھا تھا:۔

ہند کے شاعر و صُورت گر و افسانہ نویس
آہ! بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار

اور فیض بھی تو کہہ چکے ہیں نا کہ:۔

اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سواء
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سواء

اچھا چلیں چھوڑیں اس بات کو۔ آپ نے ابنِ صفی کو پڑھا ہے"۔

اُس کی یہ بات سُن کر میری ہنسی چھوٹ گئی۔ کافی دیر بعد جب میں اپنی بے ساختہ ہنسی پر قابو پا سکا تو بھرائی ہوئی آواز میں بولا:۔ "جی توبہ کریں۔ مجھے یاد ہے کہ میں شاید چھٹی جماعت کا طالبعلم تھا۔ ایک روز ہمارے اُردو کے استاد بشیر احمد خان صاحب نے ایک ہم جماعتی کو کلاس میں رنگے ہاتھوں ابنِ صفی کا کوئی ناول پڑھتے ہوئے پکڑ لیا۔ سب کے سامنے اُسے بینچ پر کھڑا کر کے ناول کے چیتھڑے بکھیر ڈالے اور فرمانے لگے:۔ "میاں ہم پڑھنے سے منع نہیں کرتے۔ لیکن غصب خدا کا! یہ جاسوسی ناول بھی کوئی پڑھنے کی چیز ہیں۔ اگر کچھ پڑھنا ہی ہے تو ادبِ عالیہ پڑھو۔ یہ کیا کہ اپنا وقت ادبِ جالعیہ و موالیہ میں ضائع کرتے پھر رہے ہو"۔ سو وہ دن اور آج کا دن میں نے ماسوائے ادبِ عالیہ کے کچھ پڑھا ہی نہیں"۔

۔"خیر میں یہاں اِس بحث میں تو نہ پڑوں گی کہ کونسا ادب اور ادیب عالیہ ہے اور کون سا غیرعالیہ"۔

۔"لیکن ناہید بی بی، یہی تو سب سے اہم ترین بحث ہے۔ آخر یہ کیونکر طے ہو کہ کس تخلیق اور تخلیقکار کو ادبِ عالیہ پر فائز کیا جائے اور کسے خارج۔ کونسا ادب عوام کے نچلے طبقات تک محدود رہے کہ وہ جو محض وقت گزاری اور تفریحِ طبع کی خاطر پڑھتے ہیں اور کونسا ادب وہ ہے جسے بجا طور پر ادبِ عالیہ کے مقام پر فائز کیا جا سکے کہ ایسا ہی ادب درحقیقت کسی معاشرے کی زہنی و شعُوری بالیدگی، فہم و ادراک اور روشن خیالی کو مہمیز کرنے میں مدومعان ثابت ہوتا ہے"۔

۔"چلیں میں کوشش کرتی ہوں کہ اپنی محدود سی سمجھ کو بروِکار لاتے ہوئے آپ کے سوال کا جواب دے سکوں۔ لیکن اِس سے قبل میں آپ سے کچھ کہنا چاہتی ہوں۔ میرے کمائے رزق کا ایک ایک نوالہ جو میرے بچوں کے پیٹ میں جارہا ہے میں پورے اعتماد کے ساتھ کہتی ہوں کہ اللہ رازق و رزاق کے کرم سے حق حلال کا ہے کیونکہ نہ تو میں نے کبھی میٹر سے زیادہ کرایہ کسی سے وصول کیا اور نا ہی دوسروں کی طرح سے کسی ورکشاپ جا کر اپنا میٹر مقرہ رفتار سے تیز کروایا ہے۔ میں نے اپنا ڈرائیونگ لائسنس بھی بناء رشوت دیئے پوری طرح سے گاڑی چلانا سیکھ کر روڈ ٹیسٹ پاس کرنے کے بعد حاصل کیا تھا۔ میری ٹیکسی مکمل طور پر فٹ ہے اور میں نے اِس کا روڈ فٹنیس سرٹیفیکیٹ رشوت دے کر حاصل نہیں کیا۔ ہر ماہ میں باقاعدگی کے ساتھ اِس کی مکمل مینٹیننس کرواتی ہوں۔ آج تک کسی ٹریفک کے اشارے کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔ نہ ہی کبھی ٹریفک پولیس کے سپاہی کو پیسہ دھیلہ رشوت ہی دی ہے اور اپنے خدا کے سواء کسی سے نہیں ڈرتی"۔

۔"لیکن ان سب باتوں کا ادب سے کیا تعلق ہے؟"۔

۔"ہے اور بہت ہی گہرا ہے۔ میں نے یہ سب کچھ یعنی احترامِ قانون، احترمِ انسانیت، رزقِ حلال کے حصول کی لگن اور اپنے حق کے حصول کی جدوجہد کرنے کا سبق ابنِ صفی مرحرم کے ناولوں ہی سے سیکھا ہے اور بڑے ہی فخر سے اِس کا اعتراف کرتی ہوں۔ میرے اپنے بچے بھی میری ہی طرح ابنِ صفی کو پڑھتے ہیں اور مجھے اللہ تعالیٰ کی زاتِ بابرکت سے امید ہے کہ وہ بھی انشاءاللہ اس ملک کے ایک زمہ دار شہری بنے گے"۔

۔"لیکن وہ تو محض ایک جاسوسی ناول نگار تھے"۔

۔"جی درست فرمایا اور اُن کے ناولوں کا اصل لبِ لباب فقط یہ ہی ہے کہ "احترمِ قانون ہر کسی پر لازم ہے"۔ اب یہ فیصلہ میں آپ پر ہی چھوڑتی ہوں کہ ابنِ صفی کا تخلیق کردہ ادب آپ کی اپنی ہی بیان کردہ ادب عالیہ کی تشریح پر پورا اترتا ہے یا اثری کے مادرزاد برہنہ افسانے؟۔

اچانک ٹیکسی ایک ہلکا سا جھٹکا کھا کر رکی۔ میں نے چونک کر دیکھا تو میری منزل آ چکی تھی۔ میں نے فیئر میٹر کی طرف دیکھا تو مجھے حیرت ہوئی کہ کرائے کی رقم آج تک میرے ادا کردہ کرائے سے کہیں کم تھی۔ میں نے رقم ادا کی اور ٹیکسی سے باہر نکل آیا۔ ابھی زرا سا ہی آگے بڑھا تھا کہ پیچھے سے ٹیکسی کا ہارن بجا۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ناہید میری کتاب اور فولڈر کو کھڑکی سے لہرا رہی تھی۔ میں تیز تیز چلتا ہوا اُس کی طرف بڑھا اور شکریہ ادا کرتے ہوئے کتاب اور فولڈر اُس سے لے لئے۔

۔"اثری صاحب، شکریہ کی کوئی ضرورت نہیں۔ خیر یہ تو تھی ہی آپ کی امانت۔ ویسے بھی میں نہیں چاہتی کہ غلطی سے بھی کہیں میرے بچوں کے ہاتھ آپ کی یہ کتاب لگ جائے اور وہ صرف محض اِسے پڑھ کر ہی استحصالِ نسواں کے گنہگار ٹہریں۔ ویسے حیران ہونے کی ضرورت نہیں مجھے آپ کے اثری ہونے کا شک تو اُسی وقت ہو گیا تھا جب آپ نے یہاں کا پتہ بتایا اور پھر میں نے آپ کے پاس یہ کتاب دیکھی۔ آپ سے گفتگو کے بعد میرا شک یقین میں بدل گیا"۔

اس سے پہلے کہ میں کچھ کہہ پاتا اُس نے اپنی ٹیکسی آگے بڑھا دی اور کچھ ہی دیر میں نظروں سے اوجھل ہوتی چلی گئی۔ میں ںے پبلیشر کے دفتر جانے کا ارادہ ترک کردیا تھا اور واپسی کے لیے کسی رکشہ ٹیکسی کی تلاش میں اِدھر اُدھر نظریں دوڑانے لگا۔

امین صدرالدین بھایانی
About the Author: امین صدرالدین بھایانی Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.