پہلے ہم پر انگریزوں نے راج کیا۔ یہ بلا واسطہ راج تھا جو
کسی نہ کسی طور ختم کیا گیا یا ہوا۔ اِس کے بعد انگریزوں نے بالواسطہ راج
کرنا شروع کیا۔ یہ راج انگریزی کے ذریعے تھا۔ انگریز چلے گئے مگر انگریزی
ہمارے گِٹّوں میں ایسی بیٹھی کہ اِس نے اب تک جانے کا نام ہی نہیں لیا۔
ہم انگریزوں سے (برائے نام ہی سہی) نفرت کرتے ہیں مگر انگریزی سے نفرت ہے
نہ برطانوی ویزے اور شہریت سے! شاید اِسی کیفیت کے لیے غالبؔ نے کہا تھا ع
سادگی و پُر کاری، بے خودی و ہُشیاری
انگریزی محض زبان نہیں، جادوئی زنبیل ہے۔ جب جی چاہے، اِس میں سے اپنی مرضی
کا مَنتر نکالیے، پُھونکیے اور بگڑتا کام بنائیے۔ انگریزی کے کئی الفاظ
ایسے ہیں کہ بڑی سے بڑی مصیبت کو ٹال دیتے ہیں۔ کسی کو خنجر گھونپ دیجیے
اور پھر sorry کہہ کر جاں بخشی کرالیجیے! جاں بخشی ہو نہ ہو، لوگ لفظ sorry
کو اِسی نیت کے ساتھ استعمال کرتے ہیں! لفظ security ہی کو لیجیے۔ اِس ایک
لفظ میں ایک انوکھی، پُراسرار کائنات بند ہے۔ جب جی میں آئے، اِس لفظ کی
گِرہ کھولیے اور اپنی الگ کائنات بسالیجیے۔ پاکستان جیسے ممالک میں تو یہ
لفظ گھونگھٹ کا کردار ادا کر رہا ہے۔ جو کچھ بھی کرنا ہے ضمیر پر کِسی بھی
قسم کا بوجھ محسوس کئے بغیر کر گزریے اور ’’سیکیورٹی‘‘ کا گھونگھٹ کاڑھ
لیجیے! کس میں دم ہے کہ سماعت سے اِس لفظ کے ٹکرانے کے بعد کسی بھی قسم کا
استفسار کرے، وضاحت مانگے۔ روکنا تو بہت دور کی بات ہے، کوئی ٹوکتے ہوئے
بھی دس بار سوچے گا۔ کون چاہے گا کہ قوم کی ’’سیکیورٹی‘‘ سے متعلق اقدامات
پر سوال اُٹھاکر خود کو غدّاروں کے زُمرے میں داخل کرے؟
مُلک ترقی یافتہ ہو، ترقی پذیر یا پس ماندہ …… ہر معاشرے، ہر سیاسی نظام
میں ’’سیکیورٹی‘‘ کے نام پر سات خون معاف ہیں۔ دفاعی بجٹ ہڑپ کرنا ہو تو
بڑا حِِصّہ ٹھکانے لگا دیجیے اور تمام معاملات پر ’’سیکیورٹی‘‘ کا پردہ گرا
لیجیے۔
ذہین حکومتوں نے اب ’’سیکیورٹی‘‘ کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے نئے امکانات تلاش
کئے ہیں۔ عوام دو وقت کی روٹی آسانی سے حاصل کرلیں تو بہت سی حکومتیں
پریشان ہو اُٹھتی ہیں کہ کہیں پیٹ بھرے لوگ اُن کے اقتدار کا تختہ اُلٹنے
کے درپے نہ ہو جائیں۔ اِس مسئلے کا بہت آسان سا حل تلاش کرلیا گیا ہے۔ ایک
زمانہ تھا جب حکومتیں قدرتی آفات نازل ہونے پر ایمرجنسی یعنی ہنگامی حالت
نافذ کردیا کرتی تھیں۔ ایمرجنسی اب گِھسا ہوا لفظ ہے کیونکہ اِس میں ہنگامے
کا مفہوم پوشیدہ ہے! خوش سوچ بچار کے بعد اب حکومتوں نے ’’سیکیورٹی‘‘ کے
مفہوم کو نئی جہت دی ہے۔ اگر سیلاب آئے اور فصلیں خراب ہوجائیں تو ’’فوڈ
سیکیورٹی‘‘ نافذ کردیجیے۔ اہلِ سیاست کا نیا وژن یہ ہے کہ خوراک کی قِلّت
خطرناک کیفیت ہے جو قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ ایسے میں دیگر
اُمور کے ساتھ ساتھ اشیائے خور و نوش کی رسد کا معاملہ بھی حکومت آسانی سے
اپنے ہاتھ میں لے سکتی ہے، بلکہ لے لیتی ہے۔ گویا عوام کی دو وقت کی روٹی
پر شب خون مارنے کا ایک اور نرالا طریقہ وضع کرلیا گیا ہے۔
کسی بھی مُلک کے عوام لفظ ’’جنگ‘‘ سُنتے ہی ہیبت زدہ ہو جاتے ہیں اور بہت
سے معمولات ترک کرنے کا ذہن بنانے لگتے ہیں اِس لیے اب حکومتیں کِسی بھی
مُلک گیر یا قومی مسئلے کو حل کرنے کے لیے دَھڑلّے سے کہتی ہیں کہ جنگی
بُنیاد پر اقدامات کئے جارہے ہیں! جب کوئی کام جنگی بُنیاد پر کرنے کی بات
کی جائے تو عوام سہم جاتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ بیرونی دُشمن سے کوئی خطرہ
دِکھائی نہ دے رہا ہو تو اندرونی مسائل کو حل کرنے کے لیے بھی جنگی بُنیاد
پر اقدامات کا راگ الاپا جاتا ہے! ہمارے ہاں توانائی کے بحران سے نمٹنے کے
سلسلے میں اِسی نوعیت کے دعوے کئے جاتے رہے ہیں۔ اب خوراک کا معاملہ بھی
جنگی بُنیاد پر اقدامات کا طالب دِکھائی دیتا ہے۔
بھارتی قیادت اپنے اور پاکستانی معاشرے میں مُشترک اقدار کا راگ الاپتے
تھکتی نہیں۔ اب یہ راگ کچھ کچھ قابلِ قبول سا لگنے لگا ہے۔ اقدار ہوں نہ
ہوں، مسائل تو ایک سے ہی لگتے ہیں! جو سیلاب ہمارے ہاں تباہی پھیلاتا ہے وہ
وہاں بھی کچھ کم ہنگامہ برپا نہیں کرتا۔ زمین کا کِھسکنا یعنی تودوں کا
گرنا (لینڈ سلائیڈنگ) جیسا خطرناک ہمارے ہاں ہے ویسا ہی خطرناک اُن کے ہاں
بھی ہے۔ خُشک سالی ہر سال صرف ہمارا نہیں، اُن کا بھی مُنہ چِڑاتی ہے اور
ناک میں دَم کرکے دَم لیتی ہے!
بھارت کی حکمراں جماعت کانگریس نے اپنے اقتدار والی چار ریاستوں (صوبوں)
میں فوڈ سیکیورٹی نافذ کردی ہے۔ بے چاری کانگریس سخت پریشانی کے عالم میں
ہے۔ چومُکھی نہ سہی، تین مُکھی لڑائی تو لڑنی ہی پڑ رہی ہے۔ کنٹرول لائن
اور بین الاقوامی سرحد پر پاکستان کو مُنہ دینا پڑ رہا ہے، بھارتیہ جنتا
پارٹی نے خطے کی روایتی اپوزیشن ہونے کے ناطے الگ نام میں دم کر رکھا ہے
اور سیلاب کے ہاتھوں اُجڑنے والی فصلوں نے بھی ہوم فرنٹ پر حالتِ جنگ کو
جنم دیا ہے۔ کبھی ٹکے ٹکے میں فروخت ہونے والی سبزیاں اب حکومت کے سَر پر
چڑھ کر ناچ رہی ہیں۔ گویا کانگریس کی حکومت چوراہے کی رونقیں بٹورنے کے بعد
پہلے تو دو راہے پر کھڑی ہوئی اور اب تِراہے پر آگئی ہے! سونیا گاندھی
پریشان ہیں۔ اور اِتنے ہی پریشان اُن کے فرزندِ ارجمند راہُل گاندھی بھی
ہیں۔
نظر میں اُلجھنیں، دِل میں ہے عالم بے قراری کا
سمجھ میں کچھ نہیں آتا، سُکوں پانے کہاں جائیں!
قدرتی آفات کے ہاتھوں تباہی کے معاملے میں پاکستان اور بھارت ایک ہی کشتی
کے سوار ہیں۔ یا یوں کہیے کہ ایک ہی سیلاب کے ڈبوئے ہوئے ہیں۔ پوری پوری
ریاستیں زیر آب آئی جاتی ہیں۔ فصلیں تباہ ہو رہی ہیں۔ لینڈ سلائیڈنگ کے نام
پر پتہ نہیں کیا کیا کِھسک رہا ہے۔ خُشک سالی خُون خُشک کرنے پر تُلی ہوئی
ہے۔ اور اِتنا کچھ سہنے کے بعد بھی دونوں ملکوں کے پاس اِتنی فُرصت اور
سَکت ہے کہ جنگی جُنون کو پروان چڑھاسکیں! دُنیا والوں کو آنکھیں پھاڑ کر
دیکھنا چاہیے کہ ہم کتنے بکھیڑوں کو جھیل کر، اُن سے نپٹ کر بھی جنگی جُنون
کو پروان چڑھا سکتے ہیں! دوستی کے لاکھ راگ الاپے جائیں، جب ہم معاملات کو
بگاڑنے پر آتے ہیں تو پلک جَھپکتے میں برسوں کی محنت یوں داؤں پر لگا
بیٹھتے ہیں کہ اپنی ’’صلاحیتوں‘‘ پر یقین ہی نہیں آتا، خود پر مَر مِٹنے کو
جی چاہتا ہے!
حوصلے کی تڑپ بھی کیا شے ہے
فاصلہ ایک جست میں طے ہے!
ایک طرف ہم ہیں کہ ہمارا ہر شعبہ بربادی کی حدود میں قدم رکھ چکا ہے۔ دوسری
طرف بھارت ہے جو مختلف شعبوں میں بھرپور ترقی کا دعویٰ کرتے نہیں تھکتا مگر
جب ’’باٹم لائن‘‘ پر نظر ڈالیے تو نتیجہ وہی دکھائی دیتا ہے یعنی ڈھاک کے
تین پات! شوبز، آئی ٹی اور نالج مارکیٹ میں کامیابی کا ڈھول پیٹنے والے
بھارت کے طول و عرض میں آج بھی کم و بیش 50 کروڑ افراد انتہائے افلاس کے
عالم میں جی رہے ہیں۔ ’’چمکتا بھارت‘‘ اور ’’میرا بھارت مہان‘‘ کی گردان
کرنے والوں کو یہ دِکھائی نہیں دیتا کہ بڑے شہروں اور دیگر شہری علاقوں میں
سات کروڑ افراد فٹ پاتھ پر شب و روز ہی نہیں، پوری زندگی بسر کرتے ہیں!
مگر خیر، یہ کوئی بغلیں بجانے کا محل نہیں۔ ہمارے ہاں بھی غریب کی مِٹّی
پلید ہی ہے۔ دونوں ممالک ایٹمی ہتھیاروں کے حامل بھی ہیں اور پستی کا عالم
یہ ہے کہ چند بُنیادی سہولتوں کی فراہمی قومی اِشو میں تبدیل ہوچکی ہے۔
یہاں جو بجلی پائی ہی نہیں جاتی وہ جھٹکے دے رہی ہے۔ وہاں یہ عالم ہے کہ
خوراک اپنے کھانے والوں کو کھانے پر تُلی ہوئی ہے!
دونوں ممالک میں 60 کروڑ سے زائد افراد افلاس کے ہاتھوں تنگ ہیں۔ زندگی
مستقل بوجھ میں تبدیل ہوچکی ہے۔ اور اِس پر بھی جنگی جنون ہے کہ سَر چڑھ کر
بول رہا ہے۔ یا پھر یہ کہ اِس جنون کو سَر پر چڑھاکر بولنے پر مجبور کیا
جارہا ہے! دفاعی تیاریوں کی فکر لاحق ہے۔ ایک طرف فوڈ سیکیورٹی اور دوسری
طرف بارڈر سیکیورٹی۔ یعنی ایک چَکّی کے دو پاٹ۔ کبیر داس نے خوب کہا ہے کہ
دو پاٹن کے بیچ میں باقی بچا نہ کوئے!
کبھی ایسا بھی تو ہو کہ قرضے اُتارنے کے لیے ’’لون سیکیورٹی‘‘ نافذ کی
جائے۔ یہ کیا کہ دریاؤں کے پُشتے مضبوط نہیں اور ایک دوسرے کو ایٹمی
ہتھیاروں سے ڈرایا جارہا ہے!
گڈ گورننس کے دعوے کرنے والوں کو ’’گڈز گورننس‘‘ نے گھیر لیا ہے۔ چند
معمولی اشیاء کی قِلّت دونوں حکومتوں کے سارے کس بل نکال رہی ہے۔ دونوں کو
قدرت نے ُثریّا سے دبوچ کر زمیں پر دے مارا ہے۔ عقل مندوں اور احساس رکھنے
والوں کے لیے اشارے کافی ہوا کرتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ عقل اور احساس
کہاں سے لائیں؟ |