پاکستان میں لوگوں کے لئے ایک
عجیب اصطلاح ہے لیکن مغرب میں اکثر لوگ اس اصطلاح اور اس کے مفہوم سے آگاہ
ہیں۔ اپنی زندگی میں ہی موت سے ملتے جلتے تجربے سے گزرنا۔ ایک نئی دنیا کی
جھلک دیکھنا اور پھر واپس لوٹ آنا کسی بھی شخص کے لئے دلچسپی کا باعث ہو
سکتا ہے۔ یہ تجربہ ہر دور کے انسان کو درپیش رہا ہے اور خاص بات یہ نوٹ کی
گئی ہے کہ اس تجربے کے شکار لوگوں میں اکثریت فلسفیوں٬ دانشوروں٬ شاعروں٬
ادیبوں اور روحانی رہنماؤں کی دیکھنے میں آئی ہے۔ جہاں عام لوگوں کے لئے یہ
تجربہ خوف و پریشانی کا باعث ثابت ہوتا ہے وہیں صوفی منش اور دانشمندوں کے
لئے یہ ان کی تخلیقی اور نظریاتی سطح جوہر اور قابلیت کی پختگی نفاست
اورآموزش کا سبب بن جاتا ہے۔ تاہم اس تجربے سے گزرنے والے لوگوں کا تعلق ہر
طبقے قوم نسل ملک و وطن سے ہے اور اس کا اطلاق کسی مخصوص کمیونٹی پر نہیں
کیا جا سکتا البتہ یہ ایک ایسے علم کی حیثیت ضرور رکھتا ہے جو سیکھا جا
سکتا ہے۔ اس ضمن میں مندرجہ ذیل اصولوں کو ذہن نشین رکھنا ضروری ہے۔
تھکن کی ایک خاص سطح جو ذہنی سکون اور نفسی اطمینان سے ہم آہنگ ہو بالآخراس
کیفیت کو جنم دیتی ہے۔ اس کا بہترین وقت فجر سے پہلے اور فجر کا ہے۔ اس کا
آغاز چونکہ موت سے ملتا جلتا ہے اس لئے اکثر لوگ اس تجربے کے نتیجے میں
شدید گھبراہٹ کا شکار ہو کر اس تجربے کے ثمرات سے محروم رہ جاتے ہیں۔
بالعموم نیند یا غنودگی کی حالت میں شروع ہوتا ہے۔ ایک وائبریشن کا احساس
انسان کو ہوش کی وادی میں لے آتا ہے تب پتا چلتا ہے کہ جسم بالکل اکڑ چکا
ہے اور کوشش کے باوجود ہلنا ممکن نہیں ہے۔ ابتدائی تجربات میں سینے پر
بھاری بوجھ کا احساس بھی شدت سے ہوتا ہے ۔ پورے جسم سے وائبریشن کی ایک لہر
سفر کرتی ہوئی سر تک آتی ہے۔ یہ گھرگھراہٹ یا جھنجھناہٹ کی کیفیت جسم کے
ایک ایک ٹشو میں محسوس ہوتی ہے بعض لوگوں کو درد کی مانند لگتی ہے اور بعض
کے لئے یہ ایک کیف آور احساس ہے۔ جلد ہی جکڑن کی یہ کیفیت ایک بے انتہا
خوشگوار آزادی میں بدل جاتی ہے۔ اس سے پہلے کوئی نہ کوئی عجیب آواز بھی
سنائی دیتی ہے جس کے بعد انسان خود کو ہوا میں معلق پاتا ہے جبکہ اس کا جسم
بدستور بستر پر ہی موجود رہتا ہے۔ دو جگہوں پہ موجودگی کا احساس بھی قائم
رہتا ہے۔ وائبریشن سے نجات کے بعد ایک ہلکی پھلکی لطیف کیفیت انسان کو اپنے
گھیرے میں لے لیتی ہے اور ایک بہت ہی زیادہ سبک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا انسان
کے روحانی جسم کوچھوتا ہے جسے محسوس کرنے کی صلاحیت کئی ہزار گنا زیادہ
ہوتی ہے بعض اوقات اس تجربے کا آغاز خواب ساطع سے ہوتا ہے۔ اب وہ ایک ایسی
روشنی میں مشاہدہ کرتا ہے جو کسی سورج کی مرہون منت نہیں ہوتی بلکہ ازل سے
گویا ہر سو موجود ہوتی ہے۔ یہاں ایک قدیم ازلی و ابدی سکون پھیلا محسوس
ہوتا ہے۔ ایک جانی پہچانی سی مہربان ہستی کا قرب اس تجربے کا عطر ہے جو دل
کی گہرائیوں میں سرگوشیاں کرتی محسوس ہوتی ہے۔ اس کی رحمت اور محبت سے
انسان موم کی طرح پگھلنے لگتا ہے۔ تاہم ہر انسان کا تجربہ ملتا جلتا ہونے
کے باوجود ایک دوسرے سے بہرحال مختلف بھی ہوتا ہے۔ اس کی وجہ ہر آدمی کا
مختلف طرزِ زیست ثقافت اور زندگی میں روا رکھے گئے متنوع روئیے ہیں۔ لیکن
بنیادی عوامل اور کیفیات یکساں ہی رہتی ہیں۔ میری ذاتی ریسرچ اس سلسلے میں
یہ بھی ہے کہ یہ تجربہ اگرچہ کسی بھی شخص کو پیش آ سکتا ہے لیکن سخت دل
لوگوں کے لئے اس تجربے سے گزرنا ممکن نہیں ہے۔ اس تجربے کی ایک لازمی شرط
حساس دل اور وجدانی مزاج ہونا ہے ۔ بہت زیادہ مذہبی لوگوں کو بھی یہ تجربہ
ذرا مشکل ہی سے ہوتا ہے کیونکہ کسی بھی معاملے میں سخت ہو جانا دل کی سختی
کا باعث بن جاتا ہے اور دل کی سختی انسان کو لطیف کیفیات سے محروم کر دیتی
ہے جبکہ یہ تجربہ بھی دراصل ایک لطیف ترین کیفیت کا ہی نام ہے۔ البتہ اسی
تجربے سے جڑا ہوا ایک تجربہ اور ہے جو حادثاتی طور پر موت کا شکار ہونے اور
پھر کسی باعث بچ جانے کی صورت میں ہوتا ہے۔ یہ کسی بھی شخص کو پیش آسکتا ہے۔
لیکن ذہنی جسمانی طور پر صحت مند اور چاک و چوبند شخص کو جو غیر جسمانی
تجربہ پیش آتا ہے اس کا تعلق اس کے شعور کی گہرائی اور پختگی سے جڑا ہوا ہے۔
جن لوگوں کو بھی یہ تجربہ پیش آیا ہے ان کی سوچ اور کردار تمام عمر ایک
گہری سوچ رکھنے والے فلسفی جیسا ثابت ہوا۔ یہ تجربہ بے پناہ علم و عرفان کے
القا کا سبب بھی بن جاتا ہے۔ اس تجربے کا اکثر شکار رہنے والوں کو ایک خوف
ہمیشہ دامن گیر رہتا ہے کہ اس تجربے کے دوران انہیں مردہ نہ تصور کر لیا
جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تجربے کے دوران اگرچہ ہوش و حواس عام حالات کی
نسبت کئی ہزار گنا بڑھ چکے ہوتے ہیں لیکن بظاہر جسمانی صورتحال مردوں جیسی
ہوتی ہے۔ ہر وہ شخص جو سوتے میں اس تجربے کا شکار ہو جاتا ہو اسے اپنے
سرہانے کے نیچے یہ تحریر ضرور لکھ کر رکھنی چاہیے کہ مجھے مردہ سمجھنے سے
پہلے میری گردن کے پچھلے حصے پر مالش ضرور کر لیں۔ ایسی ہی ایک ہدایت حضرت
علامہ اقبال نے اپنے ذاتی ملازم علی بخش کو دے رکھی تھی جس کا تذکرہ قدرت
اللہ شہاب صاحب نے اپنی سوانح عمری شہاب نامہ میں کیا ہے۔علی بخش کے الفاظ
میں شہاب صاحب نے بیان کیا ہے کہ
ڈاکٹر صاحب میں ایک عجیب بات تھی ۔ کبھی کبھی رات کو سوتے وقت انہیں ایک
جھٹکا سا لگتا تھا اور وہ مجھے {علی بخش کو} آواز دیتے تھے۔ انہوں نے مجھے
ہدایت کر رکھی تھی کہ ایسے موقع پر میں فوراً ان کی گردن کی پچھلی رگوں اور
پٹھوں کو زور زور سے دبایا کروں۔ تھوڑی دیر کے بعد کہتے تھے بس اور میں
دبانا چھوڑ دیتا تھا اسی وجہ سے وہ مجھے اپنے نزدیک سلایا کرتے تھے ۔
ہر وہ شخص جو او او بی ای سے گزرا ہوا ہو یہ بات اچھی طرح سے جانتا ہے کہ
بیرونِ جسم پرواز بعض اوقات ایک جھٹکے سے اپنے آغاز میں ہی ختم ہو جاتی ہے۔
یہ جھٹکا اعصاب کو جھنجھنا کر رکھ دیتا ہے۔ بعض اوقات تو بستر پر پٹخا دینے
والا ثابت ہوتا ہے جیسے بجلی کا جھٹکا لگا ہو۔جبکہ دوسری طرف اس تجربے کو
دوران سینے پر بے پناہ بوجھ کا احساس بھی تکلیف دہ حد تک بڑھ جاتا ہے۔ ایسے
مواقع پر کوشش کے باوجود حلق سے آواز نہیں نکلتی اگر نکلے بھی تو بہت گھٹی
گھٹی سی آواز نکلتی ہے۔
خوف اس تجربے کا ایک اہم جز ہے کیونکہ جسم سے نکلتے ہی اکثر اوقات مثالی
وجود بے رفتار کے ساتھ اڑتا چلا جاتا ہے اور فضا میں کئی ہزار فٹ کے سفر کا
احساس ڈرا دیتا ہے۔ کیونکہ ہر آدمی اپنے جسمانی حواس کے باعث اس چیز کا
عادی نہیں ہوتا۔ حالانکہ اڑنے کا وہ تجربہ محض مثالی وجود کو پیش آ رہا
ہوتا ہے اور مثالی وجود کو گرنے یا چوٹ لگنے کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ نہ
ہی اسے ہوا کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثالی وجود تو خلا سے بھی آگے تک چند لمحوں
میں پہنچ سکتا ہے۔ اس لئے جو لوگ اس تجربے کا شکار رہتے ہیں بالکل بھی نہ
گھبرائیں اوراس کی ماہیت عوامل و عواقب پر غور کو اپنا شعار بنا لیں۔ اپنے
ہر تجربے اور اس کے واقعات کو قلمبند ضرور کر لیا کریں۔ اس لئے کہ ان
تجربات پر تحقیق ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔ بدقسمتی سے اردو زبان میں
تو اس مسئلے پر بالکل بھی کچھ نہیں لکھا گیا۔ میری معلومات کے مطابق راقم
کی یہ تحریر ہی اس موضوع پر سب سے پہلی تحریر ہے۔ میرا یہ مضمون اس کتاب کا
ایک حصہ ہے جو میں لکھ رہا ہوں۔ مجھے بے شمار لوگوں کے تجربات موصول ہو چکے
ہیں۔ فیس بک پر او او بی ای کے گروپ میں موصول ہونے والے تجربات اور ریسرچ
ورک سب کا سب مغربی لوگوں کی طرف سے ہے ابھی تک پاکستان سے کسی شخص نے مجھے
میل نہیں کی۔ لیکن میری خواہش ہے کہ لوگ اپنے تجربات کو چھپا کر نہ رکھیں
اور نہ ایسے تجربات سے شرمندہ یا خوف زدہ ہوں۔
میں طویل عرصے سے اس مسئلے پر ریسرچ کر رہا ہوں اور اپنے اور بے شمار دوسرے
لوگوں کے تجربات کا جائزہ لینے کے بعد ایک بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ
تجربہ کسی بھی طرح ذہنی و جسمانی لحاظ سے نقصان دہ نہیں ہے۔بلکہ دیکھنے میں
یہ آیا کہ اس تجربے کا شکار وہی لوگ ہوئے جو عام لوگوں سے زیادہ صحت مند
اور توانا تھے اور اس تجربے نے ان کی قوتِ ادراک اور علم کو پہلے سے زیادہ
پختگی عطا کر دی۔
جو بھی لوگ اس تجربے سے گزر چکے ہیں ان میں سے اکثرتازیست انسانی بہبود کے
کاموں میں مصروف رہے۔ |