کہتے ہیں کہ ‘عقلمند کے لئے
اشارہ ہی کافی ہوتا ہے‘ تو ہم نے بھی بہت کچھ باتیں اشاروں میں بیان کرنے
کی کوشش کی ہے اب یہ سمجھنے والوں پر ہے سمجھنا چاہیں گے تو سمجھ جائیں گے
اور نہ سمجھنا چاہیں تو سمجھ کر بھی نہیں سمجھیں گے
ہمارے معاشرے میں اگرچہ وقت اور حالات کے پیش نظر بہت کچھ تبدیل ہو رہا ہے
لیکن اس کے باوجود ابھی بھی روایات کہنہ کی جڑیں قدرے مضبوط دکھائی دیتی
ہیں لیکن پھر بھی ہمارے معاشرے میں ‘آٹے میں نمک‘ کی مقدار میں کسی قدر
اضافہ ہو رہا ہے یہ مثال جناب نجیب الرحمٰن صاحب نے ہمارے معاشرے میں ‘لوو
میرج‘ کے تناسب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مضمون‘‘کامیاب ازدواجی زندگی“ پر
تبصرہ کرتے ہوئے تحریر کی تھی یہاں ناچیز کا اشارہ بھی اسی مؤقف کا ترجمان
ہے
ممکن ہے، غالباً اس خیال کے تحت جس طرح ‘ارینجڈ میرج‘ وقت گزرنے کے ساتھ
ساتھ ‘لوو میرج‘ کی صورت اختیار کر جاتی ہے کسی دور میں ‘لوو میرج‘ کو بھی
اگر فریقین کے گھر والوں کے باہمی تعاون سے ‘ارینجڈ میرج‘ بنا دیا جائے تو
ہر دو فریقین کی شادی شدہ زندگی کے بہت سے معاملات بخیر و خوبی اور خوش
اسلوبی سے نبھائے جا سکتے ہیں
سوچنے کی بات ہے والدین اپنی اولاد سے پیار کرتے ہیں تو اولاد کی پسند کو
ناپسند کرنا کیا معنی رکھتا ہے کیا اسلام کی رو سے رشتہء ازدواج میں منسلک
ہونے کے لئے دونوں فریقین کا مسلمان ہونا ہی کافی نہیں ہے
کیا یہ بہت ضروری ہے کہ خاندان میں ہی رشتہ جوڑا جائے ممکن ہے خاندان سے
باہر کی لڑکی یا لڑکا ایک دوسرے کے مزاج کو خاندان کی لڑکی یا لڑکے سے
زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتے ہوں جبکہ کسی کے لئے جذبہء محبت پیدا ہو جانے
کے لئے بعض اوقات محض ایک فقرہ ایک لفظ ایک ادا اور ایک نظر ہی کافی ہوتی
ہے کوئی مانے یا نہ مانے یہ حقیقت ہے
انسان کی فطرت ہے کہ انسان کو جو پسند آ جائے اسے سمجھنا کچھ مشکل نہیں
رہتا ایک دوسرے کو سمجھ لینے کے بعد ذہنی ہم آہنگی پیدا کی جا سکتی ہے اب
یہ دونوں فریقین پر ہے کہ وہ ایک دوسرے کو سمجھنے میں کتنا وقت لیتے ہیں
‘لوو میرج‘ ہو یا ‘ارینجڈ میرج‘ دونوں کی کامیابی کے لئے باہمی تعاون اور
ذہنی ہم آہنگی ضروری ہے ‘لو میرج‘ تو ہے ہی ذہنی ہم آہنگی کا نتیجہ جبکہ
‘ارینجڈ میرج کو ‘لوو میرج بنانے کے لئے ذہنی ہم آہنگی پیدا کرنے میں کچھ
وقت لگتا ہے
لیکن یہ ضروری بھی نہیں کہ زیادہ وقت لگے کیونکہ بعض اوقات دو اجنبیوں کی
پہلی ملاقات بھی پہلی نظر کی محبت ہو سکتی ہے اور محبت کا ہو جانا ہی دیگر
معاملات میں بہتری کی بنیاد ہے ذرا سی روشن خیالی سے بہت سے حالات و
معاملات میں بگاڑ کی صورت حال کو بہتر اور خوشگوار بنایا جا سکتا ہے کہ
اپنے لئے تو سب ہی روشن خیال ہوتے ہیں اپنوں کے لئے بھی یہی سوچ رکھی جائے
تو آئے والے حالات میں قدرے بہتری کی صورت پیدا کی جا سکتی ہے
اپنے لئے تو سب ہی روشن خیال ہوتے ہیں اپنوں کے لئے بھی خیالات روشن ہو
جائیں تو۔۔۔‘ آئی تھنک ایوری تھنگ ول بی او کے ۔۔۔ “پرہیپس“
|