حالیہ برسنے والی با رشیں پاکستان کے لئے
باعث زحمت ثابت ہوئی ہیں،جس نے کافی نقصان پہنچایا ابھی پاکستانی قوم ان
بارشوں سے ہونے والی تباہی سے سنبھلنے کی کوشش کر رہی تھی کہ بھارت نے
پاکستان پر آبی حملہ کر دیا جس کی وجہ سے میرے ملک میں سیلاب نے تباہی مچا
دی اور پاکستان کے سینکڑوں دیہات زیر آب آگئے ،لاکھوں ایکڑ زرعی زمین پر
کاشت کی گئیں فصلیں تباہ و برباد ہو گئیں،کئی گھروں کی چھتیں گر گئیں ،کئی
قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا،اورغریب عوام کے مویشی اس سیلابی پانی میں بہ گئے۔
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس میں نسلی تعصب کے ساتھ صوبائی تعصب بھی موجود
ہے ،قائداعظم محمد علی جناح نے ڈھاکہ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا
تھا کہ آخر یہ کہنے کا کیا فائدہ ہے کہ ہم بنگالی ہیں یا سندھی،یا پٹھان
،یا پنجابی ہیں ،نہیں ہم سب مسلمان ہیں اور مجھے یقین ہے اس پر آپ مجھ سے
اتفاق کریں گے کہ آپ اور جو بھی ہوں آپ مسلمان ہیں اور پاکستانی ہیں ۔
پاکستانی قوم قائد کا وہ فرمان بھول گئی آج بھی اس ملک کے باسی اپنی پہچان
پاکستانی کے بجائے سندھی،بلوچی،پٹھان،پنجابی،کشمیری اور سرائیکی کروانا
پسند کرتے ہیں شاید اس لئے پاکستانی قوم ترقی کی راہ میں خود ہی رکاوٹ بن
چکی ہے اور دشمن اس کا فائدہ اٹھا کر پاکستان کو غیر مستحکم کرتا جا رہا ہے
اور ہم خواب غفلت میں ڈوب چکے ہیں ۔
یہ وہ ملک ہے جو پانی کو بروئے کار لائے بنا سمندر برد کر دیتا ہے ،اگر
دریائے سندھ کا جو پانی بحیرہ عرب میں گرتا ہے اس کو ذخیرہ کرکے اس پر ایک
ڈیم بنا دیا جائے جہاں ہمارے توانائی کے کافی مسائل حل ہوں گے وہیں ان
سیلابوں سے ہونے والی تباہی سے بچا جا سکے گااور سیلابی پانی کو بھی ذخیرہ
کیا جا سکے گا دریائے سندھ پر بیسیوں سال پہلے بھی ایک ڈیم بنانے کا منصوبہ
زیر غور تھا جو آج تک مکمل نہیں ہو سکا آخر کیوں؟؟
کالاباغ ڈیم بنانے کا اعلان 1984ء میں کیا گیا تھا جس میں تقریباََ آٹھ
ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش رکھی گئی تھی، اس اہم منصوبے سے
پاکستان انرجی کرائسس پر کافی حد تک قابو پا سکتا ہے کیونکہ اس منصوبے سے
تین سے چار ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے ،اس منصوبے پر تخمینے کی
لاگت تقریباََ آٹھ ارب ڈالر اور یہ پانچ سال میں مکمل ہو سکتا ہے ،کالاباغ
ڈیم پر ایک ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں ،لیکن ایک ارب روپے خرچ ہونے کے بعد اس
اہم منصوبے کو عالمی طاقتوں نے صوبائیت کالبادہ اوڑھا کر متنازع بنادیا
،حالانکہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے خیبر پختونخواہ کو کافی فائدہ حاصل ہو گا
کیونکہ اس کی تعمیر سے دریا سے اوپر کا لاکھوں ایکڑ رقبہ کاشت کے قابل ہو
جائے گا ،اسی طرح صوبہ سندھ میں فصل خریف کے لئے پانی کی دستیابی کا کوئی
مسئلہ نہیں رہے گا۔
کالاباغ ڈیم کا نام تو ’کالا‘ہے لیکن اگر یہ ڈیم بن جائے تو پورے ملک کو
سرسبز کر سکتا ہے لیکن افسوس اس ڈیم پر کسی نے سیاسی دکانداری چمکائی تو
کوئی کسی کے ہاتھوں بلیک میل ہوکر اس کا مخالف ہوا۔یہ ڈیم ملک کے لئے
انتہائی ضروری ہے لیکن کچھ لوگ اپنے پڑوسی ملک کو خوش کرنے کے لئے اس کی
مخالفت میں بیان دیتے رہتے ہیں ۔
راقم کو گزشتہ دنوں دریائے سندھ کے اس مقام پر جانے کا اتفاق ہوا ،جہاں
کالاباغ کے مقام ’’پیر پہائی‘‘ پر اس ڈیم کو بننا تھا ،وہاں ڈیم میں
استعمال ہونے والا وہ زنگ آلود لوہے کے ٹکڑے ناکارہ ہو چکے تھے ،اس مقام پر
بنی سرکاری رہائش گاہیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی
تھیں وہ لفٹ بھی ابھی تک ویسے ہی موجود ہے،جو بہت جلد ناکارہ ہوجائے گی
کیونکہ اس منصوبے کو متنازعہ بناکر ختم کرنے کی سازش تیار ہوچکی ہے۔
اس ڈیم کی تعمیر سے تقریباََ ایک لاکھ افراد بے گھر ہوں گے ،میں نے ارد گرد
بسنے والے لوگوں سے جب پوچھا کہ آپ اس ڈیم کے حق میں ہیں تو ان کا جواب
مثبت تھا ،جب ان سے یہ کہا کہ اس ڈیم کی تعمیر کی وجہ سے آپ کو بے گھر ہونا
پڑے گا تو ان غیورلوگوں کا جواب پوری پاکستانی قوم کے لئے ایک مشعل راہ ہے
ـ’اگر یہ ڈیم ہمارے ملک کے مفاد میں ہے تو ہم اپنے گھر کیا اپنی جانیں بھی
قربان کر سکتے ہیں‘۔ |