کس کی ہار کس کی جیت؟؟؟؟

جیسے جیسے عام انتخابات قریب آتے جارہے ہیں تمام سیاسی پارٹیاں اپنا دم خم دکھانے کے لئے انتخابی مہم کی تیاریوں میں جٹ گئی ہیں۔تمام لیڈران کا اپنے اپنے حلقوں میں آنا جانا بھی شروع ہوگیاہے۔آج انہیں سب کے دکھ درد محسوس ہونے لگے ہیں۔چاہے وہ نریندر مودی ہوں یا منموہن سنگھ،راہل گاندھی ہوں یا راج ناتھ سنگھ یا پھر تیسرے محاذ کا سنہرا سپنا اپنی آنکھوں میں سجائے بیٹھے ملائم سنگھ اور ممتا بنرجی۔
اپنی جیت پکی کرنے کے لئے تمام سیاسی پارٹیاں اپنے اوچھے ہتھکنڈوں کا استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کررہی ہیں۔بات اگر نریندر مودی اور بی جے پی کی کی جائے تو انہوں نے اپنے ہر د ل عزیز حربے کا استعمال بڑی مستعدی کے ساتھ کرنا شروع کردیا ہے،ہندوتو کا کارڈ کھیل کر بی جے پی اور اس کے لیڈران ایک بار پھر زیر اقتدار آنے کا خواب سجا بیٹھے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کے ترجمان امت شاہ نے ایودھیاجاکر پوجا ارچنا کی اور ہندؤں کے جذبات کو بھڑکانے کے لئے ایک بار پھر رام مندر کا سلگتا مدعیٰ اٹھایا۔اور پھر سے اس ملک میں فرقہ وارانہ فساد بھڑکانے کی ناکام کوشش کی۔وہیں نریندر مودی کے بیانات بھی جلتی پر تیل چھرکنے کا کام کررہے ہیں۔یوں تو مودی صاحب کو’’ لیم لائٹ‘‘ میں رہنے کا بڑا شوق ہے،اور میڈیا میں شہ سرخی بنے رہنے کے لئے وہ اکثروبیشتراپنی زہریلی زبان کا استعمال کرتے رہتے ہیں اور دوسروں کے جذبات کو مشتعل کر کے اپنی سیاسی روٹیاں سیکنے اور اس سیکولر ملک کے وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں(جو شاید خواب ہی رہے)لیکن شاید انہیں کسی نجومی نے یہ بتا دیا ہے کہ اگر آپ مسلمانوں کا دل دکھائیں ،ان کے زخموں پر نمک پاشی کریں انہیں اس ملک سے ہٹانے کی اور سیکولر ہندوستان کو ہندوتووادی راشٹر بنانے کی(جو کبھی ہو نہیں سکتا)ناکام کوشش کریں تو آپ اس ملک کے وزیر اعظم بن سکتے ہیں۔اور اس نجومی کی بات پر عمل درآمد کرنے کے لئے وہ ہاتھ منھ دھوکر تیار ہیں۔شاید اس لئے وہ آئے دن مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کررہے ہیں کبھی گجرات میں ہزاروں بے قصور مسلمانوں کا موازنہ کتے کے بچے تو کبھی اسلام اور مسلمانوں کی پہچان برقعہ کو بیچ میں گھسیٹ کرلارہے ہیں۔مودی اپنی ان بیان بازیوں کے پیچھے کس سوچ کو تشکیل دے رہے ہیں اس کا انداز تو غالباً اس ملک کے تمام لوگوں کو ہے ۔

اور جہاں تک مجھے لگتا ہے نریندرموی کا یہ اوچھا ہتھکنڈا انہیں زیر اقتدار تو خیر نہیں پہنچا سکتا کیوں کہ یہ ہندوستان ہے۔ گجرات نہیں کہ وہ دنگے فساد بھڑکا کر وزیر اعظم کی کرسی تک پہنچ جائیں۔اب یہ ہندوستان نئے سرے سے اپنی تشکیل چاہتا ہے نہ کہ فرقہ پرستی کی زدمیں آکرخود کو اور پیچھے ڈھکیل دے۔اور اس زاویہ سے یہ ہندوستان اب مکمل باشعور ہندوستان بن چکا ہے۔اور ایک باشعور اور صلاحیت مند ہندوستان اوروہاں کے باشعور لوگ ایسے فیصلے قطعی نہیں کرسکتے جن کی وجہ سے ان کی آنے والی نسل دکھ مصیبت اور نفرتوں کی راہ پر گامزن ہو۔چاہے وہ ہندوستان کے ہندو ہوں یا مسلمان،ہاں بی جے پی کے ساتھ چند نام نہاد مسلمان بھی شامل ہیں جیسے شہنواز حسین اور مختار عباس نقوی جنہیں ابھی تک ہوش نہیں آیا یا پھر انہوں نے قسم کھا رکھی ہے کہ ہم اپنی آنکھیں بند رکھ کر مودی کی تمام کرتوتوں کو نذرانداز کرتے رہینگے،اور ایک ایسے فرقہ پرست ذہن کو زیر اقتدار پہچانے کی کوشش کرینگے جو کبھی بھی انہیں اپنی پارٹی سے درکنار کرسکتا ہے، کیونکہ یہ نریندر مودی کی عادت رہی ہے۔

اب ذرا تصویر کے دوسرے رخ کو دیکھیں تو یوپی اے جسے مکمل اعتماد ہے کہ ملک میں تیسری بار بھی ان کی پارٹی زیر اقتدار آئے گی ،اور اپنی بوڑھی ہڈیوں سے وہ تواناں ہندوستان کا بوجھ ڈھونے کی کوشش جاری رکھے گی ۔

آخر کب تک اور کیوں صرف اس وجہ سے کہ مسلمان بی جے پی کو ووٹ نہیں دینگے تو دوسری صورت میں ان کے پاس کوئی راستہ بچتا ہی نہیں ،یا پھر اس لئے مسلم اکثریتی علاقوں میں دوچار کالج کھولنے کا ان کا انتخابی وعدہ(جو انتخاب کے بعد ٹھنڈے بستے میں پڑ جائیگا)سن کرمسلمان ان پر ایک بار پھر اعتماد کرینگے یا پھر سلمان خورشید اور شکیل احمد کے دم پر مسلمانوں کے تمام ووٹ بنا کسی خاص وجہ کے یوپی اے کی جھولی میں ڈال دیا جائیگا۔اور ایک بار پھر ہندوستان کا دوسرے درجے کا شہری،دہشت گرد،فرقہ پرست ،اور ملک کا غدار کہلانے کا موقع مسلمانوں کی طرف سے دیئے جائیں گے۔لیکن کانگریس کو بھی اپنے اس دوہرے رویہ پر سوچنا ہوگا،اس بار ان کی راہ اتنی آسان نہیں ہوگی کہ وہ اقلیتوں کے فلاح و بہبود کے جھوٹے خواب دکھا کر اس ملک میں تیسری بار اپنی حکومت قائم کرسکیں۔اور خاص کر اس وقت جب مسلمان اپنی خستہ حالی،اپنی پریشانیوں سے تنگ آکر آواز بلند کرنے کے لئے بے تاب ہیں۔

تیسرے محاذ کا خواب دیکھ رہی سماج وادی پارٹی ،اور ترنمول کانگریس کے لئے بھی اس بار کا سفرآسان نہیں ہونے والا ،اگر ملائم سنگھ یادوں کو اب بھی یہی لگتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے فیورٹ ہیں اور MY (مسلم اور یادو) کے دم پر وہ اس ملک کے وزیر اعظم کی کرسی سنبھال سکتے ہیں ،تو انہیں اتر پردیش کے حالات پر غور کرنا چاہئے،کیا ان کے بیٹے اکھلیش یادوں نے کوئی ایسا کام کیا ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کا اعتماد ان پر ٹکا رہے ۔یہاں تک کے ان وزیر اعلیٰ بننے کے بعد تو اتر پردیش میں مسلمانوں کے حالات اور بھی بد تر ہوچکے ہیں۔وہیں ممتا بنرجی کچھ ووٹ اکٹھا کر سکتی ہیں،لیکن وہ زیر اقتدار پہنچنے کے لئے کافی نہیں ہوگا۔

ہاں اس بار ممکن ہے کہ بہار میں نتیش کمار کو شاید کچھ زیادہ سیٹیں مل جائیں ،اور وہ ان کے ایک صحیح فیصلہ کی وجہ سے ہے،کیونکہ ہندوستان کے عوام سیکولرزم کو کافی پسند کرتے ہیں چاہے ان کا تعلق کسی فرقہ یا مذہب سے ہو،ایک دوسروں کے تہواروں کو مل جل کر منانا ،ایک دوسر کے غم اور خوشی میں شریک ہونا،ان کی روایت میں شامل ہے ،اور اس میں تبدیلی کوئی نہیں چاہتا۔بلکہ سب یہی چاہتے ہیں کہ وہ آپس میں مل جل کر اس ملک کی ترقی کی ہر ممکن کوشش کریں ،اور کرتے بھی ہیں ۔ہاں ایسا اکثر ہوتا ہے کہ ان سیاسی رہنماؤں کے بہکاوے میں آکر کچھ تنگ نظر لوگ ایسے کام کرتے ہیں ،جس سے اس ملک کی شبیہ داغدار ہوتی ہے۔لیکن یہ گنتی کے چند لوگ ہوتے ہیں ۔اور ان چند لوگوں کو یہ ہندوستان اپنے سیکولرزم پر حاوی نہیں ہونے دیگا۔

ان ساری باتوں سے مدعیٰ تو یہی نکل کر آتا ہے کہ اس بار عام انتخاب میں کسی کی راہ آسان نہیں ہونے والی ہے۔اگر ان پارٹیوں کو زیر اقتدار آنا ہے تو پھر مذہب اور فرقہ کی سیاست چھوڑ کر ہندوستان کی ترقی کا مدعیٰ اٹھانہ ہوگا،اگر کانگریس ایک بار پھر زیر اقتدار آنا چاہتی ہے تو اسے اس ملک کی پریشانیوں کو دور کرنا ہوگا ،جو اس کی ترقی میں آڑے آتی ہیں۔اور اگر بی جے پی اپنی عزت بچانا چاہتی ہے تو پھر اسے ایک سیکولر چہرا سامنے رکھنا ہوگا،نہ کہ مودی جیسے فرقہ پرست چہرے کو سامنے رکھ کر اپنی انتخابی مہم کی شروعات کرنی چاہئے۔اور اگر ان دونوں پارٹیوں کے علاوہ کوئی تیسری پارٹی خود کو اس عہدے تک پہچانے کی چاہ رکھتی ہے تو اسے بھی اس ملک کو جوڑ کر رکھنے کی کوشش کرنی ہوگی ،اور یہاں کی برسوں پرانی روایت ہندو مسلم ایکتا کو لیکر چلنا ہوگا،نہ کہ ٹکڑوں میں بانٹ کر اس ملک کو کمزور کرنے کی سازش۔

اور اس بار ہندوستان کی سیکولر عوام کو بھی سوچنا پڑیگا ،کہ وہ فرقوں اور مذاہب کی آگ میں جلتا ہندوستان قبول کرینگے یا پھر ایک سیکولر ہندوستان کی تعمیر ؟سوچنا تو عوام کو بھی ہوگا کیونکہ ساری طاقت ہمارے ہاتھ میں ہے ۔اور ہم جسے چاہینگے و ہی اس ملک کے وزیر اعظم کی کرسی تک پہنچے گا۔
Misbah Fatima
About the Author: Misbah Fatima Read More Articles by Misbah Fatima: 14 Articles with 12291 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.