گیارہ مئی 2013ء ہمارے پاک وطن
میں انتخابات کامہینہ تھا۔انتخابات ہوئے،دھاندلی کے الزامات اُسی طرح عائد
ہوتے رہے جیسے پہلے الیکشنوں میں ہواکرتے تھے۔جب الزامات لگتے ہیں
توانتخابات مشکوک ضرورہوتے ہیں مگر ہمارے یہاں یہ وطیرہ رہاہے کہ شورمچاکر
سب ہی چُپ سادھ لیتے ہیں۔یوں پھر ارضِ وطن میں نئی حکومت قائم ہو
گئی۔پھرظاہرہے کہ عوام نے جن توقعات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے ووٹ کااستعمال
کیاتھااُن توقعات کاجنازہ نکل گیا۔ایک عوامی توقع یہ تھی کہ دہشت گردی کاجن
بوتل میں بندہو جائے گااورایک عرصہ سے اس سے متاثر ہونے والے عوام وخواص
سکھ کاسانس لیں گے،امن کے گیت اورپیار ومحبت کے سنگیت سننے کو ضرور ملیں
گے،ملک کی اقتصادی حالت پرجوضربیں دہشت گردی سے لگ چکی ہیں ان کاازالہ
کیاجائے گا۔کاروبارِ زندگی معمول کے مطابق چل پڑے گااورخوشحالی وعافیت
کاایک نیادورشروع ہو گا۔عوام کویہ توقعات اس وجہ سے تھیں کہ الیکشن میں جن
جماعتوں کومختلف النوع اقسام کی چھوٹ حاصل تھیں وہی برسرِ اقتدارآگئیں
اورمرکز وصوبوں بالخصوص صوبہ خیبرپختونخواہ جہاں دہشت گردی کابول
بالاہے،میں بھی حکومت بن گئی ۔الیکشن مہم کے دوران اوراس سے پہلے بھی انہی
جماعتوں نے مذاکرات کا ایجنڈاپیش کیاتھااوردہشت گردی کے خلاف جاری پالیسی
کواس مسئلہ کے حل کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہوئے مذاکرات کی راہ اپنانے کی
بات کی تھی،جسے ان سے وابستہ گروہوں میں پذیرائی ملی تھی۔پھرپنجاب میں بھی
الیکشن کی کھلی چھوٹ حاصل تھی۔حالیہ دنوں میں ہونے والی دہشت گردی سے تو
ایسامحسوس ہوتاہے کہ ان توقعات اورامیدوں پرپانی پھرچکاہے۔صوبہ
بلوچستان،صوبہ خیبر پختونخواہ،صوبہ سندھ میں دہشت گردی کی شرمناک و المناک
واقعات سے یہ تاثرملتاہے کہ الیکشن میں جورعایت ان جماعتوں کوحاصل ہوئی تھی
اس کاوقت ختم ہوچکاہے۔
سوچنے اورسمجھنے کی بات یہ ہے کہ آخر ان چنددنوں میں وہ کونسی غلطی سرزد ہو
گئی ہے جس کاخمیازہ معصوم وبے گناہوں کوبھگتنا پڑ رہاہے اوریونیورسٹی میں
تحصیلِ علم کے لئے جاتی یا آتی ہوئی قوم کی بچیاں خون میں لت پت ہوگئیں۔یہ
اربابِ اختیارکوسوچناہے ۔سیاسی جماعتوں کوسوچناہے،اس سے ظاہریہ ہوتاہے کہ
تھکن اتارنے اورسانس لینے کے لئے مختلف ادوارمیں مذاکرات کاشوشہ
چھوڑاگیااور اپنے وسیع ایجنڈے کوآگے بڑھایاجاتارہا،اب بھی غالباًایساہی
ہواہے،ہم سمجھتے ہیں کہ نومنتخب حکمرانوں کواگلے پچھلے حکمرانوں کی راہ پر
نہیں چلناچاہیئے اوراپناروش بدل کرعوامی روش پرچلناہی بہترہوگا۔
آج اندازہ لگائیں کہ ہمیں ہرمحاذپرایسے حکمران یادہشت گردی ہی کیوں مل رہی
ہے وہ اس لئے کہ ہم نے اﷲ کی رسّی کو مضبوطی سے پکڑناچھوڑدیاہے۔مسجدیں
ویران ہیں اورگھروں میں ٹیلی ویژن آباد،بے ایمانی،چوری،دھوکے بازی،فریب
کاری،دغا بازی،مکاری،رشوت خوری،حرص وہوس عروج پرہے،نہ ہی حکومت اچھی
میسرہوتی ہے نہ ہی حکمران اورنہ ہی عہدیداران (اب دیکھئے کہ نئی حکومت عوام
کے لئے کیاکرتی ہے) چوری،بے ایمانی،ہرچیزمیں گول مال،ہرمعاملے میں رشوت
خوری،کمیشن خوری چل رہی ہے۔ہرقسم کے فسادات ہورہے ہیں۔قدرتی آفات پرامدادی
کاموں کے لئے جورقم آتی ہے توحقداروں تک پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں اڑالی
جاتی ہے،فلائی اوورتیارکیاجاتاہے،مگر کئی فلائی اوورایسے ہیں جو ناقص
میٹریل کی وجہ سے افتتاح کے دن یا کچھ دنوں بعدہی ٹوٹ جاتے ہیں،اناج سرکاری
وپرائیویٹ گوداموں میں سڑرہے ہیں اورعوام مہنگائی سے پریشان ہیں،غریبوں کے
لئے جتنے بھی بِل پاس کی جاتی ہیں غریبوں تک پہنچتی ہی نہیں،تعلیم کایہ حال
ہے کہ ممبران اسمبلی کی جعلی مارکس شیٹ ،جعلی ڈگریاں ظاہرہورہی ہیں،بلکہ
کتنوں کوعدالت نے نا اہل بھی کردیاہے۔پڑھائی کچھ بھی نہیں مگرامتحان
برابرہورہے ہیں،رشوت لیتے پکڑاجانے والارشوت دے کر چھوٹ جاتاہے،اورخاص
کرہماری سیاست کاحال تویہ ہے کہ اگرپارٹی سے فائدہ نہیں ہورہاہے توپارٹی
بدل دو۔سفرکے لئے غریب مسافرپریشان ہیں،ریلوے میں اب کچھ بچا ہی نہیں
دیکھئے سعدرفیق صاحب اس ادارے کوکس طرح اس بھنور سے نکالتے ہیں اوراسے اس
کے اپنے پیروں پرکھڑاکرتے ہیں۔بڑی بڑی عمارتیں تیارہوتی ہیں اورکچھ ہی دن
بعدان میں دڑاڑ پڑجاتی ہیں،کچھ ہی سالوں میں بلڈنگ تاش کے پتوں کی طرح
بکھرنے لگتی ہے،جعلی دوائیں عام ہیں،پیٹرول کی قیمت پرآئے دن اضافہ ہورہاہے
جس سے ہرچیزمہنگی ہورہی ہے،مہنگائی بڑھ رہی ہے توجرم بھی بڑھ رہے ہیں۔آج دن
تک تویہ تمام امراض ٹھیک ہونے کے کوئی آثار نظرنہیں آتے کل کاپتہ
نہیں۔شاعروں سے بہت معذرت کے ساتھ۔
گلشن کی تباہی کی خاطر، بس ایک ہی اُلّوکافی ہے
ہر شاخ پراُلّو بیٹھاہے،انجامِ گلستاں کیا ہوگا؟
اس وقت ہمارے ملک کے حالات بہت خراب ہیں،یہاں کسی ایک پارٹی کی برائی یا
اچھائی کرنامقصدہرگزنہیں ہے بلکہ کہنے کااصل مقصدیہ ہے کہ اس وقت ملک کے
کسی شہر میں قتل وغارت گری ہو رہی ہے،کسی شہرمیں فرقہ وارانہ وسیاسی کلنگ
ہورہے ہیں،کہیں احتجاج ہورہے ہیں،کہیں حالات قابوکرنے کے لئے لاٹھی چارج کی
جا رہی ہے،کہیں گولی چل رہی ہے اوراس سے کئی لوگ اپنی جان کھو رہے
ہیں،صوبائی یامرکزی حکومت تحفظ کے پیشِ نظرکوئی قدم نہیں اٹھارہی ہے۔یوں
ہرطرح کی سیاسی جماعتیں یاتنظمیں ان پرسوالیہ نشان کھڑاکرتے
ہیں،پھردھرنااوراحتجاج شروع ہوجاتاہے پھران تمام معاملوں میں پِستے یہ غریب
عوام ہی ہیں۔اب وقت آگیاہے کہ لا ء اینڈ آرڈرکومضبوط کریں کیونکہ ملک میں
کہیں بھی سکون نہیں ہے،موت کارقص اس طرح رقصاں ہے کہ کوئی بھی فردمحفوظ
نہیں۔ادنیٰ موبائل چھیننے والادرندہ بھی مزاحمت کرنے پرگولی مارکر انسانی
زندگی سے کھیلواڑ کرنے لگاہے۔اس ملک کے حالات کب سدھریں گے ، اس وطن کے لئے
محمدبن قاسم کاکرداراداکرنے کون آئے گا،اس ملک کوسنوارنے اورترقی کی سمت لے
جانے کون آئے گا،امن وامان کا صرف درس ہی دیاجاتاہے اس پرعملدرآمدکرانے کون
آئے گا،مہنگائی کیسے ختم ہوگی،اب وقت آن پہنچاہے کہ تمام مسائل سے عوام کو
نجات دلایاجائے ۔
آج مجھے یوں محسوس ہوتاہے کہ بہت سی باتیں کافی تلخ اورکڑوی تحریرہو گئی
ہیں مگرکیاکریں صاحبو!سچ ہمیشہ کڑواہی ہوتاہے، اورکیاجوکچھ تحریرہے اس میں
سچائی نہیں ہے،یہ سب کچھ ہمارے عوام کے ساتھ نہیں ہورہاہے،تلخ باتیں فطرتاً
بہتوں پرگراں گزرتی ہونگی ، اگرایسا ہے توایک بارپھرمعذرت خواہ ہوں کیونکہ
راقم الحروف اپنی تحریر میں کسی کی دل آزاری نہیں چاہتابلکہ صرف اُن مسائل
کواُجاگرکرنا مقصدسمجھتا ہے جن مسائل سے قوم برسوں سے نبردآزماہے۔بس اﷲ
تبارک وتعالیٰ سے یہی دعاہے کہ ہمارے ملک پر،ہمارے ملک میں بسنے والوں
پراپنی رحمتوں ،شادمانیوں،خوشیوں کا دَر واکر دے تاکہ اس وطن کے باسی ہی
نہیں بلکہ اقوامِ عالم اسے جنت نظیر کہے۔ |