بھارت کی پوری کوشش ہے کہ وہ
دنیا کو کسی نہ کسی طرح اس بات پرقائل کرلے کہ ہندو دنیا کی مہذب ترین،
وسیع القلب اور روشن خیال قوم ہے۔ تنگ نظری، تنگ دلی اور تعصب ایسے جذبات
سے تو ان کا دور سے بھی واسطہ نہیں۔ان کے ملک میں سکھوں، مسلمانوں اور
عیسائیوں کو کبھی اقلیت نہیں سمجھا گیا۔ تعلیم،عبادت، صحت اور روزگار کے
مواقع سبھی کے لئے یکساں ہیں۔ ان امور میں کبھی ذات پات آڑے نہیں آئی۔
بھارت دنیا کو یہ بھی باور کرانے کی کوشش کررہا ہے کہ وہ کسی ملک کے خلاف
جارحانہ عزائم رکھتا ہے نہ خطے میں کسی قسم کی بالا دستی کی خواہش۔ ہاں
چھوٹے موٹے سرحدی تنازعات سے تو دنیا کا کوئی ملک بھی جان نہیں چھڑا سکا ہے۔
بھارت کے بھی پاکستان، چین ، نیپال اور بنگلہ دیش سے ایسے چھوٹے موٹے
معاملات چلتے رہتے ہیں․․․․․․ باقی سب خیر ہے۔ ہاں سری لنکا میں تامل
ٹائیگرز کے ساتھ ہماری ہمدردیاں ضرور تھی مگر ان کو فوجی قوت بنانے اور
حکومت کے خلاف اکسانے میں ان کا ذرا بھی ہاتھ نہیں۔ بھوٹان کے ساتھ بھی کچھ
اسی قسم کے تعلقات ہیں۔ وہاں کے حکمران تو ہماری ’’مخلصانہ تابعداری‘‘ میں
بچھے بچھے چلے جاتے ہیں۔
بھارتی لابی کی ان ساری توانائیوں کا مقصد دنیا کے سامنے خود کو مظلوم ثابت
کرنا ہے۔ کئی عالمی پلیٹ فارمز پر وہ برملا یہ الزام عائد کرچکے ہیں کہ
بھارت پاکستان کے خلاف کسی قسم کے عزائم نہیں رکھتا بلکہ پاکستان اس کی
سلامتی کے درپے ہے۔ پاکستانی عناصر مقبوضہ کشمیر اور بھارت کے اندر گھس کر
دہشت گردی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ اگر پاکستان کشمیر کو اپنی شہ رگ
قراردینے سے باز آجائے تو ہماری اس کے ساتھ کیسی دشمنی۔ ہم مذاکرات کی بات
کرتے ہیں اور وہ ہے کہ راہِ فرار ڈھونڈتا ہے ․․․ بھارتی لابی مبالغہ آرائی
میں اس حد تک چلی جاتی ہے کہ ہندوستان جہاں 80فی صد سے زائد آبادی خطِ غربت
سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، وہ دنیا کے سامنے اسے خوشحال ملک کے طور
پر پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وہ دعویٰ کرتی ہے کہ ان کے ملک میں وہ سب
کچھ موجود ہے جس کی بدولت قومیں ترقی یافتہ کہلاتی ہیں۔ یہاں سب اچھا ہے۔
کوئی بھی شخص رات کو بھوکا نہیں سوتا۔ پینے کا صاف پانی وافر مقدار میں ہے۔
ہر اِک کو طبی سہولت میسر ہے۔ کرپشن کا تو وجود تک نہیں۔ہر ادارہ اپنی حدود
میں رہ کر کام کررہا ہے اور عوامی خدمت اور انسانی حقوق کے تو وہ چمپئن ہیں۔
انصاف پسندی میں تو ان کا کوئی ثانی نہیں۔ سمجھوتہ ایکسپریس کی تحقیقات کا
ہی معاملہ لے لیجئے۔ انہوں نے اس تخریب کاری میں ملوث ہندو جنونیوں پر ہاتھ
جا ڈالا۔انصاف پسندی کی اس سے بڑی کوئی اور مثال بھلا ہوسکتی ہے کیا․․․․؟
بھارت کے تمام سیاسی رہنما، حکمران، بیوروکریسی اور فوج کی ٹاپ کی جانب سے
ہر مقامی اور عالمی پلیٹ فارم پر ایسی چرب زبانی اور مبالغہ آمیزی کامقصد
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مستقل نشست حاصل کرنے کی دیرینہ خواہش کی
تکمیل ہے۔ وہ پر امید ہیں کہ دنیا بدلتے ہوئے حالات میں ان کی رام رام جاپ
کے سامنے رام ہوجائے گی۔ذراتصور کیجئے کہ اگر واقعی عالمی طاقتیں بھارت کے
اس نرغے میں آگئیں تو ہندو جنونی اقوام متحدہ کی مستقل نشست ملنے کے بعد
اپنے فطری شدت پسند جذبات سے دنیا کا کیا حشر کریں گے․․․․؟ ماضی کے بہت سے
واقعات اس حقیقت کی گواہی دیتے ہیں کہ ہندوبنیادی طور پر تنگ نظر اور تعصب
پسند قوم ہے۔ اقوام متحدہ کی مستقل نشست ملنے کے خواب کی تکمیل کے بعد اس
کے ہاتھ میں جادو کی وہ چھڑی آجائے گی جسے گھما کر وہ پاکستان سمیت دیگر
ہمسایہ ممالک کے خلاف اپنے توسیع پسندانہ عزائم اورخطے میں چین کے لئے
مشکلات پیدا کرکے اپنی بالا دستی کی خواہش پوری کرنے کے قابل ہوجائے گا۔
پاکستان کے خلاف تو ہندو کا خبث ِ باطن کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں۔ قیامِ
پاکستان سے قبل برصغیر میں مسلمانوں سے دوغلا پن اور آزادی کے لمحات میں ان
کا سفاکانہ قتل عام تاریخ انسانیت کی بدترین مثال ہے۔ اس نے پاکستان کے
وجود کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا۔ اس کا بڑھتا ہوا دفاعی بجٹ، جدید
ہتھیاروں کا حصول اور سب سے بڑھ کر اس کو عدم استحکام کرنے کے لئے بڑھتی
ہوئی ریشہ دوانیاں اس کے مکروہ عزائم کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ حال ہی میں
لائن آف کنٹرول کی مسلسل خلاف ورزیاں اس کے عزائم کی قلعی کھول رہی ہیں۔
جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ ہندو دراصل ایک ایسے مذہبی رویے کا نام
جس میں ریشہ دوانیاں، سازشیں اور مکرمکاریاں کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ یہ
اتنے تنگ نظر واقع ہوئے ہیں کہ اس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ہر شعبے میں ان
کی اس ’خوبی‘ کا رنگ واضح ہوکر جھلکتا ہے۔ ماضی بعید کی روایتی مثالوں پر
جانے کی بجائے پاک بھارت میچز میں ہندو تماشائیوں کے رویے کو نمونہ بنا
لیجئے۔ بھارتی شائقین شور مچانے میں دنیا بھر میں شہرت رکھتے ہیں۔ ہوم
گراؤنڈ میں تو یہ شور و غل آسمان کو چھو رہا ہوتا ہے۔ تماشائیوں سے بھرے ان
کے دیوہیکل اسٹیڈیم بھارتی بلے باز کی صرف ایک سنگل سے گونج اٹھتے ہیں۔
مگران کی ’کشادہ دلی‘ کی یہ حالت ہے کہ مخالف کھلاڑی کے زوردار چھکے پر
ہزاروں کے اس مجمعے کی حالت ایسی ہوجاتی ہے جیسے اسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ ان
کے صبروتحمل کی حالت یہ ہے کہ اس کے تماشائی جو خود کو ماڈریٹ اور پڑھے
لکھے کہلواتے ہیں، اپنی ٹیم کی شکست پر مخالف کھلاڑیوں کے خلاف چرب زبانی
حتیٰ کہ دست درازی سے باز نہیں آتے۔
اسی طرح پاکستانی فنکار بھی بھارت کے سرکاری اور غیرسرکاری شدت پسندوں کی
تشدد، دھمکیوں اور سازشوں کا شکار ہوچکے ہیں۔بھارت کوساری لفٹ کرانے کے
باوجود وہاں کی عدالت نے عدنان سمیع کی جائیداد قرقی کے احکامات صادر کئے ۔
مزاحیہ فنکار شکیل وہاں مسکراہٹیں بکھیرنے کے باوجود ہندوستانی نوجوانوں کے
غضب کا شکار ہوگئے اور بھارت کے گلی کوچوں میں اپنی آواز کی خوشبو بکھیرنے
والے پاکستانی گلوکار راحت فتح علی خان وہاں کی ایف بی آر کے ہتھے چڑھ گئے
جس نے انہیں خوار کرنے کے ساتھ ساتھ ساتھ ان سے 30لاکھ بھی بٹور لئے۔ اگر
فن اور کھیل میں بھارتی’ کشادہ دلی ‘ کا یہ عالم ہے تو دوسرے معاملات میں
وہ کس حد تک گرسکتے ہیں، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ بھارت اگر واقعی ترقی
یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونا چاہتا ہے تو اسے اپنے اندر سے تعصب انگیز
ی ختم کرنا ہوگی۔بھارت میں موجود اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کرنا ہوگی۔
خاص طور پر مسلمانوں سے روا رکھے گئے ناروا سلوک کو ترک کرنا ہوگا۔ اپنے
ہمسایہ ممالک مفادات کو پیش نظر رکھ کر مخلصانہ تعلقات استوار کرنا ہونگے۔
خاص طور پر پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور اسے عدم استحکام سے
دوچار کرنے کی سازشیں ترک کرنا ہوں گی۔ کشمیری عوام کو اقوامِ متحدہ کی
قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت دینا ہوگی ۔ اگرایسا ہوجائے تو کسی کو بھی
بھارت کی مستقل نشست پر اعتراض نہیں ہوگا۔مگرعادت طبیعت ثانوی است کے مصداق۔
کیا ہندو اپنی فطری تنگ نظری پر قابو اور پاکستان کے خلاف اپنا خبث ِ باطن
ختم کرپائے گا؟ |