امریکہ اور اسرائیل نے ایک سازش
کے ذریعے اپنے زرخریدوں کے ایماؤ تعاون سے اگر عراق و ایران کے مابین جنگ
کا آغاز نہ کرایا ہوتا تو انقلاب ایران کے بعد ایران نے جس تیز رفتاری سے
ایک جراتمند اسلامی مملکت کے طور پر اپنے تشخص کو دنیا میں اجاگر کیا تھا
وہ اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ بہت جلد ایٹمی قوت ہی نہیں بلکہ دنیا کی پہلی
اسلامی سپر پاور کے طور پر بھی اپنے آپ کو منوانے میں کامیاب ہوجائے گا یہی
وجہ تھی کہ ایران کے کچھ ازلی دشمنوں نے امریکہ و اسرائیل کی مدد سے ایران
و عراق کے مابین اس جنگ کا آغاز کرادیا جس کے باعث عراق اس قدر کمزور ہوگیا
کہ امریکہ نے باآسانی اس پر قبضہ کرلیا اور ایران کی ترقی کی رفتار اتنی
سست پڑ گئی کہ اسلامی سپر پاور بننے کا خواب اسے کچھ عرصہ کے لئے مؤخر کرنا
پڑا مگر پھر محمود احمدی نژاد کے ایرانی صدر بننے کے بعد ایرانی قوم نے
اپنی ترقی کی رفتار کو جس طریقے سے مہمیز دی اور امریکہ و اسرائیل اور
ایران دشمن مسلم مملکتوں کی سازشوں کے باوجود بھی امریکہ کی آنکھوں میں
آنکھیں ڈال کر ایٹمی صلاحیت حاصل کی اس سے یہ بات بڑی واضح ہوگئی کہ اگر
محمود احمدی نژاد ایک بار پھر صدر ایران کی حیثیت سے منتخب ہوجاتے ہیں تو
پھر یقیناً دنیا کی پہلی اسلامی ایٹمی سپر پاور بننے کا وہ ایرانی خواب بھی
بہت جلد تکمیل پذیر ہوجائے گا جس کی بنیاد پر مرحوم امام خمینی نے انقلاب
ایران کی داغ بیل ڈالی تھی اور وہ کر کے دکھایا تھا جس نے دنیا کو ورطہ
حیرت میں ڈال دیا تھا ۔
یہی وجہ ہے کہ ایران دشمن مسلم ممالک اور اسلام دشمن صیہونی و صلیبی قوتوں
کے نزدیک محمود احمدی نژاد کی شخصیت اتنی ہی ناقابل قبول ہے جس قدر پاکستان
میں بھٹو مرحوم کی شخصیت ان کے نزدیک اس وقت ناقابل قبول بن گئی تھی جب
بھٹو مرحوم نے لاہور میں اسلامی سربراہان مملکت کانفرنس کے ذریعے مسلم اُمہ
میں اتحاد و یکجہتی پیدا کرنے کی کوشش کی تھی جو یقیناً سامراج کے مفادات
کے خلاف تھی یہی وجہ ہے کہ جس طرح سے پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم
کے خلاف عوامی انتشار کو فروغ دے کر ان کا عدالتی قتل کرایا گیا ایسی سازش
ایران میں صدارتی انتخابات کے بعد وقوع پذیر ہوتی دکھائی دے رہی ہے کیونکہ
ایران میں انتخابی نتائج کے اعلان اور محمود احمدی نژاد کی فتح کے بعد شکست
خوردہ امیدوار میر حسین موسوی نے جو طرز عمل اپنایا ہے اس سے ایران میں
انتشار پیدا کرنے کی سامراجی سازش کی بو آرہی ہے٬ احتجاج کی آڑ میں جاری
تشد د٬ پولیس٬ فوج٬ گیس اسٹیشنوں اور حتیٰ کہ مساجد تک پر حملوں کا جو
سلسلہ ایران میں جاری ہے وہ کبھی بھی ایرانی قوم کا مزاج نہیں رہا جس سے
ثابت ہورہا ہے کہ اس سارے فساد کو کہیں سے کنٹرول کیا جارہا ہے اور کسی اور
کی ایما پر طول دیا جارہا ہے جبکہ میر حسین موسوی جس منظم انداز میں اس
احتجاجی تخریب کاری کو وسعت دے رہے ہیں اس سے ان شبہات کو تقویت ملتی ہے کہ
مغربی طاقتیں خاص طور پر امریکہ٬ برطانیہ٬ فرانس٬ جرمنی اور اسرائیل کے
ساتھ ساتھ ایشیا ء میں ان طاقتوں کا گماشتہ بھارت بھی اس احتجاج کا ممدو
معاون ہے کیونکہ پاکستان و ایران کے درمیان گیس پائپ لائن سمجھوتے پر دستخط
اور اس سے بھارت کے اخراج کے بعد بھارت ایران و پاکستان دونوں ہی میں تخریب
کاری کے لئے پر تول رہا تھا جس کے لئے اس نے بلوچستان میں برہمداغ بگٹی کے
سر پر اپنا دست شفقت بھی رکھا تھا تاکہ افغانستان میں موجود اپنے گورکھوں
کو بلوچستان کے راستے ایران میں داخل کر کے ایران کو بھی سوات جیسے حالات
سے دوچار کیا جاسکے اور ایران میں خود کش حملوں کے ذریعے یہ تاثر دیا جائے
کہ ایران کے اہل تشیع مسلک کے خلاف پاکستان میں موجود مخالف مسلک ان
کاروائیوں کا ذمہ دار ہے جو یقیناً ایران و پاکستان کے درمیان مسلکی و فرقہ
وارانہ اختلافات پیدا کر کے کشیدگی کا باعث بن سکتا ہے۔
ایران میں جاری اس کشیدگی کے پس پردہ بھارتی و اسرائیلی اور امریکی ہاتھ کی
کارفرمائی کے شبہ کو یوں بھی تقویت ملتی ہے کہ میر حسین موسی نے انتخابی
نتائج سے قبل ہی اپنی فتح کا اعلان کردیا تھا جو اس بات کو ثابت کررہا ہے
کہ انہیں کسی جانب سے فتح کا یقین دلایاگیا تھا جس کے بل پر وہ اس قدر خوش
فہمی کا شکار تھے کہ انتخابی نتائج سے قبل ہی اعلان کا اعلان کر بیٹھے اور
انتخابی نتائن اپنی خوش فہمی کے بر عکس آنے پر انہوں نہ صرف دھاندلی کا شور
مچانا شروع کردیا بلکہ عدالت کی جانب سے تحقیقات نتائج اور فیصلے کا انتظار
کئے بغیر ہی پرتشدد احتجاج کے ذریعے پر امن ایران کی فضا میں تشدد کا زہر
بھی گھولنا شروع کردیاجس سے یہ تاثر بھی مستحکم ہورہا ہے کہ نتائج سے قبل
فتح کا اعلان اس کے بعد دھاندلی کا الزام اور منظم و پر تشدد احتجاج موسوی
کا منظم منصوبہ تھا اور اگر ایسا ہے تو پھر یہ تن تنہا موسوی کا منصوبہ
نہیں ہوسکتا کیونکہ تمام جمہوری ممالک میں انتخابی نتائج نزاعی ضرور ہوتے
ہیں مگر موسوی کی طرز کا احتجاج کچھ اور ہی معنی رکھتا ہے حتیٰ کے موسوی نے
انتخابی نتائج کے خلاف دائر اپنی اپیل پر عدالتی فیصلے کا بھی انتظار نہیں
کےا اور ایران کو انتشار سے دوچار کردیا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ موسوی کے
پس پردہ بیرونی ہاتھ ایران کے اندرونی معاملات میں کار فرما ہے جس کا اظہار
صدر احمدی نژاد کے اس بیان سے بھی ہوتا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ
”امریکہ و برطانیہ ایران کے داخلی معاملات میں مداخلت نہ کریں “۔ جبکہ
ایرانی پارلیمان کے اسپیکر علی لاریجانی نے بھی مغربی ممالک پر شدید تنقید
کرتے ہوئے مغربی ممالک سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کی دھمکی دی ہے ۔
سامراجی ممالک اور بالخصوص امریکہ و برطانیہ کا یہ طریق کار رہا ہے کہ وہ
اکثر اپنی پسند کے حکمرانوں کو کسی نہ کسی طرح اقتدار میں لے آتے ہیں اور
ایران میں احمدی نژاد سامراجی مفادات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تصور کئے
جاتے ہیں اسلئے امریکہ کی کوشش یہی تھی کہ کسی بھی طرح انہیں ہرا دیا جائے
تاکہ مغربی ممالک کی ساری مشکلات حل ہوجائیں مگر جب وہ اس میں ناکام رہا تو
بھارت کی مدد سے موسوی کو مہرہ بنا کر ایران میں بھی وہی کھیل کھیل رہا ہے
جو اس نے 71ء میں پاکستان میں کھیلا تھا اور مجیب الرحمن کی مدد سے پاکستان
کو دو لخت کردیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب موسوی کے روپ میں سامراجی قوتیں
ایران میں اقتدار پر قابض نہیں ہوسکیں تو ایران کی ترقی رکوانے کے لئے وہاں
انتشار پیدا کرنے پر تلی ہیں اور پر تشدد احتجاج و فسادات کے ذریعے کوشش کی
جارہی ہے کہ کسی بھی طرح انتخابات کو کالعدم قرار دلا کر احمدی نژاد کے
دوبارہ صدر اور ایران کے سپر پاور و ایٹمی قوت بننے کا راستہ روکا جاسکے
اور آج کے دور میں ایسے کاموں کے لئے احتجاج و فساد کرنے والے اشتعال
پسندوں کو خریدنا کوئی اتنا مشکل نہیں رہا اور چونکہ ایران میں احتجاج کی
آڑ میں تخریب کاری و تشدد کو جنم دینے والے ان اشتعال پسندوں نے نہ صرف
انتخابی نتائج کے درست ہونے کی روحانی رہنما و قائد آیت اللہ علی خامنہ ای
کی تصدیق کو مسترد کردیا ہے بلکہ ان کی ذات و کردار پر بھی کیچڑ اچھالی ہے
جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ سامراجی آلہ کار ہیں کیونکہ ایران میں کوئی بھی
محب وطن آیت اللہ خامنہ ای کی مخالفت کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا ماسوائے
صیہونی وصلیبی ایجنٹوں کے !
|