عالمی نقطہ نگاہ سے آمریت ایک
قابل نفرت طرز حکومت ہے٬ بعض آمر خواہ اپنے ملک کے لئے کتنے ہی اچھے کیوں
نہ ثابت ہوئے ہوں انہیں جمہوری اصولوں کے مطابق کبھی اچھا نہیں سمجھا گیا
لیکن سوال یہ ہے کہ آمر بر سرِ اقتدار کس طرح آجاتے ہیں٬ یا فوج جمہوری
حکومت کے معاملات میں مداخلت پر کیوں مجبور ہوجاتی ہے؟ اس کی سب سے بڑی وجہ
جمہوری نظام کی کمزوری ہے جس میں برسراقتدار طبقہ اپنے مخالفین کو دبانے
اور حزب اختلاف حکومت کیلئے مسائل پیدا کر کے اسے کمزور کرنے میں مصروف
رہتا ہے جس کی وجہ سے یا تو فوج ملک بچانے کے لئے مجبوراً اقتدار میں آجاتی
ہے یا پھر کوئی طالع آزما جمہوری قوتوں کی رسہ کشی سے پیدا ہونے والی
کمزوری کا فائدہ اٹھاکر اپنی ہوس اقتدار کی تکمیل کر گزرتا ہے ۔
1958ء میں ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کیا ہو٬ یا ذوالفقار علی بھٹو کا
تختہ الٹا گیا ہو نواز شریف کی حکومت رخصت کر کے مشرفی اقتدار کا تخت سجایا
گیا ہو ہر دور میں وجہ وہی رہی سیاسی رسہ کشی اور جمہوری نظام کی کمزوری جس
کے نتائج ہم آج بھی بھگت رہے ہیں کہ جمہوریت پر شب خون مارنے والے ان تینوں
آمروں نے وطن عزیز کو ہیروئن٬ کلاشنکوف کلچر٬ مہنگائی٬ بھوک٬ غربت٬ جہالت
اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر تشدد و بد امنی کے وہ تحائف دیئے ہیں
جن کے باعث عوام کی زندگی اجیرن ہی نہیں ہوئی بلکہ پاکستان کی سلامتی بھی
خطرے میں پڑگئی ہے مگر خوش کن صورتحال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی موجودہ
حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد جہاں عوام کو مشرفی آمریت سے نجات ملی وہیں
صدر زرداری نے افہام و تفہیم کے رویوں کو فروغ دیتے ہوئے سابقہ روایات کے
برعکس تمام جمہوری قوتوں کو ساتھ لے کر چلنے کی جس عظیم روایت کا آغاز کیا
مسلم لےگ (ن) نے بھی اس کا مثبت جواب دیا گو کہ کچھ حلقوں نے مختلف ایشوز
کے ذریعے اس افہام و تفہیم اور اشتراک و اتحاد کو سبوتاژ کر کے ایک بار پھر
آمریت کی راہ ہموار کرنے کی کوشش بھی کی مگر اس کے باوجود دونوں جانب رحمن
ملک اور جاوید ہاشمی جیسے مخلصین کی موجودگی کی بدولت زرداری و نواز تعلقات
میں سرد مہری اس مقام تک نہیں گئی کہ جہاں روایتی سیاست کا آغاز ہوتا اور
جمہوریت پر پھر کوئی برا وقت آتا بلکہ انتہائی مایوس کن حالات میں وزیراعظم
یوسف رضا گیلانی نے اپنا کردار جس خوش اسلوبی سے ادا کرتے ہوئے اس اتحاد و
اشتراک کی روایت کو قائم رکھا اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز
کیانی نے جمہوریت پر شب خون مارنے کی بجائے جس طرح دونوں سیاسی قائدین کو
متحد ہونے کا موقع فراہم کر کے جمہوریت کو استحکام بخشا اس کے لئے نہ صرف
یہ دونوں شخصیات خراج تحسین کی مستحق ہیں بلکہ میاں نوازشریف اور صدر آصف
زرداری بھی مستحق توصیف ہیں جنہوں نے جمہوریت میں نئی روایت کو متعارف
کراکر جمہوریت کے مستقبل کو تابناک بنانے میں اپنا کردار ادا کیا مگر اب
پھر کچھ ایسی اطلاعات ہیں کہ جمہوریت کی کچھ کالی بھیڑیں جمہوریت کے اس
استحکام اور اس جمہوری اتحاد کو سبوتاژ کرنے کے لئے کمر کس چکی ہیں۔
مگر ہمیں کچھ فکر اس لئے محسوس نہیں ہوتی کہ حکمران جماعت پیپلز پارٹی اور
شریک اقتدار جماعت مسلم لیگ (ن) کی سربراہی میاں نوازشریف اور آصف علی
زرداری کے پاس ہے جو محب وطن ہونے کے ساتھ ساتھ اس بات سے بھی بہر طور واقف
ہیں کہ ملک اس وقت کس نزاعی صورتحال سے دوچار ہے اور کیا اس کے مستقبل کے
لئے بہتر ہوسکتا ہے اس لئے ان سازشوں عناصر کی سازشوں کے پایہ تکمیل تک
پہنچنے کی کوئی سبیل نہیں ہوسکے گی اور پاکستان میں جمہوریت کا سورج اسی
طرح چمکتا دمکتا رہے گا اور زرداری و نوازشریف اسی طرح ایک دوسرے کا ہاتھ
تھامے پاکستان کو مستحکم جمہوریت کے ذریعے شاہراہ ترقی پر رواں دواں رکھیں
گے اور ایسی کوئی صبح طلوع نہیں ہوگی جب جمہوریت کا سورج آمریت کی زردی سے
گہنایا ہوا ہو ۔ |