أَعُوذُ باللَّهِ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّجِيـمِ بِسْمِ
اللَّهِ الرَّحْمَـنِ الرَّحِيـمِ
پناہ مانگتا ہوں میں الله کی شیطان مردود سے، شروع الله کا نام لیکر جو بڑا
مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰهِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ
سب تعریفیں الله ہی کیلئے جو تمام جہانوں کا مالک ہے۔
تقویٰ کے لغوی معنی ہیں، پرہیز گاری اور پارسائی یعنی اپنے آپ کو گناہوں سے
بچانا۔
رُسول الله ﷺ نے اپنے قلبِ اطہر کی طرف تین مرتبہ اشارہ کرتے ہوئے فرمایا!
تقویٰ یہاں ہوتا ہے۔ (صحیح مسلم)
تقویٰ کی حقیقت یہ ہے کہ انسان حرام کیساتھ مشتبہ چیزوں سے بھی اپنے دامن
کو بچائے۔حضرت ابوبکر صدیق رضی الله تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ ہم حلال کے
ستر حصے اِس لئے چھوڑ دیتے تھے کہ کہیں ہم حرام کہ ایک حصے میں نہ پھنس
جائیں۔
حضرت عطیہ بن عروہ السعدی رضى الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا :
بندے کا شمار متقیوں میں اس وقت تک نہیں ہوسکتا ، جب تک کہ وہ ان حلال
چیزوں کو جن میں کوئی شبہات پائے جائیں ،ترک نہ کردے۔ (ترمذی شریف)
حضرت وابصہ بن معبد رضى الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رُسول اﷲ ﷺ سے نیکی کے
بارے میں دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
تم اپنے دل سے استفسار کرو ، نیکی وہ ہے جس پر دل وضمیر کو اطمینان ہو ،
گناہ وہ ہے جو دل میں خلش پیدا کرے ، اور سینے میں ہیجان برپا کردے ، اگرچہ
لوگ تمہیں اس کے حلال وجائز ہونے کا فتویٰ بھی دیں ۔ایک روایت میں ہے :
گناہ وہ ہے جو دل میں خلش پیدا کرے ، اور تم اسے لوگوں کی نظروں سے چھپانا
چاہو(مسلم شریف)
حضرت عمر بن خطاب رضى الله عنہ نے حضرت ا بی بن کعب رضى الله عنہ سے تقویٰ
کا مفہوم دريافت کيا تو انہوں نے جواب ديا کہ آپ کبھی خار دار وادی سے نہيں
گذرے ؟ تو حضرت عمر رضى الله عنہ نے فرمايا: کيوں نہيں ضرور گذرا ہوں ۔
حضرت ابی بن کعب رضى الله عنہ نے پوچھا : وہاں سے کیسے گذرنا ہوا ؟ حضرت
عمر بن خطاب رضى الله عنہ فرمانے لگے : دامن کوبالکل سميٹ کر گزرا، انہوں
نے فرمايا : یہی تقویٰ کا مفہوم ہے يعنی گناہوں کی واديوں سے دامن بچا کر
گذر جانے کا نام تقویٰ ہے۔(تفسیر ابنِ کثیر)
جب سورہٴ الفاتحہ میں ایک مسلمان الله تعالیٰ سےیہ دعا کرتا ہے:
اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ
اے الله! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں۔
اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ
ہم کو سیدھے راستے پر چلا
صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۙ۬ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ
عَلَیۡہِمۡ و لَا الضَّآلِّیۡنَ
اُن لوگوں کے راست پر کہ جن کو تو نے اپنے انعام سے نوازا، نہ کہ اُن کے کہ
جن پر تیرا غضب ہوا اور نہ ہی گمراہوں کے
تو الله تعالیٰ نے جواب میں قُرآنِ پاک کی سورہٴ البقر کی ابتدائی آیتوں
میں بتا دیا کہ میراانعام پانے والے لوگ کیسے ہونگے۔
ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖۛ فِیۡهِ ۚۛ ھُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ
ۙ﴿البقرہٴ۔ 2﴾یہ کتاب(قُرآن مجید)الله کا کلام ہے، اس کی سچائی میں کوئی شک
نہیں۔یہ متقی لوگوں کیلئے راہٴِ ہدایت ہے۔
وہ لوگ جو قُرآنِ پاک کو سچائی کیساتھ الله تعالیٰ کا کلام مانتے ہیں ، اُن
پارسا اور پرہیزگار لوگوں کیلئے میری یہ کتاب راہٴِ ہدایت ہے۔اگلی آیت میں
الله تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ متقی اور پرہیز گار لوگ کونسے ہیں؟
الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَیۡبِ وَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا
رَزَقۡنٰھُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ۙ﴿البقرة۔3﴾ جو غیب پر ایمان لاتے اور آداب
کیساتھ نماز ادا کرتے ہیں، اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا فرمایا ہےاُس میں سے
خرچ کرتے ہیں ۔
الله تعالیٰ پارسا اور متقی لوگوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
یہ وہ لوگ ہیں جو یقین سے غیب کی باتوں پر ایمان رکھتے ہیں، خشوع اور آداب
کیساتھ نماز ادا کرتے ہیں اور میرے دئیے ہوئے مال سے میری راہ میں خرچ کرتے
ہیں
اگلی آیت میں الله تعالیٰ نے متقی لوگوں کے بارے میں رسول الله ﷺسےفرمایا:
وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ
مِنۡ قَبۡلِکَ ۚ وَ بِالۡاٰخِرَةِ ھُمۡ یُوۡقِنُوۡنَ ؕ﴿البقرہٴ۔4﴾
اے پیغمبر! جو کتاب(قُرآن)تم پر نازل ہوئی اور جو کتابیں تم سے پہلے
پیغمبروں پر نازل ہوئیں، ان سب پر ایمان لاتے اور آخرت کا یقین رکھتے ہیں۔
اب الله تعالیٰ ان لوگوں کے بارے میں فرماتے ہیں:
اُولٰٓئِکَ عَلٰی ھُدًی مِّنۡ رَّبِّھِمۡ ٭ وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ
الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿البقرہٴ۔5﴾
یہی لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے آئی ہوئی ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ کامیاب
ہیں۔
الله تعالیٰ نے کھلے لفظوں میں بیان فرما دیا کہ! یہ لوگ جوغیب پر یقین
رکھتے، نماز قائم کرتے اور قُرآن اور تمام آسمانی کتابوں پر یقین رکھتے
ہیں۔ الله کے دئیے ہوئے مال سے الله کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور یومِ آخرت
پر یقین رکھتے ہیں۔ میری طرف سے بھیجی گئی ہدایت پر ہیں اور کامیاب
ہیں۔یعنی کہ ان لوگوں پر میرا انعام یعنی جنت واجب ہوگئی۔ |