بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اجالا/عبدالقدوس محمدی
موسم حج کی آمد آمد ہے ۔صرف ایک ہفتے بعد حج فلائٹس شروع ہوا چاہتی ہیں ۔یہ
عجیب موسم ہے ۔جیسے موسمِ بہار آتے ہی بے طرح جذبات میں ہل چل برپا ہو جاتی
ہے اس سے کہیں زیادہ اس موسم کے آغاز کے ساتھ ہی من کی دنیا میں عجیب مد
وجزر کی کیفیت ہوتی ہے اور جی چاہتا ہے کہ حج کی تیاری ،حاجیوں کی خدمت اور
حرمین شریفین کا تصورات کو دل ودماغ میں سجائے رکھے ۔اس موسم کے اعمال میں
میں سے ایک اہم عمل حجاج کرام کی نصرت ،خدمت اور تربیت بھی ۔حجاج کی تربیت
کتنا اہم اور ضروری معاملہ ہے سفر حج کے دوران قدم قدم قدم پر اس کا اندازہ
ہوتا ہے ۔عام لوگوں کی تو بات ہی الگ ہے ۔ایسے لوگ جو خود کو پڑھا لکھا
سمجھتے اور ہر فن مولا کہلاتے ہیں وہ بھی حج کے مسائل ،احکام اور طریقہ کار
سے ناواقف ہوتے ہیں ۔چند لوگوں سے معلوم کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ کئی
ایسی کوتاہیوں کا ارتکاب ہو جاتا ہے جن کی وجہ سے دم لازم آتا ہے لیکن
لوگوں کو سرے سے خبر ہی نہیں ہوتی ،باریک علمی مسائل کو تو رہنے دیجیے حج
کے واجبات تک سے لوگ ناآشنا ہوتے ہیں بلکہ کئی ایسے احباب جو دینی مسائل سے
بھی بخوبی واقف ہوتے ہیں ،کتاب الحج بھی پڑھ رکھی ہوتی ہے لیکن حج ایک
عبادت ہی ایسی ہے جسے جب تک سیکھا اور سمجھا نہ جائے اور عملی تربیت اور
مشق کا اہتمام نہ ہو تو محض کتابیں پڑھنے سے بات نہیں بنتی جبکہ ہمارے ہاں
ستم بالائے ستم یہ ہے کہ حج تربیت کی ضرورت کا احساس تک نہیں کیا جاتا
۔پرانے وقتوں میں پیدل قافلے چلتے تھے ان میں علماء وصلحا ء ہوتے ،سفر کے
ساتھ ساتھ تربیت کے مراحل بھی طے ہوتے رہتے تھے ،لوگوں کی زندگیوں میں
تبدیلی آتی چلی جاتی لیکن اب صورتحال بالکل بدل گئی اب لوگ اپنے کام کاج
میں مشغول ہوتے ہیں وہیں سے اٹھتے ہیں اور حج کر کے لوٹتے ہیں نہ مسائل
سیکھنے کی فکر نہ تربیت حاصل کرنے کی ضرورت نہ علماء کرام کی طرف مراجعت ……
اس طرز عمل کے جو نتائج اور نقصانات ہونے چاہیں وہ حرمین شریفین کے سفر کے
دوران قدم قدم پر دکھائی دیتے ہیں ۔اگر کسی جگہ حج تربیت کے حوالے سے کوئی
بات چلتی بھی ہے یا حج ٹریننگ کے نام سے سرکاری اور نیم سرکاری قسم کی
نشستیں ہوتی بھی ہیں تو ان میں بھی اول تو پڑھانے سکھانے والے ایسے لوگ
ہوتے ہیں جو خود حج کے مسائل واحکام سے نابلد ہوتے ہیں اور دوسرا یہ کہ ان
کے پیش نظر حج تربیت اور شرعی مسائل سے زیادہ سفری اور انتظامی ضروریات
ہوتی ہیں ۔وہ حج تربیت کے نام پر حاجی کو شریعت کی روشنی میں حج کا طریقہ
کم سکھاتے ہیں اورجہاز وں پر اتر چڑھنے ،ہوٹلوں کے قیام وطعام اور اس قسم
کی دیگر غیر متعلقہ چیزوں پر اپنا زورِ خطابت زیادہ صرف کرتے ہیں ۔اور اس
سے زیادہ افسوسناک امر یہ کہ مخلوط تقریبات ہو تی ہیں ،تربیتی حال میں ایسا
شور شرابا برپا ہوتا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی ۔ ٹرینرز کی تان آ
کر اس بات پر ٹوٹتی ہے کہ عورتیں پردہ نہ کریں ،سفر ِحج کے دوران چہرہ ہر
وقت او رہر حال میں کھلا رکھا کریں و غیرہ۔اسی طرح بعض جگہوں پر حج تربیت
کے نام پر محض اپنے مسلک سکھائے اور پڑھائے جاتے ہیں اور سارا زور اس پر
صرف کیا جاتا ہے کہ لوگوں پر اپنے مسلک کا لیبل لگا کر انہیں حج کے لیے
بھیجا جائے ،بعض جگہوں پر حج تربیت کے دوران سعودی حکمرانوں اور حرمین
شریفین کے ائمہ کو آڑے ہاتھوں لیا جاتا ہے اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس
معاملے پر خصوصی توجہ دی جائے ۔سب سے پہلے تو علماء کرام اورمساجد کے ائمہ
وخطباء کو اپنے اپنے حلقہ اثر میں اس آواز کو تسلسل اور شد ومد سے بلند
کرنا چاہیے کہ عازمین حج ،مستند علماء کرام سے حج تربیت حاصل کرنے کا
اہتمام کریں ۔انہیں حج تربیت کی ضرورت ،اہمیت اور افادیت سے آگاہ کیا جائے
۔ اور اس کے بعد تربیت حج کے حلقے قائم کیے جائیں ۔اگر ہر مسجد کے امام
وخطیب صاحب کم از کم اپنے محلے کے عازمین حج سے ایک ایک نشست کر لیں تو یہ
ضرورت پوری ہو سکتی ہے ۔لیکن ہر محلے اور علاقے کی مساجد کے علماء پر
انحصار نہیں کیا جا سکتا ۔ان میں سے کئی علماء ایسے ہوتے ہیں جنہوں نے خود
حج نہیں کیا ہو تا یا وہ مساجد میں دروس قرآن اور عوام الناس کی دینی
ضروریات کا عام حالات میں خیال نہیں رکھ پاتے تو وہ حج جیسے اہم اور نازک
معاملے پر کیونکر عوام کی رہنمائی کر پائیں گے اس لیے علاقوں اور شہروں کی
سطح پر نامی گرامی علماء کرام اور ارباب حل وعقد کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے
اور تربیتِ حج کے حلقے ضرور قائم کرنے چاہیں ۔
اس کے لیے ہم مردان کے مفتی ذاکر اﷲ صاحب اور ان کے رفقا ء کی مثال سامنے
رکھ سکتے ہیں ۔مفتی صاحب اور ان کے رفقاء گزشتہ چند برسوں سے تربیت حج کا
اہتمام کرتے ہیں ۔مردان کی مرکزی عید گاہ کی وسیع وعریض مسجد اور احاطے میں
مردوں اور خواتین کے لیے الگ الگ انتظام ہوتا ہے اور اندازاً پندرہ سو کے
لگ بھگ خواتین وحضرات ایک نشست میں شریک ہوتے ہیں ۔مختلف علماء کرام او ر
مفتیان عظام کے مابین حج تربیت کے موضوعات تقسیم کیے گئے ہیں وہ اپنے اپنے
موضوعات پر تربیت دیتے ہیں ،عملی مشق کروائی جاتی ہے ،احرام باندھنے اور
طواف وغیرہ کرنے کا عملی طریقہ سکھایا جاتا ہے ۔اسی طرح مولانا مفتی
ابولبابہ صاحب نے پاور پوائنٹ پر حج کا تربیتی کورس تیار کیا ہے ۔ پڑھے
لکھے اور شہری حلقوں کے عازمین حج کو ملٹی میڈیا پروجیکٹر کی مدد سے اس
کورس کے ذریعے حج تربیت دی جاتی ہے ،کراچی کی عالمگیر مسجد کا شعبہ انصار
الحجا ج اس حوالے سے عرصے سے مصروف عمل ہے ۔لال مسجد میں مفتی دوست محمد
صاحب ، مفتی عبدالنورصاحب اور مولانا عامر صدیق صاحب حج تربیت کا اہتمام
کرتے ہیں ہم نے جامعہ فریدیہ کے اساتذہ کرام کی نگرانی میں گزشتہ سال جامعہ
فریدیہ میں اس سال امداد ٹرسٹ کے زیراہتمام جامع مسجد محمدی میں حج تربیت
کا سلسلہ شروع کیا ہے جو حج فلائٹس کے آغاز سے لے کر آخری حج فلائٹ تک ہر
اتوار کے دن نماز عصر کے بعد تسلسل سے جاری رہتا ہے ۔جس کا بے حد فائدہ
محسوس کیا گیا ہے ۔
یہ توصرف چند مثالیں ہیں ورنہ یہ کام اور یہ شعبہ اکابر اور جید علماء کرام
کی بہت زیادہ توجہ کا متقاضی ہے ۔ اس کے لیے جو بن پڑے اس سے گریز نہیں
کرنا چاہیے ۔
٭……کم از کم درجے میں عوام الناس میں تربیت کا شعور اجاگر کرنے کا اہتمام
ہو
٭……مختلف شہروں اور علاقوں میں تربیت حج کی نشستیں منعقد کی جائیں
٭……ٹورآپریٹرز سے ملاقاتیں کر کے انہیں اپنے گروپ میں جانے والوں کے لیے حج
تربیت کا اہتما م کرنے پر رضا مند کیا جائے ۔
٭……مستند اور معتبر علما ء کرام کی کتب خرید کر حجاج کرام کو ہدیہ کی جائیں
۔
٭……حج کے مسائل واحکام ،طریقہ کار،مسنون دعاؤں وغیرہ پر مشتمل کتب چھپوا کر
تقسیم کی جائیں ۔
٭……حجاج کرام کی سفر حج سے واپسی پر ان کے لیے تربیتی واصلاحی نشستوں کا
انعقاد کیا جائے ۔
اﷲ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس کی توفیق مرحمت فرمائیں ……آمین |