فاسٹ فوڈ جلدی کا کھانا اب ہمارے کلچر کا حصہ بنتا جارہا ہے

فاسٹ فوڈ کے نتیجے میں ہر سال ۲۸ لاکھ افراد مٹاپے کا شکار ہوکر دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔

فاسٹ فوڈ جلدی کا کھانا اب ہمارے کلچر کا حصہ بنتا جارہا ہے۔ ہم نے اپنے روایتی کھانوں سے منہ موڑ لیا ہے۔ اور اب ہم ولایتی، چینی،امریکی، اٹلی کے کھانوں کا مزہ لے رہے ہیں۔ برگر شاپ جگہ جگہ کھل گئی ہیں، اور برگر اپنے کھانے والا برگر نہیں رہا، بلکہ معاشرے میں ایک پوری برگر کلاس نے جنم لے لیا ہے۔کراچی میں فٹ پاتھ ہوٹل اور ریسٹورینٹ کثرت سے کھل گئے ہیں۔ سر شام کسی علاقے میں نکل جائیں، آپ کو یہ فٹ پاتھ ہوٹل ہر جگہ مل جائیں گے، کہنے والے اور زبان کے چٹخارے کے بہت سے عادی یہ بھی کہتے ہیں کہ آج چاہے کراچی میں کتنے ہی امریکن فوڈچینز کھل جائیں یا فوڈ اسٹریٹ بن جائیں مگر جو مزہ سلور اسپون کے رولز، مسٹر برگر، دستگیر کی نہاری، مزیدار حلیم ،برنس روڈ کے دھی بڑھے، انچولی کی چاٹ، فنگرفش، بنوری ٹاؤن کے جوس، جیل روڈ کی مچھلی، پی آئی ڈی سی کے پان اور اسٹوڈنٹ بریانی کا تھا وہ کسی اور کا نہیں۔ اب حیدرآباد کالونی حیدرآبادی کھانوں کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے، جہاں سے لقمی،اچار، دہی بڑے، ہریسا، بگارے بیگن اور وہ سب کچھ مل جاتا ہے۔ جو حیدرآباد کھانوں کی جان ہے۔ اب یہ کھانے بڑی مقدار میں بیرون ملک بھی جاتے ہیں۔ فاسٹ فوڈ ایسے کھانے کو کہتے ہیں جسے آپ چلتے پھرتے کھا سکیں۔ آجکل کی نوجوان نسل اس سے بہت متاثر نظر آتی ہے۔ مگر وہ یہ نہیں جانتی کہ فاسٹ فوڈ کا استعمال صحت کے لے انتہائی مضر ہے۔ طبی ماہرین فاسٹ فوڈ کے زیادہ استعمال سے پرہیز کا مشورہ دیتے ہیں، کیوں کہ اس میں کیلوریز کا تناسب حد سے زیادہ ہوتا ہے۔ فاسٹ فوڈ کھانے سے وزن مین تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے آئی کیو لیول پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔اِن کھانوں میں استعمال کیے گئے تیز مصالحے اور گوشت کو جلد گلانے کے لیے مختلف کیمیائی اجزا انسانی معدے کو تباہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ فاسٹ فوڈ کے بجائے سبزی اور دودھ کا استعمال زیادہ سے زیادہ ہونا چاہیے۔ اس سے جسم توانا اور دماغ چست رہتا ہے۔ مزید یہ کہ سبزیوں سے کولیسٹرول کنٹرول میں رہتا ہے اور دل کے دیگر امراض سے بچا جا سکتا ہے۔اپنی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے انسان مختلف اقسام کی خوراک کھاتا ہے، جس میں پھل، سبزیاں، گوشت، مشروبات وغیرہ شامل ہیں۔ان تمام چیزوں کی اپنی جگہ پر خاص اہمیت ہے۔ متوازن غذا کھانے کے لیے ضروری ہے کہ اپنی عمر، صنف اور صحت کے مطابق ان سب چیزوں کا اعتدال میں استعمال کیا جائے۔

پاکستان میں گوشت کھانے کو رواج کچھ زیادہ ہی ہے۔ فاسٹ فوڈ کے مراکر کے پہلو میں کڑاہی گوشت، بریانی، بالٹی گوشت، تکے، کباب کے کھابے بھی کثرت سے نظر آتے ہیں، برنس روڈ، بوٹ بیسن، طارق روڈ، حسن اسکوئر، جہاں چاہیں آپ کو یہ ڈشین مل جائیں گی۔ دوسرے غذائی اجزاء کے علاوہ گوشت بھی انسانی خوراک کا اہم جزو ہے، جس سے جسم کو پروٹین، لمحیات، آئرن، وٹامن B وغیرہ حاصل ہوتی ہیں، جوکہ ایک صحت مند جسم کیلئے ضروری ہیں۔ تاہم ہر قسم کی غذا کے اپنے فوائد اور نقصانات ہوتے ہیں۔ اس لیے اس کو عام روٹین میں ضرورت کے مطابق کھانا چاہیے، گوشت کھانے میں غیر معمولی زیادتی سنگین قسم کے صحت کے مسائل کا سبب بن جاتی ہے۔ مچھلی اور مرغی کے گوشت کو عام طور پر White meat کہا جاتا ہے، اس سے انسانی جسم کو پروٹین وغیرہ حاصل ہوتی ہیں۔White meat میں کلوریز اور چکنائی کی مقدار بھی نسبتاً کم ہوتی ہے۔ اس طرح چوپائیوں اور دودھ پلانے والے جانوروں (Mamals) کا گوشت Red Meat کہلاتا ہے۔ مٹن (چھوٹا گوشت) میں چکنائی کی مقدار، چکن کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ بیف (بڑے گوشت) میں چکنائی کی زیادہ مقدار ہوتی ہے، تاہم اس سے دوسری غذائی ضروریات مثلاً پروٹین، زنک، فاسفورس،آئرن اور وٹامن B وغیرہ پوری ہوتی ہیں۔ White Meat اور Red Meat دونوں کے اپنے اپنے فوائد اور نقصانات ہیں، اس لیے انہیں ایک حد سے زیادہ استعمال نہیں کرنا چاہیے۔

طب اور غذائیات کے میدان میں ہونے والی ریسرچ سے پتا چلتا ہے کہ عام روٹین میں سرخ گوشت کا زیادہ استعمال مختلف سنگین نوعیت کی بیماریوں مثلاً کینسر، دل کے امراض، ذیابیطس، معدہ، جگر کی بیماریوں کا باعث بن سکتا ہے، اس کے علاوہ بعض سٹڈیز کے مطابق اس کے زیادہ استعمال سے وقت سے پہلے اموات (Premature death) بھی واقع ہوسکتی ہیں۔ بالخصوص وہ لوگ جو پہلے سے ہی ان بیماریوں میں مبتلا ہیں، انہیں سرخ گوشت کے استعمال میں غیر معمولی احتیاط برتنی چاہیے۔

ہمارے ہاں شہروں میں ڈبوں میں پیک (Processed) گوشت کی خریدو فروخت کا رواج بھی عام ہوتا جارہا ہے۔ Processed سرخ گوشت سے بھی صحت کے مسائل لاحق ہوتے ہیں۔ ہاورڈ سکول آف پبلک ہیلتھ کی طرف سے کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق اگر Processed سرخ گوشت کو روزانہ ایک بار بھی کھانے میں استعمال کیا جائے تو دل کی بیماریوں میں مبتلا ہونے کے امکانات 42% تک، جبکہ ذیابیطس میں مبتلا ہونے کے امکانات 19% تک بڑھ جاتے ہیں۔

ایسے گوشت کو محفوظ کرنے کیلئے نائٹریٹس (Nitrates) کا استعمال کیا جاتا ہے، جوکہ بعض سائنسدانوں کے نزدیک کینسر پیدا کرنے کا موجب بنتے ہیں۔ اس لیے اس تحقیق میں لوگوں کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ کینسر کے خطرے سے بچنے کیلئے Processed سرخ گوشت سے اجتناب کریں۔

جو لوگ صحت کے حوالے سے مختلف مسائل کا شکار ہوتے ہیں، اگر وہ سرخ گوشت کی مقدار اپنی معمول کی خوراک میں کم کردیں تو سٹڈیز کے مطابق ان کی صحت میں بھی بہتری کی کافی گنجائش موجود ہی ہے۔ گزشتہ سال برطانیہ کے صحت کے حوالے سے قائم کردہ سائنٹفک ایڈوائزری کمیشن نے اپنے شہریوں کیلئے تجویز کیا تھا کہ وہ اوسطاً 70 گرام یا (2.5oz)روزانہ، جو ہفتے میں تقریباً 500 گرام (یا17oz) بنتا ہے، سرخ گوشت استعمال کرسکتے ہیں تاکہ بڑی آنت کے کینسر کے خطرے کو کم سے کم کیا جاسکے۔

ہمارے شہروں میں فاسٹ فوڈ کلچر بھی جڑ پکڑ چکا ہے۔ کے ایف سی، میکڈانلڈ اور سب وے کے علاوہ بھی فاسٹ فوڈ چین تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ پیزا ہٹ کے علاوہ بھی پیزا کی بہت سے ریسٹورینٹ کھل گئیے ہیں۔ نوجوان اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی فیملیز بڑی کثرت اور رغبت کے ساتھ یہ کھانے کھاتے ہیں۔ ان فاسٹ فوڈ میں بھی چکن یا گوشت کی دوسری اقسام شامل ہوتی ہیں۔ اسے معمول کا حصہ بنا لینے سے سب سے زیادہ موٹاپے کی شکایت پیدا ہوتی ہے، جوکہ خود ایک بیماری ہے اور بہت سی بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔ نیز ان کے استعمال سے صحت کے مختلف دوسرے مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
اس لیے نہایت ضروری ہے کہ فاسٹ فوڈز سمیت گوشت کی دوسری تمام مصنوعات کو بڑی احتیاط کے ساتھ اعتدال میں برتا جائے۔ تاکہ اس سے آپ کے جسم کو نقصان کی بجائے فوائد حاصل ہوسکیں اور آپ ایک صحت مند زندگی گزار سکیں برطانوی ماہرین نے کہا ہے کہ فاسٹ فوڈ کھانے سے بچوں کو دمہ، ایگزیما اور آنکھوں میں پانی کی شکایت ہوسکتی ہے۔

ماہرین کے مطابق فاسٹ فوڈ کھانوں میں اعلیٰ سطح کے سیرشدہ چکنائیاں ہوتی ہیں اور اسی وجہ سے بچوں میں موٹاپا اور بیماریاں عام ہو رہی ہیں۔بہت کم عمری میں دو سے تین سال میں ایسے کھانے کھانے سے دمہ کا خطرہ انتالیس فیصد ہوتا ہے جبکہ چھ سے سات سال کی عمر میں فاسٹ فوڈ کھانوں سے دمہ ہونے کے امکانات ستائیس فیصد تک ہوتے ہیں۔ماہرین نے والدین کو متنبہ کیا کہ اس عمر میں بچوں کو زیادہ سے زیادہ پھل کھلائیں تاکہ ان میں بیماریوں کی شرح کو کم کیا جاسکے۔ فاسٹ فوڈ کمرشلز دیکھ کر بچوں میں جنک فوڈ کی طرف رغبت میں اضافہ ہوتا ہے۔فاسٹ فوڈ کا استعمال دنیا بھر میں بڑھتا جا رہا ہے۔ پپاکستان میں ان کھانوں کا رجحان وہ چمکیلے اشتہار ہیں، جو پرنٹ اور الیکڑونک میڈیا پر دکھائے جاتے ہیں۔

آرکائیوز آف پیڈیاٹرکس اینڈ ایڈولیسنٹ میڈیسن میں چھپنے والی ایک مطالعاتی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں گرچہ ٹیلی وڑن پر شوگر اور چکنائی سے بھر پور اشیائے خورد و نوش کے اشتہارات میں کسی حد تک کمی آئی ہے تاہم اب بھی کھانے پینے کی زیادہ تر ایسی اشیاء کے اشتہارات ٹیلی وڑن پر دکھائے جاتے ہیں، جو بچوں کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ اس رپوٹ کے مطابق امریکہ میں چھ سال پہلے کے مقابلے میں اب ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے والے فاسٹ فوڈ کمرشلز کی تعداد کہیں زیادہ رہی۔

فاسٹ فوڈ کے ذرائع ابلاغ میں نظر آنے والے اشتہارات سے متعلق اس نئی تحقیقی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اشیائے خورد و نوش تیار کرنے والی 17 کمپنیوں نے مشرکہ طور پر ایک پروگرام کے تحت ایسی اشیاء کے غذائی اجزاء کا معیار بہتر بنانے کا وعدہ کیا ہے، جن کے اشتہارات خاص طور سے 12 سال سے کم عمر بچوں کے لیے تیار کیے جاتے ہیں۔ ان میں کوکا کولا، کرافٹ فوڈز، جنرل ملز اور کیلوگ جیسی مشہور کمپنیاں شامل ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان تلے ہوئے کھانوں کے ذریعے چکنائی خون کے شریانوں میں جمع ہونے لگتی ہے۔

اْدھر شکاگو کی یونیورسٹی آف اِلینوئے کی ایک ریسرچر لیزا پْول، جنہوں نے اشیائے خورد و نوش کے اشتہارات سے متعلق اس نئی تحقیق میں شامل ٹیم کی سربراہی کی، کا کہنا ہے، ’مجموعی طور پر غیر صحت مند اشیاء کی تشہیر میں کچھ کمی آئی ہے، جو کہ ایک اچھی خبر ہے تاہم دوسری جانب فاسٹ فوڈ کے اشتہارات میں بہت زیادہ اضافہ بھی دیکھنے میں آ رہا ہے‘۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ چھوٹی عمر میں موٹاپے کا شکار ہونے والے بچوں کی تعداد کی ذمہ داری کس حد تک غیر صحت مند اشیائے خورد و نوش کے اشتہارات پرعائد ہوتی ہے، یہ کہنا تو مشکل ہے تاہم یہ امر اپنی جگہ مسلم ہے اور اس کے شواہد بھی پائے جاتے ہیں کہ فاسٹ فوڈ کمرشلز دیکھ کر بچوں میں جنک فوڈ کی طرف رغبت میں اضافہ ہوتا ہے۔حال ہی میں یورپی یونین کے ممالک میں بھی بچوں کے موٹاپے کے خلاف مہم شروع کی گئی ہے۔امریکی محققہ لیزا پْول کا کہنا ہے کہ اشیائے خورد و نوش کے اشتہارات سے متعلق اس تحقیق کے نتائج نے بچوں کے ٹیلی وڑن پروگراموں کے دوران کی جانے والی فوڈ مارکیٹنگ میں سیلف ریگو لیشن یا خود احتسابی کے بارے میں چند بنیادی سوالات اٹھائے ہیں۔’کونسل آف بیٹر بزنس بیورو‘ کے ایک ترجمان لی پیلر کے مطابق اس تحقیق کے دوران ریسرچرز نے فاسٹ فوڈ اشتہارات کی تعداد پر غور کیا، نہ کہ اْن میں شامل اشیاء کے معیار پر۔ لی کا کہنا ہے کہ برگر کنگ اور میکڈانلڈز نے بچوں کے کھانوں اور ان کے اشتہارات کا معیار بہتر بنایا ہے۔ اب ان دونوں کمپنیوں نے بچوں کے مینیو میں فرنچ فرائز اور سوڈا کے بجائے ایپل سلائیسز اور کم چکنائی والا دودھ شامل کیا ہے ۔اکثر ماؤں کو شکایت رہتی ہے کہ ان کا بچہ کھاتا نہیں ہے یا کم کھاتا ہے۔ کچھ ماؤں کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ان کا بچہ کھاتا تو ہے لیکن گھر کا بنا کھانا وہ پسند نہیں کرتا لیکن فاسٹ فوڈ پیٹ بھر کھالیتا ہے…… پیزا، برگر جیسے فاسٹ فوڈ اور کولڈ ڈرنکس کے استعمال سے بچے پہلے تو موٹا پے کا شکار ہوتے ہیں اور پھر ان کو موٹاپے کی وجہ سے ہونے والی بیماریاں گھیر لیتی ہیں۔ ایسے بچوں کی ماں کو ہمیشہ فکر لگتی رہتی ہے کہ بچہ موٹاپا یا دیگر بیماریاں کا شکار نہ ہو جائے لیکن جب وہ گھر میں بنے پکوانوں کی طرف دیکھتا بھی نہیں تو اس کی ماں کے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں رہ جاتا کہ وہ اس کو فاسٹ فوڈ کھلائے۔ بچوں کے کھانوں میں سدھار ممکن ہے۔ ایسے بچوں کی ماں کے لئے کچھ تجاویز دی جا رہی ہیں جنہیں اپنا کر وہ اپنے بچے کے دل میں گھر کے کھانے کی دلچسپی پیدا کر سکتی ہیں۔

٭ بچوں کا کھانا مقوی ہو جس سے انہیں کاربوہائیڈریٹ ، پروٹین، فیٹ، فائبر، معدنیات اور وٹامن متوازی طور پر مل سکیں۔
٭ بچے سے کبھی بھی یہ نہ کہیں کہ اگر وہ دو چپاتی یا ایک کٹوری سبزی کھائے گا تو آپ اسے بعد میں ایک چاکلیٹ دیں گی یا اسے ٹی وی دیکھنے دیں گی یا اسے باہر کھیلنے جانے کی چھوٹ مل جائے گی۔ اگر بچہ کوئی کھاناکھانے سے انکار کرے تو اس کی جگہ پر اسے کوئی اور کھانا کھانے کو دیں۔
٭ اس کے کھانے کا وقت مقرر کریں 2کھانوں کے درمیان 2 گھنٹے کا وقفہ رکھیں۔
٭ کافی سارے بچے اس لئے بھی کھانا کم کھاتے ہیں کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کو وہی کھانا دیا جائے جو انہیں پسند ہو۔ اگر بچہ بار بار ایک ہی طرح کا کھانا کھانا چاہتا ہے تو اس کی اس عادت کو روکنے کیلئے اس کو دن میں ایک بار وہی کھانا دیں اور دوسرے وقت اسے سادہ کھانا دیں۔
٭ اگر اسے فاسٹ فوڈ انتہائی پسند ہے تو گھر میں ہی مزیدار مقوی کھانا بنا کر دیں جیسے بر گر ، پاؤ بھاجی ، نوڈ لز، وغیرہ گھر پر ہی بنائیں۔
٭ آج کل کھانے کے تئیں بچوں کی پسند ناپسند کافی اہم ہوتی جا رہی ہے۔ ضروری نہیں کہ آپ جو اسے بنا کر دیں وہ اسے اچھا لگے۔ اسلئے کھانا بناتے وقت اس کی پسند کو ذہن میں ضرور رکھیں۔ اگر وہ کھانے میں کسی قسم کی تبدیلی چاہے تو اس میں تاخیر نہ کریں۔
٭ بہتر ہوگا اگر بچے گھر پر ہی ڈنر کریں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شام کا کھانا اپنے پورے فیملی کے ساتھ مل کر کھانے سے بچوں کی جسمانی اور ذہنی صحت پر بہت اچھا اثر پڑتا ہے۔
٭ بچوں کو اچھا نظر آنے والا کھانا پسند آتا ہے۔ آپ کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ کھانا دستر خوان یا میز پر لانے سے پہلے اس کی تھوڑی سجاوٹ ضرور کر دیں آج امریکہ کی سیر کو نکلیں، گاڑی پر یا پھر ٹور بس پر۔امریکہ کا تو گزارا ہی فاسٹ فوڈ پر ہے۔ امریکہ میں سفر کے دوران، آپکو ایک کے بعد ایک فاسٹ فوڈ ریستوران نظر آئیں گے۔ بیشمار مختلف ناموں والے یہ ریستوران بیحد پسند کئے جاتے ہیں اور ہر کسی کو اپنی پسند کے مطابق کھانے کی چیزیں مل بھی جاتی ہیں۔اگرچہ، فاسٹ فوڈ فراہم کرنے والے اِن ریستورانوں میں آج کل چند low-fat چیزیں بھی کھانے کے لئے ملتی ہیں، لیکن زیادہ بکنے والی چیزوں میں ہیمبرگر، آلو کے چپس، تلا ہوا چکن، گریسی پتزا شامل ہیں۔ یہ سب وہ چیزیں ہیں جو امریکہ کے سرجن جنرل کے مطابق امریکہ میں موٹاپے کی وبا میں اضافے کا باعث ہیں۔اور جن ریستورانوں میں صحت مند کھانے پیش کئے جاتے ہیں اْن کے مقابلے میں اِن فاسٹ فوڈ ریستورانوں کی low-fat چیزوں میں بھی کیلوریز کی بھر مار ہوتی ہے۔کریکر بیرل نامی ایک چین کے بانی Dan Evins کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے، اور یہ چین مزیدار لیکن موٹا کرنے والی چیزیں فروخت کرتی ہے، اور اِس کے زیادہ ریستوران بڑی بڑی شاہراہوں کے کنارے واقع ہوتے ہیں۔اِن کھانوں میں زیادہ تر گریوی کے ساتھ بسکٹ، مفنز یا پھر پرانے انداز میں تیار کی گئی سٹیک شامل ہوتی ہے۔

بعض لوگوں نے ایسے ریستوران بھی کھولے ہیں جن میں صحت مند کھانے جیسے برائلڈ مچھلی، بھاپ میں تیار کردہ سبزیاں اور اِسی طرح کی دوسری چیزیں پیش کی جاتی ہیں۔لیکن، اِن میں زیادہ تر دیوالیہ ہو گئے اور اسکی وجہ یہ ہے کہ صحت مندانہ بنیادوں پر تیار کئے جانے والے کھانے کہیں زیادہ مہنگے ہوتے ہیں۔پھر کم معاوضے پر ایسے باورچی بھی نہیں ملتے جو جلدی جلدی صحت مند لیکن مزیدار کھانے تیار کر سکیں۔ اسیلئے، اِس طرح کی دکانیں کامیاب نہیں رہتیں، کیونکہ اگر چہ امریکی کہتے تو یہی ہیں کہ وہ صحت مند کھانا چاہتے ہیں، لیکن جب انہیں مینو میں پیش کر دیا جائے تو وہ اْس کا آرڈر نہیں دیتے۔بعض ماہرین کا خیال ہے کہ جب صحت مند کھانوں کی قیمت کم ہو جائے گی، تو ممکن ہے امریکیوں کو اِس کی عادت ہو جائے۔لیکن، ابھی ایسا نہیں۔اور ابھی کوئی ایسی مثال بھی نہیں ملتی کہ فاسٹ لیکن صحت مند کھانوں کا رجحان بڑھ رہا ہے ۔ طبی ماہرین نے اس بات کا بھی اندازہ لگایا ہے کہ زیادہ کھانے اور موٹاپے کی وجہ سے ہر سال 28 لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ آسٹریلیا میں ایک اندازے کے مطابق اسی فیصد آبادی آئیندہ چند برسوں میں مٹاپے کا شکار ہوجائے گی۔ یہ مسئلہ یورپ کے تما ہی ملکوں میں نمایاں ہے۔ اور اب اس کے تدارک کے بارے میں سوچا جارہا ہے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 424382 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More