آخری مسافر

 اس کی تو راتوں کی نیندیں حرام ہوگئی تھیں،جب سے اس کے ہاتھ یہ بریف کیس لگا تھا۔رات دو بجے آخری مسافر کو اس کی منزل پر اتارنے کے بعد ٹیکسی کی پچھلی سیٹ پر نظر آیا تھا۔چمک دار نگوں والی سلور پٹی کے ساتھ،کالے ہینڈل اور کالے چمکتے فریم کا درمیانے سائز کا یہ بریف کیس تو دیکھنے میں ہی اتنا قیمتی معلوم ہوتا تھا۔
’’کوئی چار پانچ ہزار کا تو ہو گا ہی یہ ۔‘‘
اس نے بریف کیس کو دیکھتے ہوئے سوچا۔

’’مگر اس کے اندر کیا ہوگا؟‘‘اس نے دل میں سوچا،وہ اسی سوچ اور بے چینی میں سوچتے سوچتے کب سو گیا اسے خود بھی نہیں پتا چلا۔آج پانچواں دن تھا اور اس نے ابھی تک اسے کھولنے کی کوشش کی اور نہ ہی اس کی ہمت ہوئی بلکہ وہ تو اس کے مالک کو تلاش کرنا چاہ رہا تھا ،مگر کہاں ،کیسے،اسے تو صحیح طرح یاد بھی نہیں تھا کہ اس نے اس آخری مسافر کو کہاں اتارا،ایک تو سردیوں کی رات کی تاریکی اوپر سے وہ دن بھر کا اتنا تھکا ہوا تھا کہ جلد از جلد گھر پہنچ کر آرام کرنا چاہ رہا تھا،مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ اس دن کے بعد اس کی بے آرامی میں اور اضافہ ہوجائے گا۔
’’کیا پتا اس میں کوئی بم ہو؟‘‘
’’اؤے پاگل اگر بم ہوتا تو اب تک پھٹ نہ چکا ہوتا۔‘‘اس نے خود کلامی کی۔

پچھلے پانچ دن سے وہ صرف قیاس آرئیاں ہی لگا رہا تھا۔اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے،وہ ہر روز اس کی جگہ ہی تبدیل کرنے میں لگا رہتا،اور ہر بار اسے پچھلی جگہ غیر محفوظ لگتی،ویسے بھی اس کی چھوٹی سی جھونپڑی میں جگہ ہی کتنی تھی،ایک چارپائی،ساتھ ہی دو درمیانے سائز کے صندوق،اوپر دوچھتی پر پڑا ہوا کچھ سامان اور کمرے کے کونے میں درمیانے سائز کا گول ٹیبل اور ساتھ ہی گیس کا سیلنڈر اور کھانے پینے کا کچھ سامان بس یہی اس کی کل کائینات تھے۔’’کیا پتا اس میں کوئی قیمتی شے ہو یا پھر ڈھیر سارا روپیہ،اگر ایسا ہوا پھر تو میرے سارے مسئلے حل ہوجائیں گے۔‘‘

اس نے بریف کیس کو نئی جگہ پر رکھنے کے بعد سوچا۔

’’نہیں نہیں یہ کسی کی امانت ہے،سپارہ پڑھانے والے میاں جی کہتے تھے امانت میں خیانت کرنے والے کی بہت بڑی سزا ہے ،خدا اس سے ناراض ہوجاتا ہے،نہ نہ․․میں امانت میں خیانت کبھی نہیں کروں گا۔‘‘اس نے اپنے بے قابو ہوتے نفس کو سنبھالا۔

’’مگر اس میں حرج بھی کیا ہے کون سا وہ شخص یہاں بیٹھا تمہیں دیکھ رہا ہے۔‘‘شیطان انسان کے اندر ہر وقت بولتا رہتا ہے۔

وہ کچھ دیر بے حس و حرکت بیٹھا رہا،پھر اس نے بریف کیس کو اٹھایا چارپائی کی چادر ٹھیک کی اور اس پر بیٹھ کر کیس کو گود میں رکھا،وہ اسے کچھ دیر دیکھتا رہا پھر اس کے لاک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔اور اگلے ہی لمحے ایک جھٹکے سے ہٹا لیا۔

’’جسے کوئی نہیں دیکھ رہا ہوتا اسے بھی اﷲ دیکھ رہا ہوتا ہے،اﷲ اپنے بندوں کے مال میں خیانت کرنے والوں کو بھی دیکھ رہا ہوتا ہے۔‘‘اس کے کانوں میں میاں جی کے الفاظ گونجے۔

’’اف․․․کیا مصیبت ہے؟کیا میں واقعی اتنا بزدل ہوں؟میں کیا کروں پھر؟‘‘اس نے خود کلامی کی۔مگر یہ بزدلی تو نہیں،یہ تو بہادری ہے کہ میں قدرت رکھتے ہوئے بھی کسی کی چیز میں کوئی کمی بیشی نہ کروں،ہاں میں ایک شریف انسان ہوں۔

یہ سب سوچتے ہوئے اس نے ایک بار پھر بریف کیس کی جگہ تبدیل کر دی۔

’’مجھے․․ہاں مجھے یہ تھانے میں رپورٹ کرا کر جمع کرا دینا چاہیے۔‘‘اگلے دن تھک ہار کر چارپائی پر لیٹتے ہوئے اس نے دل میں سوچا۔

’’ہاں․․․یہ ٹھیک ہے بالکل ٹھیک․․․جان تو چھوٹے گی نہ اس ہر وقت کی پریشانی سے۔‘‘اس نے جیسے کسی حتمی فیصلہ پر پہنچتے ہوئے کہا۔

’’او نہیں․․․کاکے تجھے پتا نہیں ہے اپنی پولیس کا وہ سب سے پہلے تجھے ہی اندر ڈکے گی،نہ․․․نہ سوچی وی․․نہ۔‘‘

اس نے خود ہی اپنے فیصلے کی نفی کردی۔

’’اچھا پھر ایسا کرتا ہوں شیدے (رشید) کو سب بتا دیتا ہوں،وہ اپنا جگری یار ہے،چھ سات جماتیں پڑھا ہوا بھی ہے،وہ ضرور کوئی حل بتا ہی دے گا،ہاں یہ بالکل صحیح فیصلہ ہے،یہ خیال مجھے پہلے کیوں نہیں آیا۔‘‘اس نے چارپائی پر پہلو بدلتے ہوئے سوچا۔

’’او نہیں یار․․․․․․چاہے کو ئی دوست ہو یا کتنا بھی سگہ ایسے وقت میں کوئی یاری واری کام نہیں آتی سب بدلی ہوجاتے ہیں․․․نہ․․․بالکل نہیں۔‘‘اس نے ایک بار پھر اپنے منصوبے کو فیل کر دیا۔

’’مگر وہ شیدا․․․وہ تو․․․․․․‘‘

’’ہاں وہ تو جگری ہے تمہارا اگر اس نے تم سے اسے کھولنے پر اسرار کیا تو؟تیرے لاکھ سمجھانے اور منع کرنے سے بھی وہ باز نہ آیا تو تیری یاری بھی جائے گی اور اس پر سے اعتبار بھی۔‘‘وہ اپنے آپ ہی پہلو بدلے جا رہا تھا اور سوچتا جاتا۔

’’مگر میں کروں تو کیا کروں کیسے اس مسئلے کا حل نکالوں․․یا اﷲ میری مدد فرما مجھے کوئی راستہ دکھا،مجھے اس کے مالک تک پہنچ کر ،امانت اس کے حوالے کرنے کا کوئی آسرا بنا،مجھے وہ سکون عطا فرما دے جو مجھے اس سے پہلے تھا۔‘‘وہ مضطرب ہو کر اٹھ بیٹھا۔

غریب بیچارے کی بھی کیا زندگی ہے ،کچھ پاس ہو تو بھی پریشانی،کچھ نہ ہو تو بھی پریشانی،اسے اب ہر دن میں اپنا آپ مشکوک لگتا،اسے لگتا جیسے ہر مسافر اسے گھور رہا ہو،اسے مجرم سمجھ رہا ہو،بریف کیس کی گمشدگی کا اسے ہی مورد الزام ٹھہرا رہا ہو،مگر یہ سب اس کے بس میں نہیں تھا۔اس نے تو کبھی زندگی میں ایک روپیہ تک کی ہیری پھیری نہیں کی تھی۔اس نے ان پانچ سات دنوں میں اپنے ذہن پر بہت زور دیا کہ اس نے اس رات آخری مسافر کو کہاں اتار تھا،مگر صحیح طور پر کچھ اندازہ نہیں لگا سکا اس کے باوجود وہ اندازے سے اس جگہ بھی گیا کہ شاید کوئی سراغ مل جائے مگر سب بے سود۔آخر کار تھکا ہارا پہلوان کے ہوٹل میں ہی جا بیٹھا جہاں اسے ہمیشہ ہی سکون کے کچھ لمحے میئسر آتے ہیں۔

اس نے چائے منگوانے کے بعد چارپائی پر اپنا کندھے کا رومال پھیلا کر سر کے نیچے رکھا اورلیٹ کر آسمان کی طرف تکنے لگا۔

’’ارے کیا حال ہے طفیل کئی دن بعد نظر آرہا ہے کہاں ہوتا ہے آجکل ؟‘‘اس کے جگری شیدے نے اسے منجی سے اٹھاتے ہوئے پوچھا۔

’’بس یار کہاں ہونا تھا روزگار،ٹیکسی اور کدھر جا سکتا ہوں میں۔‘‘طفیل نے تھکے تھکے لہجے میں جواب دیا۔

’’او ہو جائے ٹیکسی تیرے نام پر کیوں ہلکان ہوتا ہے جتنی ہمت ہے بس اتنی ہی محنت کیا کرشیدے نے اپنے مخصوس لاپرواہ انداز میں کہا،اور چائے کا کپ اس کی طرف بڑھایا۔

’’یہ اخبار․․یہ․․․او شیدے کیا لکھتے ہیں اخبار والے ذرا پڑھ کر تو سنا۔‘‘اس کی آنکھوں میں جیسے چمک آگئی ہو ایک خیال تیزی سے اس کے ذہن میں آیا۔وہ ویسے بھی جب شیدے کے پاس آکر بیٹھتا تو شیدا اسے اخبار کی خبریں سناتا تھا۔

’’اوہ․․․․یہ ․․یہ تو پانچ دن پرانا اخبار ہے ٹیکسی میں پڑا تھا ،ویسے ہی اٹھا لایا۔‘‘شیدے نے اخبار ٹیبل پر پھینکتے ہوئے کہا۔طفیل نے اس سے پھر بھی اصرار کیا کہ وہ اسے اخبار سنا دے۔

’’او نہیں یار یہ خبر نہیں کوئی اور،یہ خبریں تو بندے کو بس پریشان ہی کر دیتی ہیں۔‘‘وہ یکے بعد دیگرے بہت سی خبریں سناتا رہا،اور طفیل ہر خبر پر اسے ٹوکتا رہا کہ یہ خبر نہیں کوئی اور،جس پر جھنجلا کر شیدے نے اخبار اس کی گود میں پھینک دی ،کہ تو آخر کون سی خبر سننا چاہ رہا ہے لے خود پڑھ لے۔طفیل بیچارہ شرمندہ سا ہو کر اخبار کے صفحوں کی رو گردانی کرنے لگا کہ جیسے ایک دم سے اسے کوئی جھٹکا لگا ہو،ہاں جھٹکا ہی تو تھا،اشتہارات والے صفحے پر اسے وہ تصویر نظر آئی جو اس کے آخری مسافر سے بہت ملتی جلتی تھی بلکہ یہ وہی تھا۔

’’بس شیدے یہ آخری خبر پڑھ دے یہ بندہ کیا لکھتا ہے؟‘‘اس نے تصویر پر انگلیاں گاڑھتے ہوئے کہا۔

’’اوئے تجھے کیا لینا ہے اس خبر سے بے فضول․․․‘شیدے نے خفگی سے اخبار اس کے ہاتھ سے لیتے ہوئے بولا۔

’’ہاں بھئی لکھتا ہے یہ بندہ کہ میرا ایک عددکالے رنگ کا سلور پٹی والا بریف کیس لا پتہ ہوگیا ہے جسے ملے وہ مندجہ ذیر پتے پر ارسال کر دے،لانے والے کو بطور انعام دس ہزار روپیہ دیا جائے گا۔مرزا اشتیاق بیگ،مرزا کمپنی پرائیوٹ لمیٹڈ۔‘‘شیدے نے پڑھتے ہوئے چائے کا گھونٹ پیا۔

’’شیدے پتا پڑھ پتا کیا پتا لکھا ہے بندے نے۔‘‘طفیل نے بے تابی سے پوچھا۔

’’خیر تو ہے تجھے کیوں اتنی دلچسپی ہو رہی ہے تو جانتا ہے کیا اس بریف کیس کے بارے میں؟‘‘شیدے نے مشکوک نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔

’’نہیں یار بس ویسے ہی ،پر ایک بات تو بتا اگر تیرے ہاتھ یہ بریف کیس لگتا تو․․․․․بتا تو کیا کرتا؟‘‘

طفیل نے الٹا اس سے سوال پوچھ لیا۔

’’میں․․․ہا․․ہا․․ااوئے پاگل․․․میں کوئی پاگل ہوتا جو اسے یہ واپس کرتا اوئے کم عقلے خود ہی سوچ جو بندہ صرف بریف کیس کی واپسی پر ایک نہیں دو نہیں،پورے دس ہزار روپے انعام میں دے رہا ہے تو وہ بندہ کروڑ پتی تو ہوا ہی،اور اس کے اس بریف کیس میں کچھ نہیں کچھ نہیں تو لاکھوں ،کڑوروں روپے یا ہیرے جواہرات تو ضرور ہوں گے،ایسے ہی تو وہ لانے والے کو اتنا انعام نہیں دے گا نہ،تو میں اپنی قسمت نہ سواروں گا،زندگی بدل جائے گی میری تو۔‘‘شیدا بولنے پر آتا تو بولتا ہی چلا جاتا تھا،مگر طفیل کہیں اور ہی کھو گیا تھا وہ حیرت سے شیدے کی شکل دیکھنے لگا۔

گھر آکر طفیل بہت پریشانی میں ادھر سے ادھر ٹہلتا ررہا اس کے اندر جنگ ہو رہی تھی اچھائی کی اور برائی کی،وہ بہت دیر تک اپنے اندر کے اچھے انسان سے تو کبھی برے انسان سے لڑتا رہا،اس نے بریف کیس گود میں رکھ لیا اس کے لاک کے نمبر گھمانے لگا،پھر اس کا ہاتھ رک گیا اس کے اندر نے اسے ایک بار پھر روکا۔’’اب جبکہ مالک کا بھی پتا چل گیا ہے تو میں یہ بد دیانتی کیوں کروں،اپنے رب کو ناراض کیوں کروں ،میرا خدا مجھے جتنا دے رہا ہے میں اس میں خوش ہوں۔‘‘اس نے خود کلامی کی اور بریف کیس اٹھا کر باہر نکل گیا۔

’’آپ ․․․سیٹھ اشتیاق․․مر۔‘‘

’’ہاں ہاں میں ہی ہوں آگے بولو۔‘‘طفیل کئی گھنٹے انتظار کرنے کے بعد ان کے آفس سے باہر آتے ہی اٹھ کر ان کی طرف بڑھا اور پوچھا۔

’’جی وہ․․․․․․میں آپ کا یہ بریف کیس دینے آیا تھا آپ کو۔‘‘طفیل نے عاجزانہ عرض کی۔

’’یہ ․․یہ تمہیں کہاں سے ملا۔‘‘اشیاق مرزا نے بریف کیس تقریباٌ چھینتے ہوئے پوچھا۔

’’جی آپ میری ٹیکسی میں بھول گئے تھے ۔‘‘

او ہاں انہیں یاد آیا وہ رات قیامت کی گھڑی تھی مخالفین ان کے پیچھے لگے ہوئے تھے ،اور راستے میں گاڑی خراب ہونے پر وہ عجلت میں پاس کھڑی ٹیکسی میں بیٹھے تھے۔’’او․․․ہاں یاد آیا اچھا․تو تم نے اتنے عرصے میں اسے کھول کر تو نہیں دیکھا؟‘‘

انہوں نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے طفیل سے پوچھا۔اور ساتھ ہی تیزی سے اسے کھول کر چیک کرنے لگے۔

’’نہیں جی یہ آپ کی امانت تھی ،بندے کو خدا کو منہ بھی تو دکھانا ہوتا ہے نہ․․آپ ہر چیز چیک کر کے تسلی کر لیں،میں اپنے ایمان پر قائم رہتے ہوئے اسے سیدھا آپ کے پاس لے آیا ہوں۔‘‘طفیل نے تھوک نگلتے ہوئے کہا۔وہ اپنے کاغذات کو اور فائلوں کوالٹ پلٹ کر دیکھ رہے تھے پھر انہوں نے اس کے خفیہ خانے کو ہلکا سا سرکا کر ایسے دیکھا کہ طفیل کو نظر نہ آسکے اور اپنی تسلی کر کے اسے بند کر دیا۔

’’اوہ․اچھا تو تم اتنی دیر سے اس انعام کے لیے کھڑے ہو․․․اوہ․․اچھا اچھا․․یہ لو دس ہزار روپے اور عیش کرو،اور ہاں آئیندہ کبھی ادھرکا رخ نہیں کرنا۔‘‘وہ اسے پیسے پکڑا کر اپنے کام میں لگ گئے۔

’’لو بھلا اس میں تھا ہی کیا سادہ سے کاغذ اور کچھ فائلیں بھلا مجھے ان سے کیا لینا دینا تھا کتنا بے وقوف انسان تھا یہ سیٹھ اشتیاق بھی بھلا ان بے کار کاغذوں کی قیمت دس ہزار لگا دی،ہنہ․․․․‘‘

طفیل نوٹوں کو گنتے ہوئے آفس سے نکلتے ہوئے خود کلامی کر رہا تھا۔

’’ہنہ بے وقوف ان پڑھ بیچارہ لاعلمی میں مارا گیا،پڑھا لکھا ااگرہوتا تو جانتا کہ یہ سادہ کاغذ اور فائلیں لاکھوں کروڑوں کی ہیں اور اس کی خفیہ پاکٹ میں بلینک چیک پڑا ہے ،بے وقوف ،جاہل۔‘‘اشتیاق مرزا نے اس کی جاتی پشت کو دیکھتے ہوئے دل میں سوچا۔زمانہ سادگی،ایمان داری کو بے وقوفی اور جہالت سے ہی یاد کرتی ہے۔
Aliya Touseef
About the Author: Aliya Touseef Read More Articles by Aliya Touseef: 3 Articles with 2852 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.