جمعہ کا دن تھا میں کام کے سلسلے میں دوسرے شہر گیا ہوا
تھا مسجد سے اذان کی آواز سن کر میں جمعہ کی نماز ادا کرنے کیلئے مسجد جا
پہنچا۔سکون سے نماز ادا کرنے کے بعد میں مسجد سے باہر نکل رہا تھا کہ اچانک
میری نظر ایک پھٹے پرانے بُرخے میں کھڑی ایک عورت پر پڑی ایسا لگ رہا تھا
کہ میں اس عورت کو جانتا ہوں پھر بھی میں وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے آگے
بڑھا۔مگر جب اس عورت نے مجھے آواز دی تو میں چونک گیا بعد میں پتہ چلا کہ
وہ شاہین آپا تھیں میری پڑوسی۔
انکو دیکھتے ہی میں دنگ رہ گیا اور اپنے زندگی کے دو سال پیچھے چلا
گیاکیونکہ دو سال پہلے ان کی شادی ایک آٹو ڈرائیور(سلیم) سے ہوئی تھی تب
انکی عمر اٹھارہ یا بیس سال ہوگی۔ تعلیمی زندگی میں بہت ذہین ، دکھنے میں
خوبصورت ، ہمیشہ مسکراتا چہرہ ان کی خوش مزاجی سے خواتین لطف اندوز ہوتی
تھیں۔ہمارے گھر بھی انکا آنا رہتا تھا۔انکی تین بہنیں تھیں بھائی نہیں تھے
اسلئے مجھے ہمیشہ اپنا بھائی کہتیں۔مالی طور سے کمزور تھیں ۔ماں (رضیہ)گلی
میں امیر لوگوں کے یہاں برتن اور کپڑے دھوتی تھی ان میں سے ایک ہمارا گھر
بھی تھا۔گھروں کے کام کاج نپٹا کر انہیں کے گھر کھانا کھا لیتی تھی رمضان
کے مہینے میں اکثر لوگ انکے بچوں کے لئے کپڑے سِلوا دیتے اور کچھ رقم دے کر
امداد کرتے ۔ یوں تو رضیہ خالہ ایک طرح سے خود کفیل تھی ۔ مگر بچوں کے
مستقبل کی سوچ سے ہمیشہ پریشان رہتیں۔کرتی بھی کیا؟شوہر کا انتقال پانچ سال
پہلے ہی ہو چکا تھا انکے انتقال کے بعدرشتہ دار بھی دور ہوگئے تھے بس اب جو
بھی تھے گلی کے لوگ جو انکی عزت کیا کرتے تھے اور وقتِ ضرورت پر ہر طرح سے
مدد کرتے۔آ مدنی کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں تھا صرف گھروں کے کام کاج سے جو
اجرت ملتی اسی سے عزت کی زندگی گذاررہی تھی۔
سبھی بچوں کو اچھی تربیت میں رکھا تھااسی لئے گلی کے لوگ ان بچوں سے محبت
کیا کرتے تھے ۔شاہین آپا ان سب میں خاص تھیں۔گلی کے لوگوں نے مل کر انکی
شادی کا انتظام کیاتھا۔کھاتے پیتے گھر میں بیاہی گئیں تھیں۔مگر آج تو وہ
بالکل ہی مختلف نظر آرہی تھیں۔ چہرے پر داغ دھبے ، مٹیالا رنگ، پریشان
آنکھیں اور چہرے پر زمانے کی شدتوں کے نشان نمایاں تھے۔
میں انکے قریب گیا۔
شاہین آپا آپ ؟ میں نے پوچھا۔
وہ خاموش رہیں۔پھر سے پوچھا۔
شاہین آپا آپ اور یہاں ؟ وہ رو پڑی اور سسکتی آواز میں کہنے لگیں۔۔۔۔۔۔
میرے شوہر آٹو ڈرائیور اچھی خاصی کمائی کر لیتے تھے ۔میں بھی گھر کے خرچ
میں سے کچھ پیسے بچا کر جمع کرتی تھی گھر میں ساس (محرالنساء)کے علاوہ کوئی
نہ تھا اکیلے بیٹھے بیٹھے میں تھک جاتی تھی اسی لئے پیسے جوڑ کر میں نے ایک
سلائی کی مشین خرید لی۔خالی اوقات میں اڑوس پڑوس کے کپڑے سی لیا کرتی
تھی۔میرا دل چاہتا تھا کہ اپنے گھر کو خوب سجاؤں اس لئے محنت سے ایک ایک
پیسہ جوڑ کر گھر کیلئے چیزیں لے آتی اور چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں مست رہتی۔
مگر افسوس۔۔میری یہ خوشیاں زیادہ دن نہ رہیں نہ جانے کس کی نظر لگی میرا
بسا بسایا گھر دھیرے دھیرے بربادی کی طرف چل پڑا۔میرے شوہر اچھے تھے مگر
انکے ساتھی ڈرائیوروں کے ساتھ ساتھ انکو بھی بیڑی پینے کی عادت پڑگئی بقول
انکے بیڑی کے پہلے کش کے لیتے ہی ساری تھکان دھوئیں کے ساتھ اڑجاتی تھی اور
جسم ہلکا پھلکا محسوس ہونے لگتا تھا۔ آہستہ آہستہ گانجے کی لت پڑی ۔ میں
ہزار بار کہتی یہ عادت چھوڑدو ۔وہ ہمیشہ میری بات کو کاٹ دیتے اور کہتے میں
ایک لمٹ (Limit) میں نشہ کرتا ہوں مجھے تم روز یوں لکچر مت دو۔ یہ نشہ کی
عادت بڑھتی گئی پھر انہوں نے حد پار کر دی اور شراب پینا شروع کیا اب تو وہ
جھولتے گھر آتے۔میں اﷲ سے دعا کرتی کہ دوست نام کو دنیا سے اٹھالے جو اچھے
گھر یوں برباد کرتے ہیں۔
ایک دن وہ بھوک کے مارے جلد ہی گھر کھانے کے لئے آگئے جس طرح سوکھی لکڑی
جلدی سے جل جاتی ہے اسی طرح بھوک سے باو لاانسان ذرا ذرا سی بات پر چِڑ
جاتا ہے۔میں نے جلدی سے کھانا دسترخوان پر لگایا اور سامنے بیٹھ گئی۔
انہوں نے پوچھا : سالن کچھ نہیں بنایا
میں نے کہا : آپ کے دئے ہوئے پیسوں میں مشکل سے دال چاول بنا رہی ہوں ایسے
میں سالن کہاں سے بناؤں۔ہفتہ میں ایک بار سالن بنانا بھی اب دشوار ہو رہا
ہے۔
غصّہ سے وہ بولے : تم تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے تمہاری ماں تمہیں ہر کھانے
میں دو طرح کے سالن بنا کر کھلاتی تھی۔
مجھے بھی غصّہ آیا : عورت گالیاں سہہ سکتی ہے ، مار کھا سکتی ہے مگر اپنی
ماں کی بے عزّتی برداشت نہیں کر سکتی ۔۔میں نے کہا ؟
اچھی بات وہ برداشت نہ کر سکے اور کھانا چھوڑ کر چلے گئے پھر کیا تھا سیدھے
شراب کے اڈّے پر گئے پیٹ خالی تھا خوب شراب پی اور نشے میں رکشا چلا رہے
تھے حادثہ ہوگیا شکر ہے جانی نقصان نہیں ہوا مگر رکشے کی مرمت نے قرضدار
بنا دیا۔پہلے خوش حال تھے تو شراب پیتے تھے اب تو قرض کا ٹینشن ، زیادہ
پینے لگے شراب نے انہیں کہیں کا نہ چھوڑا۔رات میں گھر جھومتے آتے اور سو
جاتے۔
میں اس دن کو ہمیشہ کوستی تھی جس دن میری شادی سلیم سے ہوئی تھی۔ جس دن یہ
مجھے دیکھنے کے لئے آئے تھے بڑے سیدھے سادھے تھے گھر میں ایک ماں کے علاوہ
کوئی بھی نہ تھا۔ ان کے شہر کے لوگوں سے پوچھنے پر بھی ہر ایک نے انہیں
سراہا تھا جس کو دیکھتے ہوئے میری ماں اور گلی کے بزرگوں نے میری شادی کے
لئے ہا ں کردی میں اس وقت سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ میری زندگی اسطرح کروٹ
لے گی ۔اتنا ہونے کے باوجود بھی میں صبر کرتی ہمت جٹاتی۔ مگر جب پریشانیاں
کسی کا دروازہ کھلا دیکھ لیتی ہیں تو ایک کے بعد ایک گھر میں داخل ہونا
شروع کردیتی ہیں۔
میری گود خالی تھی۔ میری ساس بڑی امید سے مجھے درگاہ لے جاتی چادر چڑھاتی
اور دعا کرتی کے رب میری بہو کی گود بھر دے۔قرض مانگ کر شہر کے بڑے ڈاکٹروں
کے پاس مجھے لے کر روزانہ چکر لگاتی کہ کہیں سے اسکے گھر کا چراغ اسے مل
جائے۔
ایک مرتبہ ہم درگاہ پر گئے میری ساس درگاہ کے خادم کے ہاتھوں مزار پرچادر
چڑھا رہی تھی ۔
خادم نے پوچھا : خالہ جان آپ چادر کس لئے چڑھا رہی ہیں ۔
محرالنساء : میری طرف اشارہ کرتے ہوئے ۔ وہ میری بہو ہے اسکی گود خالی ہے
اور میرے گھر کا چراغ بھی۔
خادم : بابا کے دربار سے ہر ایک فیض پاتا ہے تمہاری بھی مراد جلدی پوری
ہوگی۔
محرالنساء : خوشی سے ، لال دھاگا لے کر درگاہ کی جالی کو باندھنے لگی۔
مگر اس بد نصیب کو کیا پتہ میرا ہرا بھرا گھر اجڑ گیا ہے اس کا بیٹا اب کسی
کام کا نہیں رہا ، بیڑی،چرس ، اور شراب نے اسے کہیں کا نہیں چھوڑا۔
میں درگاہ کے باہر کھڑی تھی باہر ایک فقیر اسکی بیوی اور بچے بھیک مانگ رہے
تھے مگر بڑے خوش تھے ۔ میں حسرت بھری نگاہوں سے انہیں دیکھنے لگی کہ کاش
میری زندگی بھی ایسی ہوتی یہاں تو بن بادل بھی برسات ہوتی ہے مگر میری
زندگی بنجر ہو گئی تھی سب مجھے بانجھ کہتے تھے ۔ مگر میرے شوہر کو کچھ نہیں
کہتے ۔میری ساس اپنے بیٹے کی عادتوں پر کچھ نہیں کہتی ۔مگر ساتھ ہی ساتھ
مجھ سے بھی بڑی محبت کرتی تھی۔میں اندر ہی اندر گھٹتے جا رہی تھی۔ اب تو
مجھے شوہر کے چہرے سے بھی نفرت ہونے لگی تھی انکے جسم سے بد بو آتی ۔ خدا
جانے یہ نشہ آور چیزیں کس نے بنائی تھیں جس نے میری زندگی کے سارے سکھ چین
چھین لئے۔
حالات بگڑتے گئے رفتہ رفتہ وہ گھر کے سامان بیچنے لگے یہاں تک کے میری
سلائی کی مشین بھی بک گئی میرا جینا دشوار ہو گیا ۔مائکے بھی کس منہ سے
جاتی میں خود جانتی تھی کہ وہاں کے حالات بھی سہی نہیں اور چھوٹی تین بہنیں
بھی ہیں انکی ذمہ داری بھی میری ماں پر تھی۔ ساس بوڑھی تھی کیا کرتی۔شوہر
اپنی ذمہ داریوں سے کنارہ کشی کر رہے تھے۔میں کتنے دن صبر کرتی۔اب تو کھانے
کو بھی محتاج ہو گئے تھے۔ تب میں پڑوسیوں کے برتن دھونے لگی پچاس سو روپئے
کہاں تک ساتھ دیتے گھر بھی قرض کے بوجھ تلے چلا گیا اچھا خاصہ گھر نشے کے
ہاتھوں برباد ہو گیا۔اب کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔جوان شوہر ہڈیوں کا
ڈھانچہ بن گیا اب وہ بے شرم بھیک مانگتا ہے اس سے شراب خرید کر خیالی جنت
میں گم ہو جاتا ہے۔میری ساس بیما ر ہے ان کی تکلیف نے مجھے آج پہلی بار
مسجد کی چوکٹ پر مانگنے کیلئے مجبور کیا۔
شاہین آپا کی زبانی یہ سب کچھ سن کر مجھے بے حد افسوس ہوا۔تھوڑی دیر میں چپ
سا ہوگیا۔میں انکی پہلی زندگی سے بھی واقف تھا۔مجھے یقین نہیں ہورہا تھا کہ
نشے جیسی لعنت اتنی جلدی کسی کا بسا بسایا گھر تباہ کر سکتی ہے۔میں نے آپا
سے کہا آپ صبر رکھئیے۔ مجھ سے جتنا ہوسکے گا آپ کی مدد کروں گا۔اور انشاء
اﷲ کل میں آپکے گھر آوئں گااور سلیم بھائی جان سے بات کروں گا۔ دوسرے دن
سلیم بھائی جان سے گھر میں ملاقات کی۔پہلے تووہ بہت خوش ہوئے۔آپا سے کہنے
لگے دیکھو تمہارے بھائی آئے ہیں کچھ ناشتہ دو۔میں نے منع کیا آخر کار آپا
نے چائے کی پیالی لاکر تھمادی۔پھر میں اُن سے بات کرنے لگاوہ جلد ہی سمجھ
گئے کے یہ مجھے سمجھانے کے لئے آئے ہیں بات کی مگر بیکار تھا انہیں میری
باتیں اثر نہیں کر رہی تھیں۔ اُنکو پتہ تھا میں سہی کہ رہا ہوں مگر وہ
ماننا نہیں چاہتے تھے۔انہیں ضِد نے جکڑ رکھا تھا۔وہی ضِد جس کی وجہ سے
ابلیس کو جنّت سے نکالا گیا۔بس میں وہاں سے چلتا بنا۔
پاس کے گاوں میں سلیم کے خالو رہتے تھے۔میں ان سے بات کرنے کی غرض سے چلا
گیا۔میں وہاں پہنچ کر بات کر ہی رہا تھا کہ اچانک سلیم کے دوست کا فون آیا۔
وہ بڑی گڑبڑاہٹ سے کہنے لگا۔۔۔
سلیم کا دوست : ہیلو ! آپ شاہین کے بھائی ہیں؟
میں نے کہا : ہاں۔
سلیم کا دوست : آپ جلدی سے سِٹی گورنمنٹ اسپتال آجائیے سلیم کو اڈمٹ کیا
گیا ہے۔
میں نے کہا : کیوں۔ کیا ہوا ؟
سلیم کا دوست : اُسے اُلٹی ہوئی اور چکر کھا کر گِر پڑا۔آپ بس جلدی آئیے۔
اتنا سنتے ہی میں فوراََ واپس بنا۔
میرے اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی رضیہ خالہ اور انکی تین لڑکیاں ، میرے والد
صاحب اور گلی کے دو تین بزرگ اسپتال میں موجود تھے۔شاید انہیں بھی اطلاع مل
گئی تھی۔شاہین آپا ، رضیہ خالہ اور انکی تینوں بہنیں بہت رو رہی تھیں شاید
کچھ باتیں شاہین آپا نے ان کو بتائیں تھی۔ان سب کے درد بھرے آنسو دیکھ کر
میری بھی آنکھیں نم ہو گئیں۔ اتنے میں ڈاکٹر صاحب کمرے سے باہر آئے۔
ڈاکٹر صاحب : مریض (سلیم ) کی حالت کمزور ہے جلدی سے انہیں دو خون کی
بوتلیں چڑھانی ہونگی۔ ہمارے پاس خون کی بوتلیں موجود ہیں آپ بس پیسے جمع
کروادیجیے۔
میرے والد صاحب : جی جمع کروادینگے ۔ کیا ہم سلیم سے مل سکتے ہیں ؟
ڈاکٹر صاحب : جی۔ ابھی نہیں۔وہ بے ہوش ہے۔
میں نے پوچھا : کب تک ہوش آئے گا ؟
ڈاکٹر صاحب : گھبرائیے گا نہیں ۔ رات تک انہیں ہوش آجائے گا۔ دو دن بعد ہم
انہیں گھر بھیج دینگے۔
میں نے کہا : جی اچھا۔
ڈاکٹر صاحب : مریض کے ساتھ کوئی ایک آدمی رہ سکتا ہے۔باقی سب چلے جائیے۔
۔۔ ہم سب باہر آگئے۔۔
میں نے کہا : آپ سب چلے جائیے۔ میں بھائی جان کے ساتھ رہونگا۔
شاہین آپا : روتے ہوئے۔ میں بھی رہونگی۔
محرالنساء خالہ : بیٹی میں تیرا درد سمجھ سکتی ہوں ، میرے بیٹے کا درد مجھے
بھی ستائے جا رہا ہے۔ مگر اسپتال میں کسی مرد کا ہونا ضروری ہے ۔ تو اکیلی
کیا کرے گی۔
شاہین آپا نہیں مانی ، آخرکار میں اور وہ رک گئے۔ رات ہوتے ہوتے سلیم بھائی
جان کو ہوش آنے لگا۔شاہین آپا نے پانی پلایا۔بھائی جان حسرت بھری نگاہوں سے
انہیں دیکھنے لگے۔وہ اندر ہی اندر اپنے آپ کو کوس رہے تھے۔ زندگی میں کبھی
اسپتال کا منہ نہیں دیکھا تھا۔اسپتال میں اچھے اچھے لوگ ٹھیک ہو جاتے ہیں۔
شرمندہ ہو کر مجھ سے بھی آنکھیں جھکالیں۔
صبح ہوئی ساتھ ہی ساتھ سلیم بھائی جان کی زندگی نے بھی کروٹ لی۔ وہ سمجھ
چکے تھے کہ میں نے اپنے پیروں پر کُلہاڑی مارلی ہے۔میرے والد صا حب اور گلی
کے بزرگوں نے مل کر نصیحت کی۔ ان سب سے اہم محرالنساء خالہ جو اب تک اپنے
بیٹے کو کچھ نہیں کہتی تھی آج بڑے غصّہ میں تھی بیٹے کو تاکید کی ، کہ اگر
آج کے بعد تو نے شراب کو ہاتھ لگایا تو میری موت کا سبب تو ہوگا۔ ماں کا
اتنا کہنا تھا کے سلیم بھائی جان ماں کے قدموں میں گر پڑے۔ معافی مانگی۔
محرالنساء خالہ نے کہا معافی مجھ سے نہیں بیٹی شاہین سے مانگ۔ جو اتنا
برداشت کرنے کے با وجود تیرے ساتھ کھڑی ہے۔ یہ میری بہو نہیں میری بیٹی ہے۔
سلیم بھائی جان اور شاہین آپا ایک دوسرے کو محبت کی نگاہوں سے دیکھنے لگے۔
بے شک اﷲ تعالیٰ نے میاں بیوی کے جوڑے میں اتنی محبت ڈال دی ہے کے اتنا
ہونے کے باوجود وہ دونوں ایک دوسرے سے راضی ہو گئے۔
طبعیت ٹھیک ہونے کے بعد سلیم میاں آٹو چلانے لگے۔اﷲ کے فضل سے نماز بھی
پڑھنے لگے۔سچ کہتے ہیں اچھوں کی صحبت سے انسان اچھا بنتا ہے۔اور بروں کی
صحبت سے برا۔ تھوڑے عرصے بعد شاہین آپا، محرالنساء خالہ اور سلیم بھائی جان
کے ساتھ مائکے آئی ہوئی تھی پتہ چلا کہ وہ ماں بننے والی ہیں۔یہ سنتے ہی
میں نے کہا محرالنساء خالہ کی دعاء قبول ہو گئی انہوں نے تو ایک زندگی
مانگی تھی مگر اﷲ نے انہیں دو خوشیاں دے دی۔ ایک بچےّ کی شکل میں دوسری
سلیم بھائی جان کی نشے سے آزادی کی زندگی۔ بے شک یہ شاہین آپا کے صبر کا
پھل تھا اور سلیم میاں کا پختہ ارادہ۔
نشہ کرنے والے حضرات کے نشے کی عادت ـچُھٹ سکتی ہے بشرطیکہ وہ خود سے ارادہ
کریں۔جہاں چاہ ہے وہاں راہ ہے۔ |