ہم تو اس مہنگائی کے ہاتھوں مر چلے

للو میاں نے ہفتہ واری خریداری کے لیے پہلے پہل سبزی والے کے پاس پہنچ کر آلو، پیاز، ٹماٹر، ادرک ، لہسن، دھنیا ، ہری مرچیں، اور دیگر سبزیات کے ریٹ معلوم کیے تو سنکر چکراکر قریبی نالی کو چومنے ہی والے تھے کہ ایک پلر نے تھام لیا کہ چند ہی دنوں میں فی کلو پر دس دس روپے بڑھ چکے تھے۔ ریٹ کے مسئلے پر سبزی والے کی طبیعت پر للو میاں کی بحث بہت ہی ناگوار گزری اور موصوف نے ہاتھ لہرا کر ارشاد فرمایا کہ جناب ہماری سبزیوں کے ریٹ ا سٹاک ایکسچینج کی طرح روزانہ کے حساب سے بڑ ھتے گھٹتے ہیں، لہذا آپ زیادہ پریشان نہ ہوا کریں اور مزید فرمایا کہ سبزیات کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور ازلی دشمن کو سبزیات کی ایکسپورٹ بھی سے بھی لنک ہے۔ ساتھ یہ بھی فرمایا کہ پیاز گھر میں اسٹاک کرلیں کہ دشمن ملک میں اسکی شارٹیج کی وجہ سے اسمگل ہوکر وہاں کی عوام کو ووٹ کے بدلے پیاز دے کر آسانی اور آپ کو نوٹ کے بدلے پیاز کی بجائے پریشانی ملنے والی ہے۔

خیر جناب! سبزی والے سے فراغت کے بعد للو میاں پرچون والے کے پاس پہنچے تو دالیں، بیسن، چینی، پتی، آٹا، گھی ، دودھ وغیرہ کے ریٹ بھی آٹھویں آسمان پر تھے ، وجہ یہاں بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ بتایا گیا۔ اب باری تھی بڑے گوشت والے قصائی کی کہ اسکے ریٹ میں فی کلو پچاس روپے اضافہ ہو چکا تھا اور وہ کئی گاہکوں کو پٹرولیم مصنوعات کو قیمتوں میں اضافے کا سبب گردان کر مطمئن کر نے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ ایک بڑے میا ں تو پوچھ ہی بیٹھے کہ میاں کیا گائے بھینس بھی پٹرول اور ڈیزل سے چلتی ہے؟ ۔چھوٹے گوشت والے کی طرف للو میاں اسلیے نہ جاسکے کہ وہ ایک عام آدمی کی پہنچ سے ویسے ہی اتنا دور ہوتا ہے جتنا کہ زمین سے چندا ماموں۔ غریب آدمی تو صرف بقر عید پر ہی اس عنقا چیز کا دیدار کر پاتا ہے، یا پھر کہیں غلطی سے کوئی عقیقے ، صدقے یا خیرات وغیرہ کابھیج دے۔ مرغی کا گوشت جوکہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ للو میاں نے مرغیوں کی بیماری کی وجہ سے بیس روپے کلو بھی خریدا تھا اسکا ریٹ تین سو روپے سنکر ، مرغی والے کو مرغی کے کپڑے اتارنے میں مصروف پاکر کان دبا کر فورا ہی واپس پلٹ آئے۔ اب جناب باری تھی فروٹ والے کی طرف جانے کی۔ کیلا، دس روپے اضافی درجن، کینو بیس روپے کلو پر مہنگا ، سب سے زیادہ مہنگا گولڈن سیب تھا جو کہ کبھی کبھار منہ کا ذائقہ تبدیل کرنے یا امارت جھاڑنے کو للو میاں بیچارے گھر لیجاتے تھے اور صبر شکر کر کے ایک سیب آٹھ آدمی کھاتے تھے ۔ مگر اب کی بار اسکی سونا اور چاندی سے ملتی جلتی قیمت سنکر ہی تراہ کے ساتھ ساتھ لیٹرین کی حاجت اور کچھ اور بھی نکل گیا؟ سیب لینا تو دور کی بات تھی۔ ویسے چند ماہ پہلے نمکین آلو ساٹھ روپے اور سیب پچاس روپے کلو تھا تو للو میاں نے بیگم کو مشورہ دیا تھا کہ مہینے میں جو ایک بار گوشت پکتا ہے اسمیں آلو کی بجائے سیب ہی ڈال لو۔ مگر بیگم کا موصولہ جواب یہاں قابلِ لیکھت نہیں ہے۔ فروٹ والوں نے بھی مہنگائی کی وجہ تسمیہ ظاہر ہے پٹرولیم مصنوعات کو ہی گردانا۔ آس پاس نظر دوڑائی تو یوں لگا کہ جیسے کلو چیز خریدنے والا بھی شرما شرما کر پاؤ پاؤ لے رہا ہے اور اگر مہنگائی اسی تناسب سے بڑھتی رہی تو لگتاہے کہ لوگ تولا، ماشے اور رتی میں چیزیں خریدا کریں گے یا پھر گھر میں شو روم میں سجا کر صرف دیکھا کریں گے اور بچوں کو بھی بتایا کریں گے کہ کسی زمانے میں ہم یہ چیزیں بھی کھایا کرتے تھے ۔ بہرحال! پورے بازار میں صرف خربوزہ ہی واحد، اکیلا دکیلا فروٹ نظر آیا جو کہ للو میاں کی جیب پر گراں نہیں گزر رہا تھا، لہذا اس ہفتہ واری فروٹ ڈے پر بچوں کو خربوزے کی ایک ایک قاش پر ٹرخا نے کا سو چ کر انہوں نے ایک دانہ خرید ہی لیا۔بازار میں تھوڑا دور چلے تو ایک مجمع سا نظر آیا، خیا ل آیا کہ شاید مداری والے دوبارہ وارد ہونا شرو ع ہوگئے ہیں، یا پھر کوئی

طاقت کی دوا بیچنے والا ہوگا، مگر قریب جا کر پتہ چلا کہ ہوٹل والے نے ایک خانصاحب سے روٹی کے زیادہ پیسے چارج کر لیے تھے اور اس تنازع میں دونوں گھتم گتھا ہیں۔

ابا اور اماں کے پان چھالیہ کے لیے پان سگریٹ والے کے پاس پہنچے تو حیرانگی ہوئی کہ پچاس روپے میں چند روز پہلے جتنے پان چھالیہ آتے تھے اب آدھے آئے۔ امپورٹ ہونے کے باوجود پنواڑی صاحب نے بھی مذکورہ وجہ بتا کر جان چھڑائی۔ جنرل اسٹور پر سے شیمپو، صابن، ٹوتھ پیسٹ اور بیگم کے سرخی پاؤڈر وغیرہ کے دام پوچھے تو بتایا گیا کہ ریٹ تقریبا دس سے پندرہ فیصد بڑھ چکے ہیں لہذا فورا لے لیں، ہو سکتا ہے کل نئے ریٹ آجائیں۔ للو میاں نے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر صرف بیگم کے سرخی پاؤڈر خرید لیے، کیونکہ ان چیزوں کے بنا گھر میں داخلہ بھی ممنو ع ہو سکتاتھا۔

دواؤں کے لیے میڈیکل اسٹور سے صرف قیمیتیں پوچھنے پر ہی گزارہ کیا کہ تمام دوائیں تیس چالیس فیصد بڑھنے سے بچوں کیا اب بڑوں کی پہنچ سے بھی اتنا دور ہو چکی ہیں جتنا کہ پاکستان سے امریکہ۔ سرکاری ہسپتال جسے کبھی حقیر فقیر سمجھا تھا ، ڈاکٹروں کی بڑھتی فیسوں کی وجہ سے اب آغا خان ہسپتال لگنے لگے ہیں، لہذا سب کو صائب مشورہ ہے کہ وہیں جایا کریں ہر مرض کی ایک ہی سی دوا دس روپے کی پرچی پر فری ملتی ہے ۔ چلتے چلتے للو میاں کو خیا ل آیا کہ بچوں کو وین میں ٹھونس ٹھانس کر اسکول والوں کے حوالے کرنے والا ڈرائیور درجن بھر ماہ میں دو درجن بار کرایہ بڑھا کر دوبارہ تقاضا کر رہا تھا اور اسکول والے بھی ہر ماہ بچوں کے ہاتھ ایک پھرا بھجوا رہے ہیں کہ چند ناگزیر وجوہات کی بنا پر ، نہ چاہتے ہوئے بھی اسکول کی فیسوں میں اضافہ کیا جارہا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ راہ چلتے للو میاں کا ٹاکر ایک عدد فقیر سے ہوا تو موصوف نے چھوٹتے ہی دو یا پانچ نہیں پورے پچاس روپے ایسے ڈھٹائی سے مانگے جیسے للو میاں نے اسکا ادھار دینا ہو اور ساتھ احسان بھی جتا یا کہ کم نہ دینا ورنہ دعا کی بجائے بد دعا دے دونگا۔ فقیر سے نمٹ کر للو میاں بیگم کا دوپٹہ رنگوانے رنگساز کے پاس پہنچے تو بیچارہ کئی ایک خواتین سے ریٹ کے معاملے پر جھگڑنے میں مصروف تھا اور للو میاں سے بھی فی ڈوپٹہ سو کے بجائے ڈیڑھ سو روپے جھاڑ لیے۔ للو میاں بیچارے نے بحث اسلیے نہ کی کہ ر نگساز کو قفیں ٹونگ کر وہ پہلے ہی خواتین سے چار چار ہاتھ کرتا دیکھ چکے تھے۔ پاس ہی کاج اور اوور لاک والے کی دکان سے بھی قیمت کے معاملے پر کئی خواتین کے لڑنے جھگڑنے کی آوازیں آرہی تھیں ۔ بچوں کے اسکول کے جوتے اور کپڑے والے کی دکان پر پہنچے تو جو، جوتے چند ماہ پہلے سو روپے میں لیے تھے اب دو سو کے ہو چکے تھے اور دکاندار نے بحث کرنے پر تڑی بھی لگا دی کہ لینے ہیں تو لو ورنہ اپنا راستہ ناپو۔ یوں کپڑوں اور جوتوں کے پیسوں میں صرف جوتے ہی لے پائے۔ واپسی گھر جانے کے لیے ویگن میں سوار ہوئے تو کرایہ پھر بڑھ چکا تھا، بہت تکرار کی کہ ابھی ہم دس روپے میں آئے تھے تو اب پندرہ روپے کیوں؟ ، کنڈکٹڑنے کرایہ لیکر چلتی ویگن سے دھکا دیکر نیچے اتار دیا۔

خیر! جیسے تیسے للو میاں بیچارے پورے کی بجائے آدھا سامان لیکر گھر پہنچے تو کچھ سر پھٹے مہمان گھر میں فراش پائے ۔ معلوم کر نے پر پتہ چلا کہ راستے میں آتے ہوئے بس والے سے کرایہ کے معاملے پر پھڈا کر بیٹھے تھے، اسلیے اس حال کو پہنچے۔ یوں دس روزہ مہمانوں کی خاطر مدارت کے ساتھ روزانہ مرہم پٹی کا خرچہ بھی للو میاں بیچارے کو اٹھانا پڑا اور مہمان رحمت کی بجائے زحمت اور عذاب بن گئے کہ ماہانہ بجلی ، پانی، گیس، ٹیلی فون کے بلوں کے لیے رکھی گئی تمام رقم ان مہمانانِ گرامی پر خرچ ہو چکی تھی۔ تھوڑی ہی دیر میں للو میاں کے بڑے صاحبزادے موصوف ہاتھ پر پٹی بندھے وارد ہوئے تو پتہ چلا کہ سپورٹس کی دکان پر گیند بلا لینے گئے تھے کہ ریٹ

بڑھنے پر ہیرو بن کر جوش میں آ گئے تھے اور یوں معاملہ اس نہج پر پہنچ چلا کہ ہاتھ کی ہڈی کی قربانی دینا پڑی اور للو میاں کو جیب کٹوانے کی قربانی دینی پـڑی ۔ بیگم کی انکوائری الگ بھگتی کہ پچھلے ماہ تو اتنے پیسوں میں پورے ماہ کا راشن آیا تھا اس بار صرف پندرہ دن کا کیوں؟ باقی کے پندرہ دن کہاں سے کھائیں گے ؟ وغیرہ وغیرہ۔ ساتھ ساتھ بیگم موصوفہ نے اپنے عزیزو اقارب کے ہاں ہونے والی چار عدد شادیوں کے کارڈ بھی تھما دیے کہ انہیں بھگتا نے کا بھی بندوبست کریں ، سو دو سو سے کام نہیں چلیگا، کم از کم ہزار روپے تو لازمی ہوں گے ، بچوں کے اور میرے کپڑے لتے علیحدہ ہیں ۔للو میاں اس نیک بخت ، کم عقل کو اب کیا بتاتے کہ باہر مہنگائی سے تنگ لوگ اپنے جگر گوشوں، عزت نفس اور جسمانی اعضاء تک کو بیچنے پر مجبور ہیں اور تم روز نئے کپڑوں لتوں کی بات کر تی ہو ۔ مگر یہ خواتین کہاں مانتی ہیں کہ اپنی پھنی ناک کٹنے کے ڈر سے بڑھ چڑھ کر میا ؤں کا خرچہ کر وا دیتی ہیں۔

تو جناب! مہنگائی کا اور ہمارا اب جنم جنم کا ساتھ ہوگیا ہے۔ کم از کم ہمارے اس جنم میں یہ ختم نہیں ہونے والی۔ لہذا روز روز خون سڑانے سے بہتر ہے کہ اس سے سمجھوتہ کر لیا جائے۔ کیونکہ اسلام آباد کی بھینسوں کے آگے بجا ئے گئے اب تلک کے تما م بین اسلیے رائیگاں گئے کہ و ہاں صرف اندھی، گونگی ، لولی لنگڑی اور بہری بھینسیں بستی ہیں، جنہیں عوام کا کوئی خیال نہیں!
Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660
About the Author: Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660 Read More Articles by Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660: 93 Articles with 247473 views self motivated, self made persons.. View More