نئی دہلی سے قریب تر ین ہونے کے
سبب علاقہ میوات ہمیشہ سے مظالم کا شکار رہا ہے ۔مغلیہ سلطنت کے عہد میں
دارالحکومت میں کوئی واردات ہوتی سب سے پہلے میوات ہی یر عتاب شاہی آتا۔اول
دور میں ہوئے کچھ واقعات نے میوات کو اس قدر بد نام کر دیا تھا کہ شاہی
حکومت باشندگان میوات کی لاکھ صفائی اور ایمانداری کی ضمانت دینے کے باوجود
بھی ان کی نگاہوں میں گناہ گار رہی ۔میوات کی اسی بدنامی کا دوسرے لوگوں نے
بھر پور فائدہ اٹھایا اور دہلی میں لوٹ مار کر کے الزام میوات کے سر ڈال
دیا․․․یہ سلسلہ جاری رہا اور اہل میوات ظلم کی چکی میں پستے رہے۔ آخر وقت
میں جب انگریزوں کے شروع ہو ئے تو اس میں بھی میوات کوآزمایش کے دور سے
گذرنا پڑا۔1947کے سانحے سے تومیوات راست طور پر دوچار ہو ئی ’لاکھوں گھر
اجڑے اور وہ قیامت خیزتباہی آئی کہ تاریخ بتانے سے قاصر ہے ۔ مقامی راجاؤں
نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھلتے ہو ئے میواتی مسلمانوں پر بے تحاشا مظالم
کیے۔چنانچہ سانحہ 47کے کچھ چشم دید گواہ ان ایام کی روداد بتاتے ہو ئے سب
سے بڑی سفاکی بتاتے ہیں ․․․․کہتے ہیں: جیسے ہی انگریز ہندوستان سے گئے ،الور
اور بھرت پور کے مہاراجے بے لگام ہو گئے ۔میواتی مسلمانوں کی تمام سابقہ
قربانیوں اور وفاداریوں کو بھول کر ان کے خون کے پیاسے ہو گئے اور بہانہ کر
کے بھوک سے پر یشان لوگوں کو اپنے ہر کارو ں کے ذریعے ایک کھلے میدان میں
جمع کیا ۔انھیں لالچ دیا کہ ابھی کچھ دیر میں تمہارے لیے کھاناآئے گا ۔اچانک
․فضاہیلی کاپڑوں کی گڑگڑاہٹ سے گونج اٹھی ‘بھوکے پیاسے لوگ یہ سمجھ کر
ہمارے لیے کھانا آگیا ان کی جانب دوڑنے لگے ۔ہیلی کاپڑ فضا میں چکر کاٹتے
پھررہے تھے اور لوگ ان کے پیچھے پیچھے دوڑ رہے تھے۔اچانک ہیلی کاپڑوں سے
شعلوں کی بارش ہو نے لگی اور بھوکے پیاسے میواتی لوگ دل خراش چیخیں مارتے
ہو ئے ڈھیر ہونے لگے ۔کچھ بھاگ نکلے جنھیں مہاراجوں کے آدمیوں نے اپنی
بندوقوں سے بھون دیا۔․․․․․․․بہت غمناک ہے یہ خونی داستان․․․․․․کچھ خوش قسمت
لوگوں نے جانے کیسے کیسے اپنی جان بچائی ․․․․․
الوراور بھرت پورکے مہاراجاؤں کے مظالم کی یہ تو ہلکی سی جھلک تھی
․․․․․․․پھر ہندوستان مکمل طور سے آزاد ہو گیا اور ریاستوں نے انڈین یونین
میں شمولیت اختیار کر لی راجستھان بھی ’’الور اور بھرت پور ‘‘ کے ساتھ شامل
انڈین یونین میں شامل ہوگیا اور اس طرح میوات سے مظالم کا خاتمہ ہو گیااور
وہاں کے بچے کھچے لوگ چین کا سانس لینے لگے․․․․․ایک طویل مدت ہو ئی امن میں
رہتے ہو ئے ۔میوات کے لوگ 1947کے مظالم کو بھول گئے اور فرقہ وارانہ ہم
آہنگی کی وہ مثال پیش کی کہ دنیا عش عش کر کے رہ گئی ۔میوات کا امن دنیا
بھر میں مشہور ہو گیا۔ لوگ وہاں زندگی کے طریقے سیکھنے آنے لگے اور
باشندگان میوات سے امن و آشتی ‘چین کا راز جاننے کے لیے بے چین ہو گئے۔پھر
نہ جانے کس کی نظر بد لگی اور 14ستمبر 2011کوایک معمولی بات پر میوات فرقہ
وارانہ فسادات کی زد میں آ گیا ۔درجنوں لوگ پولیس اور فرقہ پرستوں کی
گولیوں کا نشانہ بنے ۔میوات کے قصبہ گوپالگڑھ میں واقع مسجد عائشہ ناپاک
کوششوں کا نشانہ بنی اور فرقہ پرست گوجرو ں نے دل کھول کر اپنی بھڑاس نکالی
۔مقامی انتظامیہ نے بھی ناانصافی کے جوہر دکھائے ۔ متاثرین کے ساتھ انصاف
کر نے کے بجائے اُلٹا انھیں ہی مورد الزام ٹھیرایا گیااور ان سے دوہر رویہ
اپنایا گیا۔
میوات کے مسلمانوں میں اس واقعے کے بعد خوف و ہراس پھیل گیا ‘اس واقعے نے
انگریزوں اور مہاراجوں کے مظالم کی یاد تازہ کر دی ۔ایک بار پھر میوات کے
مسلمان سہم گئے ۔ایسے حالات میں ’’انصاف ‘‘پر انھیں مکمل بھروسہ تھا اور
یقین بھی ․․․․․لیکن اس سانحے کو دو سال ہونے کو آئے مگر انھیں انصاف نہیں
ملا ․․․․․انصاف تو دور اُلٹے انھیں دھمکایا اور ڈرایا جارہا ہے۔ راجستھان
کی کانگریس حکومت اور بھرت پور انتظامیہ ان سے روز اول سے ہی متعصبانہ رویہ
اپنا ئے ہو ئے ہے۔سی بی آئی بے خطر شکار کھیل رہی ہے۔ دھڑا دھڑ گر فتاریاں
ہورہی ہیں ‘بے قصور وں کو جیلوں میں ٹھونسا جارہا ہے ۔قصور اور خطا پوچھنے
پر انھیں زدو کوب کیا جارہا ۔حالیہ دنوں کی رپورٹ تو یہ ہے کہ سی بی آئی من
مانے طور سے لوگوں کو نامزد کررہی ہے اور ان پر عرصۂ حیات تنگ کررہی
ہے۔مقامی باشندے کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے حالات سے پر امن احتجاج تک نہیں کر
نے دیا جاتا ۔اگر ہم کو ئی پنچایت بھی کرتے ہیں تو اس کی اس طرح انکواری کی
جاتی ہے جیسے ہم کو ئی غیر قانونی کام کررہے ہوں ۔ہم پر زمین تنگ کی جارہی
ہے ۔ہماری نقل و حرکت اور کہیں آنے جانے پر کڑی نظر رکھی جارہی ہے ۔ہمارے
موبائل اور کونٹیکٹ نمبرو ں کی تفتیش کی جارہی ہے ۔اس وقت تو حد ہوجاتی ہے
جب ہم سے رپورٹ مانگی جاتی ہے کہ ہم نے کس سے اور کیوں بات کی ․․․․گویا
ہمیں اپنے رشتے داروں اور ملنے جلنے والوں سے بھی بات کی تفصیل بھی دینے
پڑتی ہے۔حالات اور بھی سنگین ہوتے جارہے ہیں اور کل کونسا نیا گل کھلے کچھ
نہیں کہا جاسکتا ۔
ان حالات نے علاقہ میوات میں بدامنی اور خوف کا سا ماحول بر پا کر دیا ہے
۔لوگ راتوں کو اس خوف سے سوتے نہیں کہ کہیں سی بی آئی یا ان کے لباس میں
غنڈہ عناصر انھیں موت کی نیند ہی نہ سلادیں ۔ دن کے وقت میوات کے مسلمان
اپنا درد قوم کے سامنے بیان نہیں کرسکتے ۔حکومت اور انتظامیہ نے ان کی ہر
طرح کی لب کشائی پر پابندی عاید کررکھی ہے ۔جرا ت کر نے پر ملک سے غداری کا
الزام لگادیا جاتا ہے․․․․․․ذرا احساس کیجیے !ہندوستان کا مسلمان سب کچھ بر
داشت کر سکتا ہے لیکن ’’وطن سے غداری ‘‘کا الزام کیسے بر داشت کرسکتا ہے۔
جس کے لیے اس نے ماضی میں بھی بڑی سے بڑی قربانی دی ہے اور ہر وقت اس کی آن
و بان پر مر مٹنے کو تیار رہتا ہے ۔جب اندرونی فرقہ پرست جماعتیں اسے نقصان
پہنچاتی ہیں تو اس کے آنسو نکل پڑتے ہیں ․․․․․میوات کے مسلمانوں کو اس طرح
ٹارچر کیا جارہا ہے اور زندگی عذاب بنائی جارہی ہے۔
یہ ہیں خوف و ہراس کے دن اور ڈر و پریشانی کی راتیں ۔میوات کا امن مکمل طور
سے غارت ہو گیا ہے ۔ اندھیر ے بڑھتے ہی جارہے ہیں اور تاریکی پھیلتی ہی
جارہی ہے ․․․․نہ جانے میوات میں امن کی صبح کب نمودار ہوگی اور آتشی کا
سورج کب نکلے گا؟ذہنوں میں سوالات اٹھ رہے ہیں کیا میوات کی کھوئی ہو ئی
ساکھ اور وقار دوبارہ بحال ہو جاے گا؟اور کیا پھر ہم وہی میوات دیکھ پائیں
گے․․․؟کیا میوات کاسے یہ اندھیر وں کے بادل چھٹ جائیں گے یا اندھیر ے بڑھتے
ہی جائیں گے؟ڈر ہے کہ کہیں یہ سوالات سوالات ہی بن کر نہ رہ جائیں ۔
عجیب طرفہ تماشا ہے کہ جو میوات کے مسلمان پورے ہندوستان کی خراب صورت حال
پر فکر مند ہوجاتے ہیں اور کشمیر سے کنیا کماری ‘پنجاب سے جے پور اوردہلی
سے لکھنو ٔ و ممبئی تک کے درد کو اپنا درد سمجھتے ہیں وہ ان قیامت خیز سے
حالات سے اکیلے مقابلہ کررہے ہیں ‘کوئی بھی ان کی حمایت ‘ہمدردی اور معانت
کے لیے آگے نہیں آرہا ۔نہ ملی تنظیمیں ‘نہ فلاحی ادارے ‘نہ حکومتیں اور نہ
کو ئی اور ۔ایسے میں یہ میوات والوں کا حوصلہ ہے کہ وہ کو ئی کسی شکوہ کیے
بغیر خدا ئے پاک کے آسرے پر ان بلاؤں سے نبرد آزما ہیں ․․․․․مگر اس کا مطلب
یہ تو نہیں ہے کہ قومی بر ادری ان کی طرف سے بالکل آنکھیں بند کر لے ․․․․یہ
تو انتہائی غیر انسانی اور قابل مذمت عمل ہے ․․․․لہٰذامیں قومی برادری سے
اپیل کر رہا ہوں کہ خدارا میوات کے مسلمانوں کی مدد کیجیے اور اپنا فریضۂ
انسانیت ادا کیجیے!
تعجب خیز اور افسوسناک بات تو یہ ہے کہ نئی دہلی کے جوار میں ہوتے ہو ئے
میوات اس قدر ناانصافیوں اور مظالم کا شکارہے اور نئی دہلی کے کان پر جوں
تک نہیں رینگ رہی اور نہ ہی اسے اس کی کوئی فکر ہے‘شاید چراغ تلے اندھیرا
اسی کو کہاجاتا ہے۔یہ وہی نئی دہلی اتراکھنڈ ‘چھتیس گڑھ ،جھار
کھنڈ‘ممبئی‘آندھرا ‘تلنگانہ ‘آسام منی پور اور دوردوررونما ہونے والے
واقعات و حادثات پر بے چین ہوجاتی ہے ۔مگر اسے میوات نظر نہیں آتا ۔میں اس
کے لیے بس یہی کہوں گا
دور تک کی آگ تو تجھ کو دکھا ئی دیتی ہے
کیوں نظر آتا نہیں اپنا ہی گھر جلتا ہوا
احساس
دن کے وقت میوات کے مسلمان اپنا درد قوم کے سامنے بیان نہیں کرسکتے ۔حکومت
اور انتظامیہ نے ان کی ہر طرح کی لب کشائی پر پابندی عاید کررکھی ہے ۔جرا ت
کر نے پر ملک سے غداری کا الزام لگادیا جاتا ہے․․․․․․ذرا احساس کیجیے
!ہندوستان کا مسلمان سب کچھ بر داشت کر سکتا ہے لیکن ’’وطن سے غداری ‘‘کا
الزام کیسے بر داشت کرسکتا ہے۔ جس کے لیے اس نے ماضی میں بھی بڑی سے بڑی
قربانی دی ہے اور ہر وقت اس کی آن و بان پر مر مٹنے کو تیار رہتا ہے ۔جب
اندرونی فرقہ پرست جماعتیں اسے نقصان پہنچاتی ہیں تو اس کے آنسو نکل پڑتے
ہیں ․․․․․میوات کے مسلمانوں کو اس طرح ٹارچر کیا جارہا ہے اور زندگی عذاب
بنائی جارہی ہے-
عجیب طرفہ تماشا ہے کہ جو میوات کے مسلمان پورے ہندوستان کی خراب صورت حال
پر فکر مند ہوجاتے ہیں اور کشمیر سے کنیا کماری ‘پنجاب سے جے پور اوردہلی
سے لکھنو ٔ و ممبئی تک کے درد کو اپنا درد سمجھتے ہیں وہ ان قیامت خیز سے
حالات سے اکیلے مقابلہ کررہے ہیں ‘کوئی بھی ان کی حمایت ‘ہمدردی اور معانت
کے لیے آگے نہیں آرہا ۔نہ ملی تنظیمیں ‘نہ فلاحی ادارے ‘نہ حکومتیں اور نہ
کو ئی اور ۔ایسے میں یہ میوات والوں کا حوصلہ ہے کہ وہ کو ئی کسی شکوہ کیے
بغیر خدا ئے پاک کے آسرے پر ان بلاؤں سے نبرد آزما ہیں ․․․․․مگر اس کا مطلب
یہ تو نہیں ہے کہ قومی بر ادری ان کی طرف سے بالکل آنکھیں بند کر لے ․․․․یہ
تو انتہائی غیر انسانی اور قابل مذمت عمل ہے ․․․․لہٰذامیں قومی برادری سے
اپیل کر رہا ہوں کہ خدارا میوات کے مسلمانوں کی مدد کیجیے اور اپنا فریضۂ
انسانیت ادا کیجیے!
|