مسلم نوجوانوں کی گرفتاری :مذہبی طبقہ زیادہ ذمے دارہے

فرقہ پرستوں کے لیے یہ بات ضرورباعثِ مسرت ہوگی کہ ہندوستان میں مسلمان اقلیت میں ہیں مگرجیلوں میں ان کی اکثریت ہے ۔ایک اندازے کے مطابق جیلوں میں مسلمانوں کی تعداد 102652ہے ۔ان میں دہشت گردی سمیت مختلف کیسوں میں گرفتارکیے گئے نوجوان ہیں اوران کی وجہ سے لاکھوں خاندان متاثرہیں ۔جب مسلم نوجوانوں کو گرفتارکیاجاتاہے تو اس کے احباب ،رشتے دار،آس پڑوس کے لوگ ،متعلقین نیزموبائل میں جتنے بھی لوگوں کے نمبرSAVEہوتے ہیں ان سب کوپولس ہراساں کرتی ہے۔ گویاگرفتارتوایک مسلم نوجوان ہوتاہے مگراس کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کوپریشانی کاسامناکرناپڑتاہے ۔یہی وجہ ہے جب کسی مسلمان کوپولس اس کے گھرسے اٹھاتی ہے تویہ سارے لوگ بیک وقت اس سے ناطہ توڑلیتے ہیں اورمتاثراہل خانہ خودکوتنہامحسوس کرتے ہیں۔ بظاہریہ بڑاغیراخلاقی رویہ معلوم ہوتاہے مگرایسے خوفناک حالات میں سوائے اس کے اورکیابھی کیاجاسکتاہے۔ممبئی کی عشرت جہاں اورخواجہ یونس کے کیسوں سمیت پچاسیوں ایسے معاملات ہیں جن میں ملزم افرادکے علاوہ ہزاروں افراذہنی ونفسیاتی صعوبتوں کے نہ جانے کن کن مراحل سے گزرے ہیں۔

جب مسلمانوں کی گرفتاریاں ہوتی ہیں توپرنٹ میڈیااورالیکٹرانک میڈیااسے شہ سرخیوں میں شائع کرتاہے مگرجب کچھ سالوں یامہینوں کے بعدثبوت نہ ہونے کی بنیاد پر وہ رہاہوجاتے ہیں تواس خبرکواخبارکے کسی اندرکے صفحے میں چھوٹی سی جگہ پرلگادیاجاتاہے جہاں قارئین کی نظرکم ہی پڑتی ہے۔اردواخبارات ضروراسے نمایاں طورپرشائع کرتے ہیں لیکن اکثریتی حلقے کے ۸۰فی صدافرادکورہائی کے بارے میں قطعاًنہیں معلوم ہوپاتا۔الیکٹرانک میڈیابھی یہی کرتاہے، گرفتاری پروہ کئی کئی گھنٹے لائیودکھاتاہے مگررہائی کے بعدایک منٹ کیا آدھے منٹ کی بھی خبرنشرنہیں کرتا۔

اگرآپ کہیں کہ اس کاحل تعلیم ہے توہم کہتے ہیں کہ گرفتارہونے والے مسلم نوجوانوں کاجائزہ لے لیجیے ان میں زیادہ ترتعلیم یافتہ بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ہی ملیں گے۔ چندسال قبل تک مسلمانوں میں تعلیمی بیداری نہیں تھی لیکن حالات کے غیرمعمولی دباؤکے نتیجے میں انہوں نے جب سے تعلیمی میدان میں قدم رکھاہے توبے جاگرفتاری کی مصیبتوں نے ہماراتعاقب شروع کردیاہے۔دراصل فرقہ پرستوں نے اپنی پالیسی تبدیل کرلی ہے۔ ترقی تعلیم کے بغیرممکن ہی نہیں جب مسلمان تعلیم حاصل کریں گے توترقی بھی کریں گے اورملک میں برابرکے حصے داربھی بنیں گے اوراسے فرقہ پرست کیسے برداشت کرسکتے ہیں۔ا س لیے انہوں نے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو نشانہ بناناشروع کردیا گویا مسلمانوں کواعلیٰ تعلیم سے برگشتہ کرنے کی عملاً کوششیں کی جارہی ہیں مگرہمیں حالات سے گھبرانانہیں چاہیے اسی میں ہمارے لیے خیرہے۔اﷲ کافضل ہے کہ مسلمانوں میں تعلیمی بیداری کی لہر ضرور پیدا ہوئی مگرصرف بیداری نہیں جب تک تعلیمی انقلاب نہیں آئے گامسائل کے حل کی توقع فضول ہے۔

اﷲ کی حکمت دیکھیے کہ صنم خانے سے ہی کعبے کوپاسباں مل رہے ہیں ۔دہشت گردی جڑتک پہنچ کراصل حقائق واشگاف کرنے اوراصلی دہشت گردوں کومنظرعام پرلانے والے ہیمنت کرکرے خودتوآنجہانی ہوگئے مگرانہوں نے اکثریتی حلقے کے عمومی سوچ کے دھارے کوبدل دیا۔ کرکرے کی جراء ت مندی نے ملکی سیاست کی چولیں ہلادیں جس کانتیجہ یہ ہواکہ انصاف پروروں نے ایک رخ کے بجائے دوسرے رخ پربھی سوچناشروع کیا۔اس کاایک فائدہ یہ ہواکہ پہلے جب ملک میں کہیں بھی دہشت گردانہ واقعات ہوتے تھے توبلاتحقیق شک کی سوئی فوراً مسلمانوں کی طرف گھوم جاتی تھی اورمسلمان بھی سہم جاتے تھے کہ اب ان کی خیرنہیں ۔ٹرینوں میں ،گاڑیوں میں ، شا ہ راہوں پراورخاص طورپربڑے بڑے شہروں میں رہنے والے مسلمانوں کے درمیان عدم تحفظ کااحساس جاگ جاتاتھا لیکن آنجہانی کرکرے کے بعدمسلمان اس احساس سے باہرآئے ۔اب وہ آرام سے سفرکرتے ہیں ،کوئی ان سے کتراکربیٹھنے یاحقارت بھری نظرسے نہیں دیکھتا۔اس ضمن میں دوسرانام ممبئی کی بڑی جراء ت مند ہندو خاتون تیستاسیتلواڈکاہے جس نے گجرات کے مودی اورا س کے حلیفوں کوناکوں چنے چبوائے ہیں ۔گجرات سانحے کے مجرموں کوجیل کی کالی کوٹھری تک پہنچانے اورپوری دنیامیں ان کے اصل کرتوتوں سے واقف کرانے نیزبے قصوروں خاص طوپرعشرت جہاں انکاؤنٹرفرضی کیس میں انصاف دلانے والی یہی ہندوخاتون ہے ۔

مسلمانوں کے معاملے میں حکومت کی بے حسی دیکھیے کہ ممبرآف پارلیمنٹ محمدادیب نے وزیراعظم من موہن سنگھ کے نام کچھ مہینے قبل ایک خط روانہ کیاتھا اوراس میں بے قصورمسلم نوجوانوں کی گرفتاری کے متعلق سوالات کیے گئے تھے ۔اس کاجواب وزارت داخلہ کی طرف سے تین ماہ بعدآیا ۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ حکومت اوروزرابھی مسلمانوں کے سلسلے میں وہی رویہ رکھتے ہیں یارکھناچاہتے ہیں جو فرقہ پرستوں کاہے۔

عدالتوں میں جب ہمارے کیس چلتے ہیں تواکثرایساہوتاہے کہ فیصلہ ہمارے خلاف ہوجاتاہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ ہے ۔عدالتیں ثبوتوں کی بنیادپرفیصلے کرتی ہیں اگرشواہدملزموں کے حق میں ہیں توان کے حق میں فیصلہ سناتی ہیں اگرچہ وہ حقیقتاً مجرم ہوتے ہیں اوراگرثبوت ان کے خلاف ہیں توا نہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیاجاتاہے اگرچہ وہ حقیقی مجرم نہیں ہوتے۔اصل میں مسلمانوں کے ساتھ ایک منظم سازش کے تحت بے قصورمسلمانوں کے ثبوت ضائع کیے جاتے ہیں ،وکلاخریدے جاتے ہیں ،گواہوں کوڈرادھماکریاپیسے کے زورپربیان تبدیل کرالیاجاتاہے اس کے علاوہ سیاسی اثرورسوخ کابھی بہت استعمال ہوتاہے ۔نتیجہ یہ ہوتاہے کہ فیصلہ ہمارے خلاف ہوجاتاہے ۔ہمیں اپنے ملک کی عدلیہ پرمکمل اعتمادہے۔ جج حضرات بھی سمجھتے ہیں کہ صحیح کیاہے اورجھوٹ کیا۔ہاں،ا س پربحث ہوسکتی ہے کہ ججوں کایہ رویہ کتناصحیح ہے ۔ہمیں یہ حقیقت قبول کرلینا چاہیے کہ ہمیں اپنی لڑائی خودلڑنی ہوگی ۔ حالات چاہے کیسے بھی ہوں اگرہمیں اپنے ملک میں آبرومندانہ طریقے سے زندگی گزارنی ہے توقربانی دیناہی ہوگی ۔بغیرقربانی کے نہ کچھ حاصل ہواہے اورنہ ہوسکتاہے ۔ ا س سلسلے میں ہمارے طلبہ کوقانونی تعلیم نہایت مضبوطی اورمحنت اورمنصوبہ بندی کے ساتھ حاصل کرناہوگی ۔

(NCRB)نیشنل کرائم ریکارڈبیوروکے ایک سروے نے ۲۰۱۱ء میں جیلوں میں مسلمانوں کی تعداد ۲۱ فی صدبتائی ہے ۔ ذیل میں بعض ریاستوں کے اعدادوشمارملاحظہ کیجیے ۔
ریاستوں کانام
1مسلمانوں کی مجموعی تعداد
!جیلوں میں مسلمان
مہاراشٹر
10.06%
32.04%
یوپی

21.00%
بنگال
25.00%
46.00%
کیرلا
12.23%
17.05%
آسام
30.09%
28.01%
گجرات
09.06%
25.00%
ْجھارکھنڈ
13.08%
17.06%
دہلی
11.07%
27.09%
تمل ناڈو
05.06%
09.06%

رناٹک
12.02%
17.06%

اس کے علاوہ جموں کشمیر،پانڈیچیری اورسکم کی جیلوں میں مسلمان قیدیوں کی تعدادنہایت غیرمعمولی ہے اورآسام جوجموں کشمیرکے بعدملک کی دوسری بڑی مسلم اکثریتی ریاست ہے وہاں مسلمان کل آبادی کا30.09%ہیں مگرجیل میں 28.01%ہیں ۔آندھراپردیش ،مدھیہ پردیش ،بہار،اڑیسہ کے اعدادشمارکاجائزہ کیاجائے تووہاں بھی مسلمان اپنی آبادی کے فی صدکے اعتبارسے کہیں زیادہ جیلوں میں بندنظرآئیں گے ۔صوبۂ مہاراشٹرکی جیلوں میں مسلمانوں کی تعداد 32.04% بتائی جاتی ہے لیکن تازہ ترین اطلاعات کے مطابق یہ 36.00%ہے۔شایداسی لیے ممبئی کی ایک MLCپاشاپٹیل اکثرمزاحیہ اندازمیں کہتی ہیںIf the number of Muslim prison inmates in Maharashtra keep increasing at the current pace, every jail will soon have an Eidgah.یعنی مہاراشٹرکی جیلوں میں مسلم قیدیوں کی تعداداس قدرتیزی سے بڑھ رہی ہے کہ عن قریب ہرجیل ایک عیدگاہ میں تبدیل ہوجائے گی۔یہ جملہ پاشاپٹیل جیسے لوگوں کے لیے توایک JOKکی حیثیت رکھتاہے لیکن ہماری پریشانیوں اورمایوسیوں میں اضافہ کرجاتاہے۔

سوال یہ ہے کہ کیادنیابھرکے سارے جرم صرف مسلمان کرتے ہیں دیگراقوام کے لوگ نہیں کرتے ؟ مسلمانوں کے اندرسیاسی شعورکی حددرجہ کمی پائی جاتی ہے ۔ مسلمان قیدیوں کی عموماً اچھے ڈھنگ سے پیروی نہیں ہوپاتی۔ان کی غربت کی وجہ سے انہیں اچھے اچھے وکلابھی نہیں فراہم ہوپاتے جوان کاکیس لڑسکیں۔اس طرح تجزیہ کیاجائے تو کہا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کی جیلوں میں بڑھی ہوئی تعدادکے پس پشت ان کی غربت ہے اوردوسری ناخواندگی کہ اس کی وجہ سے انہیں معلوم ہی نہیں ہوپاتاکہ جیل سے رہائی کے لیے کیاکیا کارروائیا ں کرناپڑتی ہیں اورکن کن مراحل سے گزرناپڑتاہے ۔اس کی ایک بہت اہم ترین وجہ ہمارامذہبی شعوربھی ہے ۔ہم دین کاکام اسی کوسمجھتے ہیں جومدرسوں ، مسجدوں ، جلسوں اورکتابوں کی اشاعت کے لیے کاجاتاہے ۔ ہم مدرسے کے استاذ،اسٹیج کے خطیب ا ورمسجدکے امام کوہی خادم اسلام سمجھتے ہیں ۔کیامعاشرے کی بہتری کے لیے کوئی کام کرنااسلام کاکام نہیں ہے اوراس کام کوکرنے والے کوخادم اسلام نہیں کہاجاسکتا؟ہمارے مذہبی طبقے کے اپرکلاس لوگوں کوعوام کاذہنی رخ موڑناہوگاورنہ مستقبل کے حالات اس سے بھی زیادہ خوفناک ہوسکتے ہیں ۔ مسلمان ہرسال کئی ارب روپے کی زکوٰۃ نکالتے ہیں اوریہ رقم زیادہ تر مدارس میں ہی صرف ہوجاتی ہے،مدارس کے سواہم لوگ عموماً دوسری طرف سوچتے ہی نہیں ۔اب وقت کے تقاضے اورترجیحات کے مطابق مسلمانوں کونئے نئے اورحساس مسائل سے نپٹنے کے لیے آگے آناہوگا اوراپنے سرمائے کاایک بڑاحصہ ان کاموں پرخدمت اسلام اورخدمت ملت اورخدمت قوم کے تصورکے ساتھ خرچ کرناہوگا۔قابل مبارک بادہیں وہ لوگ جوان بے قصوروں کی رہائی کے لیے دامے درمے قدمے سخنے تعاون کررہے ہیں ۔اﷲ کرے جلدازجلدمسلمان ذہنی طورپربھی بیدارہواوروہ ان جیسے کاموں کے لیے بھی کسی بھی طرح کے تعاون کودینی کام سمجھنے لگے ۔اس تناظرمیں ہم کہہ سکتے ہیں کہ مسلم نوجوانوں کے گرفتاری میں ہمارامذہبی طبقہ زیادہ ذمے دارہے۔اگریہ اپنے ذہن وفکرمیں وسعت پیداکرلے توحالات بہت حدتک بدل سکتے ہیں۔

مسلمانوں کے بعض حلقوں میں ایک بہت بڑی بیماری یہ ہے کہ جب کسی ایک فرقے کاکوئی نوجوان گرفتارہوتاہے تودوسرے فرقے کے لوگ خاص طوپرمذہبی افراد خاموش رہتے ہیں کہ محروس شخص ہمارے مسلک کا نہیں ہے اس لیے ہمیں اس کاتعاون کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ان سے پوچھاجائے کہ کیاپولس کی گولی یہ دیکھتی ہے کہ فلاں آدمی سنی ہے ،فلاں دیوبندی اورفلاں اہل حدیث اس لیے فلاں کومارواورفلاں کوچھوڑدو ۔آج اگرکچھ لوگ جماعت اسلامی یاکسی اورجماعت پرپابندی لگنے پرخوشی مناتے ہیں تو اگر کل خدانخواستہ کسی سنی تنظیم پرپابندی لگ گئی تب وہ کیاکریں گے ۔فرقہ پرست بحیثیت مجموعی سارے مسلمانوں سے دشمنی رکھتے ہیں وہ کسی فرقے یامسلک کاکوئی امتیاز نہیں کرتے ۔ہوناتویہ چاہیے کہ اگرکوئی مسلم نوجوان مجرم نہیں ہے توسارے مکاتب فکرکومل جل کراحتجاج کریں ۔عقیدے کامسئلہ اپنی جگہ ہے مگرہمارے کسی بھی طرح کے تعاون ہمارے عقیدے یامسلک میں کون سا فرق آجائے گا؟بعض لوگ ایسے بھی ہیں جواپنی نجی مجالس میں تعاون کی بات توکرتے ہیں لیکن برسرعام یامیڈیاکے سامنے تعاون کی بات کہنے سے کتراتے ہیں ۔قصہ مختصرہمیں یہ سمجھ لیناچاہیے کہ ہمارے بھائیوں کی گرفتار ی کے پیچھے ہماری کوتاہیاں بھی ہیں جن کاجلدازجلدتدارک کرناہوگا۔
sadique raza
About the Author: sadique raza Read More Articles by sadique raza : 135 Articles with 171473 views hounory editor sunni dawat e islami (monthly)mumbai india
managing editor payam e haram (monthly) basti u.p. india
.. View More