2۔ تلبیہ سیدنا ابراہیم علیہ
السلام کی پکار اور اس کے جواب کی یاد منانا ہے:-
حج یا عمرہ کرنے والا جب احرام باندھتا ہے تو نہایت خشوع و خضوع کے عالم
میں اس کے ہونٹوں پر یہ الفاظ مچلنے لگتے ہیں :
لَبَّيْکَ اللّٰهُمَّ لَبَّيْکً، لَبَّيْکَ لَا شَرِيکَ لَکَ لَبَّيْکَ،
اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَة لَکَ وَالْمُلْکَ، لَا شَرِيْکَ لَکَ.
’’میں حاضر ہوں، اے اﷲ! میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں،
میں حاضر ہوں، بے شک تمام تعریفیں، نعمتیں اور ملک تیرے لیے ہیں، تیرا کوئی
شریک نہیں۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الحج، باب التلبية، 2 : 561، رقم : 1474
2. بخاري، الصحيح، کتاب اللباس، باب التلبيد، 5 : 2213، رقم : 5571
3. مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب التلبية وصفتها ووقتها، 2 : 841، 842، رقم
: 1184
4. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الحج، باب ما جاء في التلبية، 3 : 187، 188،
رقم : 825، 826
5. أبو داؤد، السنن، کتاب المناسک، باب کيف التلبية، 2 : 162، رقم : 1812
6. نسائي، السنن، کتاب مناسک الحج، باب کيف التلبية، 5 : 159، 160، رقم :
2747، 2750
7. ابن ماجه، السنن، کتاب المناسک، باب التلبية، 2 : 974، رقم : 2918
یہ تلبیہ عمرہ اور حج کے مناسک کی ادائیگی کے دوران حرمِ کعبہ میں پڑھا
جاتا ہے لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ تلبیہ کیا ہے اور اس کی ابتداء
کہاں سے ہوئی؟ دراصل یہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اُس پکار کا جواب ہے
جو اُنہوں نے ایک اندازے کے مطابق آج سے کم و بیش چار ہزار سال قبل تعمیرِ
کعبہ کی تکمیل پر اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں کی تھی۔ اس حکم کا ذکر
کرتے ہوئے قرآن حکیم فرماتا ہے :
وَ اَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَاْتُوْکَ رِجَالاً وَّ عَلٰي کُلِّ
ضَامِرٍ يَاْتِيْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِْيقٍo
’’اور تم لوگوں میں حج کا بلند آواز سے اعلان کرو لوگ تمہارے پاس پیدل اور
تمام دبلے اونٹوں پر (سوار) حاضر ہوجائیں گے جو دور دراز کے راستوں سے آتے
ہیںo‘‘
الحج، 22 : 27
احادیثِ مبارکہ میں مذکور ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جبلِ ابوقبیس پر
چڑھ گئے اور وہاں سے تمام اکنافِ عالم کو بیت اللہ میں حاضری کے لیے ندا دی
: لوگوں! اﷲ کے گھر کی طرف آؤ، طواف اور حج کے لیے آؤ۔ (1) اس صدائے
ابراہیمی علیہ السلام کو روحانی طور پر اس قدر دور رس بنا دیا گیا کہ وہ
زمانی و مکانی فاصلوں سے ماوراء ہر اُس جگہ پہنچی جہاں اُس وقت لوگ آباد
تھے۔ بلکہ وہ جو عالمِ ارواح میں تھے اور قیامت تک کے لیے عالمِ بشریت میں
آنے کے منتظر تھے ان کے کان بھی اس آواز سے آشنا ہوئے اور جس نے اُسے سن کر
لَبَّيْکَ کہا اسے حج کی توفیق اور بیت اﷲ میں حاضری کا اِذن عطا ہوا۔ اِس
بابت چند روایات درج ذیل ہیں :
1. ابن ابي حاتم رازي، تفسير القرآن العظيم، 8 : 2487، 2488، رقم : 13884
2. ابن جوزي، زاد المسير في علم التفسير، 5 : 423
3. سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالماثور، 6 : 32
4. ابن عجيبه، البحر المديد في تفسير القرآن المجيد، 4 : 410
1۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنھما روایت کرتے ہیں :
لما بني إبراهيم البيت أوحي اﷲ إليه أن أذّن في الناس بالحج. قال : فقال
إبراهيم : ألا! إن ربکم قد اتخذ بيتا وأمرکم أن تحجوه، فاستجاب له ما سمعه
من حجر أو شجر أو أکمة أو تراب : لبيک اللّٰهم لبيک.
’’جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ کی تعمیر مکمل کردی تو اللہ
تعالیٰ نے ان کی طرف وحی فرمائی کہ لوگوں میں بلند آوازسے حج کا اعلان کر
دیجئے۔ راوی بیان کرتے ہیں : تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا : (اے
لوگو!) خبردار! بے شک تمہارے رب نے گھر بنایا ہے اور تمہیں اس کا حج کرنے
کا حکم دیا ہے۔ لہٰذا آپ کی پکار پر پتھر، شجر، ٹیلے اور مٹی، غرض کوئی شے
بھی ایسی نہ تھی جس نے یہ جواب نہ دیا ہو : حاضر ہیں، اے اللہ! ہم تیری
بارگاہ میں حاضر ہیں۔‘
1. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 2 : 601، رقم : 4026
2. بيهقي، السنن الکبري، 5 : 176، رقم : 9613
3. بيهقي، شعب الإيمان، 3 : 439، رقم : 3998
4. طبري، تاريخ الأمم والملوک، 1 : 156
5. مجاهد، التفسير، 2 : 422
6. جصاص، أحکام القرآن، 5 : 63
7. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 17 : 144
8. سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالماثور، 6 : 32
2۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے :
لما فرغ إبراهيم عليه السلام من بناء البيت العتيق، قيل له : أذن في الناس
بالحج، قال : رب و ما يبلغ صوتي، قال : أذن وعلي البلاغ، قال : فقال
إبراهيم : يا أيها الناس! کتب عليکم الحج إلي البيت العتيق. قال : فسمعه ما
بين السماء إلي الأرض، ألا تري أن الناس يجيؤن من أقاصي الأرض يُلبّون.
’’جب حضرت ابراہیم علیہ السلام بیت اللہ کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو ان سے
کہا گیا : لوگوں میں حج کا بلند آواز سے اِعلان کریں۔ انہوں نے عرض کیا :
اے میرے رب! میری آواز (ان تک) نہیں پہنچے گی، ارشاد ہوا : آپ بلائیے اور
(آپ کی آواز مخلوق تک) پہنچانا ہمارا کام ہے۔ راوی کہتے ہیں : اس پر
ابراہیم علیہ السلام نے پکارا : اے لوگوں! تم پر اﷲ کے قدیم گھر (خانہ
کعبہ) کا حج فرض کر دیا گیا ہے۔ راوی کہتے ہیں : پس آسمان سے لے کر زمین تک
تمام مخلوق نے ان کی ندا سنی۔ تو کیا تم نہیں دیکھتے کہ پوری زمین کے اطراف
و اکناف سے (ان کی آواز پر لبیک کہنے والے) لوگ تلبیہ کہتے ہوئے چلے آتے
ہیں۔‘
1۔ ابن أبي شيبه، المصنف، 6 : 329، رقم : 31818
2. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 2 : 421، رقم : 3464
3. بيهقي، السنن الکبري، 5 : 176، رقم : 9614
4. مقدسي، الأحاديث المختارة، 10 : 20، 21
5. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 17 : 144
6۔ طبری نے ’’جامع البیان فی تفسیر القرآن (17 : 144)‘‘ میں یہ روایت حضرت
سعید بن جبیر سے بھی بیان کی ہے۔
7. سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالماثور، 6 : 32
8۔ سیوطی نے ’’الدر المنثور فی التفسیر بالماثور (6 : 233)‘‘ میں یہ روایت
حضرت سعید بن جبیر سے بھی بیان کی ہے۔
9. شوکاني، فتح القدير، 3 : 450
10۔ آلوسي، روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني، 17 : 143
3۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما اﷲ تعالیٰ کے ارشاد (وَاَذِّنْ فِی
النَّاسِ بِالْحَجِّ)۔ کے بارے میں فرماتے ہیں :
قام إبراهيم خليل اﷲ علي الحجر، فنادي : يا أيها الناس! کتب عليکم الحج.
فأسمع من في أصلاب الرجال وأرحام النساء فأجابه من آمن ممن سبق في علم اﷲ
أن يحج إلي يوم القيامة : لبّيک اللّهم لبّيک.
’’حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے ایک پتھر پر کھڑے ہوکر ندا دی :
اے لوگوں! تم پر حج فرض کردیا گیا ہے۔ پس جو کوئی مَردوں کی پشتوں اور
عورتوں کے رحموں میں تھا اس نے سنا۔ پس مومنین میں سے اللہ کے علم کے مطابق
جس نے قیامت تک حج کرنا تھا آپ علیہ السلام کی پکار کا جواب دیتے ہوئے کہا
: اے اللہ! ہم تیری بارگاہ میں حاضر ہیں۔‘‘
1. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 17 : 144
2. سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالماثور، 6 : 33
3. طبري، تاريخ الأمم والملوک، 1 : 157
4. عسقلاني، فتح الباري، 6 : 406
جاری ہے۔۔۔ |