دہشت گردی کے الزامات میں ملوث کئے گئے مبینہ ملزموں کی
گرفتاری کے بعد ہر ملزم کے اعترافات اور سنسنی خیز انکشافات کے بعد پولیس
کا اظہار مسرت اور زبردست کامیابی کے دعوے اور ذرائع ابلاغ خاص طور پر ٹی
وی چینلز کا پولیس کے سر میں سر ملانے، ٹی وی کے میزبانوں (اینکرس) کا جوش
جذبہ، الفاظ کو نہ صرف چبا چبا کر بلکہ آواز اور لہجوں کا اتار چڑھاؤ اور
اظہار مسرت، کے لئے مباحثے اور مذاکرات میں پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کی
تعریف و توصیف اور آئی ایس آئی، لشکرطیبہ حافظ سعید کی مذمت میں رٹے رٹائے
جملوں کا اعادہ یہ سب بار بار نشر، اسٹیج یا ٹیلی کاسٹ کئے جانے والے
ڈراموں کی طرح ہوگیا ہے لیکن کچھ عرصہ بعد سب کچھ ہوا میں تحلیل ہوجاتا ہے۔
اعترافات کے ساتھ انکشافات کا فائدہ کس طرح اٹھایا جاتا ہے۔ پاکستان پر کس
طرح ڈباؤ ڈالا جاتا ہے؟ 1993ء کے ممبئی سلسلہ وار دھماکوں اور ا کے بعد
ہونے والے دھماکوں کے راز، راز ہی رہ جاتے ہیں۔ قائم کئے گئے مقدمات کے
بارے میں بھی خبریں بہت کم ملتی ہیں زیادہ تر نہ صرف ملزم بلکہ نام نہاد
سرغنہ (ماسٹر مائنڈ Master Mindبھی ثبوت نہ پیش کئے جانے کی وجہ سے رہا
ہوجاتے ہیں۔ کبھی کبھار پولیس کے جھوٹے ثبوت، من گھڑت شہادتیں اور کمزور
دلائل کے علاوہ جج صاحبان کا سزا دینے کا شوق بھی کام کر جائے تو کسی بے
قصور کو موت کی کسی کو عمر قید کی سزا ہوجاتی ہے۔ عوام یہ نہیں سوچتے ہیں
کہ پولیس کے زبردست دعوے کیا ہوئے؟ سارے اعترافات بندوق نال یا چاقو کی نوک
پر نہ سہی بہیمانہ تشدد، نفسیاتی حربوں اور گرفتار شدہ فرد کے گھر والوں کی
عزت برقرار نہ رہنے کی دھمکیوں کا نتیجہ تھے۔ اسی طرف سارے انکشافات بھی
غلط، فرضی بلکہ پولیس کی مرضی کے مطابق تھے۔
عبدالکریم ٹنڈا کی گرفتاری پر یہی سب کچھ دیکھنے میں آیا جس کا ہم نے اوپر
ذکر کیا ہے۔
یہ سوال کئے بغیر کہ پولیس بے بنیاد دعوے کیوں کرتی ہے؟ بے قصور و معصوم
افراد کو پہلے ملزم پھر مجرم بنانے کی کوشش کیوں کرتی ہے؟ میڈیا جو دوسرے
تمام معاملات میں انتظامیہ اور پولیس کے موقع ملتے ہی چھکے چھڑا دیتا ہے۔
وہ دہشت گردی میں ملوث مسلمان ملزموں کی بات ہوتو یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ
پولیس کی ہر بات صحیح ہے تاکہ طئے شدہ حکمت عملی کے تحت مسلمانوں کو بطور
دہشت گرد بدنام کیا جاسکے جس طرح پولیس جھوٹے دعوے کرتے ہوئے عقل کو بالائے
طاق رکھ دیتی ہے اسی طرح میڈیا یہ سمجھتا ہے کہ ناظرین و قارئین بے عقل ہیں
جو پڑھوایا جائے یا جو دکھایا جائے اس کو مان لیں گے جبکہ دہشت گردی اب
دہشت سے زیادہ مذاق کا موضوع بنتی جارہی ہے کیونکہ پولیس خفیہ ادارے و
ایجنسیاں بھی عوام کو بے وقوف بنارہی ہیں۔
نومبر 2005ء میں جب ابو سالم کو پرتگال سے ہندوستان لایاگیا تو ایسا لگتا
تھا جیسے ہندوستان کے خلاف دہشت گردوں کی تمام سازشوں کے راز اب آشکار
ہوجائیں گے لیکن ستم ظریفی کی انتہاء تو یہ ہے کہ جن الزامات کے تحت ابو
سالم ہم کو انتہائی مطلوب تھے ان الزامات کے خلاف پرتگال کئے گئے معاہدات
کے تحت ہم ابوسالم پر مقدمہ نہیں چلاسکتے کیونکہ ہم ابو سالم کو نہ سزائے
موت دے سکتے ہیں اور نہ ہی (25) سال سے زیادہ سزائے قید۔ ابو سالم کو
ہندوستان لانے کا مسئلہ اس صدی کی ابتداء میں این ڈی اے حکومت کے لئے بہت
ہی اہم تھا۔ ابوسالم کو لانے کے لئے لاکھوں ڈالر خرچ کئے گئے۔ ابو سالم ان
کی بے وفا محبوبہ مونیکا بیدی کو ہندوستان لایا گیا لیکن ہوا کیا؟ مونیکا
بیدی نے نہ کچھ انکشافات کئے نہ ان سے کوئی راز معلوم ہوئے بس اتنا ہوا کہ
محترمہ بیدی نے ابوسالم سے علاحدگی اختیار کی پاسپورٹ کے قوانے کے تحت
مقدمہ ان پر دائر کیا گیا جو غالباً زیر دوران ہے۔ مونیکا بیدی جو ایک
زبردست مجرم کی ساتھی کی حیثیت سے لاکھوں ڈالر کے خرچ کے بعد بھارت لائی
گئی تھیں اب آزاد ہیں ایک عام شہری کی زندگی مزے سے گذار رہی ہے۔ ان پر کی
گئی محنت خرچ کی گئی دولت کس کھاتے میں گئی؟ یہ کوئی نہیں جانتا نہ ہی
رہبران قوم کو اس کی فکر ہے۔ دہشت گردی میں ملوث مسلمانوں یا پاکستان کا
معاملہ ہوتو سنگھ پریوار حکومت کی روانا روا سب معاف کردیتی ہے۔
ابو سالم کی حفاظت وصیانت پر اب بھی کافی زبردست خرچ ہورہا ہے پھر بھی جیل
میں ان پر حملے ہوتے رہتے ہیں جو جتنا بڑا مجرم ہوگا وہ جیل میں اتنا ہی
غیر محفوظ ہوگا کیا ہماری جیلوں میں ملزمین قتل کروائے جاتے ہیں یہ سوال بے
حد اہم ہے۔ پولیس مقابلوں (انکاونٹرس) کے قتل ثا بت ہونے کے بعد جیلوں میں
قتل کی وارداتیں بھی مشکوک ہوگئی ہیں۔
ابو سالم آج بھی پاسپورٹ کے قوانین کی خلاف ورزی اور معمول کی وصولی جیسے
غیر اہم مقدمات کی پیشیاں بھگتنے مخالف شہروں کا سفر ’’وی آئی پی ‘‘ کی طرح
کرتا ہے۔ لاکھوں ڈالر خرچ کرکے کیا اس کو اسی کام کے لئے لایا گیا تھا؟ نیز
آج تک پتہ نہ چلا کہ ابو سالم نے وہ کیا قیمتی انکشافات کئے جس کے لئے اس
کو اہم قرار دیا گیا تھا؟ اس حساب سے اگر داؤد ابراہیم اور حافظ سعید بھی
اگر گرفتار ہوں تو ہماری پولیس اور ایجنسیاں شائد ہی ان کے مبینہ جرائم کی
سزا فوراً دلواسکیں گی!
بات تو جب تھی کہ سارا معاملہ داؤد ابراہیم ابو سالم، چھوٹا شکیل اور ابو
سالم تک محدود نہیں رہتا بلکہ داؤد ابراہیم کے ایک اور مدد گار چھوٹا راجن
کو ہندوستان لایاجاتا ۔ چھوٹا راجن جب تک داؤ ابراہیم ہندوستان میں تھے وہ
ان کے معتمد خاص رہے ہیں کیا پتہ ممبئی سلسلہ وار دھماکوں میں ان کا ہاتھ
بھی رہا ہو وہ اب داؤد سے منحرف ہوکر ہندوتوادی بن گئے ہیں تو ان کے سارے
جرائم کیسے نظر انداز کئے جاسکتے ہیں مگر چھوٹا راجن کو تو دیش بھکتی کا
اعزاز دے کر ان کے ’’سات خون معاف کردئیے گئے ہیں‘‘۔ ’’ڈان‘‘ ہندو ہے تو
’’دیش بھکت‘‘ اور مسلمان ہوتو’’دہشت گرد‘‘! یہ کون سا انصاف ہے؟
ہندوستان کے لئے ہماری نظر میں حافظ سعید اور لکھوی سے بڑا مجرم ہیڈلی ہے
لیکن ہیڈلی تو امریکہ بہادر کی چھتر چھایہ میں محفوظ ہے اگر حافظ سعید اور
لکھوی مجرم ہیں ان کو مجرم بنانے والا ڈیوڈ ہیڈلی ہے وہ موساد اور سی آئی
اے کا بندہ ہے۔ موساد سی آئی اے کا پاکستان کی آئی ایس آئی پر ہی نہیں بلکہ
’’را‘‘پر بھی اثر ہے اب جبکہ ان شبہات کو خاص تقویت مل رہی ہے کہ 2002ء
ممبئی پارلیمان کا حملہ اور 26/11 کا ممبئی پر حملہ حکومتوں کی کارستانی
ہے۔ واضح ہو کہ آر وی ایس منی سابق انڈر سکریٹری محکمہ داخلہ حکومت ہند کے
اس بارے میں عدالت میں داخل کردہ حلف نامے کی کوئی تردید اب تک نہیں ہے تو
بھلا مرکزی حکومتوں کو آئی ایس آئی سے کام لینے کے لئے سی آئی اے اور موساد
کے کارندے ڈیوڈ ہیڈلی سے بڑھ کر موزوں فرد بھلا کہا ں ملتا ؟ لیکن ڈیوڈ
ہیڈلی کی ہماری ایجنسیوں کو کوئی فکر نہیں ہے ۔ سارا زور حافظ سعید اور
لکھوی پر کیوں ہے یہ کوئی بتاسکتا ہے۔
دہلی پولیس عامر ناکی 12سالہ لڑکے کو 14سال جیل میں رکھ کر الزام ثابت کرنے
سے قاصر رہتی ہے۔ لیاقت علی شاہ وطن میں دوبارہ آباد ہونے آتا ہے تو دہلی
پولیس اس کو برباد کرتی ہے۔ انسپکٹر موہن شرما کو قتل کرنے کے الزام میں
شہزاد احمد کو سزا دلادیتی ہے۔ افضل گرو پر الزام ثابت کئے بغیر سپریم کورٹ
کو اس طرح مطمئن کرتی ہے کہ عدالت عظمیٰ اجتماعی ضمیر کی تسلی کے لئے افضل
گرو کو تختہ دار تک پہنچادیتی ہے۔ ملزموں کو بغیر ثبوت واقعاتی شہادت کی
بناء پر سزائیں دلوانے، بلاوجہ گرفتار کرنے سالوں جیل میں رکھنے میں ماہر
ہے ساتھ ہی اکثر ماسٹر مائنڈ پر تک سالوں کی تحقیقات کے بعد بھی ثبوت پیش
نہ کرنے کی وجہ سے رہائی تو ملزم کو ملتی ہے لیکن اس کی زندگی اس کا Career
برباد ہوجاتا ہے۔ کیا اس کے لئے پولیس ذمہ دار نہیں ہے؟
ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ جس کو گرفتار کیا جاتا ہے وہ فوراً ہی اپنے سارے
جرائم کا نہ صرف اعتراف کیسے کرلیتا ہے؟ بلکہ مزید سنسنی خیز انکشافات بھی
کرتا ہے۔ کسی بھی جرائم پیشہ ، غیر قانونی اور دہشت گرد تنظیم کے کارکنوں
اور ایجنٹوں کے بارے میں یہ بات مانی جاتی ہے کہ اپنے جرائم کا اعتراف تو
دو رہا وہ اپنی شناخت تک ظاہر نہیں کرتے ہیں۔ جان دے دیتے ہیں لیکن زبان
نہیں کھولتے ہیں لیکن القاعدہ لشکرطیبہ، آئی ایس آئی کے یہ کیسے ایجنٹ ہیں
کہ اپنی شناخت کے ثبوت، پاسپورٹ، اقارب کے نام و پتے ہی نہیں بلکہ پاکستان
کی اشیائے خوردونوش بھی ساتھ میں رکھتے ہیں۔ کشمیر کے لیاقت شاہ تو پاکستان
سے دہشت گردی کرنے آئے تو معہ اہل و عیال کے آئے۔ عبدالکریم ٹنڈا بھی
پاسپورٹ ساتھ لانا نہ بھولے۔ اب تک ہم نے یہی سنا ہے کہ دہشت گرد،تخریب کار
اور جاسوس پاسپورٹ لے کر ویزا حاصل کرکے سفر نہیں کرتے ہیں۔ اب یا تو سارے
دہشت گرد انتہائی احمق ہیں غیر محتاط ولاپرواہ ہیں یا ہماری پولیس میڈیا کی
مدد سے من گھڑت کہانیاں سناتی ہے۔ سچ کیاہے؟ یہ فیصلہ آپ کریں۔
ابو جندال اور انجینئر فصیح الدین کو بھی ہم نے سعودی عرب سے بڑے طمطراق سے
حاصل کیا۔ ان دونوں کی سعودی عرب سے واپسی کے تعلق سے سرکاری ایجنسیوں نے
جو بیانات دئیے ہیں ان پر نہ صرف ابہام کے پردے پڑے ہوئے ہیں اور سعودی عرب
کے حالات و قوانین سے واقف اصحاب کے لئے سرکاری بیانات ناقابل فہم ہیں۔
ابوجندال کا پولیس کا مخبر ہونا اور فصیح الدین کا ملک اور بیرون ملک بے
داغ ریکارڈ سرکاری بیانات کی نفی کرتے ہیں۔ ابو جندال اور بہت پہلے مشتاق
میمن اور عبدالکریم ٹنڈا اور دیگر دہشت گردوں کی آمد، اعترافات، انکشافات
سے کیا فائدہ ہوا۔ کونسا نظام دہشت گردی گرفت میں آیا۔ دہشت گردوں کے مقامی
مدد گاروں کے بارے میں تاحال کچھ معلوم نہ ہوسکا۔ حکومت اور میڈیا یہ چاہتا
ہے کہ عوام عقل کے دروازے بند کرکے ان کو جو کچھ دکھایا جائے، پڑھوایا جائے
اور سنایا جائے وہ اس پر آنکھ بند کرکے مکمل یقین کریں اور سوالات نہ
اٹھائیں لیکن یہ ممکن نہیں ہے جبکہ اب تک نہ انڈین مجاہدین کا وجود ثابت
ہوا ہے ۔ دہشت گردی کے بہت کم ملزموں پر الزامات ثابت ہوئے ہیں۔ دہشت
گردانہ حملوں کے خدشات و خطرات جو یوم آزادی و جمہوریہ، تہواروں اور عیدوں
کے مواقع پر ظاہر کئے جاتے ہیں غلط ثابت ہوئے ہیں۔ آخری بات عبدالکریم ٹنڈا
اپنا جو مقام و مرتبہ بتاتا ہے کیا اس مقام و مرتبہ کا آدمی اس عمر میں یوں
بے یارو مدد گار چھوڑ دیا جاتا ہے؟
سرکاری طور پر دہشت گردی کے حوالے سے گرفتاریوں، مقدمات بلکہ غلط بیانیوں
اور میڈیا کی لن ترانیوں کا سلسلہ فوراً بند ہونا چاہئے۔ |