حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی ؒ اپنی تصنیف حیات
الصحابہؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت سلمان ؓ نے فرمایا اس دنیا میں مومن
کی مثال اس بیماری جیسی ہے جس کا طبیب اور معالج اس کے ساتھ ہو جو اس کی
بیماری اور اس کے علاج دونوں کو جانتا ہوجب اس کا دل کبھی ایسی چیز کو
چاہتا ہے جس میں اس کی صحت کا نقصان ہو تو وہ معالج اسے اس سے منع کر دیتا
ہے اور کہہ دیتا ہے کہ اس کے قریب بھی نہ جاؤ کیونکہ تم نے اگر اسے کھا لیا
تو یہ تمہیں ہلاک کر دے گی ۔اسی طرح یہ معالج اسے نقصان دہ چیزوں سے روکتا
رہتا ہے یہاں تک کہ وہ بالکل تندرست ہو جاتا ہے اور اس کی بیماری ختم ہو
جاتی ہے اسی طرح مومن کا دل بہت سی ایسی دنیاوی چیزوں کو چاہتا رہتا ہے جو
دوسروں کو اس سے زیادہ دی گئی ہیں لیکن اﷲ تعالیٰ موت تک اسے ان سے منع
کرتے رہتے ہیں اور ان چیزوں کو اس سے دور کرتے رہتے ہیں اور مرنے کے بعد
اسے جنت میں داخل کر دیتے ہیں -
حضرت سلمان فارسی ؓ نے فرمایا جب اﷲ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ بُرائی اور
ہلاکت کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس سے حیا نکال لیتے ہیں اس کا نتیجہ یہ ہوتا
ہے کہ تم دیکھو گے کہ لوگ بھی اس سے بغض رکھتے ہیں جب وہ ایسا ہو جاتا ہے
تو پھر اس سے رحم کرنے اور ترس کھانے کی صفت نکال دی جاتی ہے جس کا نتیجہ
یہ ہوتا ہے کہ تم دیکھو گے کہ وہ بد اخلاق ،اکھڑ طبیعت اور سخت دل ہو گیا
ہے جب وہ ایسا ہو جاتا ہے پھر اس سے امانتداری کی صفت چھین لی جاتی ہے جس
کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تم دیکھو گے وہ لوگوں سے خیانت کرتا ہے اور لوگ بھی
اس سے خیانت کرتے ہیں جب وہ ایسا ہو جاتا ہے تو اسلام کا پٹہ اس کی گردن سے
اتاڑ لیا جاتا ہے اور پھر اﷲ اور اس کی مخلوق بھی اس پر لعنت کرتی ہے اور
وہ بھی دوسروں پر لعنت کرتا ہے۔
قارئین آج کے کالم کا عنوان دیکھ کر آپ یقینا چونک گئے ہوں گے لارڈ نذیر
احمد کا تعارف کروانے کی ضرورت نہیں اور ان کے کارہائے نمایاں دوہرانے کی
بھی کوئی ضرور ت نہیں ہے آزادکشمیر اور پاکستان کا ہر شہری ان کے کارناموں
اور امت مسلمہ کیلئے افریقہ سے لے کر امریکہ تک اور برطانیہ سے لے کر
ایشیاء تک کی جانے والی جدوجہد سے اچھی طرح آگاہ ہے ہاں ’’سُپاری ‘‘کا لفظ
شاید کچھ لوگوں کے لیے نیا ہو اور جو لوگ اس لفظ سے آشنا ہوں وہ یقینا اپنے
ذہن میں ایک سوالیہ نشان محسوس کر رہے ہوں گے کہ اس لفظ کا لارڈ نذیر احمد
کے ساتھ کیا تعلق ہے ۔آج سے چار وزراء اعظم قبل کی بات ہے کہ سردار عتیق
احمد خان مسلم کانفرنس کی تقریباً دو تہائی اکثریت کے ساتھ آزادکشمیر کے
سیاہ و سفید کے مالک ہوا کرتے تھے ۔سردار عتیق احمد خان وزیراعظم ہونے کے
ساتھ ساتھ مسلم کانفرنس کے صدر بھی تھے اور دو درجن کے قریب وزراء پر مشتمل
کیبنٹ کے باوجود ان کے متعلق یہ تاثر عام تھا کہ وزراء تو بس نام کے ہیں
تمام وزارتوں کے اہم ترین فیصلے وزیراعظم سردار عتیق احمد خان کرتے ہیں ۔راجہ
فاروق حیدر خان ،شاہ غلام قادر اور ان سب سے سینئر مجاہد اول سردار
عبدالقیوم خان کے ہم نوالہ و ہم پیالہ اور ہم عصر سالار جمہوریت سردار
سکندر حیات خان سمیت مسلم کانفرنس کے ایک بہت بڑے گروپ میں احساس محرومی
اور عدم تحفظ کے احساسات کچھ اس طریقے سے اجاگر ہوئے کہ مسلم کانفرنس واضع
طور پر دو دھڑوں میں بٹ گئی ۔اس تمام منظر نامے میں پاکستان پیپلزپارٹی جن
کے دو سرکردہ رہنما چوہدری عبدالمجید اور بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اپنی
علیحدہ علیحدہ حیثیت رکھنے کے باوجود اسمبلی میں اقلیتی حیثیت رکھتے تھے اس
دوران اچانک لارڈ نذیر احمد نے برطانیہ سے آزادکشمیر اور پاکستان کا ایک
طوفانی دورہ کیا اس طوفانی دورے کے نتیجہ میں مسلم کانفرنس میں بغاوت ہوئی
اور سردارعتیق احمد خان وزارت عظمیٰ سے محروم ہو گئے ۔بعدا زاں اسی اسمبلی
نے سردار یعقوب خان ،راجہ فاروق حیدر خان اور دوبارہ سردار عتیق احمد خان
کو وزیراعظم کی حیثیت سے منتخب کیا ۔اس اسمبلی کو آزادکشمیر کی پارلیمانی
تاریخ کی بد نام زمانہ ترین اسمبلی بھی کہا جا سکتا ہے اور انہی بندر کی
طرح لگائی جانے والی ’’ اصولی و نظریاتی قلا بازیوں ‘‘سے نالاں ہو کر سابق
صدر غازی ملت سردار ابراہیم خان کے صاحبزادے سردار خالد ابراہیم خان نے
اسمبلی سے استعفیٰ دے دیا اور اصولی موقف کی ایک سنہری مثال پیدا کی ۔’’
سُپاری ‘‘کا لفظ ہندوستان میں انڈر ورلڈ میں استعمال کیا جاتا ہے اور
بھارتی ڈراموں اور فلموں میں اس لفظ کے متعلق بہت سی داستانیں فلم بند بھی
کی گئی ہیں ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی قاتل یا مجرم کسی بھی قتل یا جرم
کے لیے ایک پارٹی سے مخصوص رقم وصول کرتا ہے اور وہ کام کر گزرتا ہے جس کے
لیے اسے ادائیگی کی جاتی ہے ۔لارڈ نذیر احمد نے جس انداز میں آزادکشمیر کی
سیاست کے اندر ہمیشہ ایک موثر ترین اور ٹرننگ انداز اختیار کیا اس پر ان کے
ناقدین نے یہ الزام عائد کرنا شروع کر دیا کہ خدانخواستہ لارڈ نذیر احمد ’’
سُپاری ‘‘پکڑ کر کسی بھی حکمران کے تاج و تخت کا ’’ دھڑن تختہ ‘‘کر سکتے
ہیں اور وہ آزادکشمیر میں ایسا کر رہے ہیں یہ ان کے مخالفین اور ناقدین کے
وہ الزامات تھے جو پرائیویٹ محافل اور میڈیا پر مختلف انداز میں آتے رہے ۔راقم
ان ’’ نادر خیالات ‘‘ سے کسی بھی قسم کا اتفاق نہیں رکھتا لیکن ایسا ضرور
ہوا کہ راقم کے لارڈ نذیر احمد سے قریبی تعلقات کی وجہ سے متعدد بار ہم نے
انہیں یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ اﷲ بزرگ و برتر نے انہیں جو مقام عطا
کر رکھا ہے اس کے پیش نظر انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ان کے کندھوں پر بہت
بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور برطانوی ہاؤس آف لارڈ ز کے پہلے تاحیات
مسلمان رکن ہونے کی حیثیت سے انہیں چاہیے کہ وہ پوری امت مسلمہ کو پیش بڑے
بڑے چیلنجز کے حوالے سے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ اعلیٰ مقام کو اعلیٰ
ترین مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کریں ۔آزادکشمیر کی سیاست ایک انتہائی
چھوٹا فورم ہے اور اس میں انہیں چاہیے کہ تمام سیاسی جماعتوں اور شخصیات کے
ساتھ یکساں تعلقات رکھیں اور ’’بزرگ یا گاڈ فادر ‘‘کا کردار ادا کرتے ہوئے
تحریک آزادی کشمیر کے لیے اپنا رول ادا کریں کیونکہ آزادکشمیر میں کسی بھی
ایک سیاسی شخصیت یا ایک سیاسی جماعت کی حمایت اور باقی لوگوں کی مخالفت
کرنے سے لارڈ نذیر احمد ایک متنازعہ شخصیت بن کر رہ جائیں گے اور پھر ان کے
متعلق الزامات در الزامات اور نفرت در نفرت کی ایک ایسی فضاء قائم ہو گی کہ
جس سے ان کی اصل منزل کھوٹی ہونے کا اندیشہ ہے ۔راقم نے اپنے دوستوں سٹی
فورم کے چیئرمین ڈاکٹر سی ایم حنیف ،پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر
ڈاکٹر ریاست علی چوہدری ،پاکستان ڈینٹل ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر طاہر
محمود اور دیگر کے ہمراہ متعدد مواقع پر علمی سمینار ز بھی منعقد کروائے جن
میں لارڈ نذیر احمد نے انتہائی علمی مقالہ جات پیش کیے جس سے انٹلیکچول
طبقے میں لارڈ نذیر احمد کی شخصیت مزید ابھر کر سامنے آئی اور اہل وطن کو
یہ سمجھنے کا موقع ملا کہ لارڈ نذیر احمد کیا فلاسفی رکھتے ہیں اور ان کی
پرواز کی نوعیت کیا ہے لارڈ نذیر احمد نے کمال مہربانی کرتے ہوئے راقم کے
خیالات سنے اگرچہ ’’چھوٹا منہ بڑی بات ‘‘ہونے کے مصداق ہم نے ان سے کسی بھی
دل شکن بات کی پہلے ہی معذرت کر لی ۔لارڈ نذیر احمد نے راقم سے اصولی اتفاق
کیا کہ انہیں چھوٹے چھوٹے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے ۔نتیجہ
یہ نکلا کہ انہوں نے مجاہد منزل کا دورہ کیا اور مسلم کانفرنس کی قیادت سے
اپنے تعلقات درست کیے ۔پیپلزپارٹی کی قائد محترمہ بے نظیر بھٹو شہید سے
زمانہ جلا وطنی سے ہی ان کے دوستانہ مراسم تھے صدر پاکستان آصف علی زرداری
سے بھی انہوں نے ایک دورے کے دوران خصوصی ملاقات کی اور میرپور میں میڈیکل
کالج کے قیام کی منظوری کروائی یہ خبریں نیشنل میڈیا پر رپورٹ ہوتی رہیں ۔لارڈ
نذیر احمد میرپور سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا تعلق جاٹ قبیلے کے ساتھ ہے
اور روز اول سے ہی وہ سابق وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے سیاسی
حلیف اور برطانیہ میں ان کے سب سے بڑے سپورٹر گردانے جاتے ہیں ۔برطانوی
ہاؤس آف لارڈز میں ایک انتہائی اہم مقام ہونے کی وجہ سے لارڈ نذیر احمد
پاکستان کی تمام فوجی اور جمہوری حکومتوں کے علاوہ تمام سیکورٹی ایجنسیز سے
انتہائی قریبی مراسم اور تعلقات رکھتے ہیں ۔لارڈ نذیر احمد کے ناقدین اور
مخالفین کا یہ بھی الزام ہے کہ وہ برادری ازم اور بیرسٹر سلطان محمو د
چوہدری سے قریبی دوستی نبھاتے ہوئے ہمیشہ انہیں وزیراعظم بنوانے کے لیے
لابنگ کرتے رہے اور اب بھی لابنگ کر رہے ہیں ۔یہاں پر ہم آپ کو یہ بھی یاد
دلاتے جائیں کہ موجودہ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف اور وزیر اعلیٰ
پنجاب میاں محمد شہباز شریف لارڈ نذیر احمد کے انتہائی قریبی دوستوں میں سے
ہیں ۔لارڈ نذیر احمد ایک مرتبہ پھر آزادکشمیر اور پاکستان کے ایک طوفانی
دورے پر تشریف لا چکے ہیں راقم سے ان کی گفتگو بھی ہوئی اور تمام میڈیا پر
ان کی میاں محمد نواز شریف وزیراعظم پاکستان سے ہونے والی ملاقات کی
تفصیلات آچکی ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق میاں محمد نواز شریف نے ان سے
آزادکشمیر کے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید اور ان کی حکومت کی کرپشن کے ثبوت
طلب کیے ہیں ۔چوہدری عبدالمجید نے لارڈ نذیر احمد کو اس وقت آزادکشمیر میں
’’ ناپسندیدہ شہری ‘‘قرار دیا تھا جب انہوں نے صدر آصف علی زرداری کے قریبی
دوست ذوالفقار مرزا کے ساتھ مل کر ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے خلاف
برطانیہ میں آواز بلند کی تھی اس وقت ایم کیو ایم پیپلزپارٹی کے ساتھ حکومت
میں شامل تھی ۔یہ نفرت اتنی بڑھی کہ آج ’’پنڈورا باکس ‘‘دوبارہ کھل چکا
ہے۔لارڈ نذیر احمد نے راقم کو بتایا کہ وہ لائن آف کنٹرول نکیال سیکٹر میں
بھارتی گولہ باری سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کر کے کشمیری بہن بھائیوں کے
ساتھ اظہار یکجہتی کرنے کے بعد اسلام آباد اور لاہور میں اہم ترین ملاقاتوں
کے بعد برطانیہ واپس چلے جائیں گے ۔ان اہم ترین ملاقاتوں سے ہمیں محسوس
ہوتا ہے کہ آزادکشمیر میں ایک مرتبہ پھر تبدیلی کا عمل وقوع پذیر ہو سکتا
ہے سابق وزیراعظم اور قائد مسلم لیگ ن آزادکشمیر راجہ فاروق حیدر خان اور
ڈپٹی اپوزیشن لیڈر چوہدری طارق فاروق پہلے ہی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اور
ایف ایم 93ریڈیو آزادکشمیر کے مقبول ترین پروگرام ’’لائیو ٹاک ود جنید
انصاری ‘‘میں استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان کی معیت میں گفتگو کرتے ہوئے
چوہدری عبدالمجید وزیراعظم آذادکشمیر اور ان کی حکومت پر کرپشن کے سنگین
الزامات عائد کرتے ہوئے سیاسی تبدیلی پر زور دے چکے ہیں اور وہ 26جون
2011کے انتخابات کو دھاندلی کے الزامات سے نوازتے رہے ہیں ۔بیرسٹر سلطان
محمود چوہدری کے گروپ کی جانب سے پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد اگرچہ
وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے اصولی موقف اور مخالف پارٹی کے
مینڈیٹ کو تسلیم کرنے کی وجہ سے وقتی طور پر ناکام ہو چکی ہے لیکن لارڈ
نذیر احمد کا یہ طوفانی دورہ کچھ بھی کر سکتا ہے ۔
بقول شاعر
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
آخر میں حسب روایت ایک ادبی لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک شاعر سے کسی نے دریافت کیا
جناب آپ نے یہ نظم مسلم لیگ کے حق میں لکھی ہے یا کانگرس کے حق میں ۔۔۔؟
شاعر موصوف نے برجستہ جواب دیا
’’ صاحب میں تو ایک درزی جیسا ہوں میرا کام ٹوپیاں سینا ہے جس کے سر پر
پوری آجائے سمجھیں اسی کے لیے سی ہے ‘‘
قارئین ہم آج بھی انتہائی دیانتداری کے ساتھ سمجھتے ہیں کہ لارڈ نذیر احمد
کا ’’ مرتبہ اور مقام ‘‘بہت بلند ہے اور ان کا کام آزادکشمیر جیسے ایک
علاقے کی حکومت کے وزیراعظم کے لیے ’’ تخت ،تختہ یا ٹوپیاں ‘‘تیار کرنا
نہیں ہے اور ’’ سُپاری ‘‘جیسا بے ہودہ الزام ان کی شخصیت پر ایک دھبے جیسا
ہے۔ان کے حالیہ دورے سے چوہدری عبدالمجید کی وزارت عظمی جائے یا نہ جائے
لیکن ’’ پنڈورا باکس ‘‘ کھل چکا ہے ۔ |