کائنات کے نقشے پر دو ریاستیں
ایسی ہیں جو خالصتاً مذہبی اور نظریاتی بنیادوں پر معرضِ وجود میں آئیں۔
ایک کا نام اسرائیل ہے جو فرزندانِ توحید کے قبلہ اوّل فلسطین اور اہلِ قدس
کے خون سے کھیل کر زبردستی بنائی گئی اور دوسری ریاست مدینہِ ثانی اسلامی
جمہوریہ پاکستان۔ اسرائیل کو یہودیت اور نصرانیت کے مشترکہ مقاصد کے حصول
کے لئیے اہلِ مغرب کی غیر مشروط حمایت حاصل رہی اور پاکستان کو پہلے دن سے
ہی خطرات، عدمِ استحکام اور قتل و غارت گری کا مرکز بنانے کی کامیاب کوششیں۔
جو قومیں اپنی داخلی صفوں میں منتشر ہو جائیں ان کے ہتھیاروں کی چمک ضرور
قائم رہتی ہے مگر ان کے ہاتھوں میں ہمت ختم ہو جاتی ہے۔ فرقہ پرستی اور شدت
پسندی پاکستان کے وجود سے پہلے ہی ہندوستان کے مسلمانوں میں رچ بس چکی تھی،
صدیوں سے جاری روایات، علمأ و مشائخِ حرمین طیبین اور اسلاف کے عقائد پر
مذموم حملے مسلمان کہلوانے والے مولویوں نے ہی کئیے مگر انگریز کی گود میں
بیٹھ کر۔ انگریز نے یہ جنگ بیک وقت حجازِ مقدس، خلیج عرب اور ہندوستان کی
ریاستوں میں منظم انداز سے شروع کی، اسی سازش کے نتیجے میں سعودی عرب قائم
ہوا، پھر بالا کوٹ کی جنگ، اسلام کو جھوٹی تقویت دینے کے لئیے کتب کی تصنیف،
اہلِ حق کو مشرک و بدعتی، نبی آخر الزمان ﷺ کے بارے میں اسلاف کے متفقہ
عقائد پر حملہ، ختمِ نبوت کے عقیدے کو مشکوک کئیے جانے، اور غیر مقلدیت
جیسے فتنوں نے سر اٹھایا۔ دعوت و توحید کے لئیے انگریز سرکار سے سرٹیفیکیٹ
حاصل کئیے گئے۔
یہ بات اب گھس پٹ چکی ہے مگر ہم اسے نظر انداز اس لئیے نہیں کر سکتے کہ یہ
قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔ آج پاکستان کے حکومتی ایوانوں میں بڑی توندوں
والے مولویوں کے اجداد نے تحریکِ پاکستان کی کھلے عام مخالفت کی، کافرستان،
کافر اعظم اور گناہِ کبیرہ سے پاکستان کو تشبیہ دی گئی تو کسی نے بعدِ مرگ
پاکستان میں دفن نہ کئیے جانے کی وصیت کی۔ آج انہی کی اولاد ڈیزل کے پرمٹ،
سستے داموں زمین، لمبی لگزری گاڑیوں اور اسلام آباد کی اصل رونق بن چکی ہے۔
فطری طور پر شاطر المزاج، منافق اور علمأ سؤ کی اس نسل کے بڑوں نے تحریک
پاکستان کی مخالفت کی تو آج ان کی فکری اولاد وجود پاکستان مٹانے کے در پر
ہے۔ کسی نے ریال جمع کئیے تو کسی نے ڈالر اور یورو کی پوجا کی، کوئی جہاد
کے لئیے چندے جمع کرتا رہا اور کچھ نے ویلفئیر فاؤنڈیشنز بنا کر پیٹ بڑا
کیا۔ امن وسلامتی والے دیس میں جہاد جیسے عظیم کام کو فساد اور فتنہ کے
ذریعے داغدار کر دیا، افغانستان کے جہاد کے نام پر ضیأالحق کا ساتھ دے کر
ان مولویوں نے اگلے دس سالوں کی روٹیاں جمع کیں، جب اناج ختم ہو گیا تو
جہادِ کشمیر کے نام پر پھر چندہ جمع کرنا شروع کیا۔ کشمیر کو ٓزادی تو نصیب
نہ ہوئی البتہ صورتحال پہلے سے ابتر ضرور ہو گئی۔ جب بین الاقوامی ایجنسیوں
کے دباؤ پر اور کنٹرول لائن پر سخت حفاظتی اقدامات کی وجہ سے ان دہشت گردوں
کا کشمیر میں داخلہ بند ہوا تو پاکستان کے اندر محاذ کھول دئیے گئے اور اب
ان دہشت گردوں کو تحریکِ طالبان کے جدید نام سے جانا جاتا ہے۔
6 ستمبر پاکستان کا یومِ دفاع منایا جاتا ہے، اسلام آباد اور راولپنڈی کی
سڑکوں پر خوفناک شکلوں کے ساتھ یہ سابقہ جہادی موجود تھے۔ جو افواجِ
پاکستان کی حمایت میں نعرے لگا رہے تھے، تاریخ کا ایک طالبعلم ہونے کے ناطے
میں نہیں بھولا کہ اس گروہ میں سمیع الحق نام کے ایک صاحب موجود تھے جو
پاکستان کی سیاسی و مذہبی دنیا میں سرگرم رہتے ہیں، یہ صاحب خود کو طالبان
کا باپ کہتے ہیں، تو پھر ان کی اولاد افواجِ پاکستان اور عوام پاکستان کے
خون سے کیوں کھیل رہی ہے؟ حافظ سعید کی لشکر طیبہ کہاں گئی؟ حرکۃ الجہاد،
سپاہِ صحابہ، لشکر جھنگوی اور دیگر کئی کالعدم تنظیموں کی نمائندگی اس جلوس
میں تھی، سابق جرنیل حمید گل کی روح بھی وہیں دھکے کھا رہی تھی، حمید گل
صاحب جب آپ آئی ایس آئی کے سربراہ تھے اس وقت پاکستان کے دفاع میں کون سے
رکاوٹ تھی جو اب آپ کو جہاد کے شوق نصیب ہوئے؟ یا پھر آپ کو بھی کیمرہ کے
سامنے رہنے کا شوق ہے؟ مذکورہ سطور میں جتنی تنظیموں یا ان کے نمائندوں کا
میں نے ذکر کیا یہ سب کے سب کشمیر آزاد کروانا چاہتے ہیں مگر منافق ہمیشہ
دو مونہا ہوتا ہے، یہ آزاد ملکِ شام کو امریکہ کے حوالے کرنا چاہتے ہیں،
جہاں سے ان کی ڈور ہلتی اور امداد ملتی ہے وہ امریکہ کے ترلے اور منتیں کر
رہے ہیں کہ شام پر حملہ کیا جائے۔ میرا سوال یہ ہے کہ تم مجاہد بھی ہو،
دلیر بھی ہو، تمہارے پاس ریال بھی ہیں اور دینار بھی، ڈیزل بھی ہے اور
پٹرول بھی، جنگی سامان و آلات بھی ہیں تو خود کیوں نہیں لڑتے شام میں؟
کشمیر اور پاکستان کے لئیے تمہارا معیار الگ ہے اور شام کے لئیے الگ؟؟؟
اے اسلام کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے والو!
یاد رکھو، ریال اور دینار دائمی نہیں ہیں، پٹرول کو بقا نہیں ہے، ڈیزل ختم
ہو جانے والا ہے، مظلوم کی بد دعا تمہیں لے ڈوبے گی، تم نے افغانستان اور
کشمیر کے نام پر اسلامیانِ پاکستان کا مستقبل تاریک کر دیا، مگر۔۔۔ یہ
خوارج کا تکفیری گروہ ہے، ہندوستان کے بعد اب مصر اور شام کے مسلمان بھی
مشرک نظر آنے لگے ہیں، وہاں بھی تمہیں بدعتی نظر آنے لگے ہیں، اب مدفونینِ
جنت البقیع کی طرح شام، مصر اور لیبیا میں مدفون مشائخ و صالحین کی قبور
شہید کی جائیں گی، مزارات شہید ہوں گے، مساجد منہدم ہوں گی، نظریہ ضرورت کے
تحت سگی بہنوں سے تم نکاح جائز قرار دو گے، نکاحِ مسیار جائز ہو گا ( یہی
نکاح اگر اہل تشیع کریں تو متعہ کہہ کر حرام ہوتا ہے)، اب تم اہلِ عرب کو
کافر مشرک کہو گے اور ۔۔۔ یوں اسلام اور مسلمان لڑ لڑ کر مٹیں گے ۔۔۔ مگر
۔۔۔ اسرائیل مضبوط ہو گا، کافر خوش ہو گا، تمہاری یہودی آقا یہی چاہتے ہیں،
تم یورپی محبوباؤں کو ہیرے کے ہار پہناؤ، خلیجِ عرب میں بلا کر اپنی جوان
بیٹیوں کے رقص دکھاؤ، جام چھلکاؤ ، یورپ کے ٹھنڈے ساحلوں پر موج کرو ، اپنے
ذاتی جہاز خریدو، درجنوں بیویاں رکھو، بیسیوں شہزادوں اور شہزادیوں کے باپ
بنو مگر فلسطین جلتا رہے گا، قبلہ اول آباد نہیں ہو گا، کشمیر کی جنت میں
ہندو کا راج رہے گا، برما میں بدھ مت کے ظلم کا جواب تم نہیں دو گے، بنگلہ
دیش کی سڑکوں پر بہتا ہوا خون تم نہیں دیکھو گے، غربت کی وجہ سے مسلمان
بیٹیاں اپنے والدین کے گھر بیٹھی بوڑھی ہو جائیں گی تمہارے محلات میں خدام
کی تنخواہیں ڈالروں میں ہوں گی مگر عین اسی لمحے تمہارے ہی دیس کے کسی کونے
میں ایک مسلمان بیٹی تمہاری فکری اولاد کی درندگی کا شکار بن رہی ہوتی ہے
۔۔۔ تم یہ سب کچھ کر سکتے ہو کیونکہ تمہیں لے پالک مولویوں کی تائید حاصل
ہے، یہ مولوی بغیر دیکھے اور غیر مشروط تعاون پیش کر رہے ہیں، ان کی لالچ
گاہ تو ریالوں سے بھری پڑی ہے۔
اے سادہ لوح مسلمانو!
تمہارے لئیے لمحہ فکریہ ہے، وہ جہاد نہیں عنڈ ِ فساد ہے کہ جس کا معیار شام
میں الگ ہو اور کشمیر میں الگ، جو دفاع پاکستان کی ریلی تو نکالے مگر اپنی
اولاد طالبان کو نہ روکے، جو اسلام کے نفاذ کا علم تو اٹھائے مگر اہلِ
اسلام کو کافر و مشرک قرار دے، جو شہادت کی ترغیب تو دلائے مگر شہدأ کی
قبور کی بے حرمتی کرے، جو محافظ کی شکل میں ڈاکو بن جائے، جو اپنے وطن کی
عزت پر ریال کو ترجیح دے، جو ڈالر لے کر حکمرانی کے خواب دیکھے ۔۔۔ یہ سب
ہمارے محافظ نہیں ہیں سانپ ہیں ۔۔۔۔ سانپ ۔۔۔۔ میٹھے زہر والے ۔۔۔۔ جاگ
مسلمان ۔۔۔ اپنے اس میٹھے زہر والے سانپ کا سر کچل دے ۔۔۔ سانپ تیرے
رکھوالے بنے ہوئے ہیں، سانپ مسخر ہو جانے کے بعد بھی دشمن ہی ہے۔
https://www.facebook.com/iftikharulhassan.rizvi |