محبت چیختی رہتی ہے پکارتی رہتی
ہے، راہ دیکھتی رہتی ہے، ہارتی نہیں، محبت میں بڑا صبر ہے حوصلہ ہے، عاجزی
ہے، رات کے دو بجے وہ سڑک پر ننگے پاؤں شدید سردی میں کیا کر رہی تھی انیل
ایک ہندو ٹیکسی ڈرائیور رات کو ٹیکسی چلا کر اپنے کنبے کے حسین خواب خریدنے
میں لگا ہوا تھا ڈالر کمانے کے لالچ نے اسکی آنکھوں کے تلے حلقے ڈال دئے
تھے جاگ جاگ کر اسکی آنکھیں نشہ کرنے والے جیسی ہوگئی تھیں وہ تو سواری کی
تلاش میں تھا اور یہ لڑکی اس بارش اور سردی میں نیم برھنہ حالت میں ٹیکسی
کو ہاتھ دے رہی تھی۔ انیل رک گیا کیونکہ اسے تو سواری مل رہی تھی ۔ کہاں
جائیں گی آپ انیل نے پوچھا لڑکی گاڑی میں بیٹھ گئی وہ ۔۔۔۔وہ مجھے ۔۔۔۔فیملی
بار لے چلو پیسے ہیں آپ کے پاس انیل نے دھیمی آواز میں پوچھا ۔۔۔۔ہاں لڑکی
نے پرس میں سے پیسے نکال کر دیکھائے۔ وہ بار بار کسی کو فون کرنے کی کوشش
میں تھی اور رابطہ نہیں ہو رہا تھا۔ فیملی بار جو شہر کی مشہور سڑک پر
واقعہ تھا شراب خوروں سے بھرا ہوا تھا، شرابی ناچ رہے تھے شور کر رہے تھے
بوس و کنار میں مصروف تھے، وہ انگریز لڑکی ان سب سے بے نیاز بار میں کسی
کو تلاش کرنے لگی اور پھر مایوس ہو کر واپس ٹیکسی میں آ گئی ۔۔۔۔۔۔۔مجھے
شہر کے سارے مشہور باروں میں لے جاؤ یہ لو سو ڈالر اگر کم پڑے تو اور دوں
گی ، انیل خوش ہوا کہ سواری اچھی ملی ہے چلو دیہاڑی بن گئی اور پھر وہ اسے
مختلف باروں کی سیر کروانے لگا مگر ہر بار سے وہ مایوس باہر آتی پھر اس نے
ٹیکسی ڈرائیور سے کہا کہ مجھے گھر چھوڑ دو انیل خوش ہوا کہ چلو جان چھوٹی
دوسری سواری دیکھتے ہیں اس نے اس انگریز لڑکی کو گھر چھوڑ دیا اور پھر فون
پر اپنے ایک مسلمان ٹیکسی ڈرائیور دوست علی کو قصہ سنانے لگا کہ کس طرح اس
نے سو ڈالر کمائے حالانکہ پچاس بنتے تھے لیکن اترتے ہوئے نہ اس نے پیسے
واپس مانگے نہ میں نے دئیے ۔ علی ایک طالب علم تھا اور فارغ اوقات میں
ٹیکسی چلاتا تھا تاکہ اپنے پڑھنے کے اخراجات پورے کر سکے نمازی پرہیزگار
اور اچھے گھر کا لڑکا تھا، عجیب اتفاق کہ اس رات اسی انگریز لڑکی نے اسے
بھی ہاتھ دیا اور کسی بار میں جانے کا کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔علی لڑکی کا حلیہ اور
پریشانی دیکھ کر دل ماندہ ہوگیا لڑکی نے کہا میرے پاس کیش نہیں ہے میں
تمہیں کریڈٹ کارڈ سے پیسے دوں گی علی نے کہا آپ پیسوں کی فکر چھوڑیں بتائیں
آپ کو کام کیا ہے اور میں کیسے آپ کی مدد کر سکتا ہوں۔۔۔۔انگریز لڑکی رو
پڑی ۔۔۔۔۔میرا خاوند کسی بار میں نشے میں دھت پڑا ہے اور اسے ڈھونڈ کر گھر
واپس لانا ہے اس نے مجھے فون کیا ہے کہ ڈارلنگ مجھے لے جاؤ ورنہ میں مر
جاؤں گا ۔۔۔۔۔علی نے کہا کیا آپ اس سے پہلے ٹیکسی پر سارے بار پھر چکی ہیں
۔۔۔۔ہاں ۔۔۔۔علی کہانی سمجھ گیا اور اسے انیل پر غصہ آنے لگا کہ ایک مجبور
کو پیسوں کے لالچ میں خراب کیا ۔ کیا میں آپکے خاوند کی کوئی تصویر دیکھ
سکتا ہوں ۔۔۔۔۔ہاں ۔۔۔ہاں لڑکی نے فوراً پرس سے تصویر نکال کر دی، علی نے
لڑکی سے کہا کیا تمہارے پاس اسکا موبائل نمبر ہے ۔۔۔۔۔ہاں یہ رہا ، علی نے
اپنے موبائل سے نمبر ڈائل کیا تو آگے سے کوئی ٹھیک ٹھاک جواب دے رہا تھا
علی نے کہا مجھے آپ تک ایک چیز پہچانی ہے آپ کہاں ہیں اس نے کہا چیز کیا ہے
علی نے کہا ایک ہزار ڈالر ہے جو آپ کے ایک دوست نے مجھے دیا ہے اور میں ایک
ٹیکسی ڈرائیور ہوں۔۔ کیا وہ دوست رچرڈ تھا ۔۔۔۔۔جی ہاں ۔۔۔رچرڈ ۔۔۔۔۔اچھا
تم کالٹن ہوٹل کے کاؤنٹر پر دے جاؤ اور کہنا کہ کمرہ نمبر 333 میں پہنچا
دیں۔ انگریز لڑکی پوچھنے لگی کیا کہہ رہا تھا علی نے کہا ابھی خود جا کر
دیکھ لینا۔۔۔۔ لڑکی بولی میں تمہاری بہت مشکور ہوں تمہارا تعلق کس ملک سے
ہے علی نے کہا پاکستاں سے لڑکی نے حیرت سے علی کو دیکھا جیسے اسے یقین نہیں
آ رہا تھا۔ جب وہ ہوٹل پہنچے تو علی نے کہا تمہارا خاوند کمرہ نمبر 333 میں
موجود ہے جاؤ جا کر اسے لے آؤ میں نیچے انتظار کرتا ہوں۔ لڑکی خوشی خوشی
لفٹ پر سوار ہو کر اوپر گئی۔ علی جانتا تھا کہ گورے اپنی بیویوں کو بڑے
دھوکے دیتے ہیں اور غیر عورتوں کے ساتھ عیس و عشرت منانے کے لئے اپنی
بیویوں سے اکثر جھوٹ بولتے ہیں اس لئے وہ ہونے والے ڈرامے کے لئے خود کو
تیار کرنے لگا ۔ تھوڑی دیر میں انگریز عورت واپس آئی تو علی کے گلے لگ کر
رونا شروع ہو گئی اور روتے روتے اسکے قدموں میں لیٹ گئی ۔۔۔۔۔وہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس تم مجھے گھر لے چلو ۔۔۔۔۔۔گھر لے چلو۔۔۔۔۔ اب علی کو
فکر ہوئی کہ کہیں یہ خود کشی نہ کر جائے اس نے اسے بہت دلاسہ دیا سمجھایا
مگر محبت کب مانتی ہے علی اسے آج رات گھر میں اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتا تھا
مگر گوروں کا یہ قانون ہے کہ آپ کسی سے زبردستی نہیں کر سکتے ۔ علی نے نا
چاہتے ہوئے بھی اسے اس کے گھر کے دروازے پر اتارا اور سورہ یاسین کا تعویز
اپنے گلے سے اتار کر اس کے گلے میں ڈال دیا اور وعدہ لیا کہ اسے رات بھر
گلے سے نہ اتارنا لڑکی نے کہا یہ کیا ہے علی نے کہا یہ خدا کا نور ہے جس نے
تمہیں پیدا کیا جو تمہیں بچائے گا اور تمہارے خاوند کو رستے پر لائے گا ۔
لڑکی نے کرایہ دینا چاہا علی نے لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میرا
تعویز مجھے واپس ضرور کرنا میری ماں نے میرے گلے میں باندھا تھا،
کچھ دنوں بعد علی کو ایک کال موصول ہوئی کہ ایسا ایک اور تعویز میرے خاوند
کے لئے بھے منگوا دو اس نے ایک دن باندھا ہے اور اب اتارنا نہیں چاہتا |