ہر رشتے کی محبت کو الفاظ میں بیان کیا جا
سکتا ہے مگر ایک رشتہ ایسا ہے کہ جس کی محبت کو الفاظ کی مالا میں پرونا نا
ممکن ہے بظاہر تین حرف پر مشتمل ایک لفظ ساری دنیا کی محبت اپنے اندر سموئے
ہوئے ہے مگر اس لفظ کا پہلا حرف ہی کہتا ہے کہ میں تو محبت ہوں ، دوسرا حرف
کہتا ہے کہ میرے سے تو ایثار جیسا پیارا جذبہ نکلتا ہے تو تیسرا حرف کہتا
ہے کہ میں تو ہوں ہی نعمت وہ رشتہ صرف اور صرف ماں کا رشتہ ہے (م _ محبت ،
ا _ ایثار ، ن _ نعمت) ۔
کوئی کتنا ہی بڑا سیکولر کیوں نہ ہو ، کسی کو اپنے علم پر کتنا ہی مان کیوں
نہ ہو مگر ماں کے رشتے کو الفاظ میں بیان کرتے ہوئے ہر کسی کا قلم ٹوٹ جاتا
ہے دماغ اس الجھن میں پڑ جاتا ہے کہ ماں کی ممتا کی محبت کو کہاں سے شروع
کیا جائے؟ جب کبھی ماں کا لفظ منہ سے نکلتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ
جیسے ساری دنیا کی محبت ہمارے اردگرد بکھر گئی ہو، جیسے کڑی دھوپ میں سایہ
مل گیا ہو یا پھر ایک گہرے اور خطرناک سمندر کا ساحل مل گیا ہو، ایسا لگتا
ہے کہ ہر مشکل سے آ زادی مل گئی ہے یا پھر کسی نے ہماری مشکل اپنے سر لے کر
ہماری جھولی میں اپنی خوشیاں ڈال دی ہیں اور حقیقت اس کے برعکس نہیں ایک
ماں اپنے آخری سانس تک اپنی اولاد کے لئے قربانیاں دیتی جاتی ہے اس کے
نزدیک اس کی خوشی صرف اس کی اولاد کی خوشی ہے ماں کی اپنی اولاد کے لئے
محبت اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی شروع ہو جاتی ہے۔
جب ہم نے اپنی آنکھ اس دنیا میں کھولی تو پہلی ہستی ہماری ماں ہی تھی جس نے
ہمیں اپنے سینے سے لگایا اور اپنی محبت کا پہلا بوسا ہماری پیشانی پہ دیا ۔
ہمیں بولنا سکھایا، جب پہلی بار ہم نے اپنی توتلی زبان سے انہیں "ماں"
پکارا تو وہ ایسے خوش ہوئیں جیسے ہم نے انہیں بہت بڑی خوشی دے دی ہو ۔
انہوں نے اپنی شفقت سے بھری انگلی ہماری ننھی انگلیوں میں تھما کر ہمیں
چلنا سکھایا ۔ ہمارے اچھے مستقبل کی خاطر اپنی ہر خوشی قربان کر دی ۔ دنیا
کی ہر وہ آسائش فراہم کی جہاں تک ان کی پہنچ تھی ۔ ایک ننھی کونپل سے تنا
ور درخت بنا دیا بنا یہ سوچے کہ کیا یہ ننھی کونپل مستقبل میں تناور درخت
بن کر اس کا سایہ بنے گی؟
اور پھر ان کے لئے ہم نے کیا کیا؟ جیسے جیسے ہم بڑے ہوتے گئے ویسے ویسے
ہماری احسان فراموشی اور بد تمیزی بڑھتی گئی۔ ان کی ذات میں ہم خامیاں
ڈھونڈنے لگے، ان کی ہر نصیحت بری لگنے لگی۔ ہماری ماں نے ہمیں اپنی ساری
محبت اور توجہ دی مگر جب انہں ہماری محبت اور توجہ کی ضرورت تھی تب ہم نے
انہیں اولڈ ہاؤس یا ایدھی ٹرسٹ بھجوا دیا یا پھر گھر کے کسی کونے میں تنہا
پھینک دیا مگر تب بھی اس ماں نے ہماری ہر بد تمیزی پر پردہ ڈالا ،جب بھی
کسی نے اس ماں سے اولڈ ہاؤس آنے کی وجہ پوچھی تب بھی اس ماں نے اپنے اولاد
کے خود پہ کئے ہر ستم کو چھپایا اور تب بھی یہی بولی کہ " میری اولاد بہت
اچھی ہے مجھ سے بہت پیار کرتی ہے میں تو خود یہاں آئی ہوں" یہ الفاظ وہ کس
طرح کہتی ہے شا ید ان کے قرب کا اندازہ کوئی نہ لگا سکے۔
مگر ہمیں اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے تب جب ہم تنہا رہ جائیں، تب جب ہمیں
ہمارے وہ سب دوست یار چھوڑ جائیں جن کی خاطر ہم نے اس نعمت کو ٹھکرایا، تب
جب ہماری اولاد ہمیں ایک اولڈ ہاؤس کے کمرے میں تنہا چھوڑ جائے تب ہمیں
اپنی ایک ایک غلطی کا احساس ہوتا ہے مگر تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے مگر
تب ہمیں وہی کاٹنا ہوتا ہے جو ہم نے بویا ہوتا ہے ۔ |