قدرت کاکھیل

میں نے اپنے گزشتہ کالم میں اس خدشے کااظہارکیاتھاکہ امریکاکے پاس انخلاء کیلئے وقت بہت کم ہوتاجارہاہے اوراگرنومبرسے پہلے مذاکرات کی میزنہ سجائی گئی توامریکااوراس کے اتحادیوں کیلئے ایسی مشکلات پیداہوجائیں گی جس کاانہیں ناقابل تلافی نقصان اٹھاناپڑے گا۔امریکانے بڑے سخت الفاظ میں اپنے خصوصی نمائندے برائے افغانستان و پاکستان جیمزڈوبیزکے ذریعے کابل میں حالیہ ملاقات میں کرزئی کو آئندہ دومہینوں کی مدت کے اندراسٹرٹیجک معاہدے کی ڈیڈلائن دیتے ہوئے کہاہے کہ انہیں ہرحال میں اکتوبرتک معاہدہ کرناہوگا بصورت دیگراکتوبرکے بعدامریکایکطرفہ طورپرافغانستان سے اپنے حتمی فوجی انخلاء کے منصوبے پرعملدرآمدشروع کردے گا۔ افغانستان اورامریکاکے درمیان اسٹرٹیجک معاہدے کے عدم قیام کے بعد یہ انتہائی اہم اورچونکادینے والااعلان دسمبرمیں خودامریکی صدرباراک اوبامہ کریں گے جس کے مطابق امریکاافغانستان میں مکمل انخلاء کے ساتھ ساتھ نہ توکوئی فوجی اڈہ رکھے گا،نہ ہی افغانستان کی تعمیرنومیں کوئی حصہ لے گااورآئندہ افغان انتخابات کی سیکورٹی سے بھی اس کاکوئی تعلق نہیں ہوگا ۔
امریکانے کرزئی کوطالبان کے ساتھ دوحہ میں مذاکرات کی ناکامی کاذمہ دارٹھہراتے ہوئے یہ الزام بھی لگایاکہ وہ امریکی اوراتحادی افواج کے انخلاء کے طے شدہ پروگرام میں تعاون کی بجائے اندرونی طورپراپنے مفادات کی تکمیل میں زیادہ دلچسپی کااظہارکررہے ہیں جبکہ امریکاکی یہ خواہش ہے کہ پہلے امریکی اعلان کردہ انخلاء پرکوئی ٹھوس پیش رفت کی جائے اوراس کے بعدکرزئی اندرونی مسائل پرطالبان کے ساتھ معاہدے کی بات کریں۔دراصل اس وقت کرزئی اپنے مفادات کے مکمل تحفظات پرامریکی موجودگی کی آڑ میں طالبان سے معاملات طے کرنے کی کوشش کررہے ہیں جبکہ طالبان اس بات سے بخوبی واقف ہیں اورطالبان کے مؤقف اورسرگرمیوں میں مزیدشدت پیداہوتی جارہی ہے۔اسی لئے امریکا کی جانب سے کرزئی کویہ واضح تنبیہ جرمن حکام کی جانب سے اس اعلان کے بعد آئی ہے کہ جرمنی افواج فیض آباداورامام صاحب قندوزمیں اپنے بڑے اڈے مکمل طور پر بند کررہاہے اورسامان کومزارشریف شفٹ کرکے وہاں سے تاجکستان اورقازقستان کے راستے روس ،یوکرائن کے راستے جرمنی پہنچایاجائے گاکیونکہ یہ راستہ انہیں آسان اور سستا پڑتاہے جبکہ جرمنی کمانڈرنے یہ تجویز پیش کی ہے کہ وہ سامان جو خانہ جنگی کاباعث نہیں جا سکتااورنہ ہی جس سے کسی ایک فریق کوفائدہ پہنچ سکتاہے، کوافغانستان میں ہی فروخت کردیاجائے۔
جرمنی حکام یہ کوشش کررہے ہیں کہ ناکارہ فوجی گاڑیوں،ٹینکوں اورناکارہ اسلحے کوتوڑ کراسکریپ میں فروخت کرکے اس رقم سے انخلا ء پراٹھنے والی لاگت اور۴۸۰۰کنٹینرزکوجرمنی پہنچایاجائے کیونکہ ناکارہ اشیاء کوساتھ لیجانے پربھاری اخراجات اٹھیں گے اور جرمن وزارتِ دفاع اب مزیدکسی ایسے بوجھ کواٹھانے کی اجازت دینے سے گریزاں ہے۔جرمن فوج کے اس انخلاء کے بعدجوفروری تک شروع ہوجائے گا،کے بعد اپریل میں ہونے والے انتخابات افغانستان کے حکام کیلئے دردِ سربن جائیں گے ،اس لئے امریکا نے زوردے کرکہاہے کہ اگراکتوبرتک معاہدہ نہیں ہواتوان کی افواج اپریل میں ہونے والے صدارتی انتخابات کو سیکورٹی فراہم نہیں کرے گی اورنہ ہی ان انتخابات کیلئے مالی معاونت فراہم کی جائے گی جس کے بعدافغان حامدکرزئی پردباؤ بڑھ گیاہے اوریہی وجہ ہے کہ ایک طرف افغان صدر نہ صرف طالبان کے ساتھ دوبارہ مذاکرات کیلئے ہاتھ پاؤں ماررہے ہیں ،منت سماجت پراترے ہوئے ہیں اوردوسری طرف امریکانے ترکی اورقطر کے ذریعے طالبان کے ساتھ بڑے پیمانے پررابطے شروع کردئیے ہیں۔

امریکی وزیرخارجہ جان کیری کاحالیہ دورۂ پاکستان کابنیادی مقصدطالبان کے ساتھ دوبارہ مذاکرات شروع کروانے میں پاکستان کی مددحاصل کرنابھی تھا،اسی لئے پاکستان کو امریکا مزید کرداردینے پررضامندہوگیاہے جس کیلئے وہ ماضی میں ہمیشہ ٹال مٹول سے کام لیتارہتاتھا جبکہ قطرکے حکام نے گزشتہ ہفتے طالبان کے اعلیٰ سطحی نمائندوں سے کئی باراہم ملاقاتیں کی ہیں۔ان ملاقاتوں میں دوبارہ مذاکرات کے آغاز میں قطرنے ثالث بننے کی بھی حامی بھرلی ہے اوراس حوالے سے امریکانے سعودی عرب کے فرمانرواشاہ عبداﷲ سے بھی اہم رابطے کئے ہیں۔ادھردوسری طرف مصرمیں جاری حالیہ خونریزکشیدگی نے پوری دنیامیں برسرپیکارجہادیوں کونہ صرف تقویت پہنچائی ہے بلکہ سوشل میڈیا اورذرائع ابلاغ سمیت آڈیو اورویڈیوکیسٹ کے ذریعے بڑے پیمانے پرعربی،پشتو اوراردومیں اسلام پسندوں کوسمجھایاجارہاہے کہ وہ جمہوریت کی بجائے جہادکاراستہ اپنائیں کیونکہ مصرمیں جمہوری طریقے سے منتخب ہونے والی اخوان المسلمین کی حکومت کوجس غیرقانونی طریقے سے معزول کیاگیاہے اس عمل کی پشت پناہی کرنے والی وہ طاقتیں ہیں جودن رات جمہوریت کاراگ الاپتی رہتی ہیں اوراب ان کے قول وفعل کے تضادنے یہ ثابت کردیاہے کہ وہ پوری دنیامیں اسلام پسندوں کوجمہوری طریقے سے بھی اقتدارمیں نہیں آنے دیں گی اوراس سے پہلے یہی خونی تجربہ الجزائر میں بھی سرانجام دے چکے ہیں،اس لئے وہ جمہوریت اورمذاکرات کے جھانسے میں ہرگزنہ آئیں۔

اس حوالے سے کئی ہفت روزہ اخباروں میں اخوان المسلمین ،محمدمرسی اورسوشل میڈیاپربھی اخوان المسلمین اورمحمدمرسی کیلئے دعائیں مانگنے کی بھرپوراپیل کی جارہی ہے اوریہ اپیل افغانستان،پاکستان اوردنیاکے دیگرممالک کی زبانوں میں اسلام پسندوں اورجہادیوں کے سوشل میڈیاپربنائے گئے صفحات پرکی گئی ہے اوران میں بدستوراضافہ ہوتاجارہاہے۔ یہی وجہ ہے امریکانے مصرمیں اخوان المسلمین اوردیگرسیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات کاآغازکردیاہے جس کے بعدعرب ممالک جنہوں نے سیکولرمصری افواج کی حمائت بھی کی تھی اوردوسری طرف افغان جہادی اورطالبان سے بات کرنے کیلئے تیارنہیں تھے،اب اس اعتمادکودوبارہ بحال کرنے کیلئے طالبان کے ساتھ وسیع پیمانے پررابطوں کا آغاز کرناشروع کردیاہے اوراس کیلئے ترکی اورقطرکوبھی استعمال کیاجارہاہے۔

امریکی وزیرخارجہ کے دورۂ پاکستان کے دوران بھی امریکی وزیرخارجہ نے پاکستاانی حکام سے دوبارہ امن مذاکرات بحال کروانے میں اپنا کردار ادا کرنے اوراس حوالے سے اپنی بھرپورکوشش کی درخواست کی ہے کیونکہ اگریہ مذاکرات دسمبرتک بحال نہ ہو سکے توپھر افغانستان کے اندرامن قائم کرنااورخانہ جنگی روکنامشکل ہوجائے گا کیونکہ امریکی کانگرس کی جانب سے دباؤ بڑھ رہاہے کہ ۲۰۱۴ء کے انخلاء کے منصوبے پرعملدرآمدہرقیمت پریقینی بنایاجائے۔ جان کیری کے دوسرے کے دوران یہ بات بھی سامنے آ گئی کہ ان کے دورے کابنیادی مقصد صرف اورصرف قطرمذاکرات کوکامیاب اورنتیجہ خیزبناناہے ،اس لئے انہوں نے پاکستان کے ساتھ اسٹرٹیجک مذاکرات میں پاکستان کے چندمطالبات پرغورکرنے پربھی یقین دہانی کرائی ہے ،دوسری جانب افغان امن کونسل کے ایک اہم رہنماء کاکہناہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کیلئے کوششیں تیزکردی گئی ہیں تاہم طالبان کے فیلڈ کمانڈر مذاکرات کے حق میں نہیں ہیں اورجونہی وقت گزرتاجارہاہے مذاکرات میں طالبان کی پوزیشن مضبوط ہوتی جارہی ہے اورامریکاکے ہاتھ سے سارے پتے ہواکی نظر ہو رہے ہیں اوردوسری جانب چغہ پوش مسخرے کرزئی کے اردگردایک ایسا الاؤ تیارہوچکاہے جس کوانہوں نے خوداپنے ہاتھوں سے تیارکیاہے۔بس یہی قدرت کاکھیل ہے اور باعث عبرت ہے ان کیلئے جوامریکی دوستی پرقناعت کئے ہوئے ہیں!

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 350915 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.