روشنیوں کے شہر میں پھر آپریشن

پروفیسر مظہر ۔۔۔۔۔ سرگوشیاں
عشروں سے خونم خون شہرِقائد کودیکھ کر بے اختیار لبوں پہ آ جاتا ہے
شہرِ دل ایک مدت ، اُجڑا بسا غموں میں
آخر اُجاڑ دینا اِس کا قرار پایا
مرکزی حکومت رینجرز اور پولیس کی مدد سے ایک دفعہ پھر کراچی میں آپریشن کرنے جا رہی ہے لیکن اِس بار کپتانی کا اعزاز سندھ کے وزیرِ اعلیٰ سید قائم علی شاہ کو بخشا جا رہا ہے ۔ ایم کیو ایم کا مطالبہ ہے کہ کراچی کو ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خوروں سے نجات دلانے اور ’’نو گو ایریاز‘‘ کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ کراچی کو فوج کے سپرد کیا جائے ۔ حیرت ہے کہ کچھ عرصہ پہلے تک تو کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرنے والوں کے خلاف ایم کیو ایم مرنے مارنے پراُتر آتی تھی لیکن آج وہ خود یہی مطالبہ کر رہی ہے ۔اُدھر مرکزی یا صوبائی حکومت ایسے کسی مطالبے کو ماننے کے لیے تیار نہیں ۔مرکز کا چونکہ کراچی کی بھتہ خوری ، ٹارگٹ کلنگ اور اغوا برائے تاوان سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں اور یہ خالصتاََ صوبائی معاملہ ہے اِس لیے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار احمد کے بیانات میں تلخی کم اور شیرینی زیادہ ہے ۔وہ جہاں سید قائم علی شاہ کو مرکزی کابینہ کے اجلاس میں بلانا چاہتے ہیں وہیں فاروق ستار اور اے این پی کی نمائندگی کو بھی ضروری سمجھتے ہیں جبکہ ہم سمجھتے ہیں کہ جب نَس نَس میں موادِ بَد بھرا ہو تو پھر مصلحت نہیں، جراحی کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ عملِ جراحی تکلیف دہ ہونے کے باوجود مریض کی زندگی بچانے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔

دوسری طرف پیپلز پارٹی کے حلقوں میں بھی ایم کیو ایم کے اِس مطالبے سے بہت بے چینی پائی جاتی ہے۔ایوانِ صدر کو عنقریب داغِ مفارقت دینے والے جنابِ آصف زرداری کی آس کی ڈوری صرف حکومتِ سندھ سے بندھی ہے ۔اگر کراچی کو فوج کے حوالے کر دیا جائے تو زرداری صاحب کی یہ آس بھی ٹوٹ جائے گی۔اِس لیے پیپلز پارٹی کسی بھی صورت میں ایم کیو ایم کے اِس مطالبے کو تسلیم نہیں کرے گی ۔اِس لیے یہ طے ہے کہ کراچی میں آپریشن کلین اپ تو ہو گا لیکن فوج نہیں ، پولیس اور رینجرز کی طاقت کے ساتھ۔سوال مگر یہ ہے کہ کیا یہ آپریشن کامیاب ہو گا؟۔ میری فہم کے مطابق یہ آپریشن مزید خرابیوں کو جنم دے گا اور حالات میں سدھار کی بجائے بگاڑ کا اندیشہ بدرجۂ اتم موجودہے ۔کیونکہ ہم آج بھی برائی کے تَن آور درخت کی شاخوں کی قطع و بریدکے لیے توتیار ہیں لیکن اُس کی جڑوں پر یا تو وارکرنا ہی نہیں چاہتے یا پھر اپنے اندرایسا کرنے کی ہمت نہیں پاتے ۔اِس نفسا نفسی کے دور میں ہر کوئی صرف اپنا دامن بچانے کی فکر میں ہے ۔جانتے سبھی ہیں لیکن کہتے ہوئے زبانوں پہ لکنت طاری ہو جاتی ہے کہ بُرائی جو کبھی صرف ایم کیو ایم کی صفوں میں موجود تھی آج پھیل کر پیپلز پارٹی اور اے این پی کاسیاسی ناسور بن چکی ہے اور جب تک یہ تینوں سابقہ اتحادی جماعتیں اپنے عسکری ونگز ختم نہیں کرتیں یا ریاستی طاقت کے بَل پراِن ونگز کو ختم نہیں کر دیا جاتا، کراچی میں امن کا خواب محض دیوانے کی بڑہو گا۔یہ جماعتیں اپنے عسکری ونگز ہر گز ختم نہیں کریں گی اور میاں برادران اپنے سینوں پر ’’میڈ اِن پاکستان‘‘ کے جتنے مرضی لیبل چپکاتے رہیں ، وہ پاکستان کی معاشی شہ رگ کراچی میں امن کی خاطر اتنا بڑا قدم ہر گز نہیں اٹھائیں گے کہ اِن جماعتوں کے اندر گھُس کر اِن کے عسکری ونگز کا خاتمہ کر دیں۔اِس لیے نتیجہ ’’صاحب نے کھایا پیا کچھ نہیں ، گلاس توڑا ، بارہ آنے‘‘ ہی رہے گا۔

کراچی کے تاجروں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ، ٹسوے بہاتے ’’الطاف بھائی‘‘ شاید مرضِ نسیاں میں مبتلا ہیں اِس لیے وہ بھول گئے کہ برائیوں کے سارے نخل تو اُنہی کی کاوشوں کا ثمر ہیں۔ یہ الطاف بھائی ہی کی آبیاری کا اعجاز ہے جو آج یہ نخل ایسے تن آور درخت بن چکے ہیں جنہیں جڑ سے اکھاڑپھینکنانا ممکنات میں سے ہے ۔نو گو ایریاز ، عقوبت خانے اور ٹارگٹ کلنگ سبھی مہاجر قومی موومنٹ کے جنم کے بعد کی پیداوار ہیں ۔اِس سے پہلے تو شہرِ قائد کی آغوش ِ محبت ہر کس و ناکس کے لیے وا رہتی تھی اور اِس کے دامن میں اتنی وسعت تھی کہ لاکھوں سما جاتے اور پتہ بھی نہ چلتا ۔لیکن ضیاء الحق مرحوم کی اشیر باد سے معرضِ وجود میں آنے والے اِس گروہ نے گھر گھر صفِ ماتم بچھا دی ،کراچی خونم خون ہوا اور اِس کی روشنیاں منحوس اندھیروں کی بھینٹ چڑھ گئیں۔

قائدِ تحریک کو وہ وقت اچھی طرح یاد ہو گا جب اُنہوں نے اپنے کارکنوں کو گھر کا سامان بیچ کر اسلحہ خریدنے کا حکم دیا تھا ۔اسلحے کی خریداری آج بھی جاری ہے البتہ اسلحہ فروش بدل چکے ہیں ۔ڈی جی رینجرز میجر جنرل رضوان صاحب نے سپریم کورٹ میں اسلحے سے بھرے انیس ہزار کنٹینرز کی گُمشدگی کا براہِ راست الزام پورٹس اینڈ شپنگ کی وزارت پر لگایا ۔پتہ نہیں کس مصلحت یا دباؤ کے تحت میجر جنرل صاحب نے سپریم کورٹ میں دیئے گئے اپنے بیان سے انحراف کرتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ اُن کا بیا ن توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے ۔ جنرل صاحب کے بیان سے قطع نظر اِن کنٹینرز کی گُمشدگی کے ذمہ دار تو محترم بابر غوری ہی ٹھہرتے ہیں جو طویل عرصہ تک پورٹس اینڈ شپنگ کے وزیر رہے ۔یہ اسلحہ صرف کراچی ہی نہیں، پورے پاکستان میں پھیلایا جا چکا ہے اور یہی اسلحہ مختلف مذہبی اور لسانی گروہ ، بلوچ لبریشن آرمی اور طالبان بھی استعمال کر رہے ہیں ۔

محترم الطاف حسین کہتے ہیں کہ آپریشن کلین ایسا نہیں ہونا چاہیے جیسا 92 ء میں ہوا تھا ۔الطاف بھائی کا حکم سر آنکھوں پر لیکن کیا ہی بہتر ہوتا اگر وہ اِس آپریشن کی قیادت خود سنبھال لیتے کیونکہ اُن سے بہتر تو کوئی جانتا ہی نہیں کہ ایسے آپریشن کیسے نتیجہ خیز بنائے جا سکتے ہیں ۔اُن کی جماعت نے تو اپنے وجود کے ابتدائی دنوں میں ہی جماعت اسلامی جیسی منظم جماعت کو کونے میں لگا دیا ۔جب باغی گروہ ایم کیو ایم(حقیقی) نے سر اُٹھانا چاہا تو اُس کا وجود ہی ختم کر دیا ۔1992ء کے آپریشن میں حصّہ لینے والے دو سو پولیس اہلکاروں کو چُن چُن کر موت کے گھاٹ اتار دیا اور چیف جسٹس صاحب کی کراچی آمد پر کراچی کو خونم خون کر دیا ۔اِس کے باوجود بھی
دامن پہ کوئی چھینٹ ، نہ خنجر پہ کوئی داغ
تُم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

اِس لیے بہتر یہی ہے کہ وزیرِ داخلہ چوہدری نثار احمد صاحب اِس آپریشن کی کپتانی قائم علی شاہ صاحب کی بجائے جناب فاروق ستار کے سپرد کرکے اُن کے تجربے اور صلاحیت سے مستفید ہوں۔اگر چوہدری نثار صاحب ایسا کرنے پر آمادہ ہو جائیں تو ’’مہاجر لبریشن آرمی ‘‘ بھی اُن کا دست و بازو بن سکتی ہے ۔چوہدری صاحب کہتے ہیں کہ ٹارگٹ کلرز، بھتہ خوروں اور اغوا کنندگان کی نشاندہی ہو چکی ہے۔اگر ایسا ہے تو پھر وہ یہ بھی جانتے ہونگے کہ اِن میں سے کتنے لوگ مہاجر لبریشن آرمی کا حصہ ہیں ، کتنے عزیر بلوچ کے ساتھی اور کتنے اے این پی کے شیدائی ۔محترم وزیرِ داخلہ انہی سیاسی جماعتوں کے حصار میں جو معرکہ سر کرنے نکلے ہیں اُس کے انجام سے کوئی عقیل و فہیم بے خبر نہیں اِس لیے ہم تو دست بستہ یہی عرض کر سکتے ہیں کہ
پکڑ کے زندہ ہی جس درندے کو تُم سدھانے کی سوچتے ہو
بدل سکے گا نہ سیدھے ہاتھوں وہ اپنے اطوار ، دیکھ لینا

Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 866 Articles with 560315 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More