ہم لوگ چونکہ افغانستان کی باڈر
لائن سے صرف چار گھنٹے کی مسافت پر رہتے ہیں۔ اس لیے یہاں سے افغان مہاجرین
کی افغانستان آمدورفت ہوتی ہے کیونکہ وہ جانور اور اشیائے خوردونوش پاکستان
سے ہی خرید کر وہاں لے جاتے ہیں۔ اس لیے جو واقعہ بیان کرنے جارہی ہوں ایسے
ہی ٹرک ڈرائیور کا ہے جو کہ افغانستان سے واپس آرہے تھے کیونکہ پہاڑی سلسلہ
کافی ہے اس لیے ٹرک ایک جگہ ڈرائیور سے بے قابو ہوگیا اور کافی اونچائی سے
نیچے گرا اس ٹرک میں صرف ڈرائیور اور کنڈیکٹر تھے جب تک مقامی لوگ وہاں پر
پہنچے دونوں فوت ہوچکے تھے۔ لوگوں نے رات تک باگ دوڑ کی مگر کوئی شناخت نہ
کرپائے بالآخر مقامی لوگوں نے ان کے کفن دفن کا انتظام کرکے امانتاً دفن
کردیا۔ کچھ عرصے بعد وارث تلاش میں وہاں تک پہنچ گئے اور ٹرک کو دیکھ کر
پہچان گئے۔ مقامی لوگوں سے ان کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے قبروں کی
نشاندہی کی۔ ان لوگوں نے چونکہ امانتاً دفن کیا تھا اور وارثوں کا بھی
اصرار تھا کہ ہم ڈیڈباڈیز افغانستان لیکر جائیں گے اس لیے ان کی قبریں کھول
لی گئی کنڈیکٹر کی لاش بالکل صحیح حالت میں تھی جبکہ ڈرائیور کی لاش باقی
تو ٹھیک تھی مگر ڈاڑھی والی جگہ بچھوئوں سے بھری تھی اتنے بچھو کہ کانوں سے
گردن تک کا حصہ دکھائی نہیں دے رہا تھا کیونکہ ڈرائیور نے شیوکررکھی تھی
جبکہ کنڈیکٹر کی ڈاڑھی تھی اس لیے اس کی لاش بالکل سلامت تھی۔ ڈرائیور کے
ساتھ بچھو والا معاملہ پیش آرہا تھا۔ یہ تو تھا عبرتناک واقعہ جو کچھ عرصہ
پہلے پیش آیا۔
سوچنے کی بات ہے کہ ایک ایسا گناہ جسے آج کل امت مسلمہ کے فرزندان معمولی
سمجھ کر اور اتنا معمولی کہ کسی گنتی میں بھی نہیں ہے اس کے پیچھے انجام
کیا ہے؟ اس کی انہیں فکر نہیں جبکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تو
مسلمانوں کو تاکید کے ساتھ کہا کہ ڈاڑھی رکھ کر مجوسیوں کی مخالفت کرو۔
٭ مونچھیں کتروائو ڈاڑھیاں چھوڑو‘ مجوسیوں کی مخالفت کرو۔ (مسلم)
٭ مشرکین کی مخالفت کرو‘ ڈاڑھیاں بڑھائو اور مونچھیں خوب کترائو۔ (بخاری
شریف)
٭ ایک روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ دربار نبوت صلی اللہ علیہ وسلم میں بادشاہ
کسریٰ کے دو قاصد حاضر ہوئے دونوں کی ڈاڑھیاں منڈی ہوئی تھیں ان کی صورت
دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ناگواری ہوئی۔ فرمایا تمہارا برا ہو
آخر تمہیں کس نے ایسی صورت بنانے کا حکم دیا؟ انہوں نے جواب دیا ہمارے آقا
نے یعنی کسریٰ نے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن میرے رب نے
مجھ کو ڈاڑھی بڑھانے اور مونچھیں کترنے کا حکم دیا۔ (البدایہ والنہایہ)
اس لیے ڈاڑھیوں کا شمار سنتوں میں ہوتا ہے جو انبیاءعلیہ السلام سے بھی
ثابت ہے اور فطرت ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا
ارشاد نقل کرتی ہیں کہ دس باتیں فطرت میں ہیں جن میں مونچھیں کترنا اور
ڈاڑھی بڑھانا بھی شامل ہے۔
اسی وجہ سے ڈاڑھی رکھنے کو واجب اور کاٹنے کو حرام کہا جاتا ہے۔ یہ بات کہہ
دینا کوئی معنی نہیں رکھتی کہ یہ تو اک سنت ہے کر لوتو اچھا نہ کرو تو گناہ
نہیں اگر یہ گناہ نہ ہوتی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کو کاٹنے کے
خلاف ناگواری کا اظہار نہ فرماتے اور رکھنے کی اتنی تاکید نہ کرتے۔
میرے ایک کزن سے اکثر میری فون پر بات ہوتی تھی جو کہ الحمدللہ شرعی پردہ
کرنے کے بعد بند کردی ہے۔ انہوں نے پہلے ڈاڑھی رکھی ہوئی تھی مگر پھر بعد
منڈوا دی۔ پھر میں انہیں ڈاڑھی رکھنے کا اصرار کرتی تھی تو ایک مرتبہ انہوں
نے بتایا جب میری ڈاڑھی تھی تو سب مجھے ڈاکو یا داڑا سنگھ کہہ کر چھیڑتے
تھے اس لیے میں نے ہٹا دی۔
حالانکہ یہ ثابت ہے کہ روز آخرت آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب حوض کوثر کا پانی
پلارہے ہونگے تو جب کوئی ڈاڑھی منڈا امتی آئیگا تو فرشتے کہیں گے یارسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس شخص کی صورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت
نہیں رکھتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناگواری سے فرمائیں گے ہاں یہ وہ ہے
جس نے میری سنت نہیں پوری کی اور وہ شخص حوض کوثر کے پانی سے محروم
ہوجائیگا۔ اس سے بڑی بدبختی ہمارے لیے کیا ہوگی کہ ان ہاتھ سے پانی پینے کو
ملے اور لوگوں کے ڈاکو کہنے پر شیو کروا کر اس پانی سے محروم ہوجائیں۔
ہماری مائیں تو ایسی غائب دماغ ہیں کہ بیٹے کا کھانا بند کردیتی ہیں ڈاڑھی
رکھنے پر۔ کاش کہ یہ ڈاڑھی نہ رکھنے پر بیٹوں کا کھانا بند کرتی۔ اللہ
انہیں نیکی کی ہدایت دے۔ پر یہاں پر تو گنگا ہی الٹی بہتی ہے۔ اگر بیٹے
فرنچ یا کوئی فیشن ایبل اور ڈاڑھی کی توہین کرکے کوئی سٹائل بنا کر آجاتے
ہیں تو فخر سے بیٹے کو دیکھ کر خوش ہوتی ہیں کہ فیشن کیا ہوا ہے اور اگر
سنت کے مطابق رکھے توکہتی ہیں تمہاری ڈاڑھی رکھنے کی عمر نہیں ہے۔ ارے
نادان مائوں جب ڈاڑھی رکھنے کی عمر ہوئی ہے تو ڈاڑھی نکلی ہے نا! ہم سے تو
اچھے سکھ ہیں جنہیں آخرت پر ایمان بھی نہیں پھر بھی اپنی شناخت سنبھالے
ہوئے ہیں۔
عبقری سے اقتباس |