عتیق الرحمن رضوی، نوری مشن
مالیگاؤں
گزشتہ دنوں شہر میں 100؍ سالہ قدیم درگاہ، خانقاہ اور اس سے متصل مسجد کو
شہید کردیا گیا…… اور بڑی بے باکی سے چند ضمیر فروش، نام نہاد لیڈروں اور
خود ساختہ قائدوں نے درگاہ کا سودا کر ڈالا…… افسوس ناک بات یہ ہے کہ ان سب
افعالِ قبیحہ میں جن افراد کا کردار کلیدی بتایا جا رہا ہے وہ مزارات کے
محافظ ہونے کے دعوے دار ہیں…… ذاتی اور معاشی منفعت کے پیشِ نظر 100؍ سالہ
قدیم بزرگ کی مزار کو شہید کردیا…… واضح ہو کہ شہید شُدہ صاحبِ درگاہ’’حضرت
بسم اﷲ شاہ اشرفی چشتی علیہ الرحمہ‘‘ کا تعلق سلسلۂ اشرفیہ کے رُوحانی
پیشوا حضرت شیخ المشائخ علی حسین اشرفی رحمۃ اﷲ علیہ سے تھا…… ایک روایت کے
مطابق حضرت بسم اﷲ شاہ اشرفی علیہ الرحمہ کو اُن ہی سے بیعت و خلافت کا شرف
حاصل تھا…… آپ کا مزار شہر کے مضافات مالدہ سے قریب زمین سے تقریباً بیس فٹ
اونچائی پر واقع تھا…… اسی علاقے میں حالیہ دنوں کارپوریشن کی گھرکُل یوجنا
اسکیم کے تحت رہائشی کالونی کا تعمیری کام جاری ہے…… اور حضرت بسم اﷲ شاہ
اشرفی علیہ الرحمہ کی درگاہ کی زمین کا استعمال بھی اسی کالونی کے لیے کرنے
کا منصوبہ سامنے آیا…… ان سارے معاملات میں ملت فروش قائدین کے نام سامنے
آرہے ہیں…… ذیل میں چند روایات قبورِ مسلمین کی اہمیت و فضیلت میں پیش ہیں
ملاحظہ فرمائیں…… اور فیصلہ کریں کہ درگاہ مسماری کا کام انجام دینے والوں
اور اس کام میں ان کا ساتھ دینے والوں نے قرآن و حدیث اور تعلیماتِ اسلامی
کے منافی کام کیا یا نہیں؟…… مندرجہ ذیلساری روایتیں امام احمد رضا محدث
بریلوی کی تحقیقی تصنیف ’’اھلاک الوھابیین علی توھین قبور
المسلمین‘‘،مطبوعہ:اعلیٰ حضرت نیٹ ورک، کراچی سے اخذ شُدہ ہیں……
مسلمان کی عزت مُردہ اور زندہ برابر ہے۔ یعنی انتقال شُدہ مسلمان کی ویسے
ہی عزت و تعظیم کی جائے جیسی اُس کی زندگی میں کی جانی ہے…… صاحبِ فتح
القدیر فرماتے ہیں: ’’اس بات پر اتفاق ہے کہ مُردہ مسلمان کی عزت و حرمت
زندہ مسلمان کی طرح ہے۔‘‘ (فتح القدیر، فصل فی الدفن، ج2،ص102؍مطبوعہ مکتبۂ
نوریہ رضویہ،سکھر)
حدیث پاک ہے، سرکارِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’مُردے کی ہڈی توڑنا اور اُسے ایذا پہنچانا ایسا ہی ہے جیسے زندے کی ہڈی
توڑنا۔‘‘اسے امام احمد و ابو داؤد اور ابنِ ماجہ نے سندِ حسن کے ساتھ ام
المؤمنین حضرتِ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے روایت کیا۔ (سُننِ ابو
داؤد:کتاب الجنائز،ج2،ص102،مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور)
دوسری حدیث میں ارشاد ہوا: ’’مُردے کو قبر میں بھی اس بات سے ایذا ہوتی ہے،
جس سے گھر میں اسے اذیّت ہوتی ہے۔‘‘(الفردوس بمأثورالخطاب: حدیث 754، ج4،
ص551، دارالمعرفۃ بیروت)
ایک جگہ ارشاد فرمایا: ’’البتہ چنگاری یا تلوار پر چلنا یا جوتا پاؤں سے
گانٹھنا مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ کسی قبر پر چلوں۔‘‘(سُننِ ابن ماجہ:
باب ماجاء فی النہی عن المشی علی القبور، ص113،مطبوعہ ایچ .ایم سعید کمپنی
کراچی)
اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد امام احمد رضا سند کے حوالے سے بیان کرتے ہیں:
’’اسے ابن ماجہ نے عقبہ بن عامر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ روایت کیا، اس کی سند
عمدہ ہے جیسا کہ منذری نے افادہ کیا۔‘‘
ان احادیث سے ہمیں قبورِ مسلمین کی اہمیت اور اُن کے احترام کا پتہ چلتا
ہے…… یہ روایات مطلقاً بیان ہوئیں…… غور کریں صالحین اور محبوبانِ خدا کی
قبور کا کیا مقام ہوگا؟ خزینۃ الروایۃ کے حوالے سے امام احمد رضا لکھتے
ہیں:
قبروں پر کسی کو گھر یا مسجد بنانا جائز نہیں کیوں کہ قبر والی جگہ صاحبِ
قبر کا حق ہے، اسی وجہ سے قبر کو کھودنا جائز نہیں ۔(اھلاک الوھابیین علی
توھین قبور المسلمین: امام احمد رضا، ص12)
اسی طرح امام احمد رضا سے سوال ہوا :’’قبروں کو منہدم یا مسمار کرتے یا
کھودتے ہوئے دیکھ کر کوئی مسلمان ایسا کرنے والے کو روکنے کا شرعاً مجاز ہے
یا نہیں؟ جواب میں ارشاد فرمایا:
’’جو شخص ایسے جُرم شدید کا مرتکب ہو ہر مسلمان پر واجب ہے کہ بقدرِ قدرت
اسے روکے، جو اس میں پہلو تہی کرے گا اُسے فاسق کی طرح عذابِ نار ہوگا……
قال تعالٰی: کانو لا یتنا ھون عن منکر فعلوہ بئس ما کانوا یفعلون۔ اﷲ
تعالیٰ فرماتا ہے: وہ ایک دوسرے کو بُرے کام سے روکتے نہ تھے، وہ سب کیا ہی
بُرا کام کرتے تھے۔‘‘ (اھلاک الوھابیین علی توھین قبور المسلمین: ص53)
ایک روایات میں ہے سیدنا حضرت ابنِ مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
’’مسلمان مُردہ کو ایذا دینا ایسا ہے، جیسے زندہ کو۔‘‘اسے ابو بکر بن ابی
شیبہ نے روایت کیا۔ (شرح الصدور:بہ حوالہ ابنِ ابی شیبہ، فصل تأذیہ
بسائروجوہ الاذی، خلافت اکیڈمی، سوات)
امام اعظم ابو حنیفہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے قبر کا روندنا، بیٹھنا، سونا، اس
پر قضاے حاجت کرنا مکروہ کہا ہے۔امام اعظم کے اس قول کی فقیہانہ تشریح کرتے
ہوئے امام احمد رضا فرماتے ہیں:
’’میں کہتا ہوں جب کراہت مطلق ہو تو مراد کراہتِ تحریم ہوتی ہے، جیسا کہ
فقہا نے تصریح کی ہے، پھر اس نہی سے بھی تائید ہوتی ہے، جو احادیث میں ایذا
کی علّت سے متعلق وارد ہے، اور ایذا حرام ہے، پس دیانت داری کی بات یہی ہے،
اب خواہ کوئی کچھ کہتا رہے۔‘‘ (اھلاک الوھابیین علی توھین قبور المسلمین:
ص21)
اﷲ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے:’’قل اٰللّٰہ اذن لکم ام علی اللّٰہ تفترون‘‘تم
کہو خدا نے تمہیں اذن دیا ہے یا اﷲ پر افتراکرتے ہو۔(القرآن:2/117) مذکورہ
بالا احادیث و روایات سے قبورِ مسلمین کی قدر اور اُن کی حرمت واضح ہو
گئی…… اب فیصلہ کریں کہ 100؍ سالہ قدیم درگاہ کو مسمار کرنے والوں نے کیسا
کام انجام دیا؟…… کیا شریعت کا لبادہ اوڑھ کر شریعت کے ساتھ گھناؤنا کھیل
نہیں کھیلا گیا؟…… مذکورہ روایات سے قبورِ مسلمین کی اہمیت اظہر من الشمس
ہوئی، بسم اﷲ شاہ اشرفی علیہ الرحمہ کی قبر کو شہید کرنے کا حکم اور اِذن
انہیں کہاں سے ملا؟ کیا سب کچھ صرف پیسہ ہی ہے؟ کیا دین و ایمان کی بس اتنی
ہی قیمت ہے، کہ ہم چند کھوٹے سکوں کی بہ دولت اُسے بیچ ڈالیں؟ احادیث میں
اتنی حُرمت بیان ہوئی قبر مسلم پر چلنا، بیٹھنا، ٹیک لگانا، تکیہ بنانا ان
سب سے سختی سے منع کیا گیا، پھر قبر کو شہید کرکے چند پیسوں کے عوض انہیں
بیچ ڈالنا کیسے روا ہوا؟…… ہمیں اِن ملت فروش افراد پر نظر رکھنی چاہیے اور
دیکھنا چاہیے کہ کہیں اِن کے رابطے یہود و نصاریٰ کے اُن گروہوں سے تو نہیں
جو مسلمانوں کو مشرک گردان کر ان کی عبادت گاہوں اور مزارات کو شہید کرنے
کا مشن لے کر چل رہے ہیں۔ |