آج صبح بس سٹاپ اور سڑکوں پر غیر
معمولی ہل چل محسوس ہوئ، جب غور سے دیکھا تو معلوم ہو ا کہ یہ تو کالج کے
طلباء ہیں جو کہ جگہ جگہ ٹولیوں کی شکل میں کھڑے ہوکر نئے آنے والے کالج
طلباء کی آوبھگت اور استقبال کے لئے انتظار کررہے ہیں۔ آج سے صوبہ بھر میں
کالجز کھل گئے ہیں اور نئے تعلیمی سال کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔
کالج کے نئے طلباء کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنا ایک عرصے سے ہمارے معاشرے میں
رائج ہے اور اطلاعات کے مطابق نہ صرف ہمارے ملک میں بلکہ کئی دیگر ممالک
میں بھی یہ رواج عام ہے۔ میرے خیال میں کالج میں نئے طلباء کے ساتھ تفریح
کے طور پر تھوڑی بہت اخلاق کے دائرے کے اندرچھیڑ چھاڑ کرنے میں کوئی حرج
نہیں ہے کیونکہ میٹرک تک زیادہ تر طلباء ایک مخصوص پابند ماحول میں پڑے
بڑھے ہوتے ہیں جبکہ کالج میں نسبتاً آزاد ماحول اُن کو مل جاتا ہے۔ یہاں پر
پرانے طلباء نئے آنے والوں کو خوش آمدید کچھ شرارتی انداز میں کرتے ہیں اور
ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے تاکہ اُن کی جھجھک دور ہوسکے کیونکہ اُن
میں اس وقت اتنی جرات نہیں ہوتی کہ ہر معاملے کا بہادری کے ساتھ مقابلہ
کرسکیں، اسی فولنگ یا ریگنگ سے ان نئے طلباء میں اتنی خود اعتمادی پیدا
ہوجاتی ہے کہ وہ ہرجگہ بلا جھجھک اپنی مدعا بیان کرسکیں اور اپنے حق کے لئے
آواز اُٹھا سکیں۔لیکن بعض اوقات یہ چھیڑ چھاڑ شدت اختیار کرلیتی ہے اور کئی
ایک ناخوشگوار واقعات رونماہوجاتے ہیں۔
نئے طلباء کے ساتھ تفریحاً چھیڑ چھاڑ میں سمجھتا ہوں کہ اچھی بات ہے مگر
اتنی شدت اس میں نہیں لانی چاہئے کہ نئے طلباء کو ذہنی و جسمانی کوفت
برداشت کرنا پڑے۔ یہ چھیڑ چھاڑ جس کو حرف عام میں "فولینگ" کہا جاتا ہے اب
ہمارے کالجوں کی ایک روایت بن چکی ہے۔ یہاں فرسٹ ائیر کی نئی کلاسسز شروع
ہوئی نہیں اور وہاں سیکنڈ ائیر کے طلباء نے حق مہمان نوازی ادا کیا نہیں
بلکہ سینئر طلباء اپنے جونئیرز کے ساتھ فولینگ /ریگنگ کرنے کو اپنا حق
سمجھتے ہیں کیونکہ اُن کے ساتھ بھی یہ ہوچکا ہوتا ہےاور بدلہ لینا تو جیسے
ہمارے خون میں شامل ہے۔
اگر ہم صوبے کے بڑے بڑے تعلیمی اداروں کا ذکر کریں تو وہاں پر بھی طلباء
ایک دوسرے کے ساتھ فولنگ کرتے ہوئے نظر آئیں گے حالانکہ انتظامیہ کی طرف سے
اس پر پابندی ہوتی ہے مگر جہاں بھی سینئرز کو موقع ملتا ہے وہاں ہو مہمان
نوازی کا حق ادا کرنے میں کمی ہرگز نہیں بھولتے اور ان ادروں کے سینئر
طلباء ان واقعات کو اپنی ماضی کا بہترین اثاثہ بھی سمجھتے ہیں۔ نئے آنے
والے طلباء کو عموماً "چرگ" یا "ککڑ" کے نام سے پکارا جاتا ہے اور کالج میں
جہاں جہاں فرسٹ ائیر کے طلباء نظر آتے ہیں تو "چرگ چرگ" کا شور ایک عجیب سی
دلفریبی لئے سماعتوں سے ٹکرا کر سینئرز کو اپنا چرگ والا زمانا یاد دلاتا
ہے۔ آج مجھے بھی اپنا کالج میں پہلا دن یاد آیا جب ہم سارے کلاس روم میں
سہمے ہوئے بیٹھے تھے کہ اچانک سیکنڈ ایئر کے طلباء آگئے، اُن میں سے سب سے
آگے آگے ایک پست قد، نوک دار مونچھوں اور اپنے قد کاٹ سے دوچند بھاری آواز
والا لڑکا "ٹیپو" تھا، اسی نام سے اُس کے دوست اس کو پکار رہے تھے۔ ایک تو
حلیہ عجیب سا بنایا ہوا تھا اور اُوپر سے نام بھی ایک رعب لئے ہوئے تھا۔
کلاس میں داخل ہوکر کسی سے آزان پڑھوائی، کسی سے گانا سنا،کسی سے نعت سنی،
مجھ سے بھی آذان پڑھوا کر قومی ترانا سنا اور ایک عدد نارنج بھی کھالایا۔
بعد میں یہی ٹیپو جو مجھے بہت برا لگ رہا تھا میرا بہت اچھا دوست بن گیا
اور فیل ہونے کے بعد سیکنڈ ایئر میں میرا کلاس فیلو بھی بنا۔ یہ سب باتیں
ایک فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے گھومنے لگیں اور ایک عجیب سا لطف بھی محسوس
کیا۔ چرگان کو نارنج کھلانے کے بغیر فولینگ نامکمل ہوتی ہے اور اس سلسلے
میں اسلامیہ کالج بہت مشہور ہے کیونکہ یہاں پر نارنج کے درختوں کی بہتات ہے۔
نارنچ کا پودا مجھے تو بذات خود بہت پسند ہے مگر اُن دنوں میں اس سے شدید
نفرت ہوگئی تھی مگر اب تو بہت ہی پسند ہے کیونکہ اب اس سے پیاری پیاری
یادیں جو وابستہ ہیں۔
یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ ماضی قریب میں بہت سارے کالجز میں فولینگ
/ ریگنگ نے شدت اختیار کی، پارٹی بازیوں اور مختلف طلباء تنظیموں کی آپس
میں لڑائی جھگڑوں میں بہت سارے طلباء کو شدید قسم کی جسمانی تکالیف پہینچی
کیونکہ وہ لوگ اپنی آپس کی رقابتوں کا بدلہ شدت سے ان سے فولینگ کے ذریعے
لینے لگے۔ پچھلے دنوں پڑوسی ملک کی ایک فیچر فلم "ٹیبل ۲۱" دیکھنے کا اتفاق
ہوا جو کہ اسی موضوع پر مبنی ہے اگر موقع ملے تو ضرور دیکھئے گا۔ محکمہ
تعلیم اور متعلقہ کالجوں کی انتظامیہ نے کافی حد تک اس معاملے کو بخوبی
کنٹرول کیا ہے اور اب کم از کم کالج کی حدود میں اس قسم کی فولینگ ممنوع ہے
اور نئے طلباء کو تنگ کرنے پر بھاری جرمانے اور سزائیں مقرر کی گئیں ہیں۔
اچھے تعلیمی اداروں میں تو اس بات کا تصور بھی نہیں ہے کیونکہ وہاں پر ہر
چیز پر مکمل کنٹرول ہوتا ہے اور ہر چھوٹی بڑی بات کا خیال رکھاجاتا ہے مگر
کالج کے باہر، قسمت پھر چرگ کی اپنی کے وہ بچتا ہے یا کسی کے ہاتھ لگتا ہے۔
اس سال جو ایک بہت ہی خوبصورت روایت جہانزیب کالج سیدو شریف سوات کے نئے
پرنسپل جناب پروفیسر محمد ظاہر شاہ صاحب نے قائم کی ہے وہ اس مادرعلمی کی
گمشدہ عظمت رفتہ کی بحالی کی طرف ایک تعمیری قدم ہے۔ پروفیسر صاحب نے اس
سال فرسٹ ایئر کے طلباء کو والدین سمیت کالج مدعو کیا اور اُن کو ودودیہ
ہال میں کالج، نئے تعلیمی سال اور کالج میں نئے انتظامات و نظم ونسق کے
حوالے سے بریفنگ دی۔ یہ ایک اچھی روایت ہے اور اُمید ہے کہ اگلے سالوں میں
اس کو برقرار رکھاجائے گا اور یہ بھی اُمید ہے کہ جہانزیب کالج پر جو چند
حضرات اپنی مافیہ بنا کر اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کرکے قبضہ کئے ہوے ہیں
اُن کا بھی محاسبہ کیا جائے گا۔ طلباء کو خوش آمدید کہنے اور نئے اداروں
میں اُن کی رہنمائی کرنے اور مدد کی فراہمی میں اگر جمعیت اسلامی طلباء کا
ذکر نہ کیا جائے تو ذیادتی ہوگی، دوسرے سیاسی جماعتوں کی طلباء تنظیموں نے
بھی رہنمائی کے کیمپ لگائے ہوتے ہیں جو کہ احسن اقدام ہے بلکہ چاہئے یہ کہ
جو نئے طلباء کالج میں داخل ہوں ہر کالج کی انتظامیہ پہلے اُن کو کالج کے
بارے میں تفصیلات فراہم کرے اور طلباء کو کالج ٹیچنگ و اتنظامیہ سٹاف کے
ساتھ تعارف بھی کرائے جیسے جہانزیب کالج میں یہ تعارفی سیشن ہوا۔ کئی ایک
پرائیویٹ کاجلز میں تو باقاعدہ تعارف اور رہنمائی کی جاتی ہے مگر کمی ہے تو
صرف سرکاری کالجزمیں۔ اُمید ہے کہ حکومت کی طرف سے اقدامات کی آس لگانے کے
بجائے ہمارے سکولوں اور دیگر کالجز کی انتظامیہ جہانزیب کالج کے پرنسپل
صاحب کی تقلید کرتے ہوئے اپنے اپنے کالجز میں بھی نئے طلباء و والدین کی
رہنمائی اور تعارف کا بندوبست کرکے نئے طلباء کو اعتماد بخشیں گے جو اُن کے
کردار کی تعمیر میں ایک مضبوط ستون ہوگی- |