پاکستان میں مدارس دینیہ اور ان میں تعلیم
حاصل کرنے والے طلبہ کرام کی تعداد دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔کچھ سالوں سے
مدارس میں اس حد تک اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ ماضی میں اس کا تصور بھی
نہیں کیا جاسکتا تھا۔ایک اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں مدارس دینیہ
کی تعداد بیس ہزار سے متجاوز ہے اوران میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کرام
کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔الحمدللہ وقت کے ساتھ ساتھ مدارس دینیہ نے
معاشرے میں اپنے پاﺅں مضبوط کیے ہیں۔ کچھ ہی عرصے میں بے انتہا ترقی کی
ہے۔اس سب کے باجود یہ ایک حقیقت ہے کہ زمانے کے ساتھ ساتھ جہاں مدارس دینیہ
اور طلبہ کی تعداد بڑھی ہے وہیں مدارس دینیہ میں ماضی اور حال کے مقابلے
میں علمی اور عملی اعتبار سے کھلا فرق بھی نظر آنا شروع ہوا ہے۔
ماضی میں مدرسہ استاذ اور طالب علم کا نام ہوتا تھا۔ مدارس کی عمارتیں کوئی
بڑی شاندار نہیں ہوتی تھیں ،جہاں پڑھانے کے لیے جگہ میسر آگئی وہیں تعلیم
کا سلسلہ شروع کردیا جاتا تھا۔نہ بجلی کا انتظام اور نہ بیٹھنے کے لیے کوئی
اعلیٰ قسم کے قالین ہوتے تھے۔ گرمیوں میں ائیرکولر اور اے سی کی سہولت اور
سردیوں میں ہیٹر بھی مدارس میں نہ ہوتے تھے۔ بلکہ بہت سے مدارس تو ایسے بھی
ہوتے تھے کہ ان میں طلبہ کو کھانے اور رہائش کے بھی بے پناہ مسائل سے دوچار
ہونا پڑتا تھا۔طلبہ کو مدارس دینیہ میں اب جتنی بھی سہولیات مہیا ہیں ان کا
شاید ماضی میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔نہ ہی طلبہ ان سہولیات کی جانب
التفات کرتے تھے کیونکہ ان کا مقصد صرف علم دین حاصل کرنااور حاصل کیے ہوئے
علم پر عمل کرنا ہوتا تھا۔وہ تمام مشکلات برداشت کرکے بھی علم دین حاصل
کرتے تھے۔تمام مشکلات کے باوجود مدارس دینیہ کے طلبہ علم دین کے حصول میں
اس قدر منہمک ہوتے تھے کہ انہیں تعلیم و تعلم کے علاوہ دنیا و مافیھا کی
کوئی فکر نہ ہوتی تھی۔ بلاوجہ کی چھٹی کا مدارس میں کوئی تصور نہ تھا، طلبہ
اپنا فارغ وقت بھی علم کے حصول میں صرف کرتے تھے۔
اگر کوئی شخص مدارس کا معائنہ کرنے آتا تو دیکھ کرحیران رہ جاتا کہ دنیا
میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنا سب کچھ قربان کرکے عوام الناس کی بھلائی کے
لیے علم دین حاصل کررہے ہیں۔مدارس میں ہر طرف تعلیم و تعلم کا سلسلہ ہی
جاری ہوتا تھا۔کہیں طلبہ استاذ سے سبق سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں تو کہیں
اپنے دوسرے ساتھیوں کو سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایک طرف کچھ طلبہ تکرار
کررہے ہیں تو دوسری طرف پورے غور و خوض سے مطالعہ میں مشغول ہیں۔ایک طرف
تفسیر اور اصول تفسیر پر بحث ہورہی ہے تو دوسری طرف حدیث اور اصول حدیث کے
نکات بیان کیے جارہے ہیں۔اسی طرح فقہ ، اصول فقہ اور دوسرے کئی علوم کے
حصول کے لیے تگ و دو کی جاتی تھی۔طلبہ مدارس میں صرف یہی مقصد لے کر آتے
تھے کہ ہم نے اپنی پوری زندگی اللہ کے دین کے لیے وقف کرنی ہے۔طالب علم
زمانہ طالب علمی میں ہی وہ وہ کتابیں پڑھ چکے ہوتے تھے جن کو سمجھنے کے لیے
بہت مہارت درکار ہوتی ہے۔طالب علم جب فراغت حاصل کرتے تو نصابی کتابوں کے
ساتھ سیکڑوں مفید خارجی کتب کا مطالعہ بھی کرچکے ہوتے تھے۔استاذ کا ادب
طلبہ کے ذہنوں میں کوٹ کوٹ کربھرا ہوتا تھا۔کوئی طالب علم ادب کی وجہ سے
اپنے استاذ کے سامنے سے نہیں گزرتا تھا۔ ان سب کا ایک دوسرے سے صرف ایک ہی
مفاد وابستہ ہوتا تھا اور وہ تھا تعلیم و تعلم۔استاذ بھی طلبہ کو اپنی
اولاد کی طرح سمجھتے تھے۔استاذ اپنے طلبہ کی تربیت کرنا اپنا دینی فریضہ
سمجھتے تھے۔طلبہ کو مکمل دین کے رنگ میںرنگنا اور ان کی مکمل اصلاح کرنا
استاذ کے ذمہ ہوتا تھا۔گویا کہ استاذ اور شیخ ایک ہی شخصیت کے نام ہوتے تھے۔
جوں جوں زمانہ گزرتارہا توں توں طلبہ میں علمی و اخلاقی سطح پہ بھی انحطاط
آتا گیا۔بہت سے طلبہ جدید سہولیات کی رو میں بہہ گئے۔مدارس میں ہر قسم کی
سہولت میسر آئی۔ موبائل انٹر نیٹ اور آئی پیڈ جیسے نجانے کیا کچھ مدارس میں
عود آیا۔انتظامیہ کی جانب سے ان کے استعمال کی کھلی اجازت دی گئی۔ان کے
فوائد اپنی جگہ لیکن ان تمام چیزوں نے طلبہ کی علمی سوچ کو بے پناہ نقصان
پہنچایا ہے۔اب اگر کوئی شخص مدارس کا معائنہ کرنے آئے تو ایک طرف طلبہ
موبائل سے کھیلتے نظر آئیں گے اور دوسری طرف کان سے موبائل لگائے بہت سے
طلبہ محو گفتگو ہوں گے۔کچھ لیب ٹاپ میں مشغول اور کچھ کرکٹ کی باتیں کرتے
پائے جائیں گے۔کچھ گپیں ہانکتے نظر آئیں گے۔اب طلبہ فارغ وقت تو فضولیات
میں گزارتے ہی ہیں، اپنی تعلیم کا بھی بہت سارا وقت بھی موبائل وغیرہ کی
نظر کردیتے ہیں۔طلبہ میں نہ تو نصابی کتابوں کے مطالعہ کا ذوق رہا اور نہ
ہی خارجی کتابوں سے کوئی سروکار۔اکثر طلبہ کو زمانہ طالب علمی میں ہی اپنے
مستقبل کا فکر کھائے جاتا ہے۔بہت سے تو درمیان تعلیم کوئی کاروربار بھی
شروع کردیتے ہیں ، جس کی وجہ سے طلبہ میں علمی استعداد پیدا نہیں ہوتی نہ
وہ صیحح طریقے سے علم حاصل کرسکتے ہیں اور نہ ہی کاروبار۔بے شمار ایسے بھی
ہوتے ہیں جو دینی علوم کا حق تو صیحح طرح ادا کرنہیں پاتے، اس کے ساتھ
نجانے کس کس فیلڈ میں ٹانگ اڑالیتے ہیں۔حالانکہ اگر تعلیم کا سلسلہ شروع
کیا تھا تو اس کو پایہ تکمیل تک تو پہنچانا چاہیے تھا۔اساتذہ کا ادب بھی
رفتہ رفتہ دم توڑتا جارہا ہے۔آٹھ دس سال مدارس میں گزارنے کے باوجود فرائض
و واجبات میں بھی سستی آنا شروع ہوجاتی ہے۔طلبہ نے علمی و ادبی شوق کی
بجائے بہت سے ایسے شوق پال لیے ہیں، جس کی وجہ سے اکثر طلبہ میں علوم و
فنون میں مضبوطی نہیں آتی۔اور ایسے بہت ہی کم طلبہ سامنے آتے ہیں جو اکابر
کے مزاج کے مطابق چلیں اورایسا علمی کام کریں جس کی امت مسلمہ کو ضرورت
ہے۔اگر طلبہ کے مزاج میں اسی طرح زمانے کے ساتھ انحطاط آتا گیا تو مستقبل
میں یہ معاملہ بہت ہی بھیانک صورت اختیار کرسکتا ہے۔صاحب فکر و دانش کو اس
طرف ضرور توجہ دینی چاہیے۔
حضرت مولانا ابرارالحق رحمٓة اللہ فرماتے ہیں:ہمارا نام طالب العلم والعمل
تھا، مگر اختصار کے لیے صرف طالب علم بولا جاتا ہے۔ ہم عمل کو اب مقصود ہی
نہیں سمجھتے، طالب علمی ہی سے اعمال میں مشغول ہونے کا اہتمام اہل مدارس کو
کرنا چاہیے۔ آج اساتذہ طلبہ کی تربیت اور اصلاح نفس کی فکر نہیں کرتے، صرف
ان کی رہائش اور روٹیوں کی فکر ہوتی ہے، پس صورت تو طالب علم کی ہے اور روح
اور حقیقت غائب ،یعنی تعلق مع اللہ اور خشیت اور اساتذہ کا ادب واکرام سب
ختم، پھر اسٹرائیک اور بغاوت نہ ہوگی تو کیا ہوگا؟ ہرچہ برماست از ماست۔ہر
کوتاہی اور معصیت کا رد عمل ہوتا ہے۔ طلبہ ہماری کھیتی ہیں، ہم ان کے قلوب
میں اگر محبت او رتعلق مع اللہ اور خشیت اور اتباع سنت کے درخت نہ لگائیں
گے تو دوسرے صحرائی خار دار درخت نکلیں گے ۔مدارس دینیہ کے اندر اگر ہم
طلبہ اور اساتذہ کو تکبیر اولیٰ سے جماعت کی مشق نہ کرائیں گے تو پھر صالح
ماحول سے نکلنے کے بعد جب یہ غیر صالح ماحول میں جائے گا وہاں ان کا کیا
حال ہوگا؟۔
|