شہد (افسانہ )، افسانہ نگار :ڈاکٹر شکیل احمد خان

 تجزیاتی مطالعہ : غلام شبیر

پاکستان میں جدید اردو افسانے کے ارتقا میں جن نو جوان تخلیق کاروں نے اہم کردار ادا کیا ہے ان میں ڈاکٹر شکیل احمد خان کا نام ممتاز مقام رکھتا ہے ۔وہ گزشتہ دو عشروں سے پرورش لوح و قلم میں مصروف ہیں ۔ارد و افسانے کے ذریعے قارئین ادب میں عصری اگہی بیدار کرنے میں انھوں نے اہم کردا رادا کیا ہے ۔ان کی ادارت میں شائع ہونے والا ادبی مجلہ ’’ لوح ادب ‘‘ اردو افسانے کی ترویج و اشاعت میں جو کردار ادا کر رہا ہے وہ تاریخ ادب میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ڈاکٹر شکیل احمد خان کے افسانے معاشرتی زندگی کے بارے میں ان کے تجربات اور مشاہدات کے مظہر ہوتے ہیں ۔معاشرتی اور سماجی زندگی کے تضادات ،ارتعاشات ،بے ہنگم کیفیات اورشقاوت آمیز نا انصافیوں کو دیکھ کر انکے دل پہ جو گزرتی ہے اس کا احوال وہ من و عن اپنے افسانوں میں بیان کر دیتے ہیں ۔ان کے افسانے ان کے تجربات، مشاہدات ،جذبات اوراحساسات کی حقیقی تصو یر پیش کرتے ہیں ۔قحط الرجال کے مو جودہ زمانے میں دنیا نے انھیں تجربات و حواد ث کی شکل میں جو کچھ دیا اسی کی اساس پر انھوں اپنے افسانوں کے قصر کی تعمیر کا سلسلہ شروع کیاجو گزشتہ تین عشروں سے جاری ہے ۔

ڈاکٹر شکیل احمد خان کے افسانے استحصالی معاشرے کے لیے عبرت کے تازیانے ہیں ۔جس معاشرے میں جاہل کو اس کی جہالت کا انعام ملنے لگے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے جس ناہنجار ،موذی و مکار اہل کار کو رشوت لینے کے الزام میں اپنی گرفت میں لیں وہ ان ہی اداروں کے با اثر اہل کاروں کو رشوت دے کر ان کے چنگل سے بچ نکلے تو اس نوعیت کے حادثات وقت کو کس نام سے تعبیر کیا جائے۔کچھ عرصہ پہلے ڈاکٹرشکیل احمد خان کا ایک افسانہ ’’ شہد ‘‘پڑھنے کا موقع ملا ۔اس افسانے میں ڈاکٹر شکیل احمد خان نے پولیس کے اہل کاروں کی رشوت ستانی کو موضوع بنایا ہے ۔پولیس کے محکمے کے رشوت خور اہل کار جونکوں کے مانند طفیلی ہیں جو مجبور انسانوں کا خون پی کر اپنے پیٹ کا دوزخ بھرتے ہیں۔پولیس کے محکمے میں پائی جانے والی ان کالی بھیڑوں نے تو زندگی کی تمام رتیں ہی بے ثمر کر دی ہیں۔ ان لٹیروں کے ہاتھوں کئی گھر بے چراغ ہو گئے اور کئی مظلوموں کی زندگی اجیرن ہو گئی ۔ایک زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے ڈاکٹر شکیل احمد خان نے پولیس کے بارے میں مجبور عوام کی نفرت انگیزیوں کو حقیقت پسندانہ انداز میں پیرایہء اظہار عطا کیا ہے ۔ظالم و سفاک ،موذی و مکار استحصالی عناصر نے اپنے مکر کی چالوں سے جہاں انتہائی گھٹیا قسم کے ذاتی مفادات کی قومی مفادات کو داؤ پر لگا دیا ہے وہاں اخلاقی اقدار کو بھی بارہ پتھرکر دیا ہے اور احترام آدمیت کو تج دیا ہے ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بے حسی کا عفریت چاروں جانب منڈلا رہا ہے ۔ابن الوقت ،مفا دپرست ،رشوت خور اور جو فروش گندم نما درندوں کی ریشہ دوانیوں کے باعث انسانیت کو نا قابل اندما صدمات کا سامان کر نا پڑ رہا ہے ۔اس افسانے میں اس حقیقت کی جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ ہوس زر اور مفاد پرستی کی گرد کی دبیز تہہ نے زندگی کی اقدار عالیہ ،تہذیبی ،ثقافتی اور معاشرتی روایات کو اس طرح ڈھانپ لیا ہے کہ جاگتی آنکھوں سے بھی کچھ سجھائی نہیں دیتا ۔رشوت خور وں نے مجبور انسانیت کو جو گھاؤ لگائے ہیں ان کے باعث وہ خو د کو سکو ت کے صحرا میں سر گرداں محسوس کرتے ہیں جہاں سرابوں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا ۔افسانہ نگار نے اپنے افسانے ’’شہد ‘‘میں معاشرتی زندگی کے آلام کا نہایت خلوص اور دردمندی کے ساتھ تجزیہ کیا ہے ۔

رشوت لینے والے کے قبیح کردار اور بد اعمالیوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے ڈاکٹر شکیل احمد خان نے اپنے جذبات و احساسات کا اس طرح اظہار کیا ہے کہ ان کے دل سے جو بات نکلتی ہے وہ سیدھی قاری کے دل میں اتر جاتی ہے قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی سے لبریز ڈاکٹر شکیل احمد خان کی تحریریں پتھروں کو بھی موم کر دیتی ہیں اور سنگلاخ چٹانوں اور جامد و ساکت بتوں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منو الیتی ہیں۔ایک حقیقت نگار افسانہ نگار کی حیثیت سے ان کی یہ دلی تمنا ہے کہ معاشرتی برائیوں کے بارے میں قارئین ادب کے دل میں حقیقی شعور و آگہی کو بیدار کیا جائے تا کہ وہ ان برائیوں کے مسموم اثرات سے آگاہوں اور ان سے نجات کے لیے کوئی لائحہء عمل تلاش کر نے کی سعی کریں ۔رائے عامہ کی بیداری سے ان معاشرتی برائیوں کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کا میاب ہو سکتی ہے ۔ان کا یہ افسانہ مو ثر ابلاغ کو یقینی بناتا ہے ۔افسانہ ’’شہد ‘‘اگرچہ ایک عام سے موضوع کا احاطہ کرتا ہے لیکن اس کے ا سلوب نے اسے خاص اہمیت دے دی ہے ۔اپنے موثر اور جان دار اسلوب کی انفرادیت سے ڈاکٹر شکیل احمد خان نے اس افسانے کو یادگار بنا دیا ہے ۔انھوں نے تیشہ ء حرف سے جبر اور مکر کی وہ مکروہ فصیل منہدم کرنے کی کوشش کی ہے جسے سمے کے سم کے ثمر نے بہت اونچا کر دیا ہے ،جہاں مصلحت وقت کی وجہ سے قانون کے ہاتھ بھی نہیں پہنچ پاتے۔اس معاشرے میں سفید کوے ،کالی بھیڑیں اور گندی مچھلیاں زندگی کی رعنائیوں کو گہنا رہی ہیں اور کوئی ان پر گرفت کرنے والا نہیں ۔اپنے اس افسانے میں ڈاکٹر شکیل احمد خان نے رشوت کو عناصر کے مکر کی چالوں کو پردہ فاش کیا ہے اور انکی خوب درگت بنائی ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ رشوت خور اور عوام دشمن عناصر کے خوب لتے لیے جائیں تا کہ ان کو کہیں سر چھپانے کی جگہ نہ مل سکے۔ڈاکٹر شکیل احمد خان نے جس خلوص اور درد مندی ،سلیقے اور صفائی کے ساتھ اپنے موضوع کو پیش کیا ہے وہ لائق تحسین ہے ۔سماجی برائیوں کے بارے میں اپنے خیالات کو پیرایہء اظہار عطا کرتے ہوئے انھوں نے مقصدیت اور اصلاح کی شمع ہمیشہ فروزاں رکھی ہے ۔ان کی تحریروں کے اعجاز سے قاری کے ذہن میں بیداری کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے اور دل ایک ولولہ ء تازہ سے آشنا ہوتا ہے ۔

افسانے ’’شہد ‘‘میں کردار نگاری اور مکالمہ نگاری پر بہت توجہ دی گئی ہے ۔تمام کردار اپنی اپنی جگہ خوب رنگ جماتے ہیں اور قاری ان کی حیثیت کے بارے سب کچھ جان لیتا ہے ۔صورت واقعہ بھی بھی قابل فہم ہے ۔مہنگائی اور دیگر معاشرتی مسائل کا احوال بھی افسانے کو عصری آگہی سے متمتع کرنے کا وسیلہ بنتا ہے ۔ہیڈ کا نسٹیبل اشرف جو اس افسانے کا اہم کردار ہے رشوت کی کمائی پر پلتا ہے اوراس کے دل میں اخلاقی اقدار کی کوئی جگہ نہیں ۔اس کا کچا چٹھا پیش کرتے وقت افسانہ نگار نے جو لفظی مرقع نگاری کی ہے وہ قاری کو حیرت زدہ کر دیتی ہے ۔یہ گرگ بارا ں دیدہ بگلا بھگت بے حسی ،بے ضمیری ،بے غیرتی ،بے حیائی اور ڈھٹائی کا مجسمہ ہے ۔مشکوک نسب کے ایسے درندے جو سفہا ،اجلاف و ارزال اور ساتا روہن کے پروردہ ہوتے ہیں ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں ۔ سادیت پسندی کے مرض میں مبتلا یہ بازی گر کھلا دھوکا دے کر مظلوم انسانوں کی زندگی میں زہر گھول کر لذت ایذ احاصل کرتے ہیں ۔اشرف کو دل کا شدید دورہ پڑتا ہے لیکن شفا یاب ہونے کے بع دبھی وہ اپنی بد اعمالیوں سے باز نہیں آتا بل کہ نہایت ڈھٹائی سے یہ کہتا ہے کہ دل کے دورے کا اس کی رشوت خوری سے کوئی تعلق نہیں ۔سچی بات تو یہ ہے کہ چیرہ دستوں کو فطرت کی تعزیروں سے خبردارکرنے کے لیے اس نوعیت کی تکالیف ایک تنبیہہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔یہ سب کچھ آفات نا گہانی کا ایک اشارہ سمجھا جاتا ہے لیکن چیرہ دستوں کی بے بصری اور کو ر مغزی انھیں کچھ سوچنے کی مہلت ہی نہیں دیتی ۔یہی حال اشرف کا ہے جو اپنے انجام سے بے خبر جرائم کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے ۔ ایک اور کردار احمد ہے جو رشوت نہیں لیتااور رزق حلال پر گزر اوقات کرتا ہے ۔احمد علیل ہوا تو اس کے پیر نے کہا کہ رزق حلال سے خریدا ہوا شہد کھانے سے انسان کو قادر مطلق شفاعطا کرتا ہے ۔اس نے پیر کی نصیحت پر عمل کیا اور وہ شفایاب ہو گیا ۔اشرف عارضہ ء قلب میں مبتلا ہونے کے باوجود رشوت لینے وے باز نہیں آتا ۔اﷲ کریم کے ہاں دیر تو ہے اندھیر نہیں۔فطرت کی تعزیریں نہایت سخت ہیں ۔جب کوئی فرعون فطرت کی تعزیروں کی ز د میں آجاتا ہے تو پھر اس کا بچ نکلنا محال ہے ۔آخر ایک وقت ایسا بھی آجاتا ہے کہ اشرف حالات کی زد میں آجاتا ہے ۔اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ فطرت کی تعزیروں سے اب اس کا بچنا ممکن نہیں ہے ۔وہ زندگی بھر اسد کا تمسخر اڑاتا رہا اور اس کی رزق حلال کی کمائی کو اس کی بزدلی پر محمول کرتا رہا ۔ اشرف نے رشوت کے ذریعے لوٹ مار کی انتہا کر دی اور زندگی بھر حرام کی کمائی پر پلتا رہا ۔اس کے پاس رزق حلال کی ایک پائی بھی نہ تھی ۔اس کی زندگی میں جو سخت مقام آئے اب اسے رزق حلال کی اہمیت کا احساس ہوا۔وہ احمد کے پاس جاتا ہے اور اس سے کچھ رقم ادھار مانگتا ہے تا کہ اس کی دی ہوئی رزق حلال کی کمائی سے وہ شہد خرید سکے ۔اس افسانے میں مصنف نے خیر اور شر کے متصادم رویوں کو بڑی محنت سے اجاگر کیا ہے ۔ٹریفک پولیس جس بے دردی سے ڈرائیوروں سے بھتے اور کمیشن لیتی ہے اس کا احوال بیان کرتے ہوئے مصنف نے تمام حقائق سے پردہ اٹھایاہے ۔اشرف کا آخری عمرمیں رشوت سے تائب ہونا ایک اصلاحی رویہ ہے ۔اس افسانے میں کئی نشیب و فراز آتے ہیں ،نیکی اور بدی کے متصادم رویے تجسس کی فضا میں سامنے آتے ہیں۔آخر کارجب نیکی کی قوت غالب آتی ہے تو قاری مسرت اورراحت کے احساس سے سرشار ہو کر مصنف کے اسلوب کا استحسان کرتا ہے ۔اس افسانے میں اصلاح اور ،مقصدیت کا عنصر اس کی افادیت کو شار چاند لگا دیتا ہے ۔ڈاکٹر شکیل احمد خان نے معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی برائیوں پر ہمیشہ کڑی نظر رکھی ہے ۔کوہ سے لے کر کاہ تک کوئی چیز بھی ان کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہ سکتی ۔

افسانہ ’’شہد ‘‘مصنف کے تجربات اور مشاہدات کا آئینہ دار ہے ۔اس کہانی کے مطالعہ سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ مصنف پولیس کے کردار سے مطمئن نہیں ۔بے بس و لاچار انسانوں سے پولیس والے جس بے دردی سے رشوت بٹورتے ہیں اس سے مصنف ناخوش و بیزار ہے ۔اس افسانے کے کرداروں میں سے صرف ایک کردار ’’احمد ‘‘ پارسا دکھائی دیتا ہے باقی سب رشوت کا مال ہتھیا کر اپنی تجوری بھرنے کی فکر میں ہیں ۔معاشرتی زندگی کے ایک زیرک ناظر کی حیثیت سے مصنف نے اپنی فکر پرور اور بصیرت افروز تحریر سے فکر و نظر کو مہمیز کیا ہے ۔مصنف کی تاب نظارہ کو دیکھتے ہوئے اس کے خلوص اور دردمندی کا معترف ہونا پڑتا ہے ۔اس افسانے کا انجام اثباتی نو عیت کا ہے۔پوری کہانی میں کہیں بھی قنوطیت کا شائبہ نہیں ہوتا۔معاشرتی زندگی کی قباحتوں کو ہدف تنقید بنا کر مصنف نے ان سے بیزاری کے ایک منفرد اور اجتماعی نو عیت کے رویے کو پروان چڑھانے کی جو کوشش کی ہے وہ ہر اعتبار سے مستحسن ہے ۔

ڈاکٹر شکیل احمد خان نے اپنے تنقیدی شعور کو اپنے تخلیقی عمل کی اساس بنایا ہے ۔ان کے ہاں تخلیقی اظہار ایک توازن کے ساتھ سامنے آتا ہے ۔وہ اپنے اسلوب میں کہیں بھی افراط و تفریط کاشکار نہیں ہوئے بل کہ اس افسانے کے تمام کردار اورواقعات ایک تسلسل کے ساتھ اپنے انجام کی طرف بڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔

افسانے ’’شہد ‘‘میں مکالمہ نگاری بہت موثر ہے ۔ایک جگہ جب کردار اشرف سے پنجابی مکالمہ کہلوایا گیا تو بات بن نہیں پائی ۔یہ کردار پنجابی زبان کی لفظیات سے پوری طر ح آگاہ نہیں اس لیے وہ یہ جملہ اس طر ح ادا کرتا ہے :
’’تیرا وڈا پراں ،اﷲ اسے جنت نصیب کرے میرا بڑا اچھا یار تھا ،اس کے ناتے میں تیرا وڈا پراں ہوں ۔۔۔۔۔‘‘
اس جملے میں لفظ ’’وڈا پراں ‘‘معنی کا ابلاغ نہیں کر سکا جو کہ ’’ بڑا بھائی‘‘ کے معنوں میں برتا گیا ہے ۔پنجابی میں اس کے لیے ’’ وڈا بھرا ‘‘مستعمل ہے ۔میاں محمد بخش نے تو ’’بھرا ‘‘کی جگہ ’’بھائی ‘‘استعما ل کیا ہے :
’’بھائیاں باہجھ محمد ا کنڈ ننگی بھانویں مگر قبیلے دا ترنڈ ہووے ‘‘
ترجمہ :بھائیوں کے بغیر اے محمد بخش کوئی پیٹھ ٹھونکنے ولا نہیں ہوتا خواہ پشت پر قبیلے کا ہجوم بھی ہو‘‘
پنجابی زبان میں لفظ ’’پراں ‘‘کہیں بھی بھائی کے معنوں میں استعمال نہیں ہوا ۔یہ لفظ ’’دور ‘‘کے معنوں میں مستعمل ہے ۔جیسا کہ اس گیت کے بول ظاہر کرتے ہیں :
ویکھو رہنا پراں پراں نہ کھسکو جی اراں اراں
باؤجی ! میں ہک عرض کراں
ترجمہ :دیکھیے دور دوررہناآگے آگے نہ کھسکنا
باؤ جی !میں ایک عرض کروں

مجموعی اعتبارسے افسانہ ’’شہد ‘‘ایک معیاری تخلیق ہے جس میں زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کیا گیا ہے ۔اس افسانے میں معاشرتی زندگی کے بارے میں مثبت شعور و آگہی کو بیدار کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔مصنف نے زندگی کے تجربات اور مشاہدات کو جس مہارت سے الفاظ کے قالب میں ڈھالا ہے وہ لائق تحسین ہے ۔مصنف کے تجربات اور مشاہدات اپنی اثر آفرینی کے اعجاز سے قاری کے فکر و نظر کی کایا پلٹ سکتے ہیں۔تبدیلی ،اصلاح اورمقصدیت کو مطمح نظر بنا کر مصنف نے جہاں تازہ تک رسائی کے امکانات کو یقینی بنایا ہے ۔میری دعا ہے اﷲ کرے زور قلم ا ور زیادہ۔
Ghulam Ibn-e-Sultan
About the Author: Ghulam Ibn-e-Sultan Read More Articles by Ghulam Ibn-e-Sultan: 277 Articles with 612708 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.