اقتدار آنی جانی شئے ہے جبکہ ریاست کو ہمیشہ قائم رہنا ہے
اور ریاست کی خدمت کرنا اقتدار میں آنے والے لوگوں کا اولین فریضہ ہونا
چاہیے پاکستان کی سیاسی تاریخ نے گزشتہ دنوں ایک نیا سنگ میل عبور کیا جو
یقینا یہاں کے جمہوری داروں کی مضبوطی اور جمہوریت کے تسلسل میں معاون ثابت
ہو گا۔ قائد اعظم محمد علی جناح سے لیکرآج تک جتنے بھی سویلین سربراہانِ
مملکت آئے ان میں فضل الہی چوہدری کے بعد آصف زرداری دوسرے منتخب صدر ہیں
جنہوں نے طے شدہ آئینی مدت پوری کی البتہ اس اعتبار سے آصف علی زرداری پہلے
صدر ہیں جنہوں نے اپنا اختیار کسی جرنیل یا بیک ڈور سے آنے والے فوجی یا
سویلین کے حوالے نہیں کیا بلکہ ایک منتخب سویلین صدر کو سونپ کے دن کی
روشنی میں رخصت ہو ئے جتنے بھی فوجی یا سویلین منتخب و غیر منتخب گورنر
جنرل یا صدور آئے وہ اپنے اختیارات سے یا تو غیر مطمئن رہے یا پھر ان میں
اضافے کی تگ و دو کرتے رہے جبکہ آصف علی زرداری نے جب عہدہِ صدارت سنبھالا
تو عہدہ صدارت ایک با اختیار اور طاقتور ترین منصب تھا جسے سابق صدر مشرف
نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے اتنا بااختیار بنا دیا تھا کہ ریاست کے
باقی عہدے اس کے آگے محض نمائشی عہدے ہی نظر آتے تھے ریاست کے تما م تر
اختیارات کا مرکز و محور صدر ہی تھا۔مگر پہلی دفعہ کسی با اختیار شخص نے
اپنی آئینی طاقت اپنی رضا سے بذریعہ پارلیمنٹ وزیرِ اعظم کے منصب کو منتقل
کردی اور اپنے لیے محض علامتی اختیارات پر اکتفا کیا بلکہ بہت سے وفاقی
اختیارات بھی صوبوں کو منتقل کرنے کے آئینی عمل کی حوصلہ افزائی کی جو کہ
یقینا ایک بہت بڑی بات تھی۔ صدر زرداری نے عزت و وقار کے ساتھ آئینی مدت کی
تکمیل اور عہدے سے سبکدوشی پر مسرت کا اظہار کیا ان کا کہنا ہے کہ میں نے
تمام فیصلے ملک کے مفاد میں کیے اور اپنے اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل کیے
پاکستان کی سرسٹھ سالہ تاریخ میں صدر زرداری وہ پہلے غیر جانبد ار صدر میں
جنھوں نے اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کر کے ایک نیا ریکارڈ قائم کر دیا
اب ان کی جگہ ایک منتخب صدر یہ عہدہ سمنبھال چکے ہیں ایوان صدر سے باوقار
رخصتی پر وہ ایک مطمئن شخص نظر آئے گارڈ آف آنر ملنے کے بعد ایوان صدر سے
رخصت ہو گئے صدر زرداری ایک انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ ’میں وزیراعظم بننے
کے لیے کوشش نہیں کروں گا میرے خیال سے پارٹی چلانا وزیراعظم بننے سے زیادہ
اہم ہے آئینی جو کہ مسلم لیگ کے لئے ایک خاموش مفاہمتی پیغام ہے تاہم لوگوں
کا یہ خیال ہے کہ صدارتی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کے بعد آصف علی زرداری
کے خلاف درج اْن مقدمات کا دوبارہ سے کھل جانے کا امکان ہے جن میں صدارتی
استثنٰی کی وجہ سے پانچ سال تک کوئی عدالتی کارروائی نہیں ہوسکی تھی ۔تا
صدر کا یہ ماننا تھا کہ کئی ایک ٹارگٹ ایسے تھے جو وہ صدر ہونے کے باوجود
حاصل نہیں کر سکے کئی مسائل کے حل میں وہ نتائج حاصل نہیں کرسکے جو کرنے
چاہیے تھے تاہم دوسری طرف سے لگنے والے الزامات کی روشنی میں یہ بات بھی
سامنے رکھنی چاہیے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جتنی جیل آصف علی زرداری
نے کاٹی اتنی قید کسی اور منتخب پاکستانی صدر یا وزیرِ اعظم نے اپنی سیاسی
زندگی میں نہیں کاٹی یوں تو آصف علی زرداری کی پوری زندگی نشیب و فراز میں
گزری لیکن عہدہ صدارت ملنے کے بعد جس طرح انھوں نے مفاہمت کی سیاست کو فروغ
دیا اور ایک نسبتا کمزور حکومت کے ہوتے ہوئے ناصرف پانچ سال پورے کیے بلکہ
نئے انتخابات کرا کر اور اپنے پاور فل اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل کر کے
ایک لازوال تاریخ رقم کی ہے۔ اب جبکہ وہ سابق کا لاحقہ اپنے نام کے ساتھ
لگا چکے ہیں ان کے پرانے مقدمات کھولے جانے کے قوی امکانات ہیں آصف علی
زرداری کے عہدہ صدارت کی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی ایک درخواست سپریم کورٹ
میں دائر ہو چکی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مئی سنہ دو ہزار گیارہ میں ایبٹ
آباد میں القاعدہ کے رہنما اْسامہ بن لادن کے خلاف امریکی کارروائی سے
متعلق آصف علی زرداری پہلے سے آگاہ تھے لیکن اْنہوں نے پاکستانی افواج کو
اس سے آگاہ نہیں کیا تھادرخواست میں اْن کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی بھی
استدعا کی گئی جس پر سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت سے جواب طلب کر رکھا ہے
پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے سیکرٹری جنرل اور آصف علی زرداری کے
مقدمات کے پیروی کرنے والے وکیل سردار لطیف کھوسہ کہتے ہیں کہ آصف علی
زرداری دس سال جیل میں رہے لیکن استغاثہ کسی ایک مقدمے میں بھی اْن کے خلاف
کوئی شواہد پیش نہیں کرسکی جو اپنی جگہ پر ایک اہم بات ہے آصف علی زرداری
جب صدارتی انتخاب میں حصہ لے رہے تھے اْس وقت اْن کے خلاف جتنے بھی مقدمات
تھے وہ سارے این آر او کے تحت ختم کردیے گئے تھے جو کہ سابق صدر مشرف کی
جانب سے بنایا گیا ایک متنازعہ قانون تھا جس کو بعد ازاں پارلیمنٹ نے بھی
مسترد کر دیا تھااور پھر سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا تھا ۔ان پر
بنائے جانے والے سوائس کیسسز کو بھی اسی این آر او کے تحت ختم کیا گیا تھا
تاہم بعد میں سوئس کیسسز کو کھولنے کے لئے اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے اس وقت
ان کی حکومت کو کئی بار کہا گیا یہاں تک کے ان کے ایک وزیر اعظم کو اس میں
نااہل بھی قرار دے دیا گیا مگر معاملے کو اتنا لٹکایا گیا کہ وقت گزر گیا
اور جب خط لکھا گیا تو اس میں اپنی طرف سے کچھ ایسی تبدیلیاں کی گئی کہ اصل
خط کا متن ہی بدل گیا اس کے علاوہ اور بھی کئی ریفرنسس جیسا کہ ارسس ٹریکٹر
،اے آر وائی گولڈ شامل ہیں جو آصف علی زرداری کو پریشان کر سکتے ہیں لیکن؟
حکمراں جماعت مسلم لیگ ن اور سابق حکمران جماعت پی پی پی دونوں جماعتوں کے
رہنماؤں کے بیانات سے اور خصوصا میاں صاحب کے کیے جانے والے خطابات سے لگتا
ہے کہ اب وہ ان کیسسز کو چھیڑنا اوران مقدمات کو نہیں کھولنا چاہتے جو اْن
کے دورِ حکومت میں درج کیے گئے تھے جس کے بعد دوسری طرف سے سابق صدر آصف
علی زرداری وزیر اعظم میاں نواز شریف کو مکمل تعاون کی یقین دہانی بھی کروا
چکے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ الیکشن مہم میں صدر زرادری کیخلاف لوٹ مار کا
وویلہ کرنے والوں کی مفاہمتی سیاست کب تک مفاہمتی پالیسی پر عمل کرتی ہے
کیونکہ اگر انھوں نے آصف علی زرداری کے خلاف کچھ نہ کیا تو آنے والے
بلدیاتی الیکشنوں میں اپنے ووٹروں کا سامنا کس طرح کریں گے بظاہر یہی لگتا
ہے کہ دونوں جانب سے سیز فائر ہو چکا ہے مگر ایک تھرلنگ میڈیااور باشعور
عوام اور خاص کر سوشل میڈیا کی آزادی کی وجہ سے یہ سیز فائر کہاں تک چلتا
ہے اس کے بارے میں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا - |